شاخِ چشم میں کھلتا خواب: جہانگیر نایاب

شاخِ چشم میں کھلتا خواب: جہانگیر نایاب

ڈاکٹر خالد مبشر
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

ہر کسی کو دوست کہہ دینا بہت آسان ہے، مگر وہ ایک چیز جسے ’’لاگ‘‘ کہیے وہ نایاب ہے۔ یہ کوئی اختیاری عمل نہیں۔ کیوں کسی سے بن جاتی ہے اور وہ کب ایک دوسرے کے ہوجاتے ہیں۔ یہ مسئلہ منطقی توجیہ کا نہیں۔ میرے لیے جہانگیر نایاب ایک ایسا ہی معمہ ہے۔ اپنے ہم سِن شعرا میں سب سے پہلے اسی کو دیکھا اور سنا، ورنہ مجھے ’’زعم‘‘ یہ تھا کہ گیارہ برس کی عمر میں اس عہد کا اکلوتا شاعر تو بس میں ہی ہوں۔ آں جناب سے پہلی بار مل کر یقین نہ ہوا کہ ادبی مراکز سے دور، علمی و ادبی ماحول سے محروم سیمانچل، جہاں نہ تو اخبارات و رسائل کی رسائی ہے، نہ کتب خانے ہیں اور نہ ادبی محفلیں، یہ عجوبہ کہاں سے آگیا ہے۔ میرا شاعر ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کہ میرے ابّا اور چچا شاعر تھے اور دادا، پردادا اردو، فارسی کے عالم۔ لیکن جہانگیر نایاب کے خانوادے میں شعر و ادب کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔ یہ وہ شخص ہے جس کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب اس نے تازہ تازہ لنگوٹ پہننا ترک کرکے پینٹ پہننا شروع کیا تھا۔ لیکن میں نے اس کو ہمیشہ بزرگ ہی دیکھا۔ معتبر راویوں کا بیان ہے کہ بچپن اور شباب جہانگیر نایاب کو کبھی چھو کر بھی نہیں گزرے۔ وہ پیدائشی بزرگ ہے۔ وہ اس وقت بھی پختہ، بزرگانہ اور زندگی کے گہرے تجربات سے لبریز شاعری کر رہا تھا، جب اس کے دودھ کے دانت بھی نہ ٹوٹے ہوں گے اور شاید میری اس سے اتنی جلدی بن بھی اس لیے گئی ہوگی کہ بچپن میں بزرگ میں بھی کچھ کم نہ تھا۔ نایاب نے بھرپور جوانی (گرچہ وہ کبھی ان پہ آئی نہیں) میں بھی رومانی شاعری کو کبھی منہ نہ لگایا۔ نایاب سے قربت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدِ بزرگوار حضرت مولانا غلام محمد یحییٰ علیہ الرحمہ سے انھیں گہری عقیدت تھی اور ابّا بھی نایاب کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ نایاب میرے لیے پرانی شراب ہے۔ اس کا نشہ مجھ پر دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ یہ نشہ اس کی شخصیت اور شاعری دونوں میں تیزتر ہورہا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ نایاب سیمانچل میں ہوتے ہوئے بھی ادبی دنیا کے تازہ واردات سے بہت باخبر رہتے ہیں۔ وہ جب پندرہ سولہ برس کے تھے، اس وقت بھی انھوں نے بذریعہ مراسلت معروف شاعر و نقاد عنوان چشتی سے شرف تلمذ حاصل کرلیا تھا۔ وہ دنیا بھر کے شعرا کو نہ صرف پڑھتے ہیں، بلکہ بیش تر فن کاروں سے ذاتی روابط بھی رکھتے ہیں۔
نایاب کو پڑھتے ہوئے شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ شعر بناتے نہیں ہیں، بلکہ شعر ان کے درون سے پھوٹ پڑتا ہے۔ بھاری بھرکم الفاظ، دقیق مضامین، اجنبی تشبیہات و استعارات، مشکل زمین، پیچیدہ و ژولیدہ خیالات اور زندگی سے عاری فنی تجربات سے انھیں قطعی دل چسپی نہیں ہے، بلکہ نایاب کی شاعری سبک و شیریں لفظیات، نجی زندگی، زمانہ اور رشتوں سے انکُرنے والے مضامین، شفاف خیالات اور ٹھیٹھ آدمیت سے سروکار رکھتی ہے۔
نایاب بہت خود دار اور اناپرست واقع ہوئے ہیں۔ ان کی یہ سرشت تخلیق میں بھی توانائی کے ساتھ ڈھل گئی ہے:
ناز اٹھاؤں گا ناز اٹھانے تک
تیرے آگے نہیں بچھوں گا میں
تم کو جانا ہے شوق سے جاؤ
اب خوشامد نہیں کروں گا میں
قائم ہے مجھ میں میرے تخیل کی سلطنت
بے تاج بادشاہ ہوں میں اپنے وجود میں
گھیرے رکھتا ہے عبث نور کا ہالہ مجھ کو
راس آتا نہیں مانگے کا اجالا مجھ کو
مٹ گیا اس سے مل کے میرا وجود
کیوں سمندر سے آشنائی کی
مذکورہ اشعار دیکھیے تو یہ صاف ہوجاتا ہے کہ یہ لہجہ کسی عام رومانی شاعر کا نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ کوئی ایسا فن کار ہے جس کی انا اس کے عشق پر مقدم ہے۔ وہ معشوق کے تئیں خود سپردگی کا روادار نہیں ہے۔ آخری شعر بشیر بدر کی یاد دلاتا ہے:
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
لیکن اب ذرا نایاب کے یہ اشعار بھی دیکھیے:
سپردگی کا یہ عالم بھی کیا قیامت ہے
سمٹ کے یوں تِرا آجانا میری بانہوں میں
برس کچھ اور مِری جان ٹوٹ کر مجھ پر
یہ خطہ جسم کا جل تھل نہیں ہوا اب تک
سونپ دی اس نے مجھے اپنے بدن کی سلطنت
مل گئی ہو مفلسی میں جیسے سلطانی مجھے
چھُوا تھا عارضِ گلنار اک دن
ابھی تک ہاتھ میرا جل رہا ہے
سنا ہے آگ ہے اس کا سراپا
چلو بانہوں میں بھر کر دیکھتا ہوں
ان اشعار میں نایاب کی محبت کے گلاب بھرپور بدن کے ساتھ کھلِ اٹھے ہیں۔ لفظوں سے عجیب سوندھی مٹی کی خوش بو آرہی ہے۔ یہاں گرم بانہوں میں معشوق کا سمٹ آنا، وصل کی سرمستی و سرشاری، پیاسے جسم کو جل تھل کردینے کی طلب، بدن کی سلطنت پر فتح یابی کا پرچم لہرانا اور لمس کی حرارتوں سے وجود کو ثابت کرنے کا عمل۔۔۔ ایسے بدن پرور حسی پیکر ابھرتے ہیں جو نایاب کی تخلیقی زرخیزی پر دال ہیں۔ لیکن ایک بات بہت صاف ہے کہ یہ رومان انگیزی نایاب کا نمایاں رنگ نہیں، اس کو استثنائی ہی سمجھا جائے۔
نایاب کا اصل جوہر ان کی کھردری حقیقت پسندی، ٹھیٹھ انسانی صورتِ حال اور غیرہوس پرستانہ میلانِ طبع کے شعری اظہاریوں میں کھُلتا ہے:
کہا ہے میں نے یہ کب ماہتاب مل جائے
مجھے تو بس مِری آنکھوں کا خواب مِل جائے
مِلے فقط مِرے حصے کی روشنی مجھ کو
طلب کہاں ہے کوئی آفتاب مِل جائے
کوستے رہنا اندھیروں کو نہیں حل کوئی
روشنی کی چلو پیدا کوئی صورت کی جائے
مِرا خلوص نہ بن جائے میری کمزوری
سو اپنے آپ کو تھوڑا بدل رہا ہوں میں
چلو یہ مان لیا وہ بُرا سہی لیکن
مجھے بتاؤ تو دنیا میں کون اچھا ہے
مذکورہ اشعار اس لیے بھی اہم ہیں کہ یہاں ایک روایتی تصورِ شعر پر سوالیہ نشان قائم ہوتا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ کیا مبالغہ آمیزی، فنتاسی، خواب پسندی اور آرزو پروری کے بغیر شاعری نہیں ہوسکتی ہے؟ نایاب کے یہ اشعار اس حوالے سے غور طلب ہیں کہ یہاں شاعری کا ایک رومان مخالف تصور پوری شدت کے ساتھ ابھرتا ہے اور اس امر پر اصرار کرتا ہے کہ شاعری کھرے سچ اور غیررومانی فضا میں بھی ظہور پذیر ہوسکتی ہے۔
نایاب حد درجہ حساس طبیعت کے مالک ہیں۔ انسانی رشتوں کے کھوکھلے پن، خودغرضانہ روابط اور ریاضیاتی جمع و تفریق پر مبنی تعلقات سے نایاب کی روح بِلبلا اٹھتی ہے:
اپنے لیے بھی وقت کہاں ہے کسی کے پاس
کیسے بھلا کسی سے کوئی ٹوٹ کر مِلے
دنیا کا ہر کھیل تماشا دیکھ لیا ہے
کون ہے اپنا کون پرایا دیکھ لیا ہے
غیر تو ٹھہرے غیر ہی ان سے کیا شکوہ
اپنوں کا بھی رنگ بدلتا دیکھ لیا ہے
میں اگر روٹھ بھی جاؤں کسی سے نایاب
بے غرض کون بھلا مجھ کو منانے آئے
نایاب کے بعض اشعار میں جدت طرازی، ندرت تخیل، تازہ کاری اور تراشیدہ اظہاریہ بہت چونکاتا ہے:
آئینہ رکھ کے سامنے نایاب
پاگلوں کی طرح ہنسوں گا میں
انکار کرکے خود ہی میں اپنے وجود کا
غصہ اتارتا ہوں میں اپنے وجود پر
نظر آتا ہے مدفن خواہشوں کا
کبھی جب اپنے اندر دیکھتا ہوں
مجھے تلاش رہا ہے یہ کون برسوں سے
مِرا وجود مکمل نہیں ہوا اب تک
اطراف میرے کھینچا گیا خوف کا حصار
ڈھہتے ہوئے مکان میں رکھّا گیا مجھے
باعثِ آسودگی ہے حشر سامانی مجھے
راس آتی ہے بڑی مشکل سے آسانی مجھے
ان اشعار میں وجودی کرب آگینی اور اقلیتی نفسیات کو جس طرح شعری قالب عطا کیا گیا ہے اس سے اپنے ہم عصروں میں نایاب کی ایک الگ شناخت قائم ہوتی ہے۔
ہر جینون خلاقانہ ذہن کی طرح نایاب بھی اپنے زمانے اور زندگی کو تخلیقی نظر سے دیکھتا ہے:
کب آسمان کا پھٹتا ہے دل یہ دیکھنا ہے
بدل رہی ہیں مِری سسکیاں کراہوں میں
میز پر ننھا سا اک کاغذ کا ٹکڑا چھوڑ کر
زندگی کی ہرخوشی وہ ناگہانی لے گیا
ہم ادھر مصروف تھے اور وقت کا سیلِ رواں
کیا پتا کب چھین کر ہم سے جوانی لے گیا
کیا پتا کب کون اس کی زد پر آجائے کہاں
وقت کی رفتار سے ہر شخص ہے سہما ہوا
بربادیوں کی زد پہ فقط شاخِ گل نہیں
گلشن تمام نرغۂ برق و شرر میں ہے
روز اپنی خواہشوں کو مارنا
اور ہوتی ہے بھلا کیا خودکشی
حادثہ کوئی اس میں درج نہیں
کیا نئے سال کا کلینڈر ہے
ڈوبنے والے سے کچھ اس کو سروکار نہیں
ہے جو ساحل پہ کھڑی بھیڑ تماشائی ہے
اور بطور خاص یہ شعر:
نایاب شاخِ چشم میں کھِلتے ہیں اب بھی خواب
سچ ہے تِرا قیاس کہ زندہ ہوں میں ابھی
یہ اشعار گواہی دیتے ہیں کہ جہانگیر نایاب کی جبلت اور اس کا سانچہ دراصل شاعری کے لیے ہی بنا ہے۔ شاید دنیا کا کوئی اور کاروبار اس کے بس کا روگ نہیں۔ داخلی شورش کی شدت سے آسمان پھٹنے کا خدشہ، گزرتے لمحوں کی حسرت اور کسک، وقت کے بدمست ہاتھی سے سہمی ہوئی انسانیت، حیات و کائنات کی اندوہ سامانیاں، بڑھتی ہوئی بے حسی، لیکن اس کے باوجود شاخِ چشم میں کھِلتے خواب جہانگیر نایاب کے شاعرانہ خمیر سے اٹھنے والے وہ کربلا خیز پیکر ہیں جن کی پہچان نئی تخلیقی صفوں میں الگ سے قائم ہوتی ہے۔
سب سے زیادہ روشن پہلو یہ ہے کہ گذشتہ بیس برسوں سے نایاب کا شعری سفر مائل بہ ارتقا ہے۔ کلامِ نایاب میں روزافزوں فکری و فنی بالیدگی آرہی ہے۔ اس بنا پر ان کے تابناک تخلیقی مستقبل کی توقع بے جا نہ ہوگی۔
***
خالد مبشر کی یہ نگارش بھی پڑھ سکتے ہیں :جشنِ حماقت

شیئر کیجیے

One thought on “شاخِ چشم میں کھلتا خواب: جہانگیر نایاب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے