حقیقت خود اپنے آپ میں ایک طلسم ہے: خالد جاوید

حقیقت خود اپنے آپ میں ایک طلسم ہے: خالد جاوید

’اردو فکشن میں جادوئی حقیقت نگاری‘
: خالد جاوید
رپورٹ: نورین علی حق (دہلی یونی ورسٹی)

پروفیسر خالد جاوید نے اپنے توسیعی خطبے میں فرمایا کہ میجک یا جادو بنیادی طور پر نصف سائنس ہے، جہاں علت و معلول کا رشتہ ٹوٹتا ہے، وہیں جادو بن جاتا ہے اور جادو نصف سائنس ہے۔ اس اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے ہم جادو کو یاد رکھتے ہیں لیکن حقیقت کوبھول جاتے ہیں۔ کوئی بھی امیجی نیشن ایسی نہیں ہے، جس میں حقیقت نہ ہو. یورپ میں 1940ء کے آس پاس ناول کی موت کا اعلان کیاگیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ روایتی قسم کے ناول لکھے جارہے تھے۔ اس میں کچھ نیا نہیں تھا، نئے سرے سے لاطینی امریکا نے ناول کو دریافت کیا۔ لاطینی امریکا کے قلم کاروں نے ناول کی مردہ رگوں میں روح پھونک دی۔ ان میں گابرئیل گارسیا مارکیز کا اہم نام ہے۔ لاطینی امریکیوں نے اپنی تہذیب، لوک گیت اور توہم کو بھی ناول کا بیانیہ بنا دیا۔ علت و معلول کے رشتے کو توڑ کر رکھ دیا۔ حقیقت خود اپنے آپ میں ایک طلسم ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جادوئی حقیقت نگاری کی اصطلاح پہلی بار پینٹنگ کے لیے استعمال ہوئی تھی۔ سماجی حقیقت نگاری کا متبادل و متوازن کوئی اسلوب ہم نے تلاش نہیں کیا۔ جادوئی حقیقت نگاری کوئی نظریہ، کوئی رجحان نہیں بلکہ کہانی کہنے کا ایک طریقہ ہے، ایک تکنیک ہے۔ جادوئی حقیقت نگاری، بروک اور فنتاسی کو الگ الگ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فنتاسی میں حقیقت نہیں ہوتی۔ زبانی بیانیہ اور تحریری بیانیے کا ملاپ ہے جادوئی حقیقت نگاری۔ فنتاسی کو تمثیل کے طور پر پڑھنا چاہیے۔ بروک پینٹنگ اور آرکی ٹیکچر کی ایک اصطلاح ہے، جس کا بابا آدم ایلوکار پینٹر ہے۔ یہ سادگی کے خلاف ہے۔ پیچیدہ بیانیہ کو بروک کہتے ہیں۔ مشکل ہونا کوئی جرم نہیں ہے۔ غالب اور میر بھی مشکل تھے۔ مشکل ہونا بھی ایک فن ہے۔
پروفیسر خالد جاوید نے مزید کہا کہ لاطینی امریکی اپنے فکشن میں لوک کتھاؤں کو لوک کتھا کہہ کر بیان نہیں کرتے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو پھر علت و معلول کارشتہ قائم ہوجائے گا اور جادوئی حقیقت نگاری باقی نہیں رہ سکے گی۔ جادوئی حقیقت نگاری کے تحت تو لوک کتھائیں اور محیر العقل باتیں ایک متبادل حقیقت کی طرح سے بیانیے کا حصہ بنتی ہیں اور اس کی جڑیں ریلزم کی زمین میں ہی پیوست ہوتی ہیں۔ دراصل علت و معلول کے رشتے کو پاش پاش کردینے کانام ہی جادوئی حقیقت نگاری ہے۔ ناول کو ایک جمہوری فن ہونا چاہیے۔ مارکیز کا پورا فن لاطینی ممالک میں رائج آمرانہ نظام حکومت کے خلاف ایک احتجاج بھی ہے۔ خالد جاوید نے فنتاسی اور میجک ریلزم کا فرق واضح کرنے کے لیے بتایا کہ کسی نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ہماری داستانوں میں جادوئی حقیقت نگاری پائی جاتی ہے۔ حالاں کہ داستانوں میں میجک اور فنتاسی پائی جاتی ہے۔ وہاں اپنے دور کی سماجی حقیقت کہاں ہے، جب کہ مارکیز جیسے ادیبوں کا بیانیہ اپنے معاشرے کے عقائد اور توہمات سے منسلک ہے۔ اردو کا معروف افسانہ ’روشنی کی رفتار‘ کو لوگ بہ آسانی جادوئی حقیقت نگاری کہہ دیتے ہیں، جب کہ وہ افسانہ فنتاسی کی مثال ہے۔ اس میں جادو تو ہے لیکن حقیقت نہیں ہے۔ انتظار حسین ہوں یا قرۃ العین حیدر کہیں بھی جادوئی حقیقت نگاری نہیں ہے۔ انتظار کے یہاں جاتک کتھائیں پائی جاتی ہیں اور عینی کے یہاں فنتاسی پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں مصنف عظیم ہیں لیکن ان کے یہاں جادوئی حقیقت نگاری نہیں پائی جاتی۔ البتہ نیرمسعود کے یہاں جادوئی حقیقت نگاری کے عناصر پائے جاتے ہیں۔دکھانے سے زیادہ چھپانے کے فن کو جادوئی حقیقت نگاری کافن کہاجاتا ہے۔
شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی کے زیراہتمام آج ’اردو فکشن میں جادوئی حقیقت نگاری‘ کے موضوع پر توسیعی خطبہ معروف فکشن نگار، جے سی بی ایوارڈ یافتہ ناول ’نعمت خانہ‘ کے مصنف پروفیسر خالد جاوید نے پیش کیا۔ اس موقع پرانگریزی کے معروف اسکالر پروفیسر ہریش تریویدی نے پروگرام کی صدارت کی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے آرٹس فیکلٹی، دہلی یونی ورسٹی کے ڈین پروفیسر امیتابھ چکرورتی بھی موجود تھے۔ اس پروگرام میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے ریسرچ اسکالرز کے ساتھ ساتھ گریجویشن اور ماسٹر کے طلبہ بھی کثیر تعداد میں موجود تھے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :وہ جس کا سایہ گھنا گھنا ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے