احمد علی برقی اعظمی

احمد علی برقی اعظمی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

اردو اور فارسی کے مشہور فی البدیہ شاعر، آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی شعبہ فارسی کے سابق سر براہ، غالب اکیڈمی کی گورننگ کونسل کے رکن ڈاکٹر احمد علی برقی کا حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ان کی سسرال جون پور یوپی میں انتقال ہو گیا، وہ چند روز قبل ہی اعظم گڑھ سے جون پور گئے تھے، سوموار 4 دسمبر 2022ء صبح انھیں گھبراہٹ محسوس ہوئی، اسپتال میں بھرتی کرایا گیا، لیکن 5 بجے صبح 5 دسمبر کو جان جاں آفریں کے سپرد کر دیا، جنازہ ان کے وطن کوٹ اعظم گڑھ لے جایا گیا اور اسی دن بعد نماز عشاء مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ پس ماندگان میں اہلیہ شہناز بانو، ایک لڑکا فراز عالم اور تین بیٹیاں رخشندہ پروین، نازیہ اور سعدیہ پروین کو چھوڑا۔
احمد علی برقی اعظمی کی زندگی کا سفر 25 دسمبر 1954ء کو ان کے والد مشہور شاعر رحمت علی برق اعظمی کے گھر واقع محلہ باز بہادر اعظم گڑھ سے شروع ہوا، درجہ پنجم تک مدرسہ اسلامیہ باغ میر پٹیلو محلہ آصف گنج شہر اعظم گڑھ سے حاصل کی، 1969ء میں شبلی ہائر سکنڈری اسکول سے دسویں پاس کرنے کے بعد شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ سے 1971ء میں انٹر، 1973ء میں بی اے اور 1975ء میں ایم اے اردو نیز 1976ء میں یہیں سے بی ایڈ کیا، 1979ء میں جواہر لال نہرو یونی ورسٹی سے ایم اے فارسی اور 1996ء میں وہیں سے پی ایچ ڈی کیا، ایران کلچر ہاؤس سے ملازمت شروع کی، جلد ہی وہ 1984ء میں آل انڈیا ریڈیو کے شعبۂ فارسی سے منسلک ہوگئے اور اپنی زبان دانی، علمی رکھ رکھاؤ اور انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے شعبہ کی سر براہی کے منصب تک پہنچے، 31 دسمبر 2014ء کو ملازمت سے سبک دوشی کے بعد بھی آکاش وانی والے جز وقتی طور پر آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے رہے، ان کی شاعری کے دو مجموعے روح سخن اور محشر خیال علی الترتیب 2013ء اور 2019ء میں اشاعت پذیر ہوئے۔
اردو میں موضوعاتی شاعری اسلامی تناظر میں ابو الاثرحفیظ جالندھری نے شروع کیا تھا، جس کا مجموعہ شاہنامہ اسلام کے نام سے جانا جاتا ہے، ہمارے عہد میں ڈاکٹر عبد المنان طرزی دربھنگہ اس فن کے امام ہیں، دوسرا بڑا نام احمد علی برقی اعظمی کا تھا جو ہمارے درمیان سے رخصت ہو گئے، انھوں نے غالبا آخری نظم پروفیسر معراج الحق برق کے انتقال پر 2 دسمبر 2022ء کو کہی تھی، جو ان کی علالت کی وجہ سے اخبارات کی زینت نہیں بن سکی، ان کی خدمات کے اعتراف میں دہلی اردو اکادمی نے انھیں اعزاز دیا، اردو گلڈ جموں کشمیر نے 2014ء میں فخر اردو ایوارڈ اور اکرم میموریل پبلک سوسائٹی نجیب آباد بجنور نے محمد علی جوہر ایوارڈ سے بھی نوازا تھا، ڈاکٹر احمد علی برقی کی شخصیت پرت در پرت تھی. وہ ایک بار میں کسی پر خود کو منکشف نہیں کر تے تھے. آپ جتنے دن ان کے ساتھ رہتے ہر دن ان کی ایک نئی خصوصیت کا افشا آپ پر ہوتا، وہ اردو فارسی کے ساتھ انگریزی پر بھی عبور رکھتے تھے؛ لیکن مزاج میں تعلی اور علم و فن کا پندار وغرور نہیں تھا، اس لیے جھیلنانے [؟] والوں کو بھی برت لیتے تھے، تعصب و تنگ نظری سے کوسوں دور تھے، معاندانہ جذبات ان کو چھو کر نہیں گذر تے تھے اور چھل کپٹ ان کو آتی نہیں تھی، وہ احباب و رفقا کے سخت جملوں اور طنز و تعریض سے بھری گفتگو کو بھی اچھا رخ دینا جانتے تھے، اس لیے ان کو کسی سے نہ کوئی گلہ تھا اور نہ شکوہ، برقی اعظمی نے بہت لکھا اور بہت سارے موضوعات مثلاً سائنس، طب، حالات حاضرہ ، آفات ارضی و سماوی، گلوبل وارمنگ، سونامی اور زلزلے وغیرہ پرشاعری کی، بڑی بات یہ ہے کہ ان کی زود نویسی نے ان کے فن کو نقصان نہیں پہنچایا، ان کی شاعری پر شمیم ریاض نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ڈاکٹر برقی اعظمی کی شاعری میں موضوعات کا تنوع، جدت اور ہمہ گیری ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے، برق رفتاری سے شاعری کے باوجود ان کا شعر فنی سقم سے بالکل منزہ ہوتا ہے، ان کے تخیل کی پرواز نے ان کی شاعری کو آفاقی بنا دیا ہے“۔ (مطبوعہ انقلاب ۱۱ دسمبر 2022ء)
گذشتہ چند دہائیوں مین انٹرنیٹ ہر کس و ناکس اور ہر مہ و کہہ تک پہنچ گئی، اس سے اطلاعاتی انقلاب آیا، برقی اعظمی نے انٹرنیٹ کے ذریعہ پروگرام کی رپورٹنگ اور اپنی شاعری و تحریروں کو جس تیزی کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے کا کام کیا وہ اپنی نظیر آپ ہے، ان کے پوسٹ کی تفصیلات بھی شاعری میں ہی ہوا کرتی تھی، لوگ اس سے کافی محظوظ ہوا کرتے تھے۔
موضوعاتی شاعری کے بعد انھوں نے اردو غزل کی طرف اپنی توجہات مرکوز کیں اور غزل مسلسل کو عروج بخشا، انھوں نے شعرا و ادبا کی کتابوں پر فی البدیہہ تبصرہ لکھا اور جب کسی کے مرنے کی خبر آئی، ان کا ذہن مرثیہ گوئی اور خراج عقیدت میں لگ گیا، وہ بر جستہ اور فی البدیہہ شاعری میں مہارت رکھتے تھے، اور اس حوالے سے ان کا نام اور کام انتہائی ممتاز ہے.
ایسے با کمال انسان کا رخصت ہوجانا ایک بڑا نقصان ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل ۔ آمین۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :کتاب : عظیم آباد کے فارسی اساتذہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے