ارندھتی رائے کا ناول”سسکتے لوگ“

ارندھتی رائے کا ناول”سسکتے لوگ“

(نسلیات، طبقاتی کشمکش، محبت اور محرومی کی داستان)

اظہار خصر
سیٹی کورٹ،پٹنہ۔۷۰۰۰۰۸
رابطہ:۔ 9771954313

ارندھتی رائے انگریزی زبان کی ایک مشہور و معروف اور مستند و معتبر ریڈیکل طرز فکر کی قلم کار ہیں۔ ٢٤/نومبر ١٩٦١ء کو ہندستانی ریاست میگھالیہ میں پیدا، ارندھتی رائے کی بین الاقوامی شہرت و مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جب ان کا ناول The God of small things انگریزی زبان میں شائع ہوا تو اسی سال باوقار بین الاقوامی اعزاز ”بُکرز پرائز“ (1997) سے سرفراز کیا گیا۔ اور محترمہ رائے کو عالم گیر شہرت حاصل ہوگئی۔ تاہم اندرون ملک انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ کیونکہ وہ ایک تبدیلی پسند طرز فکر کی قلم کار تو تھیں ہی۔ ساتھ ہی ان کی علمی، ادبی اور تخلیقی فکر کی نمو پذیری میں ان کے اشتراکی اور اشتمالی نقطۂ نظر کا حددرجہ عمل دخل تھا۔ لیکن معاملہ صرف اتنا ہی نہیں تھا، وہ بے حد نڈر اور بے باک قلم کار ہیں۔ اس کی جھلک ان کے دوسرے ناول (2017) ”The Ministry of utmost Happiness“ (بے پناہ شادمانی کی مملکت) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جہاں انھوں نے کشمیر کی آزادی کی کھل کر حمایت کی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صاحبان اقتدار ان کے اس تصنیفی اور تخلیقی رویّے سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی، سیاسی، تہذیبی اور ملکی مسائل و معاملات کے حوالے سے جو مضامین انھوں نے لکھے ہیں وہ فکر و سوچ کی سطح پر حددرجہ Sparking واقع ہوئے۔
چنانچہ پہلے ناول کی اشاعت کے بعد محترمہ رائے نے فکشن کے بجائے سماجی مسائل پر زیادہ توجہ دی۔ اور ذات پات کے نظام، ڈیموں کی تعمیر سے ہونے والے ماحولیاتی اور انسانی نقصانات، عالم گیر یت، ہندو اور مسلم انتہا پسندی، نکسل باڑی تحریک جیسے مسائل و موضوعات پر جم کر لکھا۔ میرے نزدیک محترمہ رائے کی ناول نگاری کے خام مواد کی فراہمی کے لیے ان موضوعات ومسائل نے عقبی زمین کا کام کیا۔ چنانچہ ان کے دونوں متذکرہ ناولوں میں مذکورہ مسائل و معاملات پر مبنی تخلیقی اور فکری نقطۂ نظر کی گونج صاف طور پر سنائی پڑتی ہے۔
اتنا ہی نہیں ان کی فکر و سوچ میں سیاست، سماج اور تہذیب کا عالمی اور کسی حد تک بین الاقوامی منظر نامہ بھی جاگزیں نظر آتاہے! وہ بے حد وسیع المطالعہ ہیں۔ ان کا روشن خیالانہ نقطۂ نظر ہیومنزم کے آفاقی اصول سے عبارت نظر آتا ہے۔ اس نکتہ کو بھی ذہن نشیں کرتے چلیے کہ اشتراکی نقطۂ نظر سے مملو ان کا باغیانہ اور بے باکانہ تصنیفی اور تخلیقی تیور دعوت شعلگی دیتا نظر نہیں آتا بلکہ مدھم آنچ کی گرماہٹ سے آپ کی بصیرتوں اور تفہیمی شعور کو کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ کام اردو کے ترقی پسند فکشن نگاروں نے بھی اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں اور فکر و فن کی پاسداری کو بروئے کار لاتے ہوئے کیا تھا۔ خیر یہ گفتگو تو جملۂ معترضہ کے طور پر ہوگئی!
عرض یہ کرنا ہے کہ ارندھتی رائے نے بھی فکشن کے بنیادی سبق آموزی کے اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے متذکرہ دونوں ناولوں میں جس قسم کی ماجرا سازی کی ہے وہ آپ کے تفہیمی شعور کو گرمانے اور برانگیخت کرنے کا کام مسائل و معاملات کے وسیع تر عالمی منظرنامہ پر کرتی نظر آتی ہے! حالانکہ کسی بھی ادب پارے کی فہم کا معاملہ قاری کے تفہیمی شعور پر منحصر کرتا ہے۔ تفہیم و تعبیر کی سطح تک رسائی ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ اس پہلو پر مزید گفتگو آگے کی سطور میں کی جائے گی!
”دی گاڈ آف اسمال تھنگس“ کا اردو ترجمہ پاکستان کی مصنّفہ پروین ملک صاحبہ نے ”سسکتے لوگ“ کے نام سے کیا ہے۔ ناول کے اس اُردو ایڈیشن کو پاکستان کے شہر جہلم کے ایک اشاعتی ادارے ”بک کارنر“ نے 2022ء میں شائع کیا ہے!
لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اردو میں اس ناول کا نام ”سسکتے لوگ“ کیونکر رکھا گیا۔ ”دی گاڈ آف اسمال تھنگس“ کا لفظی ترجمہ (Literal Translation) تو ”چھوٹی چیزوں کا خدا“ ہی ہونا چاہئے۔ ناول کا گیارہواں باب اسی نام پر ہے! ترجمہ، ترجمانی کا نام ہے۔ جس میں نفس مضمون کی ادائیگی کے فن کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ مذکورہ ناول کے اردو متن کے مطالعہ سے اس بات کی نشان دہی نہیں ہوپاتی ہے کہ آخر مترجم نے تفہیم وتعبیر کی کون سی سطح دریافت کی جس کی بنیاد پر اردو میں اس ناول کا نام ”سسکتے لوگ“ رکھا گیا۔ لیکن اتنی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ مترجم نے اپنے تفہیمی شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے ناول کے بنیادی تخلیقی رجحانات تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ میرے نزدیک سسکتے لوگ پروین ملک صاحبہ کے تفہیمی شعور کا نتیجہ ہے جس کی مبہم پسندی اپنی انتہا پر نظر آتی ہے۔
ناول کی بیانیاتی تکنیک اشاراتی اور علامتی تو ہے ہی اور ہونا بھی چاہئے۔ لیکن انتہائی درجے کے بالواسطہ Narrative نے نفس مضمون کو ابہام کے دبیز پردے میں چھپا کر رکھ دیا۔ لیکن اسے کیا کہئے کہ یہی اس ناول کی کامیابی کا راز ہے۔ اگر محترمہ رائے ایسا نہ کرتیں تو وہ اپنی تبدیلی پسند (Radical) فکر و سوچ اور تیز و تند تصنیفی تیور کا تخلیقی اظہار بلا کم و کاست اتنی کامیابی اور فن کارانہ چابک دستی کے ساتھ نہ کر پاتیں۔
جیسا کہ گذشتہ سطور میں عرض کیا گیا ہے کہ کسی بھی ادب پارے کی فہم کا مسئلہ قاری کے اوپر منحصر کرتا ہے! لیکن اس کے لیے فن پارہ قاری کی بلند ذہنی اور فکری سطح کا متقاضی ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مصنف یا اس کا فن پارہ قاری سے بلند تفہیمی شعور کا متقاضی کیوں ہوتا ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب تو یہی ہے کہ اس کے قاری کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہو! تاکہ اس کی تصنیف کو شہرت و مقبولیت کا درجہ حاصل ہوسکے! گویا اس امر محال کے لیے قاری کی بلند ذہنی سطح لازمی شرط ہے! لیکن یہ ایک بڑا ہی پے چیدہ مسئلہ ہے کہ کسی فن پارے کی معنیاتی تفہیم کے لیے قاری کا تفہیمی شعور بھی بلند ہو! اور پھر یہ تقاضا کیوں؟ کہ فن کار کے تخلیقی شعور کے ساتھ قاری بھی اپنے تفہیمی شعور کو صیقل کرے! مطالعے کی پے چیدہ اور دقت طلب گھاٹیوں کی قدم پیمائیاں کوئی آسان کام نہیں! لہٰذا مصنف قاری سے اس کی ذہانت کا تقاضانہیں کرسکتا! اگر اس کی تحریریں قاری کے فکر و فہم کے لیے ایک امتحان گاہ کی حیثیت رکھتی ہیں تو یہ معاملہ قاری کا ہے، پڑھے یا نہ پڑھے! لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قاری ہر بڑے مصنف سے پاپولر لٹریچر کا متقاضی ہوتا ہے! جب کہ گورؔ کی، دستیوئیفسکی، تالستائے اور قرۃ العین وغیرہم جیسے مصنفین کے قاری کا حلقہ بالکل جداگانہ ہوتاہے! یہ وہ قاری ہوتے ہیں جو فکر و فہم کی سطح پر حد درجہ تربیت یافتہ اور سنجیدہ ہوتے ہیں! مزید یہ کہ اعلیٰ ادب کے مطالعے سے اُن کی فکر و سوچ میں بالیدگی بھی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے! لیکن بہر صورت مصنف کو اپنے قاری کے سامنے جواب دہ تو ہونا ہی چاہئے! یہ بحث طویل ہوسکتی ہے۔ جس کا یہاں موقع نہیں! لہٰذا اس گفتگو کو یہیں پر موقوف کرتا ہوں!
یہ ناول اکیس(21) ابواب پر مشتمل ہے۔ اور ہر باب کا نام حددرجہ استعاراتی اور علامتی ہے۔ جس کی تفہیم و تعبیر کی سطح تک رسائی حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے قاری کا انتہائی بالیدہ تفہیمی شعور کا حامل ہونا ضروری ہے۔
ناول کے اردو متن کی زبان چونکہ ترجمے کی زبان ہے۔ اس لیے اس میں محترمہ رائے کے تخلیقی ڈکشن کا سراغ لگانا فعل عبث ہے۔ البتّہ ناول کے بنیادی تخلیقی رجحانات اور واقعات و ماجرا کے کیف و کم پر بساط بھر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔
ناول کا موضوع سیاسی نہیں بلکہ سماجی اور تہذیبی واقعات و حالات اور اُن کے مضمرات و اثرات کی مختلف نوعیتوں پر مبنی ہے۔ جس کی پراسراریت ہمارے لیے ایک امتحان گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہاں تو، نسلیات، طبقاتی کش مکش، محبت اور محرومی کی جکڑنے والی داستان۔ یہی اس ناول کاموضوع بھی ہے اور مرکزی خیال بھی۔
بالخصوص طبقاتی کش مکش اور نسلی امتیازات پر اس ناول میں توجہ اس لیے دی گئی ہے کہ محترمہ رائے خود ایک سماجی اور تہذیبی بدلاؤ کی حامل قلم کار ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ وہ علم و ادب کی سماجیات کی ایک بڑی تخلیقی فن کار ہیں۔ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوئیں یا نہیں یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ کیونکہ لکھنے والا سماجی مصلح بن کر تونہیں لکھتا ہے۔ البتہ وہ تہذیب و سماج کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ضرور فراہم کرتا ہے!
ارندھتی رائے کا بچپن کیرالہ میں اپنی والدہ میری ؔرائے کے ساتھ گزرا۔ سولہ برس (16) کی عمر تک کیرالہ میں رہیں۔ اس کے بعد وہ دہلی آگئیں اور وہیں اعلا تعلیم حاصل کی۔ میریؔ رائے کا تعلق کیرالہ کی شامی مسیحی برادری سے تھا۔ محترمہ ارندھتی ؔ رائے نے اس شامی مسیحی برادری کے سماجی اور تہذیبی احوال و کوائف کا نزدیک سے مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے۔ چنانچہ اس ناول میں کیرالہ کے اس شامی عیسائی ماحول کی تصویر کشی کے لیے ایک چھوٹے سے خاندان کے سماجی اور تہذیبی احوا ل و کوائف اور اتار چڑھاؤ کو ہی تخلیق فن کا حصّہ بنایا گیا ہے! بالخصوص اس کے بیان میں نسلی اور طبقاتی کش مکش و امتیازات کی جڑیں دور تک پھیلی نظر آتی ہیں۔ ساتھ ہی آرزوؤں اور تمناؤں کے صنم کدے میں جو محرومیاں جاگزیں تھیں ان کی فن کارانہ رنگ آمیزی میں محترمہ رائے کا تخلیقی المیاتی حسن کی جھلکیاں بھی دکھائی پڑتی ہیں۔
ناول کے پہلے باب کا نام ”پیراڈائز فیکٹری“ ہے۔ ناول کا آغاز ایک چھوٹے سے قصبہ آئینام سے ہوتا ہے۔ جہاں ”آئینام ہاؤس“ نام کی ایک عمارت واقع ہے۔ جو شامی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک چھوٹے سے خاندان کا مسکن ہے۔ اسی ”آئینام ہاؤس“ سے ناول کے تین مرکزی کردار امّوؔ، ایستھاؔ اور راہلؔ (راہلؔ ناول کی بنیادی نسوانی کردار ہے) تعلق رکھتے ہیں۔ راہلؔ اور ایستھاؔ دونوں جُڑواں بھائی بہن تھے۔ جو آسام ٹی۔اسٹیٹ جاتے ہوئے ایک بس میں پیدا ہوئے۔ امّوؔ، ایستھاؔ اور راہلؔ کی ماں جو اکتیس (31) برس کی عمر میں فوت ہوگئی۔
ان تین مرکزی کرداروں کے علاوہ ”آئینام ہاؤس“ میں خاندان کے جو دوسرے لوگ رہا کرتے تھے ان میں مارگریٹ ؔ کوچاما، چاؔکو، بے بی کوچاما، پاپاچی، اور ماما چیؔ (راہل اورایستھاؔ کے نانا، نانی)۔
صوفیہ منی۔ راہلؔ اور ایستھاؔکی کزن تھی۔ ان کے انکل چاؔ کو کی بیٹی۔ صوفیہ منی کی انگریزی ماں کا نام مارگریٹ کوچاما تھا۔ اور باپ کا چاکوؔ تھا۔ بے بی کوچاماؔ۔ ایک لاغر اور ضعیف خاتون جو راہلؔ کی نانی کی چھوٹی بہن۔ گھر کے لوگ اسے بے بی کہنے لگے۔ جب وہ اتنی بڑی ہوگئیں کہ خالہ کہلا سکے۔ لیکن وہ بے بی کوچاماؔ کہلانے لگی!
آئینام ہاؤس کے اس Family Structure کو پیش نظر رکھنے کی اس لیے ضرورت ہے تاکہ ناول میں ان ناموں کے بار بار ذکر سے واقعات اور ماجرا کے سیاقی پس منظر کی ترسیل میں الجھاؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ ایک کردار ویلتھاؔ بھی ہے جو سرخ پر چم کا ہمنوا ہے۔ چھوٹی ذات کا اچھوت کردار۔ اس کے حوالے سے ناول نگار نے جو گفتگو کی ہے۔ اس کا بیان آگے ہوگا۔
ناول میں ”آئینام ہاؤس“ ایک نسلی امتیاز کے استعارے کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ اس ناول کے تین کردار امّوؔ، ایستھاؔ اور راہلؔ کے گِرد ہی ناول کا تانا بنا بُنا گیا ہے۔ ان کرداروں کی پراسراریت اور خاموش اضطراب و بے چینی دیکھنے کے لائق ہے۔ ناول کا بنیادی تخلیقی موقف اور مرکزی خیال کا اظہار انھ کرداروں کے توسط سے ہوا ہے۔ کہانی ان کرداروں کے Unseen Passage میں چھُپی محسوس ہوتی ہے جس کو Traceoutکرنا قاری کے لیے ایک جوکھم بھرا کام ہے۔
امّوؔ کا تعلق ”آئینام ہاؤس“ سے ہی تھا۔ لیکن اس کی شادی آسام کے ٹی اسٹیٹ میں کام کرنے والے ایک ایسے ہندستانی نژاد شخص سے ہوتی ہے جو حددرجہ لااُبالی تو تھا ہی، بلا نوش بھی تھا۔ اس کی بلا نوشی اور غیر ذمّہ دارانہ حرکتیں امّو کی ازدواجی زندگی کو متاثر کرتی رہی۔ اس کے ساتھ شادی کے بعد امّو کی پہچان خالص عیسائی النسل نہ ہوکر ہندستانی نژاد عیسائی کی صورت میں ہونے لگی۔ اس کی وجہ آئینام ہاؤس کی Catholicity اور کٹر پن تھی۔ حالانکہ اس قسم کی نسلیاتی اور طبقاتی صورت حال اور بھی طبقوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ خیر اس جملہ معترضہ سے قطع نظر ایستھاؔ اور راہلؔ کی پیدائش کے بعد باپ کی آسام ٹی اسٹیٹ کی ملازمت ختم ہوگئی اور وہ کلکتے چلا گیا۔ جہاں وہ ایک دوسری فیکٹری میں کام کرنے لگا۔ اور وہاں اس نے دوسری شادی بھی کرلی۔
امّو، دونوں بچّوں کے ساتھ تنہا رہ گئی۔ اور چار و ناچار ”آئینام ہاؤس“ لوٹ آئی۔
”آئینام ہاؤس“ قبل ہی سے امّو کے ان رشتہ داروں کا مسکن تھا جو خالص عیسائی النسل تھے! کہانی کا یہی وہ موڑ ہے جہاں سے نسلی امتیاز کی داستان پورے ناول میں اپنا پاؤں پھیلاتی نظر آتی ہے۔ اس امتیازی سلوک اور تعصّب کو امّو اور اس کے دونوں جڑواں بچّے جھیلتے رہے۔ حالانکہ دیکھنے میں تو یہی لگتا ہے کہ باپ نے دوسری شادی کرلی اور امّو اپنے بچّوں کے ساتھ تنہا رہ گئی۔ اس قسم کے واقعات آئے دن معاشرے میں رونما ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن جب ایک بڑا فن کار ان واقعات پر اپنا فن کارانہ برش چلاتا ہے تو وہ انتہائی معنویت کے حامل ہوجاتے ہیں۔ اس معنویت میں وجود کا کرب اور ذکی الحسّی کے عناصر حددرجہ متحرّک و فعال ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔ دراصل یہ معاملہ بصیرتوں کا ہے۔ فرد، سماج اور زندگی کے معاملات و مسائل پر فن کار کا وژن کیسا ہے۔ اس کی تخلیقی فکر و سوچ کس قسم کی ہے!
اب یہ دیکھیے کہ آئینام ہاؤس میں اچار اور چٹنی کی ”پیراڈائز فیکٹری“ کا قیام راہلؔ اور ایستھاؔ کی نانی ماماچی اور نانا پاپا چی ؔ نے اس لیے کیا کہ کوٹامؔ کی بائبل سوسائٹی کو اس کی سرپرستی حاصل تھی۔ حالانکہ امّو اپنے ماں باپ کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتی تھی۔ لیکن قسمت کی ماری امّو کیا کرتی! وہ تو اپنے بارے میں جان چکی تھی کہ حالات نے اس کو ہمیشہ کے لیے آئینام کے سپرد کردیا ہے۔ امّو اور اس کے دونوں بچّے امتیاز و تعصب کے سماجی رویّے کی چکی میں پس رہے تھے۔ لیکن یہ تینوں حالات کا سامنا اور مقابلہ کرنے کاحوصلہ رکھتے تھے۔ ذہنی، فکری اور شخصی توانائی سے بھرپور یہ تینوں کردار اپنی ذکی الحسّی کا بھرپور مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ امّو کی اپنے شوہر سے علاحدگی اور تنہائی اس کی ذہنی اذیّت و کرب کا سبب تو بنتی ہی جارہی تھی ساتھ ہی امّو، ایستھاؔ اور راہلؔ کی داستان محرومی بھی بیان کررہی تھی! امّو کا شوہر غیر مسیحی ہندستانی نژاد۔ چنانچہ نسلیات اور طقاتی کش مکش سے قدم قدم پر سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ ذکی الحسی کی سطح پر المناکیوں کے یہ لطیف اشارے ناول کو اندرونی دل دوزی (Pathos) کی تخلیقی فن کاری سے ہمکنار کرتے نظرآتے ہیں! ذیل کے اس اقتباس کو ملاحظہ فرمائیے:
”آئینام واپسی کے چند مہینے بعد امّو جھوٹی ہمدردی کے مکروہ چہرے کو پہچاننے لگیں۔ جب بھی دور پارکی رشتے دار عورتیں اپنے بوڑھے چہروں پر اُگے داڑھی جیسے سخت بالوں اور دُہری ٹھوڑیوں سمیت وارد ہوتیں اور بڑی ہمدردی سے امّو کی داستانِ طلاق سننے کی مشتاق ہوتیں تو امّو کا دل چاہتا، انھیں کس کے تھپّڑ لگائیں یا پھر اُن کی چھاتیاں وہ اتنی زور سے مروڑیں کہ وہ سب کچھ بھول جائیں۔“
اتنا ہی نہیں امّو یہ کرب بھی جھیلتی رہی کہ اسے زندگی بھر ویشیا اور ناجائز بچوں کی ماں کے طعنے بھی سننے پڑے۔ طعنے کیوں سننے پڑے اس کا ذکر آگے آئے گا۔
یہ تعصب اور Racial discrimination کی انتہائی منزل تھی۔ غور فرمائیے کہ آخر وجود کی Integrity بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں؟ متزلزل ہوتی ہوئی عزّت نفس وجود کو پارہ پارہ تو کرتی ہی ہے ساتھ ہی تشخص کی برتری و بقا پر ایک سوالیہ نشان بھی لگاتی ہے۔ اس فکر و فلسفہ کو پیش نظر رکھیے اور محترمہ رائے کے فن کارانہ انفراد کی داد دیجیے کہ امّو اپنے ذہنی کرب اور ڈوبتے ابھرتے وجود کے درمیان اپنے بچّوں کے تئیں اُس کی شفقت و محبت کے Quantum کی کیا صورت تھی۔
”کبھی تو وہ ایستھاؔ اور راہلؔ کے لیے دنیا کی خوب صورت ترین خاتون ہوتیں اور کبھی…..بالکل نہیں۔“
تربیت سازی کی اس جدوجہد کے درمیان ایستھاؔ اور راہل کی ذہنی اور فکری نشوونما توہوتی ہی رہی ساتھ ہی ان دونوں کی شخصیت سازی کی ایک بہتر صورت کی نمو پذیری بھی ہوتی چلی گئی۔ اس جانب بھی مزید گفتگو آگے کی سطور میں کی جائے گی۔
سردست ”آئینام ہاؤس“ میں نسلی امتیاز اور تعصّب کی ایک اور جھلک دیکھتے چلیے!
ناول کے انیسویں باب”امّو کو بچاؤ“ میں امّو کے تئیں آئینام ہاؤس کی ایک معمر مسیحی خاتون بے بی کوچاما کی نسلی دراز دستیوں کی ایک مختصر سی دل چسپ داستان پڑھنے کو ملتی ہے۔ بے بی کوچاما نے آئینام کے کوٹیام پولس اسٹیشن کے انسپکٹر تھامس میتھیو کے پاس ایک اطلاع اوّل درج کرائی کہ کشتی کی چوری اور پراوان پر ظلم و زیادتی (پراوان، پیلا یان اور پولیاس کیرالہ کے مسیحی معاشرے کی نچلی ذات کے لوگوں کو کہا جاتا تھا) کے معاملے میں امّو، ایستھاؔ اور راہلؔ کی ملی بھگت ہے۔ تفتیش کے دوران ویلتھا  کو بھی گرفتار کیا گیا۔ (جس کا تعلق نچلی ذات سے تھا) حالانکہ انسپکٹر کو شک تھا کہ بے بی کوچاما نے جھوٹی رپورٹ درج کرائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے بی کوچاماؔ اس تفتیشی کارروائی میں از حد دل چسپی دکھا رہی تھی۔ بے بی کو چاما کو اس بات کا بھی قیاس تھا کہ ویلتھاؔ کے ساتھ امّو کے ناجائز تعلقات ہیں۔ اتناہی نہیں فادر مولیجنؔ کے ساتھ بھی اس کے ناجائز تعلقات رہے ہیں۔ جس کا اظہار وہ بچّوں کے سامنے نہیں کرنا چاہتی تھی۔کہ اس کے غلط اثرات مرتّب ہوں گے۔ حالانکہ ناول کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سارا معاملہ قیاسی ہے! بے بی کو چاما کو بھی اس بات کا احساس تھا! لیکن اس بہتان تراشی کے نتیجے میں امّو زندگی بھر ناجائز اولاد کے بچّوں کی ماں کے طعنے سنتی رہی۔
چنانچہ جب بے بی کوچاما کو امّو کے پولیس اسٹیشن جانے کا علم ہوا تو وہ خوف زدہ ہوگئی! کیونکہ اس معمر خاتون نے صرف ایک قیاس کی بنیاد پر یہ جوا کھیلا تھا کہ امّو کی پاک دامنی پر جو سوالیہ نشان لگائے گئے تھے، امّو اس کا اعتراف مصلحتاً نہیں کرے گی۔
عرض یہ کرنا ہے کہ نسلی دراز دستیوں اور تعصّب کے اس کھیل میں بے بی کوچاما کی سرگرم شمولیت اس کی Racial discrimination کے ذہنی اور فکری رویے کا اشاریہ ہے۔ اس حوالے سے ذیل کے ان دو اقتباسات کو پیش نظر رکھیے!
(۱) ”امّو ہی اصل میں سارے المیے کی ذمّے دار ہے۔ امّو اور اس کے بچّوں کی وجہ سے صوفیہ منی کو موت نے آلیا۔“
(۲) ”یہ بے بی کوچاما کا ہی آئیڈیا تھا کہ امّو کو گھر چھوڑنے کے لیے کہا جائے اور ایستھاؔ کو واپس بھیج دیا جائے۔“
اقتباس 1میں صوفیہؔ منی کی موت کا ذمّہ دار امّو کو ٹھہرایا گیا ہے! جیسا کہ ناول میں بتایا گیا ہے کہ صوفیہ منی کی انگریز ماں مارگریٹ کوچاما تھی اور باپ چاکوؔ جو ایستھاؔ اور راہل کا انکل تھا۔ کہا نہیں جاسکتا کہ امّو کے ذہن میں خاندانی اور گھریلو رقابتیں پل رہی تھیں کہ نہیں۔ لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ بے بیؔ کو چاما، صوفیہ منی کی موت کا ذمہ دار امّو کو ہی سمجھتی تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ امّو کو آئینام ہاؤس چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے اور ایستھاؔ کو کلکتے اپنے باپ کے پاس بھیج دینا چاہتی ہے۔
اندازہ ہوتاہے کہ ناول نگار محترمہ رائےؔ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ آج بیشتر لوگ اپنے ذہن و فکر کے صنم کدے میں نسلی غرور کے صنم اکبر کو سجائے بیٹھے ہیں۔ اگر ہم اپنے صنم کدوں سے غرور باطل کے ان اصنام کو نکال پھینکیں تو زندگی خوب صورت ہوسکتی ہے۔ چھوٹی چیزوں کے خدا کے اس فکر و فلسفہ کو ناول نگار کے اس فکری اور تخلیقی موقف کے وسیلے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اب اس ناول کے دوسرے دو مرکزی کردار ایستھاؔ اور راہل کے بارے میں چند باتیں:
صوفیہؔ منی کی وفات کے دو ہفتے بعد امّو کو مجبور کردیا گیا کہ وہ ایستھاؔ کو اپنے باپ کے پاس بھیج دے۔ جس نے آسام کی ٹی اسٹیٹ والی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا اور کلکتّے کی ایک کوئلے کی فیکٹری میں ملازمت کر لی تھی۔ اس نے دوسری شادی بھی کرلی تھی اور بہت حد تک شراب نوشی پر قابو پا چکا تھا۔ وہ وہاں قریب تیس برس تک رہا۔ اس کے باپ نے اسے کلکتے کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا۔ تعلیمی لحاظ سے وہ کوئی نمایاں پوزیشن تو حاصل نہ کرسکا۔ بس درمیانی سی کیفیت رہی۔ لیکن اپنے باپ اور سوتیلی ماں کے پاس طویل عرصے تک رہنے کے نتیجے میں اس کے اندر مفاہمت پسندی اور بردباری کی خصوصیت پیدا ہوگئی تھی۔
ایستھاؔ اور راہلؔ ایک طویل عرصے تک ایک دوسرے سے الگ رہے۔ چنانچہ تیس برس بعد ایستھاؔ کے باپ نے اسے واپس آئینام بھیج دیا! اتنے دنوں میں ایستھاؔ عملی ذہن کا مالک، ذمّے دار اور زیادہ دوراندیش ہو چکا تھا۔
وہ آئینام ہاؤس کی ریشہ دوانیوں سے دور ہوچکا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ دنیا سے بھی دُور ہوتا چلا گیا۔ خاموشی اس کے اندر پھیلتی چلی جارہی تھی۔ وہ آئینام کی سڑکوں پر تنہا گھومتا رہتا۔ ادھر اس کی جُڑواں بہن راہلؔ جدید زمانے کی فیشن ایبل، الّہڑ لڑکی اپنے الّہڑ پن سے سبھوں کو ناکوں دم کیے رہتی۔
جب آئینام ہاؤس میں ایستھاؔ کی واپسی ہوئی تو اس وقت بے بی کوچاما اور اس کی سنگ دل باورچن دوہی ہستیاں رہ رہی تھیں۔ اس کی نانی ماماچیؔ کا انتقال ہوچکا تھا۔
امّو کی وفات کے بعد راہلؔ کا داخلہ اسکول میں کرادیا گیا تھا۔ لیکن وہ اسکول در اسکول بھٹکتی رہی۔ اپنے الّہڑپن اور عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے وہ باربار اسکول سے نکالی گئی۔
اسکول سے نکالے جانے کا ایک دل چسپ واقعہ سنتے چلیے!
”سنیئر لڑکیوں کی مسلسل شکایت کی پاداش میں راہلؔ کو اسکول سے نکالا گیا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ دروازوں کے پیچھے چھُپ جاتی ہے اور جان بوجھ کر سنیئر لڑکیوں کے ساتھ ٹکرا جاتی ہے۔ جب پرنسپل نے پوچھا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی۔ تو وہ خاموش رہی۔ آخر مجبور ہوکر پرنسپل نے اسے بید مارے۔ پھر اسے بھوکا رکھا گیا۔ تب جاکے اس نے قبولا کہ وہ لڑکیوں کے ساتھ ٹکرا کے یہ جاننا چاہتی تھی کہ ان کی چھاتیوں سے چوٹ لگتی ہے یا نہیں۔“
راہلؔ کی نسائیت کی یہ ایک عجیب و غریب صورت ہے۔ جس میں اس کی نفسیات کے تخلیقی اظہار میں اس کے الّہڑپن فطرت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ لیکن اتنا تو اندازہ ہوتا ہے کہ راہلؔ کی الّہڑ پن فطرت اس کو تجربات کی مختلف گھاٹیوں کی قدم پیمائیوں کے لیے اکسا تی رہتی۔
عرض یہ کرنا ہے کہ راہلؔ اسکول سے اپنی مختلف عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے تین بار اسکول سے نکالی گئی۔ جزئیاتی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے صرف اتنی سی بات سن لیجیے کہ آخری بار راہلؔ کا داخلہ جس اسکول میں ہوا وہاں کی ٹیچرز نے محسوس کیا کہ وہ (۱) بہت نرم خو بچّی ہے! (۲)اس کی کوئی سہیلی نہیں!
راہلؔ کی تنہائی اور اس کی نرم خوئی اس کے ذہن و فکر کی تعمیر و تشکیل میں جانے انجانے اپنے اثرات مرتّب کرتی چلی جارہی تھی۔ پورے ناول میں اس قسم کے لطیف حسّیاتی مشاہدوں کی بھرمار ہے۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ راہلؔ کی ذہنی اور فکری نشو و نما از خود ہوتی چلی جارہی تھی۔ میرے نزدیک یہ ایک قسم کی خود رَو تخلیقی صورت حال ہے۔ فکر و فن سے یہ نبرد آزمائی ناول نگار کے فن کارانہ اوج کمال کا غمّاز ہے۔ اس میں ناول نگار کی فنّی اور تخلیقی پُراسراریت بھی پنہاں ہے۔ چنانچہ راہلؔ کی ٹیچرز یہ جان ہی نہیں پائیں کہ وہ زندگی کے اصل راز سے کس قدر قریب پہنچ گئی تھی۔ فکر و فلسفہ کی اس توجیہ پسندی کے حوالے سے ذیل کے اس فکر انگیز اقتباس کو ملاحظہ فرمائیے!
”حد درجہ بے اعتنائی بھی کسی وقت حادثاتی ابال کا سبب بن جاتی ہے۔ راہل کو تو کوئی بتانے، سکھانے والا تھا ہی نہیں۔ کوئی نہیں تھا جو اس کے لیے بڑے ارمانوں سے جہیز اکٹھا کرے۔ اس کی شادی کے خواب دیکھے۔ اور چونکہ کوئی نہیں تھا۔ اس لیے راہلؔ آزاد تھی کہ اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات خود ہی تلاش کرلے۔ اسے خود ہی جاننا تھا کہ چھاتیوں سے ٹکرایا جائے تو چوٹ لگتی ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ بالوں کا مصنوعی جوڑا جلتا ہوا کیسا لگتا ہے؟ زندگی کیا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب راہلؔ کو خود ہی تو کھوجنے تھے۔“
اس اشاراتی اور استعاراتی تخلیقی گفتگو کو پیش نظر رکھیے اور غور فرمائیے کہ راہلؔ کی محرومیاں اور گھریلو اور سماجی بے اعتنائیوں کی وجہ سے اس کا ذہن و فکر تو آزاد ہو ہی چکا تھا ساتھ ہی اس کی فکری اور ذہنی نشو و نما کی نموپذیری ایک خود رَو صورت میں ہوتی چلی جارہی تھی۔ تنہائی اور مربّیانہ سرپرستی سے عاری راہلؔ کے محروم وجود میں اچھّے اور بُرے میں تمیز کرنے کا شعور از خود پیدا ہوتا چلا جارہا تھا۔ ذرا اس پہلو پر بھی غور فرمائیے کہ وہ اسکول سے اس لیے نکالی گئی کہ وہ اپنی سنیئر لڑکیوں کی چھاتیوں سے ٹکرا کر یہ محسوس کرنا چاہتی تھی کہ ٹکرانے سے چوٹ لگتی ہے یانہیں! یہ ایک عجیب و غریب نفسیاتی صورت حال ہے کہ راہلؔ کا وجود لطف اندوزی اور تلذّذ پرستی کے جنسی اُبال سے خالی ہوچکا تھا۔ وہ تو چھاتیوں سے اس لیے ٹکرانا چاہتی تھی کہ اس عمل سے اسے چوٹ کا احساس ہو۔ لطف اندوزی اور چوٹ کے فرق کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ لہٰذا راہلؔ جن سخت کوشیوں سے جوجھ رہی تھی، اس عمل میں بھی وہ اُنھی سخت کوشیوں کی متقاضی تھی۔ چوٹ ایک قسم کی سخت کوشی ہی تو ہے۔ جس میں سختی اور Toughness کا پہلو پوشیدہ ہے!
اموّؔ، راہلؔ اور ایستھاؔ کی محرومیوں کی یہ داستان پورے ناول میں پھیلی ہوئی ہے۔ جس میں خانگی اور سماجی بے اعتنائیاں شاہِ کلید کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس ناول میں ارندھتیؔ رائے ادب کی سماجیات کے ساتھ ادب کی نفسیات کی ایک منفرد و معتبر تخلیقی فن کار کی صورت میں بھی نظر آتی ہیں۔ جس میں ان کی مہذّب اور شائستہ تخلیقی فکر و سوچ کی جھلکیاں جا بہ جا دیکھنے کو ملتی ہیں۔ وہ اس بنیادی نکتہ سے باخبر ہیں کہ ادب ایک مہذّب اور شائستہ تخلیقی اور علمی سرگرمی ہے۔
اسکول کی تعلیم سے فراغت پانے کے بعد راہلؔ، جب دہلی کے آرکی ٹیکچرل کالج میں زیر تعلیم تھی تو وہاں اس کی ملاقات لیری مکلینؔ سے ہوئی۔ جو ان دنوں دہلی میں اپنے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے مواد اکٹھا کرتا پھر رہا تھا۔ راہلؔ، جدید زمانے کی جدید لڑکی تھی۔ لیکن اوباش صفت نہیں تھی۔ مہذب اور شائستہ تھی۔ لہٰذا دونوں کے درمیان شادی ہوگئی۔ لیکن دقت یہ ہے کہ Couple اگر انٹلکچوئل ہو اور طرز فکر کے تئیں دونوں کے اپنے الگ الگ Commitment ہوں تو ایسی صورت میں فکر و سوچ کی سطح پر مفاہمت پسند ہونا ذرا مشکل ہوجاتا ہے! فکر کی انا پسندی حائل ہوجاتی ہے۔ اسے آپ شخصیت کی Integrity سے تعبیر کرسکتے ہیں نہ کہ فکر و سوچ کی کج روی! خیر نتیجہ جو ہونا تھا سو ہوا۔ ازدواجی زندگی تادیر قائم نہ رہ سکی اور علاحدگی ہوگئی!
لیریؔ جب راہل کو چھوتا اور اپنی آغوش میں لیتا تو خود سپردگی کے ان لمحات میں راہل کی آنکھوں نے اسے بیزار کردیا۔ بہ ظاہر تو وہ ایسا محسوس کررہا تھا کہ ان آنکھوں میں ناامیدی اور لاتعلقی کے بین بین کوئی چیز تھی۔ لیکن اس اسرار پر سے پردہ نہیں اُٹھاسکا۔ پراسرار دانشورانہ شخصیت ایسی ہی ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ بعد کے دنوں میں لیریؔ کو راہلؔ کی آنکھوں میں امید کے دیے نظر آئے ہوں۔ لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی۔ اور اس طرح راہلؔ کی زندگی میں ایک بار پھر جذبہ و احساس کی وارفتگی سے محرومیوں کی ایک نئی داستان شروع ہوگئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناول کے بین السطور سے کہانی جھانکتی رہتی ہے۔ اور قاری اس کو سطح پر لانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ میرے نزدیک یہ ایک قسم کی چھُپی اور دبی ہوئی بیانیاتی تکنیک ہے۔ (Embedded Art of Narratology)
خیر طلاق کے بعد راہلؔ نیویارک چلی گئی۔ وہاں اس نے کچھ عرصہ ویٹرس کا کام کیا۔ بعد میں ایک طویل عرصے تک ایک گیس اسٹیشن کے بلٹ پروف کمپنی میں نائب کلرک کی حیثیت سے کام کرتی رہی۔ جہاں اسے طرح طرح کے تماشے دیکھنے کو ملتے۔ کبھی کوئی شرابی رقم کی ٹرے میں قے کر ڈالتا تھا اور کبھی کوئی نشے کی جھونک میں اسے پرکشش ملازمت کی پیشکش کرتا تھا۔
راہلؔ زندگی کے تجربے کی تیز و تند اور تلخ و شیریں لہروں سے ٹکرارہی تھی۔ ساتھ ہی محرومی اور تنہائی کے احساس سے بھی پیچھا نہیں چھوٹ رہا تھا۔ حالانکہ اس احساس کے نتیجے میں زندگی کے نئے نئے تجربوں سے اس کی آشنائی ہوتی چلی جارہی تھی۔ لیکن اس درمیان:
”بے بی کوچا ما نے اسے لکھا کہ ایستھاؔ لوٹ آیا ہے۔ راہلؔ نے اپنی نوکری چھوڑدی اور پھر سے آئینام کی بھیگی سی فضا میں ایستھاؔ کودیکھنے کے لیے امریکا سے خوشی خوشی روانہ ہوگئی۔“
ایستھاؔ تیس (٣٠) برسوں تک کلکتّے میں اپنے باپ کے پاس تنہائی اور بے گانگی کی زندگی گزار رہا تھا۔ اور اب وہ آئینام واپس لوٹ آیا تھا۔ ظاہر ہے کہ راہل  اور ایستھاؔ ان دونوں کے پاس رشتوں کی پاس داری اور قربتوں کا احساس تو تھا ہی بھلے ہی”آئینام ہاؤس“ میں ان دونوں کو جذبہ و احساس کی پامالی اور دیگر سماجی اور معاشرتی وابستگیوں سے محرومیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ان محرومیوں سے نبردآزمائی کی جو فن کارانہ مصوّری اس ناول میں کی گئی ہے وہ محترمہ رائےؔ کا ایک اچھوتا اور نادر الوجود فنّی کارنامہ ہے! راہلؔ کے امریکا سے خوشی خوشی واپس آنے کے اس واقعہ کو میں اسی پس منظر میں دیکھتا ہوں!
مذکورہ مکالمے کے بین السطور میں پوشیدہ اس فکر و فلسفہ پر غور فرمائیے کہ امریکا اور دیگر یوروپی ممالک میں مقیم تارکین وطن مادّی آسائشوں میں مگن اپنے وطن کو جائے اماں تصور نہیں کرتے۔ بے گھری اور بے وطنی کے احساس سے عاری وہ اُن چھوٹی چیزوں کو خدا تصوّر کرنے لگتے ہیں جو واقعتاً خسارے کا خدا ہے! ناول کے اگلے چار اختتامی ابواب میں اس مسئلے پر ناول نگار کی تخلیقی گفتگو دعوت غور و فکر دیتی نظر آتی ہے!
مذکورہ تین مرکزی کرداروں کے علاوہ ایک کردار ویلتھاؔ پر بھی نظر پڑتی ہے جس کا تعلق ناول کے مین اسٹریم سے تو نہیں ہے۔ البتہ اس کردار کے وسیلے سے ناول نگار کے ریڈیکل نظریات و عقائد پر روشنی پڑتی ہے!
ویلتھا ؔ —-ویلائیا پاپن کا بیٹا۔ سرخ پرچم کا ہمنوا ایک انقلابی Activist ذات کا بڑھئی —- اچھوت اور نچلی ذات سے تعلق رکھنے کی وجہ سے سماج کے طبقۂ اشراف (Elite Class) کے لوگوں کے ظلم وستم کا نشانہ بنتا نظر آتا ہے۔
پہلے اس تاریخی پس منظر اور ان عوامل و عواقب پر نگاہ ڈالتے چلیں جس کی رُو سے کیرالہ کی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے Elite Class کے لوگ اچھوت عیسائیوں کے ساتھ کس قسم کا امتیازی سلوک اور سماجی نابرابری کا رویّہ اپنا یا کرتے تھے!
”جب انگریز مالابار ساحل پر اترے تو پراوان، پیلایان اور پولیاس ذاتوں کے بہت سے افراد کی طرح ویلتھا کا دادا کیلانؔ بھی مسیحیت کی آغوش میں آگیا۔ اور اچھوت بننے سے نجات پانے کے لیے اینگل کن چرچ میں شمولیت اختیار کرلی۔ اضافی خوبی یہ تھی کہ چرچ انھیں کھانا اور پیسے بھی دیتا تھا۔ انھیں ”چاولوں والے عیسائی“ کہا جانے لگا۔ انھیں یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ وہ چولہے سے نکل کر تندور میں گر گئے ہیں۔ انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ علاحدہ چرچ بنائیں۔ ان کے لیے علاحدہ سروس ہو اور ان کے پادری بھی علاحدہ ہوں۔ انھیں یہ خصوصی رعایت دی گئی کہ ان کا اپنا بڑا پادری بھی ہوگا۔“
ارندھتی رائے Left wing کی سماجی نابرابری اور اشتراکی نظریے کی حامل ایک اعلا درجے کی دانشور قلم کار اور تخلیقی فن کار ہیں۔ لیکن یہ بھی نشان خاطر رہے کہ وہ نظریات و عقائد کے تخلیقی اظہار میں توازن و اعتدال کے فن کارانہ طور طریقوں سے بھی باخبر ہیں۔ چنانچہ اس ناول میں بھی انھوں نے سماجی نابرابری اور اچھوتوں کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم کے اظہار میں اپنے باغیانہ تیور سے تو کام لیا ہی ہے۔ لیکن ان کی اشاراتی اور استعاراتی تخلیقی گفتگو نے معاملات و مسائل کو حد درجہ سبلائم کردیا ہے۔ یہ بھی ذہن نشیں کرتے چلیں کہ سماجی نابرابری کا یہ معاملہ صرف مسیحی برادری کے عیسائیوں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ سماج کے دوسرے طبقوں میں بھی اس قسم کا متعصّبانہ رویّہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اب یہ دوسرا معاملہ ہے کہ محترمہ رائے نے اس ناول میں اپنی تخلیقی فکر کو کیرالہ کی عیسائی برادری پر ہی کیوں فوکس کیا! اس کی ایک توجیہ تو یہی سمجھ میں آتی ہے کہ کیرالہ کے عیسائیوں کی سماجی زندگی کے حوالے سے محترمہ رائے کا تجربہ و مشاہدہ بالکل جداگانہ اور ذاتی تھا۔ چنانچہ بیانیہ میں اثرانگیزی اسی راستے سے پیدا ہوئی۔
ناول کے دسویں باب کا نام ”کشتی میں دریا“ ہے۔ یہ نام ہی اپنے آپ میں تلمیحی، استعاراتی اور علامتی ہے۔ جس میں کشتیِ نوحؑ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ اس سے قطع نظر اس باب میں مسلسل ظلم و ستم کے نتیجے میں ویلتھا کا ذہن باغی ہوچکا تھا۔ ناول نگار نے اس کے تخلیقی اظہار میں جس قسم کے استعاراتی اور علامتی طریقۂ کار کو اپنایا ہے، میرے خیال میں یہ ناول نگار کے کمال فن کی انتہا ہے۔
”ویلتھاؔ نے کندھے جھٹکے اور تولیہ دھونے چلا گیا۔ سختی سے صابن رگڑتے، ڈنڈے سے تولیے کوٹتے اور کس کے نچوڑتے ہوئے اسے لگ رہا تھا۔ یہ تولیہ نہیں اس کا باغی ذہن ہے۔“
ناول کے اٹھارہویں باب کا نام ”دی ہسٹری ہاؤس“ ہے۔ اس باب کا آغاز ہی اس مکالمہ سے ہوتا ہے!
”اونچی جاتی کے پولیس والوں کے جتّھے، اپنی جیبوں میں ہتھکڑیاں چھنکاتے چل پڑے۔“
اس باب میں چیونٹیوں کی علامت و استعارہ، قاری کے تفہیمی شعور کے لیے ایک امتحان گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ذیل کے اس مکالمہ کو ملاحظہ فرمائیے!
”چیونٹیوں کے بِل بارش نے تباہ کردیے تھے۔ اب وہ گزری صدیوں کی طرح فقط اپنے نشان ہی رہ گئے تھے۔“
”ہسٹری ہاؤس“ گزری صدیوں کی طرح فقط ایک نشان کی صورت میں کھڑا تھا۔ قدیم بوسیدہ اور ویران سی عمارت جہاں مارکسسٹوں کے سرخ پرچم لہرایا کرتے۔ جو انقلابی اور اشتراکی تحریک کا مرکز تھا۔ اسی ہسٹری ہاؤس میں ایستھاؔ اور راہلؔ کی موجودگی کو ناول نگار نے دانستہ طورپر درج کیا ہے۔ کیونکہ وہاں ویلتھاؔ بھی موجودتھا۔ بلکہ یوں کہیے کہ روپوشی کی زندگی گزار رہا تھا۔ لیکن ہسٹری ہاؤس میں اونچی جاتی کی پولیس کے جتھّے ویلتھاؔ کے تعاقب میں ہی آئے تھے۔ ذیل کے اس مکالمے میں احتجاج اور طنز کی تیز دھار کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
”اونچی جاتی کے مستقبل کی فکریں ان کے ناتواں مگر قابل کندھوں پر تھیں۔“
ذرا اس نکتہ پر غور فرمائیے کہ کندھے ناتواں ہیں مگر ذہین اور چالاک تو ہیں ہی۔ فکر و نظر کی دانشورانہ سطح پر طبقاتی کش مکش اور جارحیت کے اس فکر انگیز تخلیقی مکالمہ کو پیش نظر رکھیے اور یہ دیکھیے کہ پولیس والوں نے
”ٹھوکروں سے ویلتھاؔ کو جگایا۔"
پولیس والے ویلتھاؔ کو زدوکوب کررہے تھے۔ سردست اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا کہ طبقاتی کش مکش کے حوالے سے ناول نگار کی یہ داستان سرائی حق بجانب ہے کہ نہیں! البتہ سماجی نابرابری کے تئیں ناول نگار کی تخلیقی معقولیت پسندی ہمارے لیے ایک Point of Ponder (سوچنے اور غورکرنے کے لیے ایک لمحہ) تو ضرور فراہم کرتی ہے!
”اگر وہ ویلتھا کو اس سے زیادہ مار رہے تھے جتنا وہ مارنا چاہتے تھے تو اس کی واحد وجہ یہی ہوسکتی تھی کہ اس سے ان کی قرابت داری تھی۔ وہ بھی ایک انسان تھا انھی کی طرح (کم از کم ظاہری کے حساب سے)۔ وہ ایک انسان کو گرفتار نہیں کررہے تھے۔ بلکہ کسی بدروح کو بھگاتے معلوم ہورہے تھے۔ ان کے پاس کوئی ایسا آلہ نہیں تھا جس کے ذریعے وہ ناپ تول کر اس کے لیے سزا کی حد مقرر کرتے اور اُس کے لیے بھی کوئی پیمانہ نہیں تھا کہ اُسے کتنا نقصان پہنچانا ہے۔“
ویلتھاؔ کی اس گرفتاری کو ناول نگار ”خسارے کا خدا“ تصوّر کرتی ہیں۔ اس باب کا اختتام اس مکالمے پر ہوتاہے!
”وہ چل نہیں سکتا تھا۔ اس لیے وہ اسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ کسی نے انہیں دیکھا۔ چیونٹیاں تو اندھی ہوتی ہیں۔“
مشاہدے کی اس باریک بینی کی جتنی بھی داد دیجئے کم ہے! چیونٹیاں واقعتا اندھی ہوتی ہیں۔ اس مکالمے میں ناول نگار کے احتجاج کی تیزی و تندی دیکھی جاسکتی ہے۔ یاد رکھیے نری فلسفہ طرازی فکشن نہیں ہے۔ البتہ فکشن میں فلسفے کی آمیزش اس کی تخلیقی اثر انگیزی میں اضافے کا سبب تو بنتی ہی ہے۔
مذکورہ سبھی کردار، ناول کے بنیادی اور مرکزی کردار ہیں۔ جن کے گِرد کہانی گھومتی رہتی ہے۔ بقیہ کرداروں کی حیثیت محض ایک Supporting tools کی ہے جو کہانی کو carry کرنے میں معاون نظر آتے ہیں!
ناول کے باب۔13 کا عنوان ”قنوطی اور خوش امید“ ہے۔ باب۔15 کا عنوان”کراسنگ“ اور باب_20 کا عنوان ”مدراس میل“ ہے۔ ان تینوں ابواب میں ناول کے مرکزی خیال اور فکر و فلسفہ ”چھوٹی چیزوں کے خدا“ اور ”خسارے کا خدا“ کو تخلیقی فن کا حصّہ بنایا گیا ہے۔ لیکن اس فکر و فلسفہ کی تعبیر و تفہیم کے لیے ماقبل اور مابعد کے سیاقی اور تناظراتی ماجرا و واقعات کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت آن پڑتی ہے! جو آسان کام نہیں ہے!
اب یہ دیکھیے کہ ”کراسنگ“ والے دو صفحے کے اس باب میں بیانیہ کی ایک پُر اسرار فضا دیکھنے کو ملتی ہے!
ایک نوجوان کا ہیولا اجاگر ہوتا ہے جو دریا میں اترتا ہی چلا جارہا تھا!
”چندمنٹ میں دریاکے پار تھا۔ اپنے بدن سے گہری تاریکی میں اس نے تاریک پانی میں سے اپنا آپ جیسے کھینچ کر نکالا اور کھڑا کردیا۔“
وہ ہسٹری ہاؤس کی طرف چل پڑا۔ ایک ویران سی تاریخی عمارت جو انقلابی تحریکوں اور سرخ پرچم کے ہمنوا انقلابیوں کا مرکز تھا۔
وہ ”کسی تنہا بھیڑیے“ کی طرح ”تاریکی کے دل“ کی جانب چلا جارہا تھا۔ اس تنہا بھیڑیے اور تاریکی کے دل کی مزید وضاحتی توجیہ ناول کے سولہویں باب”چند گھنٹے بعد“ کے اختتامی مکالمے میں ہوتی نظر آتی ہے!
”لیکن موٹے ہونٹوں والا شخص دوسری طرف کے موقف سے آگاہ نہیں تھا کہ کیسے اونچی جاتی سے تعلق رکھنے والے پولیس کے سپاہیوں کے جتھّے نے چڑھا ہوا دریا عبور کرکے بھیگی گھاس اور خود رَو پودوں کو کچلتے ہوئے ”تاریکی کے دل“ پر ہلّہ بولا تھا۔“
بیانیہ کے اس وضاحتی طریقۂ کار کو پیش نظر رکھیے اور غور فرمائیے کہ ”تاریکی کے دل“ پر ہلّہ بولنے والے وہ تنہا بھیڑیے”پولیس کے وہ جتھّے ہی تو تھے جو ”ہسٹری ہاؤس“ پر دھاوا بول رہے تھے۔
ناول نگار اس”تاریکی کے دل“ کو چھوٹی چیزوں کا خدا اور خسارے کا خدا تصورکرتی ہیں! کیونکہ نظریات تو مرتے ہیں نہیں پھر ان پر ہلّہ بولنے کا کیا فائدہ۔ یہ بھی غور فرمائیے کہ پولیس کے وہ جتھّے اپنے پراسرار وجود کے ساتھ جس شخص کی تلاش میں جارہا تھا اس کا جسم بالکل عریاں مگر اس کے ناخن سرخ رنگ سے ڈھکے تھے۔ اس اعلا درجے کی دانشورانہ اشاراتی تخلیقی فضا بندی کی جتنی بھی داد دیجیے کم ہے! سرخ رنگ سے ناخن کا ڈھکا ہونا اشتراکی اور اشتمالی سرگرمیوں کا اشاریہ ہے اور وہ نوجوان جو تاریکی کے دل میں اترتا چلا جارہا تھا، ناول نگار کے نزدیک چھوٹی چیزوں کے خسارے کا خدا کے سوا کچھ نہیں!
مجھے اس سے بحث نہیں کہ نظریات و عقائد کی سطح پر ناول نگار کا یہ فکری موقف آپ کے لیے قابل قبول ہے یا نہیں۔ البتہ اس تجزیاتی گفتگو کے وسیلے سے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ محترمہ رائے فکر و فن کی سطح پر کس حد تک ایک چابک دست تخلیقی فن کار ہیں۔
ناول کے ”مدراس میل“ والے باب میں چھوٹی چیزوں کے خسارے کے خدا کو ”اُبھرے ہوئے گو مڑوں اور کوندتی مسکراہٹوں کا خدا“ کا Metaphorical تخلیقی اظہار ناول کے وضاحتی بیانیہ کو مزید جلا بخشتا نظر آتاہے!
ممکن ہے کہ مبتلائے آزار شہروں پر بارش جس زبان میں اور جن لوگوں پر ہوتی ہے، وہ ”سسکتے لوگ“ہی ہوں!
Izhar Khizer
Old City Court
Khalasi Tola, Near-Uma Petrol Pump
Patna -800007
Mob: 9771954313
***
صاحب تجزیہ کی یہ نگارش بھی پڑھیں: اردو کا ماضی اور اس کی موجودہ صورتِ حال!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے