نئے رسم و رواج میں گم ہوتی ہماری موروثی تہذیب

نئے رسم و رواج میں گم ہوتی ہماری موروثی تہذیب

محمد شہباز عالم مصباحی
سرکار پٹی، گنجریا، اسلام پور، ضلع اتر دیناج پور

سورجا پوری آبادی ایک بڑے خطے پر مشتمل ہے جس میں ضلع کٹیہار، ضلع پورنیہ، ضلع کشن گنج، ضلع ارریہ، ضلع اتر دیناج پور آتے ہیں۔ یہ بڑا خطہ در اصل مغلیہ عہد اور اس سے ماقبل کے عہد میں زمین داروں کا رہا ہے۔ زمین دار لوگ ہی اس علاقے کے نگراں تھے اور بہت سی جگہ اب بھی ہیں۔ زمین داروں کے پاس کئی کئی سو ایکڑوں پر مشتمل زر خیز زمین تھی اور وہ اس میں اپنے ماتحت لوگوں کے ذریعے کاشت کاری کرتے تھے اور کاشت کاری یا زراعت ہی در اصل اس علاقے میں زمین داروں کا ذریعۂ معاش تھی اور زمین داروں کے علاوہ افراد کا ذریعۂ معاش محنت و ایمان داری سے مزدوری کرنا۔
دو ایک ظالم زمین داروں کو چھوڑ کر اکثر زمین داروں اور مزدوروں کے درمیان محبتانہ تعلقات تھے اور زمین دار اپنے مزدوروں کے حد درجہ بہی خواہ ہوتے تھے۔ یہ سورجاپوری علاقے کی ایک مختصر معاشی تصویر میں نے پیش کی۔ باقی رہی تہذیبی و تمدنی تصویر تو وہ یہ تھی کہ تمام زمین داروں کے اپنے کھلیان ہوتے تھے جن میں پکی فصلیں کھیت سے لاکر ایک کنارے رکھی جاتی تھیں تاکہ ان سے اناج برآمد کیا جاسکے اور ایک کنارے مویشیوں اور جانوروں کے تھان ہوتے تھے اور ایک کنارے ایک عدد بڑا سا باہری گھر جس میں زمین دار صبح سے شام تک بیٹھتے تھے اور بعض تو اسی میں سوتے بھی تھے۔ تمام ملنے جلنے والے، مزدور اور باہر کے مردانہ مہمان یہیں آکر زمین دار صاحب سے ملتے تھے۔ اندر زنان خانوں میں گھر کے افراد کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ انتہائی خاص مہمانوں کو اندر کھانا کھلایا جاتا، ورنہ باہر ہی باہری گھر میں کھانے کے دسترخوان چنے جاتے، البتہ رخصت ہوتے وقت رشتہ دار مہمان، مستورات سے ملاقات کے لیے اندر ایک بار جاتے اور مستورات مکمل پردے میں مردانہ مہمانوں سے ضرورت بھر ملتیں اور پھر مہمان رخصت ہو جاتے تھے، بلکہ بعض اوقات تو مہمان مستورات سے ملے بغیر باہر ہی سے روانہ ہوجاتے تھے۔
زنان خانوں سے باہر کھلیانوں میں آنے کی گھر کی مستورات کو بالکل اجازت نہیں تھی اور نہ ہی کسی کی مجال تھی کہ وہ باہر نکل سکے۔ بزرگوں اور مردوں کا دبدبہ تھا اور مستورات کے اعصاب پر ان کا خوف ہمہ دم طاری رہتا تھا۔ مستورات حیا و ادب کی پیکر تھیں۔ اکثر گھروں میں کام کرنے والی عورتیں ہوتی تھی جو کوڑا وغیرہ پھینکنے کے لیے باہر آتی تھیں، مستورات میں سے کوئی نہیں۔ مستورات کو کسی رشتہ دار کے یہاں مہمان داری میں لے جانے کے لیے سواری گاڑیوں کا انتظام کیا جاتا تھا جو اکثر زمین داروں کے گھر میں ہوتی تھیں اور اگر خود کی سواری گاڑی نہ ہوتی تو دوسرے کسی زمین دار کی سواری گاڑی مانگ کر لے جاتی۔ سواری گاڑی پردوں سے مستور ایک بڑی پالکی جیسی ہوتی تھی جسے مستنڈے قسم کے بیل کھینچ کر لے جاتے تھے۔
لیکن موجودہ حالات اس کے بالکل بر عکس ہیں۔ عورتوں پر مردوں کا اب کوئی رعب داب نہیں۔ باہری گھر بالکل ختم ہیں اور مہمان اور ملنے والے سیدھے اندر داخل ہوجاتے ہیں، جہاں مستورات رہتی ہیں. بلکہ بعض کے یہاں سیدھے بیڈ روم میں، عورتوں کا پردہ برائے نام ہے اور اپنے بیگانے سب کے سامنے یہ آ جاتی ہیں اور بے تکلفانہ بات کرتی ہیں اور کھلیانوں میں بھی حسبِ مرضی آتی جاتی رہتی ہیں، بلکہ بازاروں اور چوک چوراہوں میں بھی۔
سورجا پوری معاشرے میں پہلے شادیاں بھی بہت ہی مہذب انداز میں ہوتی تھیں۔ صرف ضروری خرچ کیے جاتے تھے۔ دولھا جو پہلے ہی سے تربیتی طور پر شریف ہوتا اسے اور زیادہ شریف بنانے کی کوشش ہوتی اور بالکل شرافت آشکار کپڑے پہنائے جاتے۔ دلہن حیا و ادب کی پیکر ہوتی تھی۔ مجال نہیں تھی کہ کوئی دلہن مہینوں تک نگاہ اوپر اٹھا کر کسی کو دیکھ سکے چہ جائیکہ شادی کے دن۔ اس دن تو وہ اپنے باپ کے گھر میں رخصتی سے پہلے اور شوہر کے گھر میں رخصتی کے بعد شرم و حیا کی دیوی معلوم ہوتی تھی۔ خاص رشتہ داروں کو صرف تعارف کے لیے چہرہ دکھایا جاتا جو مکمل گھونگھٹ میں چھپا ہوتا تھا اور جسے گھر کی کوئی عورت اٹھاکر دکھاتی اور دلہن کی نگاہیں شرم سے بالکل جھکی ہوتیں۔ دلہن کا لباس بہت ہی مہذب اور شریفانہ ہوتا۔ مہینوں گزرنے کے بعد جب تھوڑی بہت بے تکلفی ہوجاتی تو دلہن کا گھونگھٹ کم ہوتا، لیکن باقی اور پردے میں کوئی کوتاہی نہیں ہوتی۔
لیکن سورجا پوری برادری میں آج کل شادیوں کی تقریب میں نئے نئے بے حیا رسم و رواج در آئے ہیں۔ بے جا نام و نمود کے لیے زمین بیچ کر اور سودی قرض لے کر شادیانہ تقریبات ہو رہی ہیں۔ مہنگے سے مہنگے کارڈ چھاپے جاتے ہیں، چار چار پانچ پانچ موٹے تازے جانور خرید کر دعوت کھلائی جاتی ہے، بارات سے دو ایک دن پہلے رسم ہلدی نام سے ایک نئی بدعت ایجاد ہوئی ہے جس میں دولہا سے لے کر اس کے تمام بھائی بہن اور دوست یار پیلے رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں اور یہ سارے کپڑے دولھے کے باپ یا گارجین کو خریدنے ہوتے ہیں۔ دولھے کو ہلدی اکثر اس کی بھابھیاں اور بہنیں لگاتی ہیں جن میں چچا زاد بہنیں بھی ہوتی ہیں جب کہ ان سب کو دولھے کو ہلدی لگانا تو دور، چھونا بھی جائز نہیں، کیوں کہ یہ سب کے سب غیر محرم ہیں، شادی کے دن مہنگے سے مہنگے ہال سجائے جاتے ہیں اور پھر مزید یہ کہ دولہن کے لیے ایک خاص نشست گاہ بنائی جاتی ہے جہاں دولہن کو نمائشی سامان کے طور پر سجا دھجا کر بٹھایا جاتا ہے اور پھر اپنے بیگانے، محرم غیر محرم سب دولہن کے رخ زیبا کی زیارت کرتے ہیں اور آج کل کی دولہنیں بھی اس قدر بولڈ ہوتی ہیں کہ بلا کسی جھجک کے سب کو اپنے چہرے کی زیارت سے شادکام کرتی ہیں، یعنی نظارۂ حسن عام ہے۔
یوں ہی پرانے سورجا پوری معاشرے میں ختنہ سے پہلے بھوج بھات، عقیقہ کے نام پر بھوج بھات اور نذرانہ وصولی، حج سے پہلے دعوت طعام اور پھر نذرانہ لینا، عمرہ پر جانے سے پہلے لاکھوں روپے خرچ کرکے کھانا کھلانا؛ ان سب کا کوئی رواج نہیں تھا۔ بڑا سے بڑا زمین دار اپنے بچوں کا ختنہ بلا کسی تقریب کے کرا دیتا تھا، بلکہ کوشش یہ ہوتی تھی کہ گھر کی کسی شادی میں بچہ کو سجا دیا جاتا اور چند رشتہ دار اس کے ہاتھ میں کچھ روہے دیتے تھے تاکہ اس کی دل جوئی ہوجائے اور پھر ختنہ کردیا جاتا تھا۔ حج پر جانے والے ویسے بھی کم تھے اور جو جاتے تو سادگی سے چلے جاتے۔ ہاں! جاتے دن لوگ ملنے آتے اور دعا سلام کے ساتھ انھیں حج پر روانہ کر دیتے تھے۔ عمرہ کا تو کوئی رواج ہی نہیں تھا۔
لیکن ادھر چند سالوں میں ہماری سورجاپوری برادری میں لوگ ختنے کی بھی تقریب کر رہے ہیں جس میں لاکھوں روپے پانی کی طرح خرچ کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس ختنے کو اتنا آسان بنایا تھا اور پرانے سورجا پوری معاشرے میں وہ آسان تھا بھی، ہم نے نام و نمود کے لیے اسے بھی مہنگا کردیا۔ اب ایک غریب باپ اپنے بچے کا ختنہ دلانے کے لیے بھی سو بار سوچتا ہے اور ایسا صرف بے جا رئیسی بگھاڑنے والوں کی وجہ سے ہو رہا ہے تو کیا کل قیامت کے دن ہمیں اس کا جواب نہیں دینا ہوگا؟ رسول اللہ کی آسان سنت کو اس طرح سے پیچیدہ بنانے والے کل کیسے رسول اللہ کو اپنا منھ دکھائیں گے؟ سب سے حیرت تو مجھے عمرہ کرنے والوں پر ہوتی ہے کہ پچاسی ہزار کا عمرہ کرتے ہیں اور اس پچاسی ہزار کے عمرے پر جانے سے پہلے دو تین لاکھ روپے خرچ کرکے بھوج بھات کا انتظام کرتے ہیں۔ اگر یہ دو تین لاکھ روپے اور عمرہ کے روپے ملا دیے جائیں تو وہ آدمی حج کر سکتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں لوگ عمرہ پر جاتے تھے یا نہیں؟ تو ظاہر سی بات ہے کہ بالکل جاتے تھے اور بالکل سادہ انداز میں جاتے تھے، جاتے وقت شاید بعض لوگوں سے مل لیتے ہوں گے یا بعض لوگوں کو معلوم ہو جاتا ہوگا، لیکن یہ بھوج بھات وغیرہ بالکل نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی اتنا شور و ہنگامہ۔ تو پھر رسول اللہ کے ماننے والے رسول اللہ کے زمانے کے طریقوں کو چھوڑ کر یہ کون سا طریقہ اپنا رہے ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہم عمرہ پر جانے سے پہلے رسول اللہ کو ناراض کرکے جاتے ہیں؟ تو پھر ایسا عمرہ کیا ہمارے کسی کام آئے گا؟ کون نہیں جانتا ہے کہ عقیقہ کے گوشت کو قربانی کے گوشت کی طرح تین حصے کرنا ہے۔ ایک حصہ غریبوں کو، ایک حصہ رشتہ داروں اور دوستوں کو دینا ہے اور ایک حصہ خود کے لیے رکھنا ہے۔ گوشت کچا بھی دیا جا سکتا ہے اور پکا کر بھی۔ بس اتنا ہی کرنا ہے۔ تو پھر عقیقہ کے نام پر اتنا بڑا بھوج بھات ہم سورجا پوری کیوں کرتے ہیں؟ آخر کیا ہوگیا ہے ہم سورجا پوریوں کو کہ ہم ہر چیز کو اپنی طبیعت سے مہنگی اور پیچیدہ کرتے جا رہے ہیں؟ جب کہ اسلام میں ایسا کچھ نہیں ہے اور یہ بہت سادہ اور آسان دین ہے۔
آئیے اسی پرانے سورجا پوری حیا دار معاشرے کی طرف پھر لوٹ چلیں۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور سنت رسول کی پیروی بھی۔ رب کریم ہمیں ہدایت عطا فرمائے اور دین کو آسان رکھنے اور معاشرے کو حیا دار بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:شہرِ تصوف میں چند دن

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے