شعر غالب کے فرانسیسی اور انگریزی تراجم

شعر غالب کے فرانسیسی اور انگریزی تراجم

محمد ریحان

ترجمہ نگاری کے بارے میں جہاں بہت ساری باتیں لکھی گئی ہیں وہاں یہ بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ یہ ایک مشکل فن ہے۔ معیاری ترجمہ کے لیے ضروری ہے کہ مترجم Source Language یعنی جس زبان سے ترجمہ ہونا ہے اور Target Language یعنی جس زبان میں ترجمہ ہونا ہے دونوں پر نہ صرف عبور رکھتا ہو بلکہ وہ دونوں زبانوں کی تہذیبی و تاریخی روایات سے بھی بہ خوبی واقف ہو۔ ادبی متن کا ترجمہ دوسرے علم کے متون کے ترجمے سے قدرے مشکل ہے کیونکہ ادبی متن کا سیاق و سباق اکثر معاشرتی، تہذیبی اور تاریخی ہوتا ہے۔ ہم ایک لفظ کے معنی کو دوسری زبان میں منتقل کر سکتے ہیں لیکن اس لفظ کے تہذیبی و معاشرتی Connotation کو دوسری زبان میں ایک لفظ کے ذریعہ پیش نہیں کر سکتے۔ جب بھی اس طرح کے متن کا ترجمہ کیا جاتا ہے تو اس کے لیے مترجم توضیحی نوٹ لگاتا ہے تاکہ قاری متن کے تہذیبی رنگ و آہنگ سے با خبر ہو سکے۔ شاعری کی لفظیات کا معاملہ یہ ہے کہ کبھی کبھی وہ جس زبان میں ہوتی ہے خود اس زبان میں اس کی وضاحت مشکل ہو جاتی ہے۔ اس کی تشریح کرنے کی کوشش میں ہم اس کے حسن کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ میں ڈاکٹر جانسن کے اس قول سے کلی طور پر متفق ہوں کہ شاعری کے حسن کو کسی دوسری زبان میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔۔ وہ لکھتے ہیں:
"The beauties of poetry cannot be
preserved in any written language except that in which it was originally written”

اردو شاعری میں غزل کا معاملہ تو اور زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہاں اشارہ، کنایہ، تشبیہ اور استعارے کی ایک پوری دنیا آباد ہوتی ہے۔ غزل کی انھی خصوصیات کی وجہ سے شعر کا موقف واضح نہیں ہوتا اور یہی چیز مترجم کے لیے مسئلہ پیدا کرتی ہے۔ غالب تو ایسے بھی تہہ دار شاعر ہے، اس کا ترجمہ ظاہر ہے آسان نہیں۔ کبھی کبھی غزل میں بالکل سامنے کے لفظ کو اتنے شعری انداز میں استعمال کیا جاتا ہے کہ دوسری زبان میں اس لفظ کا متبادل ہونے کے باوجود اس کا ترجمہ نہیں ہو پاتا۔ یہ شعر دیکھیں:

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

غالب کے اس شعر کے دوسرے مصرعے میں لفظ درد کے لیے انگریزی میں Pain, Ache, Pang اور فرانسیسی میں Douleur, Chagrin, Souffrance, Mal, Peine اتنے سارے الفاظ ہیں لیکن ان سے بات مکمل نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہاں درد سے مراد عشق بھی ہو سکتا ہے اور عشق میں ملنے والی ناکامی کا دکھ اور غم بھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ درد درد نہ ہو کر شاعر کا صرف وہم ہو۔ اسی طرح میر تقی میر کا یہ آسان سا شعر دیکھیں:

راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

یہاں عشق کا ترجمہ انگریزی میں Love , affection, attachment یا Fondness اور فرانسیسی میں Amour کہنے سے ترجمہ مکمل نہیں ہوجاتا۔ اس شعر میں ممکن ہے عشق سے مراد کسی بڑے مقصد کے حصول کی ابتدا ہو۔ دوسرے مصرع "آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا" میں دو باتیں ہو سکتی ہیں۔ شاعر یہ کہنا چاہتا ہو کہ تم ابھی سے پریشان ہونے لگے ہو۔ آگے آسانی پیدا ہوگی تم حوصلہ رکھو اور قدم آگے بڑھاتے جاؤ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شاعر یہ کہنا چاہتا ہو کہ تم ابھی سے پریشان ہورہے ہو جب کہ جس راہ پر تم نکلے ہو اس میں تو آگے چل کر مزید مشکلیں تمھارے سامنے آئیں گی۔ ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شروع شروع میں محبوب کے ناز و نخرے تو ہوتے ہیں۔ انھیں برداشت کرو کیونکہ آگے تو وصال کی لذتوں سے ہمکنار ہونا ہی ہے۔ یہاں اب کس مفہوم کو مترجم دوسری زبان میں منتقل کرے؟؟ اس لیے شاعری کے ترجمے کے سلسلے میں میرا ماننا ہے کہ یہ قریب قریب ناممکن ہے۔
شاعری کا ترجمہ ناممکن ہے لیکن اس کے باوجود غالب کا ترجمہ دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوا ہے۔ فرانسیسی زبان میں فرانسیسی نژاد آلاں دیزولیر نے اپنی کتاب۔

"Anthologie de la poésie ourdou: Reflet du Ghazal”
میں غالب کی چار غزلوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا ہے۔ غزلیں اس طرح ہیں:
١: دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
٢: دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
٣: یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
٤: کوئی امید بر نہیں آتی
اس کے علاوہ ایک رباعی "مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل" کا ترجمہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔

انگریزی میں غالب کے بہت سے تراجم ہوئے ہیں۔ کچھ نے مکمل دیوان کا ترجمہ کیا ہے تو کچھ نے منتخب غزلوں کا۔ یوسف حسین، رالف رسل، سرفراز نیازی، ڈیوڈ میتھیوز، او پی کیجریوال، خوشونت سنگھ، پروفیسر محمد ذاکر اور نجیب جنگ وغیرہ نے غالب کی غزلوں کو انگریزی میں منتقل کیا ہے۔
میں نے اس مضمون میں تین غزلوں کے کچھ اشعار کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ ان اشعار کے فرانسیسی ترجمے کے ساتھ ساتھ ان کے انگریزی تراجم پر بھی گفتگو کی ہے۔ شروع دل ناداں سے کرتا ہوں۔
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

پرفیسر آلاں دیزولیر نے اس کا فرانسیسی ترجمہ اس طرح کیا ہے:

Mon cœur innocent, que t’arrive-t-il
Le remède à cette douleur, où est-il

اردو میں "دل ناداں" ہے جس کا لفظی ترجمہ صرف ” cœur innocent ہے۔ فرانسیسی ترجمہ میں "Mon” کا اضافہ ہوا ہے جس کا مطلب ہے "میرا"۔ اگر ترجمہ شدہ پہلے مصرعے کی نثر کریں تو کچھ یوں ہوگا "میرے نادان دل تمھیں کیا ہوگیا ہے؟" شاعر نے نادان دل کو براہ راست مخاطب کیا ہے جس میں عمومیت کا مفہوم ہے جب کہ مترجم نے لفظ "میرا" کا اضافہ کر کے اس عمومیت کو ختم کر دیا ہے۔ اگر "دل ناداں" کے آگے Vocative Particle یعنی حرف ندا "Ô” لایا جاتا تو اس کی عمومیت جوں کی توں برقرار رہتی۔
میرے مطابق "دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے" کا ترجمہ ایسے کیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا:
Ô cœur innocent, que t’arrive t’il.

دوسرے مصرعے ” آخر اس درد کی دوا کیا ہے" میں "درد" اور "دوا" دو کلیدی الفاظ ہیں۔ اول الذکر کا ترجمہ "Douleur” اور ثانی الذکر کا "Remède” کیا گیا ہے۔ "Douleur” کا مطلب درد ہوتا ہے لیکن اس کا تعلق Physical Pain یعنی جسمانی درد سے ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر دل سے سوال کر رہا ہے کہ تمھیں کیا ہوگیا ہے اور دوسرے مصرعے میں درد کا ذکر کرکے یہ اشارہ دے رہا ہے کہ دل یعنی عاشق کو عشق میں ناکامی ہاتھ لگی ہے۔ دل کے ٹوٹنے پر درد ہوتا ہے لیکن یہ درد احساس و جذبات کا ہوتا ہے۔ اس درد کا مطلب رنج و غم ہوتا ہے۔ Emotional Pain کے لیے فرانسیسی زبان میں” Chagrin” لفظ مستعمل ہے۔ فرانسیسی زبان میں نفسیات کی ایک اصطلاح "Chagrin d’amour” ہے۔ اس کی تعریف ویکیپیڈیا میں اس طرح کی گئی ہے:
"peine qu’une personne éprouve lorsqu’une relation sentimentale se termine”
یعنی یہ ایک ایسا درد ہے جو ایک انسان کسی سے جذباتی رشتہ کے ختم ہونے پر محسوس کرتا ہے۔
مجھے لگتا ہے مترجم کو "Douleur” کی جگہ "Chagrin” یا "Peine” استعمال کرنا چاہئے تھا کیونکہ شعر میں درد سے مراد یہی "Chagrin d’amour” ہے۔
دوسرے مصرعے میں ردیف "کیا ہے" کا ترجمہ "Où est-il” کیا گیا ہے.”Où” کا مطلب "کہاں" ہوتا ہے۔ اس طرح "où est-il” کا مطلب ہوگا "کہاں ہے"۔ اس کی جگہ "Quel est-il” زیادہ مناسب ترجمہ ہے "Quel” کا معنی اردو میں”کیا" ہوتا ہے۔ دوسرے مصرعے کا ترجمہ ایسے کیا جا سکتا تھا. اس طرح اصل متن سے قربت باقی رہتی۔

Le remède à ce chagrin, quel est-il?
اب اس کے انگریزی تراجم پر پر نظر ڈالتے ہیں۔ "دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے" کا ترجمہ رالف رسل نے اس طرح کیا ہے:
O foolish heart, what has befallen you?
Do you know this sickness has no cure?

اکثر مترجم نے دل ناداں کا ترجمہ Foolish heart کیا ہے۔ David Mathews کا ترجمہ دیکھیں:
My foolish heart! What has become of you?
No cure for this pain? What can I do?
یوسف حسین نے کچھ الگ ترجمہ کیا ہے:
O simple Heart, what has befallen thee
What remedy can there be for thy pain?
اس کا ترجمہ O.P Kejriwal نے بھی کیا ہے لیکن انھوں نے Foolish اور simple کی جگہ Silly Heart استعمال کیا ہے۔
What ails you
You silly heart?
What could ease
This disease
And oh! This pain
What could be it’s medicine
اس ترجمہ میں ایک خامی تو یہی ہے جس کی طرف استاد محترم پروفیسر کوثر مظہری نے اشارہ کیا ہے کہ اس میں آخری کی دو لائنیں بھرتی کی ہیں۔ مجھے اس کے علاوہ ایک اور خامی نظر آتی ہے۔ ترجمہ میں دل کو جس انداز میں مخاطب کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دل کو گالی دی جا رہی ہے۔آ یک بار پھر سے ملاحظہ کریں۔
What ails you
You silly heart?

پروفیسر کوثر مظہری نے دل ناداں کے لیے Foolish Heart کو زیادہ موزوں بتایا ہے اور اس سے بھی زیادہ موزوں Silly Heart کو کہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ترجمہ مناسب نہیں ہے۔ دل کی مناسبت سے اس کا ترجمہ Innocent زیادہ صحیح ہے۔ Foolish یا Silly انسان دماغ سے ہوتا ہے جب کہ عشق کا معاملہ دل سے ہوتا ہے اور دل کی نادانی معصومیت کے زمرے میں آتی ہے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ درد کے لیے کسی نے Grief یا Sorrow لفظ کا استعمال نہیں کیا ہے۔ دل کا درد جو محبوب کی بے وفائی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اس کے لیے sickness, pain یا disease جیسے الفاظ کا استعمال ایک Silly خیال ہے۔
اس غزل کا دوسرا شعر ہے:
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے
اس شعر میں صرف تین الفاظ "مشتاق"، "بیزار" اور "ماجرا" کلیدی ہیں۔ اکثر ترجمے میں آخر کے دو لفظوں کے لیے جو متبادل لائے گئے ہیں وہ لفظ کے سیاق و سباق سے میل نہیں کھاتے۔ اس کا فرانسیسی ترجمہ ملاحظہ کریں جو آلاں دیزولیر نے کچھ یوں کیا ہے:
Notre désir n’est que son déplaisir,
Mon Dieu, cet incident, à quoi rime-t-il

پہلے مصرعےکے ترجمہ میں اگر معنوی جھول نہں ہوتا تو ترجمہ بہت سلیس اور رواں تھا۔ "ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار" میں یہ بالکل واضح ہے کہ عاشق کے دل میں محبوب کے لیے چاہت ہے جب کہ معشوق کے دل میں عاشق کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ شعر میں معشوق کی وجہ بیزاری کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔ آلاں دیزولیر کے ترجمہ میں مذکورہ مفہوم دور دور تک نظر نہیں آتا۔ مجھے اپنی بات کی وضاحت کے لیے آلاں دیزولیر کے ترجمہ شدہ متن
"Notre désir n’est que son déplaisir”
کو انگریزی میں منتقل کرنا ہوگا۔ اس کا انگریزی ترجمہ کچھ اس طرح ہوگا:
Our desire is only her displeasure.
اب اس کے دو ہی مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہماری خواہش یا چاہت صرف اور صرف اس کی نا خوشی ہے۔ یعنی عاشق خود معشوق کو نا خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری یعنی عاشق کی محبت ہی معشوق کے دل میں بیزاری پیدا کر رہی ہے۔ یہ مفہوم بھی اس صورت میں نکلے گا جب "Our Desire” کے بعد کوما لگایا جائے۔ ان دونوں مفہوم کا غالب کے شعر سے کوئی تعلق پیدا نہیں ہو پا رہا ہے۔
دوسری لائن میں "ماجرا" کا ترجمہ incident ہے جس کو انگریزی میں incident کہتے ہیں۔ یہاں شاعر جس "ماجرا" کی بات کر رہا ہے وہ نہ در اصل کوئی حادثہ ہے اور نہ کوئی واقعہ بلکہ نہیں سمجھ میں آنے والا ایک معمہ، معاملہ اور مسئلہ ہے۔ مترجم نے اپنے ترجمہ میں Rhythm پیدا کرنے کے لیے "à quoi rime-t-il” کا استعمال کیا ہے جس سے ترجمہ میں تخلیقی حسن پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن لفظ "incident” نے سارا مزا کرکرا کر دیا۔ اس کا ترجمہ اس طرح ہو سکتا تھا:

Ô Dieu, Dis moi, que se passe-t-il

اس ترجمہ کو اگر کوئی غیر اردو داں پڑھےگا تو اس کے ذہن کے پردے پر یہ معنی ابھر کر سامنے آئے گا:
اے خدا! مجھے بتاو یہ معاملہ کیا ہے..اے خدا! مجھے بتاو یہ کیا ہو رہاہے؟؟
یہ دونوں مفہوم اصل متن سے قریب ہیں اور لفظ”ماجرا" کے شعری سیاق و سباق کے اعتبار سے بہت مناسب بھی۔
اس شعر کا انگریزی ترجمہ رالف رسل نے کچھ اس طرح کیا ہے:

I long for her, and she is weary of me
o Lord above, tell me, what does this mean?

یہ ترجمہ بہت سلیس اور خوب صورت ہے البتہ ایک لفظ "Weary” نے ترجمہ کے معنوی حسن کو میلا کر دیا ہے۔ جسمانی اور ذہنی طور پر تھک جانے کو Weary کہتے ہیں۔ اس کا ترجمہ تھکا ماندہ، اکتایا ہوا اور بیزار بھی ہو سکتا ہے۔ شعر میں معشوق کی بیزاری کا جو پس منظر ہے وہ کوئی جسمانی اور ذہنی بالکل بھی نہیں ہے۔ معشوق اپنے عاشق سے اس لیے کھینچا کھینچا ہے کہ اس کے دل میں عاشق والی چاہت ہے ہی نہیں۔ شاعر نے محبوب کی ایک ادا کو بیزاری کا نام دیا ہے۔ اس کے لیے”Weary” نا مناسب لفظ ہے۔ اگر اس کا ترجمہ اس طرح کیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا:
I long for her, and she has no emotion for me
O Lord above, tell me, what does this mean

یوسف حسین کا ترجمہ بہت سطحی ہے۔ مجھے لگتا ہے وہ ترجمہ کو بھاری بھرکم بنانے کی کوشش میں لفظوں کا صحیح انتخاب نہ کر سکے۔ ان کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
We have great longing for her, and she is disgusted with us
O Lord, what is the matter?

یہاں "Longing” کے ساتھ "Great” نہیں بھی ہوتا تو اس کے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ Longing کا مطلب ہی ہوتا ہے کسی شخص یا شے کے لیے شدید چاہت اور خواہش رکھنا۔
کیمبرج ڈکشنری میں اس لفظ کا مفہوم اس طرح بیان کیا گیا ہے:

a feeling of wanting something or someone very much

آکسفورڈ ڈکشنری میں بھی بالکل یہی مفہوم لکھا ہے۔
a strong feeling of wanting something/somebody

مجھے لگتا ہے بنا Great کے Great ترجمہ ہو سکتا تھا۔ اس ترجمہ میں Disgusted لفظ بھی بہت ناگوار لگ رہا ہے جو بیزار کے لیے استعمال ہوا ہے۔ کلاسیکی شاعری میں محبوب کی بیزاری سے عاشق اتنا مشتعل نہیں ہوتا جتنا یوسف حسین ہو گئے ہیں۔ معشوق کی بیزاری سے بھی عاشق لطف لیا کرتا ہے۔ معشوق کی بیزاری میں ایک ادا اور ایک نزاکت ہوتی ہے۔ اس کے لیے بہت ہلکا اور پر معنی لفظ لانا چاہیے تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ” She has no emotion for me” بہت خوب صورت ترجمہ ہوتا۔

"کوئی امید بر نہیں آتی" والی غزل کے کچھ اشعار کے تراجم کی رنگا رنگی پر نظر ڈالتے ہیں۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
آلاں دیزولیر نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:

L’espoir, nous n’en avons plus
Des visages, nous n’en voyons plus

پہلے مصرعے کا ترجمہ بہت خوب ہے۔ اس میں اصل متن کا مکمل عکس اتر آیا ہے۔ مفہوم کی ادائیگی میں زیادہ الفاظ صرف نہیں ہوئے ہیں۔ جتنے الفاظ اصل متن میں ہیں تقریباً اتنے ہی الفاظ ترجمہ پر خرچ کیے گئے ہیں۔ دوسرے مصرعے کا ترجمہ البتہ تھوڑا مضحکہ خیز ہے۔ "کوئی صورت نظر نہیں آتی" میں صورت کا لفظی ترجمہ”Visage” کیا گیا ہے جس کا معنی چہرہ ہے۔ ان کے ترجمہ کی نثر ہوگی۔ "ہمیں کوئی چہرہ نظر نہیں آتا" اصل متن میں "صورت" چہرہ کے لیے استعمال نہیں ہوا ہے۔ یہاں صورت نظر نہیں آنے سے مراد امید کے بر آنے کا کوئی راستہ، کوئی طریقہ اور کوئی حل نظر نہیں آتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ "Des Visages”
کی جگہ پر "Des solutions” استعمال کرنا چاہئے تھا۔ ترجمہ ایسے کرنا بہتر ہوتا:
Des solutions, nous n’en voyons plus

یوسف حسین کا انگریزی ترجمہ اس طرح ہے:

No hope is realised;
There is no way out

اس ترجمے کا مطلب تو ہوا کہ کوئی امید سمجھ میں نہیں آتی یا نہیں آرہی ہے۔ کسی امید کا نہیں سمجھ میں آنا اور امید یا خواہش کا پورا نہ ہونا دونوں ایک نہیں ہو سکتے۔ اس کا ترجمہ رالف رسل نے زیادہ بہتر کیا ہے۔ ترجمہ اس طرح ہے:

Non of my hopes can ever be filled
Seek as I may, I see no way ahead

یہ ترجمہ اس لیے بہتر ہے کہ کلاسیکی شاعری میں عاشق کو ہمیشہ مایوسی ہی ہاتھ لگتی ہے۔ اسے کبھی وصال کی لذت نہں ملتی۔ اس دائمی مایوسی کے لیے”Can ever be filled” بہت مناسب ہے۔
اس کا ایک ترجمہ میں نے کیا ہے جو رالف رسل کے ترجمہ سے مختصر ہے لیکن مفہوم کی مکمل ادائیگی ہو جا رہی ہے:
Neither hope can ever be filled
Nor I find any way of it
غالب کا یہ شعر دیکھیں:

آگے آتی تھی حال دل پر ہنسی
اب کس بات پر نہیں آتی

اس کا فرانسیسی ترجمہ بھی ملاحظہ کریں:
Avant, notre cœur se prenait à rire, et voilà qu’il ne sourit jamais plus
شاعر اپنے بارے میں بتا رہا ہے کہ پہلے تو وہ اپنے دل کے حال پر ہنس لیا کرتا تھا یعنی افسوس کر لیا کرتا تھا لیکن اب شکستگیِ دل کا عالم یہ ہے کہ اسے کسی بات پر ہنسی نہیں آتی۔ یعنی اب کسی بات کا افسوس نہیں ہوتا۔
مترجم کے متن سے یہ مفہوم ادا نہیں ہو رہا ہے۔ اس کی نثر دیکھیں:
پہلے ہمارا دل ہنس لیا کرتا تھا
اب وہ بالکل بھی نہیں ہنستا
ترجمہ میں خود دل کے ہنسنے کا مفہوم ادا ہو رہا ہے جب کہ شعر میں شاعر دل کی کیفیت پہ ہنسنے کی بات کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں مصرعے میں ہنسی کی نوعیت ایک ہی ہے۔ لیکن مترجم نے ایک کے لیے "rire” اور دوسرے کے لیے "sourire” لفظ کا استعمال کیا ہے۔ ان دونوں لفظوں میں وہی فرق ہے جو انگریزی کے "laugh” اور "Smile” میں ہے۔ یہ دونوں مترادف ضرور ہیں لیکن دونوں کے استعمال میں فرق ہے۔
مذکورہ شعر کا فرانسیسی ترجمہ میرے مطابق ایسے ہونا چاہیے تھا:
Avant, Je me prenais à rire au mon cœur, et maintenant, Je ne le fais jamais plus

یوسف حسین کا انگریزی ترجمہ دیکھیں:

Once I would Laugh at the state of the heart;
Now nothing any longer makes me laugh.

اب ذرا غور کریں "حال دل" میں جو بات ہے کیا وہی بات "State of the heart” میں ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ اس سے موزوں ترجمہ”condition of the heart” ہوتا۔ اس شعر کے دوسرے مصرعے کی ترتیب بھی اور بہتر کی جا سکتی تھی۔
Now nothing any longer makes me laugh
میں "any longer” کی جگہ "makes me laugh” اور اس کی جگہ پر "any longer” کر دینے سے ترجمہ کے صوتی حسن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ الفاظ کے تبدیلیِ مقام سے ترجمے کا حسن دیکھیں:
Now nothing makes me laugh any longer
رالف رسل کا ترجمہ مجھے کہنا چاہیے کہ زیادہ موزوں ہے۔ کیونکہ ان کے ترجمہ میں اشارتا ہی سہی مگر شعر کی تشریح بھی ہو جا رہی ہے۔ ترجمہ ملاحظہ کریں:
Once I would contemplate my wounded heart and laugh. Now laughter never comes to me.
اس ترجمہ میں اصل مفہوم اور خیال منتقل ہو گیا ہے لیکن اس میں نثریت پیدا ہو گئی ہے اور شاعری کے ترجمے میں نثریت کا پیدا ہونا صحیح نہیں سجھا جاتا ہے۔
غالب کا یہ شعر دیکھیں۔

داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
معشوق کی مسلسل بے توجہی کی وجہ سے عاشق کا دل زخمی ہو گیا ہے اور اب اس میں داغ پڑ گیا ہے جو نظر آرہا ہے۔ عاشق معشوق سے کہہ رہا ہے کہ تم کو اگر میرے دل کا داغ نہیں دکھتا تو کیا اس کی بو بھی تم تک نہیں پہنچتی۔ یہاں چارہ گر در اصل معشوق ہے۔ عاشق چاہے جتنا بیمار ہو معشوق اگر اس کی طرف دیکھ لے تو اس کے منہ پہ رونق آ جاتی ہے۔ غالب کا ہی شعر ہے:
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
"داغ دل گر نظر نہیں آتا" کا فرانسیسی ترجمہ دیکھیں:

La cicatrice de mon cœur ne se voit pas, mais le parfum de bonheur ne vient plus

پہلی لائن بہت خوب صورت اور عمدہ ہے۔ ترجمہ اصل متن سےبہت قریب ہے اور مفہوم بھی وہی ادا ہو رہا ہے جو اصل متن میں ہے۔ لیکن دوسری لائن کا ترجمہ اتنا غلط ہے کہ معلوم نہیں ہوتا یہ مذکورہ شعر کا ترجمہ ہے۔ پہلے اس ترجمے کی نثر دیکھیں:
But the perfume of happiness doesn’t come anymore.

یہاں یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ مترجم نے "parfum de bonheur” یعنی "perfume of happiness” کس کا ترجمہ کیا ہے۔ ممکن ہے مترجم نے چارہ گر کے لیے bonheur اور بو کے لیے parfum استعمال کیا ہو اور دونوں کی ترکیب سے یہ مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کی ہو کہ خود عاشق کو چارہ گر نظر نہیں آرہا ہے جو اس کی مسرت کا باعث ہے یا جو اس کا علاج کر سکتا ہے۔ اگر یہ مفہوم ہے اور یہی مفہوم پیدا بھی ہو رہا ہے تو اس ترجمے کا متن سے کوئی سروکار نہیں۔ شاعر تو چارہ گر یعنی معشوق سے استفہامیہ شکایت کر رہا ہے کہ تم دل کا داغ نہیں دیکھ سکتے تو کیا اس کی بو بھی تم تک نہیں جا رہی۔ در اصل عاشق ہجر کی تکلیف دہ کیفیت سے نکل کر وصل یار کی مسرت سے سرشار ہونا چاہتا ہے۔
اگر چارہ گر کو معشوق مان لیا جائے تو اس کا ترجمہ ایسے کیا جا سکتا ہے:

O chérie, ne sens-tu même pas le parfum plus

لیکن اگر چارہ گر کو چارہ گر ہی رہنے دینا ہے تو اس کا ترجمہ یوں ہوگا:
O fournisseur du remède, ne sens-tu même pas le parfum.
یوسف حسین کا انگریزی ترجمہ کچھ خاص نہیں ہے۔
If the scar of the heart cannot be seen

O provider of remedies, don’t you get the smell of it.
دوسری لائن میں ایک جگہ صرف even لگا دینے سے ترجمہ اصل متن سے مزید قریب ہو سکتا تھا:
O provider of remedies, don’t you even get the smell of it.

ایک خوب صورت سا شعر ملاحظہ کریں۔

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
اس کا پہلے ایک انگریزی ترجمہ دیکھیں جو خوشونت سنگھ نے کیا ہے:

I lived on your promises, I knew they were not true
Would not I died of joy had I believed in you.

کیا بہترین ترجمہ ہوا ہے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ اصل شعر اور ترجمہ میں کیا فرق ہے تو بنا پس و پیش کے میرا جواب ہوگا کہ دونوں میں بس زبان کا فرق ہے۔
اب آلاں دیزولیر کا فرانسیسی ترجمہ دیکھیں:
Nous vivons de ta promesse, cette vie n’est-elle que menterie
Nous serions morts de joie, si nous avions été ravis
"یہ جان جھوٹ جانا" کا ترجمہ اس مفہوم میں کیا ہے کہ یہ زندگی جھوٹی ہے۔ شاعر تو معشوق کے وعدے کو جھوٹا بتا رہا ہے۔ دوسرے مصرعے میں بہت واضح ہے کہ عاشق کو معشوق کے وعدۂ وصل پر شروع سے یقین نہیں تھا۔ ترجمے میں اعتبار کے لیے Ravis” لفظ لایا گیا ہے لیکن اس لفظ کا معنی خوشی ہے۔
آلاں دیزولیر کے ترجمہ میں معنوی سطح پر بہت ساری کمیاں در آئی ہیں لیکن ترجمے کا ساختیاتی نظام قابل تعریف ہے۔ ان کے تراجم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں نثریت کا احساس نہیں ہوتا۔
تخلیقی متن کا ترجمہ سو فی صد درست ہوگا ایسا ممکن نہیں ہے۔ کوئی بھی تخلیقی متن ایک بار ہی تخلیق ہوتا ہے۔ وہ جس انداز اور جس شکل میں تخلیق ہو گیا اس کو اسی شکل میں دوبارہ کسی دوسری زبان میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ترجمہ میں ایک تو سب سے پہلے زبان بدل جاتی ہے، زبان کے ساتھ ہی تہذیب بدلتی ہے پھر الفاظ و محاورے بدل جاتے ہیں۔ جہاں اتنا کچھ بدل جاتا ہو تو ترجمہ میں مفہوم بھلا کیوں نہ بدلے۔ ان سب کے باوجود اچھے اور معیاری تراجم ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ تخلیقی متن کا ترجمہ اکیلے نہیں کرنا چاہیے۔ میرا ماننا ہے کہ SL اور TL دونوں زبان کے ماہر مل کر کسی ادبی متن کا ترجمہ کریں تو بہت اچھا ترجمہ ہو سکتا ہے.
***
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی پڑھیں:لنچ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے