کتاب: انبساط (شعری مجموعہ)

کتاب: انبساط (شعری مجموعہ)

نام کتاب: انبساط (شعری مجموعہ)
مصنف : نذر فاطمی
صفحات : (170)
سالِ اشاعت: 2022
قیمت 300
ناشر/پبلشر: براڑسنز ،مالیر کوٹلہ پنجاب
ملنے کا پتہ : فلیٹ نمبر 201 النور مینشن، ہارون نگر پھلواری شریف، پٹنہ، بہار
بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ ۔
رضا کمپیوٹر، پھلواری شریف پٹنہ ۔
درد دہلوی، جوگابائ اکٹینشن، اوکھلا نئی دہلی
مبصر : محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پھلواری شریف پٹنہ

شاعری نام ہے وسیع وعریض کائنات میں پھیلے تجربات، مشاہدات اور قلب و ذہن کے احساسات و جذبات کو خوب صورت اور پر لطیف انداز میں پرونے کا۔ شاعر کو وہ بصیرت و بصارت، تصورات و تخیلات عطا کیا گیا ہے جس سے وہ ان کیفیات کا مشاہدہ کرتا ہے جو عام انسانوں کے اختیارات میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر بہت حساس، دور اندیش، حکیم، اور فلسفی ذہن کا مالک ہوتا ہے۔
نذر فاطمی بھی اسی دل اسی شخصیت کے مالک ہیں۔ شاعری ان کے لیے وسیلۂ اظہار اور علامت بن گئ ہے۔ نذر فاطمیَ کا پہلا شعری مجموعہ ممکنات 2018 میں شائع ہوا۔ یہ دوسرا شعری مجموعہ انبساط محکمہ کابینہ سکریٹریٹ اردو ڈائریکٹوریٹ پٹنہ (بہار) کے جزوی مالی تعاون سے شائع کردہ حمد، نعت، اور غزلیات پر مشتمل کتاب ہے، اس سے ان کا فن اور شخصیت مزید ابھر کر سامنے آئی ہے، ان کی شاعری پڑھیں تو بڑے سادے الفاظ میں سادگی کے ساتھ عمدہ خیالات، خوب صورت تخیلات و تصورات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ جب کہ گہرائی سے جائزہ لیں تو ان میں فکری گہرائی و گیرائی مستحکم ارادے، اور حالاتِ حاضرہ کے تحت احوال کا مشاہدہ ہوتا ہے، مجموعہ کلام کی شروعات حصول برکت کے لیے حمدیہ و نعتیہ اشعار سے کی گئی ہے۔حمدیہ و نعتیہ کلام کے چند اشعار:
زمین کا مالک گگن کا مالک
وہی خلا کا پون کا مالک
اسی کی کلیاں ہیں پھول اس کے
وہی ہے سارے چمن کا مالک 
نعتیہ اشعار:
چاہتے ہو کہ کہیں نور برستا دیکھو
جاکے اک بار ذرا شہر مدینہ دیکھو
آپ پر ختم نبوت کا ہے اعلان خدا
اے جہاں والو یہ سرکار کا رتبہ دیکھو 
غزلیات پرمشتمل اشعار:
کہاں اب ہمارے خنجر اٹھیں غیر کے مخالف
ہمیں قتل کر رہے ہیں ہمیں لوگ مر رہے ہیں 
ظلم پر یلغار ہونا چاہیے
اک نہیں سو بار ہونا چاہیے
کچھ نہیں تو نسل نؤ کے واسطے
سب کو خوش گفتار ہونا چاہیے 
فضا زہر آلود بدلنے کی کریں کوشش
ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا سنبھلنے کی کریں کوشش 
کم عقلوں کا بھروسا کیوں کریں ہم
خود اپنا تماشا کیوں کریں ہم 
نا مرادی کا دھواں دل سے ہٹاکر دیکھو
اپنی آنکھوں میں نئے خواب بسا کر دیکھو 
ان کی شاعری میں ابھرتے مسائل بھی ہیں، مسائل کے لیے لائحہ عمل بھی ہے. 
شاعر اپنی مخفی کیفیات کو ابھارنے کے لیے ضخیم الفاظ، مبہم تشبیہات و استعارات اور ایسی فلسفیانہ باتوں کو موضوع سخن نہ بنائے تو بہتر ہے جو عام قاری کی فہم سے بالاتر ہو۔ بلکہ عام فہم الفاظ و استعارات و تشبیہ اور سادگی کے ساتھ جملوں کی ترتیب ہو. پیچیدگی، مبہم عبارت سے بچتے ہوئے اپنی شاعری کا الفاظ اختیار کرے تو یہ اس کے لیے کامیابی کی ضمانت ہے، اور انھی باتوں کا خیال نذر فاطمی نے بھر پور رکھنے کی کوشش کی ہے. 
چند اشعار دیکھیں:
کرلوں اقرار میں محبت کا
مل تو جائے کوئی طبیعت کا
سوچتا رہتا ہوں اسے ہر پل
آدمی ہے غلام عادت کا
چھوڑ دو عشق عشق کا چکر
ہیں بہت کام زندگی کم ہے
کیا اثر ہے یہ نرم موسم کا
آج کچھ ان کی بے رخی کم ہے 
وقت ایسا بھی کل کو آئے گا
آدمی آدمی کو کھائے گا 
تو اگر بے نقاب آئے گا
چاند کو بھی حجاب آئے گا
آپ جب ان کے اشعار پڑھیں گے تو محسوس ہوگا کہ کس سہل انداز میں انھوں نے کلام کیا ہے، ان اوصاف کی بنا پر ان کے فن مزید نکھرتے نظر آتے ہیں، اور ان کی انفرادیت کا انکشاف ہوتا ہے. 
نذر فاطمی کے اشعار میں مزاح کے بھی پہلو ہیں. چند اشعار:
یوں کھلے میں نہانے سے کیا فائدہ
روز لنگی سکھانے سے کیا فائدہ
سامنے دیکھ سگنل ابھی لال ہے
اتنا ہارن بجانے سے کیا فائدہ 
کون ان حالات میں دلشاد ہے
کیا سسر ہے اور کیا داماد ہے
اہلیہ میکے میں ہے، دھنباد ہے
میں ادھر ہوں وہ ادھر آزاد ہے 
پکڑ کر چور کو بولا سپاہی
چرائے مال کا آدھا نکالو
رسیدیں ساتھ رکھو مدرسے کی
سفر کا ٹھاٹھ سے خرچہ نکالو 
شوخ میک اپ، شامیانہ اور بارش تیز تر
کس کی بیوی کس کے اسکوٹر پہ ہوتی تھی سوار
کھیل میں جیسے ہی پکڑا مجنوں نے لیلیٰ کا ہاتھ
لاٹھی ڈنڈا لے کے دوڑے لیلیٰ کے سب رشتہ دار 
ان کے اشعار میں لہجہ کبھی نرم اور کبھی برہم ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں ماضی کی داستانیں بھی ہیں، اداسیاں بھی ہیں اور مستقبل کی تابناک امیدیں بھی۔ شاعر کا اپنا ایک مخصوص انداز ہوتا ہے، کبھی وہ خود سوالی بن کر اس کا جواب دیتا ہے، کبھی وہ مایوس اور بیزار ہو کر خود کو تسلی بخشتا ہے، کبھی وہ بیمار ہوکر خود ہی شفا یاب بھی ہوتا ہے۔ وہ آپ بیتی کے ذریعہ جگ بیتی  سناتا ہے۔ غرضیکہ کے شاعری کا دائرہ محدود نہیں بلکہ غیر محدود ہوتا ہے، اس میں ہجر و وصال کے قصے، ماضی کی داستانیں، زمانے کے حادثات، سیاسی، سماجی، معاشی، اقتصادی، انفرادی، اجتماعی، گویا کہ ایک بہتا سمندر ہے شاعری کا فن. 
اور سچا فن کار اپنے آس پاس کے حالات سے باخبر رہتا ہے۔ حسن عسکری کے بقول ہر ادب پارہ اپنے اندر حقیقت کا کوئی نہ کوئی تصور رکھتا ہے۔ نذر فاطمی کا قلم محض تخیل کی سرسبز اور حسین وادیوں میں رقص نہیں کرتا بلکہ ان کا فن عصری تقاضے کو بھی پیش کرتا ہے، جو ان کے فن میں سما کر سراپا ایک پیغام بن گیا ہے۔ نذر فاطمی کے مزید چند اشعار جو ان کی شخصیت اور فن کو سمجھنے میں مزید معاونت فراہم کریں گے، ملاحظہ فرمائیں:
زمانہ تیرا شیدائی بہت ہے
تری باتوں میں گہرائی بہت ہے
غزل پڑھ کر لکھا ہے واہ تم نے
مری اتنی پذیرائی بہت ہے 
کہہ کر وہ شب بخیر دعا دے کے سو گیا
بچپن آرزو کو یہ کیا دے کے سوگیا 
فلاں کے گھر نہ جایا کر فلاں نے یہ کہا مجھ سے
فلاں کے گھر جو جاتا ہے وہ آتا ہے فلاں ہوکر 
ان کا پرانا دوست یا پھر نامہ بر ملے
کس حال میں ہیں کیسے ہیں وہ کچھ خبر ملے
چھڑا کے چل دیے وہ ہاتھ ہائے کیا کیجیے
رہے نہ قابو میں جذبات ہائے کیا کیجیے
اس شعری مجموعے میں پیش کیے گئے اشعار کے ہر موضوع پر بات کرنا ممکن نہیں ہے. خلاصے کے طور پر دیکھا جائے تو نذر فاطمی نے اس شعری مجموعے میں عالمی سطح کے مسائل کے ہر پہلوؤں پر گفتگو کی ہے اور اپنے پیغامات ایک عام انسان تک پہنچانے کی بھر پور سعی کی ہے.  انھوں نے بڑی بےباکی اور جرات مندی اور مضبوطی کے ساتھ اپنی باتیں رکھی ہیں. انھوں نے واضح انداز میں حق گوئی سے کام لیا ہے۔ مسائل بہ زبان غزل پیش کیا۔ ہم پستی کی طرف کیوں جارہے ہیں ان سب پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے. سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی شاعری میں سلاست، روانی اور الفاظ و تعبیرات کی خوب صورتی ہے، جو قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے، شاعر نے حق کا ساتھ دے کر شاعر ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ شاعر نے اپنی شاعری میں اشاروں، کنایوں، استعارات اور تلمیحات کا خوب استعمال کیا ہے. ان سے ان کی شاعری میں حسن ہی نہیں بلکہ ایک طرح کا نکھار پیدا ہوا ہے۔ ایسے ہی حق کے طرف داروں کو یہ دنیا بڑی دیر تک یاد کرتی ہے. کیونکہ ایسی شاعری کی گونج بہت دیر اور بڑی دور تک سنائی دیتی ہے۔
الغرض یہ مجموعہ کلام  فکری و فنی اعتبار سے بہت معیاری ہے، لیکن کتاب میں عجلت کی بنا پر چند خامیاں بھی نظر آتی ہیں جن کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ کچھ جگہوں  پر املے کی خامیاں رہ گئی ہیں، جن پر توجہ ضروری ہے. 
 میں نے کچھ پہلوؤں پر تبصرہ کیا، مگر انھیں مزید  پہلوؤں سے سمجھنے اور جاننے کے لیے آپ ان کی کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں. 
نذر فاطمی کو ہم اپنی طرف سے اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کے تمام اراکین کی جانب سے، ان کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے، ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں اور ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ رب ذوالجلال ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے، آمین ثم آمین.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مشاعرہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے