لنچ

لنچ

محمد ریحان، جامعہ ملیہ اسلامیہ

آج صبح دس بجے کے قریب جب میں کالج کے ریڈنگ روم میں پہنچا تو میری آنکھیں دروازے کے پاس لائبریری انچارج کی اس کرسی کو دیکھتی رہ گئیں جس پر ایک ادھیڑ عمر کی عورت بیٹھی کاغذات کو الٹ پلٹ کرنے میں مصروف تھی۔ میری آنکھیں اس لیے پریشان تھیں کہ اس کرسی پر آج سے پہلے ایک بیس یا پچیس سال کی جوان لڑکی بیٹھا کرتی تھی۔ میں نے اس لڑکی کو کبھی بھرپور نظر سے یا ٹھہر کر نہیں دیکھا تھا، بس یوں ہی کبھی لائیبریری میں داخل ہوتے وقت یا کبھی باہر نکلتے ہوئے اس پر ایک اچٹتی سی نظر پڑ جاتی تھی۔ اسی اچٹتی سی نگاہ میں اس کے بھرے ہوئے بدن کا ہر پر کشش حصہ قید ہو جاتا اور خالی وقت میں جب اس پر غور کرتا تو احساس ہوتا کہ وہ جوان اور پرکشش ہے۔ وہ اکثر بنا دوپٹے کے شلوار قمیض پہنا کرتی تھی۔ کبھی کبھی ٹی شرٹ اور جینس بھی زیب تن کرتی تھی۔ ہر لباس میں اس کے بدن کا نشیب و فراز نظر آتا تھا۔ میں نے اسے کبھی غور سے نہیں دیکھا تھا اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ اس کے نین و نقش کیسے تھے، بس اتنا پتا ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگاتی تھی اور بالوں کو کھلا رکھتی تھی۔ عمر تو خیر اس عورت کی بھی زیادہ نہیں تھی لیکن بدن پر گوشت نہ ہونے کی وجہ سے قبل از وقت اس کے چہرے پر جھریاں ابھر آئی تھیں۔ میں نے اس عورت کو بہت غور سے دیکھا تو پایا کہ وہ اب صرف ایک عورت ہے یعنی صرف ایک مخالف جنس۔ اس کے اندر جنس کو برانگیختہ کرنے والی ہر چیز مردہ ہوچکی ہے۔ اندر کی طرف دھنسی ہوئی آنکھیں، پچکے ہوئے گال، سوکھے ہوئے ہونٹ اور نیچے کی طرف لڑھکی ہوئی چھاتیاں بھلا کیا کسی کے جذبات کو ابھاریں گی۔ میں نے اسے بہت گھور کر اور بہت دیر تک دیکھا کیوں کہ وہ میری آنکھوں کو بالکل بھی پسند نہیں آئی تھی۔ لیکن اب وہی تھی جو روز روز لائیبریری آ رہی تھی۔ میں نے اپنے ایک دوست سے اس عورت کے متعلق استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ پہلے والی لائبریرین کی جگہ پر اس عورت کی بحالی ہوئی ہے۔ مجھے تو خیر اس تبدیلی سے کچھ سروکار نہیں تھا۔ میرا مقصد تو صرف وہاں بیٹھ کر پڑھنا تھا۔
کالج میں کئی ریڈنگ روم تھے لیکن اس کی بات کچھ اور تھی۔ یہاں پر ہر کسی کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل کے طلبہ ہی اس میں آسکتے تھے اور وہ بھی ایک خاص سینٹر یعنی انٹرنیشنل اسٹڈیز کے۔ میرا تعلق اس سینٹر سے نہیں تھا لیکن اس سینٹر کے میرے ایک دوست نے اپنے ڈائرکٹر سے بڑی منت و سماجت کر کے اجازت دلوادی تھی۔ یہ ریڈنگ روم بیٹھ کر پڑھنے کے لیے کافی بڑا اور وسیع تھا لیکن مشکل سے پندرہ بیس لڑکے ہی آتے تھے۔ کبھی کبھی دو چار لڑکیاں بھی بھولے بھٹکے آجاتی تھیں اور ایک دو گھنٹے بیٹھ کر رفو چکر ہوجاتی تھیں۔ اس دوران وہ پڑھتی تھیں یا نہیں یہ تو خیر وہی بتا سکتی ہیں۔ لیکن وہاں موجود لڑکے تو بہر کیف ڈسٹرب رہتے تھے۔ جب تک لڑکیاں وہاں بٹھی رہتیں لڑکے کتابوں کی اوٹ سے تانک جھانک کرتے رہتے تھے۔
اس ریڈنگ روم میں پڑھنے کے کچھ اصول اور ضابطے تھے۔ آپس میں بات کرنے کی بالکل اجازت نہیں تھی۔ موبائل کو بند یا کم از کم سائلینٹ موڈ میں رکھنا لازمی تھا۔ یہ ریڈنگ روم دو خانوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک طرف اخبار ورسائل پڑھنے کے لئے میزیں لگی ہوئی تھیں اور دوسری طرف ذاتی اور درسی کتابوں کے پڑھنے کا انتظام تھا۔ لیکن اب تک یہاں کسی اصول کی پابندی نہیں کی جارہی تھی۔ لڑکے آپس میں بات کرتے، کال بھی ریسیو کرتے اور جس جگہ جو چاہتے پڑھتے تھے۔ اخبار ورسائل ادھر اُدھر بے ترتیبی سے پڑے رہتے۔ اس بے انتظامی و بے ترتیبی کے ذمہ دار صرف طلبہ نہیں تھے بلکہ لائبریری انچارج کی بے پروائی بھی اس کے لیے ذمہ دار تھی۔
میں معمول کے مطابق اپنا کالج بیگ لےکر دس بجے کے قریب ریڈنگ روم پہنچ جاتا۔ اردو اور انگریزی کے اخباروں پر سرسری نظر ڈال کر درسی کتابوں میں سر کھپانے لگ جاتا۔ نئی لائبریرین کو عہدہ سنبھالے تقریباً ایک مہینے کا عرصہ گذر چکاتھا۔ لیکن ریڈنگ روم میں اب تک کچھ فرق پیدا نہیں ہوا تھا۔ البتہ ہر اگلے دن وہ کچھ سجا اور سنورا ہوا سا ضرور لگتا تھا۔ ایک دن نئی لائبریرین کو لائیبریری کے باہر اپنے دوست سے بات کرتے ہوئے پایا۔ میں بھی تھوڑی دیر وہیں کھڑا ہو گیا۔ وہ سابقہ لائبریرین کی شکایت کر رہی تھی کہ اس نے لائبریری کی کتابوں کو کیٹلاگ کے مطابق نہیں سجایا ہے۔ وہ کہہ رہی تھی کہ وہ جب یہاں آئی تو اس نے ادبی کتابوں کی ریک میں سائنسی کتابوں کو پایا اور دینی کتابوں کے خانے میں سیاسی کتابوں کو دیکھا۔ پھر کتابوں کی مناسب سجاوٹ پر صرف ہونے والی اپنی محنت و مشقت کی روداد سنانے لگی۔ مجھے اس کی گفتگو سے اندازہ ہو گیا کہ وہ اپنے بارے میں ہانک رہی ہے۔ میرے لیے نہ تو اس کی ذات میں کوئی کشش تھی نہ شخصیت میں اور نہ ہی اس کی باتوں میں، میں وہاں سے کھسک گیا اور ریڈنگ روم میں آ کر مطالعہ کرنے لگا۔
ایک دن کا واقعہ ہے۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ ٹھنڈ اپنے شباب پر تھی۔ درجۂ حرارت دس ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا تھا۔ سردی کی کاٹ ہر کوئی ہڈیوں تک محسوس کر رہا تھا۔ لیکن ریڈنگ روم میں راحت تھی۔ یہاں پانچ پانچ ہیٹر لگے ہوئے تھے۔ ریڈنگ روم میں سب طلبہ اپنی اپنی کتابوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ تبھی ایک لڑکی ٹھنڈ سے بچنے یا پڑھنے کی غرض سے اندر داخل ہوئی۔ بیٹھنے سے قبل ریڈنگ روم میں لگے ایک ہیٹر کو اپنی کرسی کی پشت سے قریب کر لیا۔ لڑکی کے اس عمل پر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوا۔ لیکن لائبریرین نے اس کی اس حرکت پر اس کو اس قدر ڈانٹ پلائی کہ وہ زار و قطار رونے لگی۔ اتنی معمولی سی غلطی پر لائبریرین نے ایک ہی سانس میں ریڈنگ روم میں پڑھنے کے سارے اصول و ضوابط گنوا ڈالے۔ اس کا لہجہ نہایت ہی سخت ہو گیا تھا۔ اس کے الفاظ چبھتے ہوئے تھے۔ اس کی ڈانٹ میں طنز تھا۔
”کالج میں آگئی ہو اور بیٹھنے کا سلیقہ نہیں معلوم“
"یہ ہیٹر کالج نے تمہاری کرسی کے پیچھے لگانے کے لیے نہیں خریدا ہے”
"اتنی ٹھنڈ لگتی ہے تو گھر سے ہی ایک ہیٹر ساتھ لے کر آ جاتی”
اس طرح کے طنزیہ جملوں کی بارش اس لڑکی پر ہو رہی تھی۔ دوسری طرف لڑکی تھی کہ شرم سے کٹی جا رہی تھی۔ وہ اپنے اندر سمٹ رہی تھی۔ شاید وہ اس طرح کے اچانک اور سخت رویے سے حیران تھی۔ وہ خاموش کھڑی سب کچھ سن رہی تھی اور آنسو اس کی آنکھوں سے چپ چاپ بہہ رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا کہ لڑکی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ یہ سوچ کر میں نے قدرے اونچی آواز میں لائبریرین سے چپ ہونے کو کہا۔ لیکن میری مداخلت سے وہ مزید چراغ پا ہو گئی اور مجھ پر برس پڑی۔ اب اس کے غصے کا شکار میں بھی ہو گیا تھا۔ باتوں ہی باتوں میں وہ اس قدر تلخ ہو گئی تھی کہ مانو اس کا کوئی بہت بڑا ذاتی نقصان ہو گیا ہو۔ پتہ نہیں یہ لائبریری سے اس کی محبت کی علامت تھی یا عہدے کی دھونس۔ اس واقعہ کے بعد اس لائبریرین سے ایک طرح کی انجانی نفرت میرے دل میں پلنے لگی۔ میں اپنی نفرت کا اظہار مختلف طریقے سے کر بھی دیا کرتا تھا۔ حالاں کہ میں عورت ذات سے نفرت کرنے کا بالکل بھی قائل نہیں۔ کیوں کہ میرے نزدیک عورت کا دوسرا نام ہی محبت ہے۔ لیکن اس عورت میں محبت کی جانے والی کوئی چیز تھی ہی نہیں۔ اس سے نفرت کا اظہار کرنا میرا معمول ہو گیا۔ کبھی اس کی باتوں کو یکسر نظر انداز کر دیتا، کبھی اس کی طرف تنی ہوئی نظروں سے دیکھتا اور کبھی اس کے سامنے سے بڑبڑاتا ہوا گزر جاتا۔ یہ سب میں اس لیے کرتا تاکہ میں اس کو جتا سکوں کہ میرے اندر اس کے لیے کس قدر نفرت ہے۔ میں ہر روز اس کے ساتھ نفرت کے کسی نئے طریقے سے پیش آتا۔ میرے اس سخت تیور کا اس کو احساس تھا۔ کبھی کبھی اس کی طرف سے اس کا ردعمل بھی دیکھنے کو ملتا۔
لیکن اسی ریڈنگ روم میں ایک اور واقعہ پیش آیا جس سے میرا ذہن آج تک الجھا ہواہے۔ اس واقعہ کا میرے ذہن و دماغ پر ایسا گہرا اثر پڑا ہے کہ ہر وقت میرے ذہن کے پردے پر وہ واقعہ رونما ہوتا ہوا نظر آ جاتا ہے۔ بات در اصل ان دنوں کی ہے جب کالج کا سالانہ امتحان شروع ہو نے والا تھا۔ یہ وقت ایسا ہوتا ہے جب ذہن کے ہر حصے پر صرف امتحان ہی امتحان چھایا ہوا رہتاہے۔ کسی دوسری چیز کے سوچنے کی فرصت نہیں ہوتی یا ذہن اس کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ میرا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ سونے سے پہلے آخری بار کسی چیز کا خیال آتا تو امتحان۔ خواب میں کسی حسین وادی یا تروتازہ کلیوں سے بھرے ہوئے باغ کی سیر کرنے کی بجائے خود کو امتحان گاہ میں پاتا۔ اگر بیدار ہوتا تو امتحان کے لیے تیار ہونے کی عجلت ہوتی۔ جب آدمی کی یہ کیفیت ہو تو چھوٹی موٹی چیزوں کا خیال ذہن سے جاتا رہتا ہے۔ جس دن امتحان کا پہلا پرچہ تھا اس دن میں کالج کے لیے ذرا جلدی نکلا۔ کالج پہنچ کر سیدھا کینٹین کا رخ کیا۔ میں نے ناشتے کے لیے ٹوکن کاؤنٹر پر کھڑے ہوکر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو والیٹ (Wallet) نہ دارد۔ میں جلد بازی میں اپنا والیٹ لینا بھول گیا تھا۔ پینٹ اور شرٹ کی دوسری جیبوں کو بھی ٹٹول کر دیکھا ایک سکہ بھی نہیں پایا۔ بھوک تیز لگی تھی۔ لیکن کر بھی کیا سکتا تھا۔ آخر یہ سوچ کر لائبریری کا رخ کیا کہ وہاں میرا دوست ہوگا۔ اس سے پیسے لے کر ناشتہ کر لوں گا۔ جب لائبریری پہنچا تو وہاں دوست موجود نہیں تھا۔ پھر یہ سوچ کر ریڈنگ روم میں بیٹھ گیا کے دوست تو آہی جائے گا۔ بھوک کو بھلا کر کتاب کھول لیا۔ ایک گھنٹہ، دو گھنٹہ،تین گھنٹہ۔۔۔۔۔۔ اس طرح کئی گھنٹے گزر گئے۔ لیکن دوست اب بھی لا پتہ تھا۔ بیٹھے بیٹھے لنچ کا وقت ہو گیا۔ ریڈنگ روم کے تقریباً تمام ہی بچے لنچ کے لیے نکل گئے تھے۔ میں اب بھی اپنے دوست کے انتظار میں تھا۔ اس بیچ پیٹ قل ھو اللہ احد کی پکار لگائے جا رہا تھا۔ تین بجے سے امتحان شروع ہو نے والا تھا، جو چھ بجے تک چلتا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ آج بھوکے پیٹ امتحان کیسے دونگا۔ بھوک کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ٹھیک سے بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔ سانس صحیح سے نیچے نہیں اتر رہی تھی۔ میں امتحان میں کیا لکھوں گا؟؟ میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں، تبھی ایک نسوانی آواز میری سماعت سے ٹکرائی”بیٹا ریحان، آؤ آج میرے ساتھ لنچ کر لو“ میں اپنی جگہ سے بیٹھے بیٹھے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی لائبریرین کھڑی تھی جس کی آنکھیں اندر کی طرف دھنسی ہوئی ہیں، گال پچکے ہوئے ہیں، ہونٹ سوکھے ہوئے ہیں اور چھاتیاں نیچے کی طرف لڑھکی ہوئی ہیں۔

شیئر کیجیے

One thought on “لنچ

  1. محمد ریحان کا افسانہ "لنچ” گرچہ موضوع کے اعتبار سے نیا نہیں ہے لیکن ان کا انداز بیان اور کہانی کرافٹ کرنے کے ہنر نے متاثر کیا. افسانہ واقعات کے حقیقی پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتا ہے اور کہیں سے تصوراتی نہیں لگتا . افسانے کی یہ خوبی اسے بولڈ بناتا ہے. افسانے کا خوشگوار اختتام اس بات کا اشاریہ ہے کہ انسان کی اصل خوبصورتی اس کے اندرون میں بسی ہوتی ہے جس کا اظہار و استعمال ایک موقع و محل کے اعتبار سے ہوتا ہے. افسانہ نگار کو مبارکباد.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے