صحافی ایم آئی ظاہر کا دورۂ حیدرآباد

صحافی ایم آئی ظاہر کا دورۂ حیدرآباد

دکن حیدرآباد میں معروف صحافی و شاعر ایم آئی ظاہر کی دھوم
صحافت اور شعر و ادب کی دنیا میں خاصی ہلچل رہی
حیدرآباد. (ارسال کردہ). خارجہ امور، تہذیب اور انسانی قدروں کے بین الاقوامی شہرت یافتہ مشنری صحافی، مصنف اور شاعر ایم آئی ظاہر دکن حیدرآباد کے صحافتی اور ادبی حلقوں میں خوب سے خوب تر ظاہر ہوئے۔ ان کی آمد سے شعر و ادب اور صحافت کی دنیا میں خاصی ہلچل رہی۔ عالمی تحریک اردو صحافت اور بزم ریختہ کے کنوینر جناب ظاہر یہاں تین تقاریب میں شامل ہوئے تو ادب و صحافت کی معزز حضرات نے انھیں ذاتی طور پر اپنے ہاں مدعو کیا۔
اردو صحافت کے دو سو برس مکمل ہونے پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی حیدرآباد کے ترسیل عامہ و صحافت کے زیر اہتمام 13 سے 15 نومبر 2022 کو منعقد تین روزہ عالمی سیمنار کاروان صحافت کے دوسرے روز آی ایم سی اسٹوڈیو ہال کے مخصوص سیشن کے دوران "اردو صحافت آج اور کل" موضوع پر جناب ظاہر نے کہا کہ اردو کی ادبی صحافت میں معروف شاعر اور نقاد شین کاف نظام نے اہم کردار ادا کیا ہے‌۔ نظام نے مؤقر ادبی جرائد بحران، میزان اور استفسار نے ادبی صحافت کے خوب صورت نمونے پیش کیے ہیں۔ انھوں نے اپنے تحقیقی مقالہ کے ذریعہ تفتیشی صحافت کے کئی در وا کیے.
ادارہ ادب صادق حیدرآباد کی جانب سے منعقد تہنیتی جلسہ اور مشاعرہ میں ان کا استقبال کیا گیا۔اس موقع پر فاروق شکیل اور اسلم فرشوی نے گل پوشی کی تو خواجہ فریدالدین صادق اردو صحافت اور ادب کے لیے جناب ایم آئی ظاہر کی خدمات پر روشنی ڈالی۔ جناب ظاہر مشاعرہ کا کلیدی مرکز رہے۔شعرا کی فرمائش پر پیش کی گئی غزلوں پر جناب ظاہر کو خوب داد و تحسین سے نوازا گیا۔ مشاعرہ میں پڑھا گیا ان کا یہ شعر ان پر ہی صادق آتا ہے: چہرہ کسی کا اب کہیں آتا نہیں نظر
بے رنگ زندگانی میں سو رنگ بھر گیا
جناب ظاہر کے دورے کے دوران حیدرآباد نظام ریاست سے وابستہ نامور شخصیت شاہد حسین زبیری‌ اور ارشد شرفی نے انھیں اعزازی گفتگو اور دعوت کے لیے مدعو کیا۔
اس کے علاوہ جناب ظاہر کی آمد پر سیاست ٹی وی حیدرآباد کی جانب سے ان کا مخصوص انٹرویو ریکارڈ کیا گیا۔ انڈین انفارمیشن سروسیز کے سابق افسر اور ممتاز صحافی شکیل خان نے جناب ظاہر سے ملاقات کی۔
وہیں رانچی کے صحافی اقبال صبا نے اردو صحافت کی قومی تقریب کے لیے ان سے رہنمای حاصل کی۔ غور طلب ہے جناب ایم آئی ظاہر کی خدمات پر ایس آر میڈیا کی جانب سے ایک شام ایم آئی عنوان سے بین الاقوامی سیمنار کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ان کے کارہائے نمایاں پر پاکستان کے افتخار انجم اور ہندستان کے جاوید جمال الدین، ظفر علی خان، علیزے نجف، مظفر نازنین نے مختلف موقر اخبارات و رسائل و ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ان کے انٹرویو لیے اور مضامین لکھے ہیں۔ وہیں احمد علی برقی اعظمی، توقیر زیدی اور سید اسلم صدا عامری نے نظمیں کہی ہیں۔
ایم آئی ظاہر: ایک نظر۔
غیر ملکی، سفارتی، سمندر پار ہندستانی، سینئر بین الاقوامی کثیر لسانی مشنری صحافی نیوز ریڈر اور اینکر ایم آئی ظاہر کو عالمی ادبی فورم فار پیس اینڈ ہیومن رائٹس کی جانب سے حال ہی میں انٹرنیشنل پیس ایمبیسیڈر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اقوام متحدہ سے وابستہ اس عالمی تنظیم کے بانی سنتوش کمار بسوا اور صدر ایچ ای ڈیوک کے مطابق، انھیں کورونا کے دور میں این آر آئی/ اوورسیز ہندستان نژاد بھائیوں اور بہنوں کے انٹرویوز اور امریکی صدارتی انتخابات کے بہترین کوریج کے اعتراف میں ان کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جیوری نے گلوبل آن لائن مشاعرہ ورلڈ ریکارڈ اور پاکستان کے بے گھر افراد یہ فیصلہ کیا۔ جیوری نے‌ ان کے پاکستانی مہاجرین، ‌دلتوں، قبائلیوں اور بے گھر لوہاروں وغیرہ کی شہریت جیسے موضوعات پر مخصوص اور قابل ذکر شراکت پر ان کا نام اس اعزاز کے لیے چنا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالمی رجحان ساز، ایک کثیر لسانی شخصیت ظاہر کو راجستھان ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکا کیلگری کینیڈا کی جانب سے بین الاقوامی زبان ساہتیہ سمان، جاگرتی سنستھا کی جانب سے شاہد مرزا گلوبل جرنلزم ایوارڈ، ماکھن لال چترویدی یونی ورسٹی بھوپال جھابر مل شرما جرنلزم ایوارڈ، مغربی بنگال اردو اکیڈمی سے جام جہاں نما ایوارڈ، مانک النکرن صحافت ایوارڈ، جن کلیان سمیتی نیشنل کورونا واریر ایوارڈ، ویر درگاداس راٹھوڑ ایوارڈ، رنگ سیوا سمان اور بینک آف بڑودہ راج بھاشا سمان اور اسپرچوئل ایریا انوائرمنٹ انسٹی ٹیوٹ وغیرہ سے نوازا جا چکا ہے۔ وہ ETV اردو یوتھ آئیڈیل شاعر مقابلہ 2005 ‘کل اور آییں گے کے میگا فائنلسٹ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ساہتیہ اکادمی کی نوجوان ادیب اسکیم میں شامل رہے ہیں۔ وہیں جودھپور میں جے نارائن ویاس یونی ورسٹی اور مہاراجہ مان سنگھ بک پبلی کیشنز کے زیر اہتمام بین الاقوامی میرا سیمینار میں ابتدائی اردو کی پہلی شاعرہ میرا پرچہ کا سب سے زیادہ چرچا رہا۔ اسی دوران موہن لال سکھاڑیہ یونی ورسٹی ادے پور کی دعوت پر صحافت پر ان کا توسیعی لیکچر بھی سرخیوں میں رہا۔ حیات کے بین الاقوامی مشاعرہ، تانیثیت پر قومی سیمینار میں پڑھے گئے پرچے کا بھی چرچا رہا۔ وہ جودھ پور لٹریچر فیسٹیول، غالب ہفتہ اور تین بار جشن غالب کے کنوینر اور ناظم بھی رہے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :وہ جس کا سایہ گھنا گھنا ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے