کتاب:  روداد قفس

کتاب: روداد قفس

مصنف: حفیظ نعمانی
ضخامت : 168
قیمت: 150
مبصر: محمد انعام برنی
ریسرچ اسکالر
دہلی یونی ورسٹی دہلی

حفیط نعمانی ایک ایسی کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے جو ادبی، صحافتی سماجی اور سیاسی حلقوں میں کسی بھی طرح سے محتاج تعارف نہیں تھے۔ وہ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک صحافت کی دنیا پر اپنے بےباک قلم کے ذریعے حکومت کرتے رہے۔ اور قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ان کے ادبی، سیاسی اور سماجی ہزار ہا مضامین لوگوں کو معلوماتی روشنی عطا کرتے رہے۔ انھوں نے درجن بھر اخبارات اور رسائل کے صفحات کو اپنے قلم سے آخری سانس تک سیاہ کرنے کا کارنامہ بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ سر انجام دیا۔ جن میں ندائے ملت، ہفت روزہ عزائم، روزنامہ ان دنوں، روزنامہ جدید عمل اور روزنامہ اودھ نامہ کے نام خاصے اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں اس حفیظ نعمانی کی جس کے حوالے سے مشہور و معروف صحافی عالی جناب معصوم مرادآبادی اپنے ایک مضمون میں یوں رقم طراز ہیں:-
"آنجہانی کلدیپ نیر کے بعد وہی سب سے زیادہ شائع ہونے والے صحافی تھے۔" (حفیظ نعمانی : ایک عہد ایک تاریخ ص: 204)
اردو زبان ہی نہیں بلکہ دنیا کی ان تمام زبانوں میں زندانی ادب کی ایک مستحکم روایت رہی ہے جن کے اہل قلم نے ہر اس دور میں اپنی نوک قلم سے حق بیانی کی وہ صداے احتجاج بلند کی جب جب انھوں نے اپنے ملک کی عوام پر اپنے ہی صاحب اقتدار لوگوں کے ہاتھوں اپنوں پر ہی ظلم ڈھاتے دیکھا۔ اس طرح سے گر اس کتاب کو ہندستان کے پس منظر میں زندانی ادب کا ایک شاہ کار قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
زیر تبصرہ کتاب بہ عنوان روداد قفس اس جری صحافی کی رودادِ قید و بند ہے، جسے دانشوران ملت نے وقار صحافت کے نام سے نوازا تھا۔ اس کتاب کا انتساب صاحب کتاب نے اپنے والد محترم جید عالم دین مرحوم حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمتہ اللہ علیہ کے نام کیا ہے۔
اس کتاب میں ان تمام مضامین کو شامل کتاب کیا گیا ہے جو موصوف اور ان کے رفقاے کار کی 26 اپریل 1966 کو جیل سے رہائی کے بعد ندائے ملت اخبار میں قسط وار شائع ہوئے، جنھیں بعد ازاں سنہ 2000ء میں بڑی جان فشانی سے یکجا کر کتابی شکل دے کر ہم قارئین تک پہنچانے کا کام کیا۔ اس کتاب کی وجہ تخلیق موصوف نے کچھ یوں بیان کی ہے کہ سنہ 1965 کا زمانہ تھا اور اس وقت ملک کی کمان لال بہار شاستری کے ہاتھ میں تھی جس کی کابینہ میں ایک نام نہاد مسلم سیکولر وزیر تھا اور اتفاق سے اس کے پاس وزارت تعلیم کا قلم دان تھا، وہ تھے کریم بھائی جھاگلہ. انھوں نے اپنے ذاتی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ایوان سے 20 مئی 1965 کو ایک Ordinance پاس کرا لیا، کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے مسلم لفظ کو ہٹایا جائے۔ پھر کیا تھا ملک میں چاروں طرف اس گھنونے قدم کی مذمت ہونے لگی۔ لیکن حفیظ نعمانی ایک حساس ذہن کے مالک تھے انھوں نے جلد ہی اس قدم کے دورگامی منفی نتائج کو بھانپ لیا اور یہ عزم کیا کہ ہم کبھی بھی اس طرح سے مسلم یونی ورسٹی کے خلاف سازش رچنے والی طاقتوں کو ان کے غلط منصوبوں میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اور یہ طے پایا گیا کہ ہم عوام کو اس زار شاہی حکومت اور اس کے ناکارہ وزیر تعلیم کے غلط کارناموں سے روبرو کرانے کے لیے ندائے ملت اخبار کا اسپشل علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نمبر شائع کرائیں گے۔ ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عن قریب ہی لکھنؤ میں اولڈ بوائز اسوسیشن علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا کنونشن پروگرام بھی ہونا تھا جہاں جلد ہی اس نمبر کو شائع کرا کر اس کی کچھ کاپیز وہاں تقسیم کرنا۔ اس کتاب کی حجم 168 صفحات پر مشتمل ہے جس میں پیش لفظ اور بعد کتاب شامل تبصراتی مضامین کو چھوڑکر 24 مضامین اسیر زنداں کے شامل ہیں۔ جن میں سے چیدہ چیدہ مضامین کا ذکر بالترتیب آگے کے صفحات میں کیا جا رہا ہے۔
اس کتاب کی ابتدا میں ایک بہت ہی وسیع و بسیط اور معلومات سے پر مقدمہ بہ عنوان ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا کے نام سے شامل کتاب کیا گیا ہے جسے مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی نے سپرد قرطاس کیا ہے۔ وہ اس کتاب کے حوالے سے اپنے تاثرات کو کچھ یوں بیان کرنے میں حق بجانب ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں:-
"ندائے ملت میں ہمت و جرات کا جو پیغام تھا جس طرح وہ ملت کو بہت بھایا اسی طرح ان لوگوں کو بہت گراں گزرا جو اس ملت کو بے ہمت و حوصلہ اور سپر انداز ہوتے دیکھنا چاہتے تھے." (روداد قفس ص 07)
اس کتاب کی ضرورت، اہمیت، عظمت اور بلندی کا اندازہ لگانے کے لیے آپ تمام کو اتنا بھر کافی ہے کہ صدق اخبار کے مدیر مرحوم مرحوم مولانا عبد الماجد دریابادی اور قاضی عدیل عباسی نے بھی متعلقہ کتاب کو جلد زیور طباعت سے آراستہ کرا کر منصۂ شہود پر لانے کی تمنا ظاہر کی تھی. حالانکہ یہ کام ان اکابرین کی زندگی میں پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا. دراصل اس کام میں ہمیشہ حفیظ صاحب کی دوڑ بھری زندگی مانع رہی۔
موصوف کی یہ کتاب اسیری سے قبل اور اسیری کے بعد کے ان تمام ایام کی کوفتوں اور پریشانیوں کو اپنے میں سمیٹے ہوئے ہے جو کسی بھی حساس قاری کو چونکانے کے لیے کافی ہیں۔ کس طرح سے پولیس انتظامیہ کے افسران نے انھیں ذہنی اور جسمانی اعتبار سے زدوکوب کیا تھا۔
ملاحظہ فرمائیں:-
"وہ چونکہ من مانی کرنے ہی آئے تھے لہذا من مانی کی اور ہم تینوں کو حراست میں لے لیا۔ میں نے اس اجڑے ہوئے چمن پر الوداعی نظر ڈالی۔ سب سے چھوٹے بیٹے ہارون کو پیار کیا ( یہ دو سال کا ہے مگر اپنی ماں سے زیادہ مجھ سے اور ملازمہ سے مانوس ہے اور اسی لیے ماں کی عدم موجودگی میں بھی یہیں سویا ہوا تھا) گھڑی، چشمہ، قلم اور جیب کے روپے ملازمہ کے سپرد کیے اور اس کو چند ضروری باتیں سمجھا کر نیچے آ گیا." (روداد قفس ص 60)
یہ ایک ایسی داستان اسیری ہے جو آزادی ہند کے بعد بھی یہاں کے سسٹم اور حکومتوں کے تمام پردوں کو چاک کر دینے کے لیے کافی ہے۔ فرنگیوں سے آزادی ملنے سے صرف لوگ بدلے ہیں مگر یہاں کی عوام کے حالات آج بھی عدالتوں سے لے کر پولیس انتظامیہ اور حکومتوں تک ویسے کے ویسے ہی بنے ہوئے ہیں۔ ان میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔ جیلوں میں کھانے پینے سے لے کر رہنے سہنے تک کا جو نظام ہے وہ روح کو جھنجھوڑ دینے والا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں روداد قفس سے دو الگ الگ اقتباس:-
(۱) "ایک مونجھ کا بنا ہوا دری کا پھٹہ، ایک کمبل، ایک چادر، ایک تسلہ اور ایک پیتل کی کٹوری گویا یہ کائنات تھی جس کے سہارے ہمیں جیل کی نا معلوم مدت گزارنا تھی اور بس یہی گرہستی تھی جسے اوڑھنا بچھانا اور جس میں کھانا پینا تھا۔" (روداد قفس ص: 75)
(۲) "ڈھائی سو آدمیوں کے لیے صرف بیس قدمچے یعنی پندرہ آدمیوں کے لیے صرف ایک۔ پھر اسی میں آب دست بھی اور ستم بالاۓ ستم یہ کہ آپ کو شرم آۓ تو آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائیے اور اس میں آمد و رفت کا راستہ اس قدر تنگ کہ اوسط قد و قامت کا انسان اگر کپڑے سمیٹ کر نکلنا بھی چاہے تو نا ممکن، بہ ہر حال دیوار سے رگڑ لگنا ضروری ہے۔" (روداد قفس، ص: 103)
اس کتاب کے بغائر مطالعے سے بھی پتا چلتا ہے کہ ہندستانی جیلوں میں مسلمانوں کو کس طرح شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ کس طرح کے انسانیت کو شرمسار کر دینے والے سلوک جیل انتظامیہ کی طرف سے روا رکھے جاتے ہیں. کیا ایک سیکولر ملک میں اس طرح کی حرکات زیب دیتی ہیں۔ یہ ملک اور اس کا دستور ہر شہری کے لیے مساوات کی بات کرتا ہے۔ مگر سچائی اس کے بر عکس ہے. مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ فرمائیں ذیل میں دیا جانے والا اقتباس:-
"ہم لوگوں کی گرفتاری کے تیسرے دن جب میرے دوست سردار کھڑک سنگھ اور کشن لال ملنے آئے تو جیل کے سب سے ذمہ دار افسر نے ان کو دیکھتے ہی فرمایا تھا کہ کہاں یہ پاکستانی جاسوس اور کہاں آپ! بھئی یہ دوستی میرے سمجھ میں نہیں آئی." (روداد قفس، ص: 136)
کتاب میں جہاں ایک طرف سسٹم کی غلط پالیسیوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ تو وہیں دوسری طرف نعمانی صاحب کا اپنے رفقا سے والہانہ محبت کا انداز بھی قابل رشک معلوم پڑتا ہے۔ کیونکہ جس وقت آپ جیل میں تھے اس وقت اوپر سے رمضان المبارک کا مہینہ آنے والا تھا اور آپ حافظ قرآن تھے. آپ کے اہلِ خانہ اور وکیل کی یہ خواہش تھی کہ آپ عارضی طور پر ایک مہینے کے لیے تراویح کی خاطر جیل سے باہر آ جائیں۔ مگر آپ کو یہ قطعی منظور نہ تھا کہ میں اپنے دونوں رفقا کو جیل میں چھوڑ کر جیل سے باہر آؤں۔ یہ واقعہ بہ زبان وکیل اس طرح نقل کیا جاتا ہے کہ:-
” ہمارے وکیل صاحب نے ادھوری خوشی کو قبول کرنے سے یہ کہتے ہوئے معذرت کردی کہ مجھے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ حفیظ اپنے ساتھیوں کو جیل میں چھوڑ کر کسی بھی قیمت پر باہر آنے کے لیے آمادہ نہیں ہو سکتا. یا تو عدالت عالیہ تینوں کو رہا کرے یا کسی کو بھی نہیں. اور عدالت نے دوسری بات منظور کر لی۔" ( روداد قفس، ص: 157)
انسان کی زندگی کے ہر اچھے برے وقت میں گر سب سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ اس کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے والا یا ہونے والی ہوتا یا ہوتی ہے تو وہ اس کا اپنا Life Partner ہوتا ہے۔ جو خوشی میں، غمی میں یعنی ہر لمحہ آپ کو حوصلہ اور ہمت دینے کا سہارا بنے، صحیح معنوں میں وہی شریک حیات ہونے کا/کی مستحق ہے۔ اس لحاظ سے بھی موصوف رب العالمین سے اچھی قسمت لکھا کر لائے تھے۔ملاحظہ فرمائیں یہ اقتباس:-
"رہائی کے بعد میری اہلیہ نے بڑے فخر سے کہا کہ جیل میں آپ کے ساتھ کبھی کبھی کھانے اور باتوں میں اتنی دیر ہو جاتی تھی کہ باہر کوئی سواری نہیں ملتی تھی اور میں ہارون کو گود میں لے کر دوسرے ہاتھ میں ناشتے دان لے کر اسٹیشن تک پیدل آتی تھی، اور یہ سن کر پہلی بار مجھے اپنی اہلیہ اپنے سے بہت بلند اور قابلِ قدر ہی نہیں قابلِ فخر لگیں." (روداد قفس، ص 197)
حاصل کلام یہ ہے کہ یہ کتاب واقعی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، بلکہ ہر علیگ کو اسے پڑھنا چاہیے اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی نصابی کمیٹی کو اسے وہاں کے نصاب میں شامل کر کےآنے والی نسلوں کو یونی ورسٹی کی جدوجہد سے پر تاریخ سے روبرو ہونے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔۔ سرورق دیدہ زیب ہے۔۔۔ اور صفحات کی کوالٹی بھی بہتر معلوم پڑتی ہے۔
کتاب منگوانے کے لیے ذیل کے نمبر پر رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ 9794593055
***
محمد انعام برنی کی گذشتہ نگارش:کتاب کا نام : شاہد علی خان (ایک فرد _ ایک ادارہ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے