قل کا زردہ

قل کا زردہ

ارم رحمان
لاہور، پاکستان

بڑے سے گھر کے بڑے سے صحن میں جب بڑی بی کے قل کے اہتمام میں 6 دیگیں تین بریانی اور تین زردے کی گرما گرم اتریں تو عورتوں کاغلغلہ سا اٹھا اور حسب دستور سینے پہ دوہتڑ مارے گئے. کچھ خواتین نے اونچی آواز میں کہا کہ ہائے یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ اماں ہم میں نہیں ہوں گی. کسی نے قرآن پاک کی آیت پڑھی کہ ہر ذی نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے.
کسی باذوق مرد نے کہا
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج تم کل ہماری باری ہے
اور لیجیے پانچ دس منٹ کے اس جذباتی منظر کے ساتھ صف ماتم کی بجائے کھانے کی صفیں بچھنے لگیں. کچھ خواتین کی آنکھوں میں سچ مچ کے آنسو بھی تھے مگر کھانے کے لیے چوکس تھیں، کیونکہ دیگوں کے ڈھکن ہٹا دیے گئے تھے اور پوری فضا [میں] اشتہا انگیز خوشبو پھیل چکی تھی.
اب رونا اپنی جگہ کھانا اپنی جگہ. خالص گھی کی خوشبو ناک کے نتھنوں میں بھر گئی تھی اور کھانے کی اس خاصیت نے مرحومہ حاجرہ بی کی یاد شدید تازہ کر دی، جنھیں پرسوں ہی منوں مٹی تلے دفنا آئے تھے اور چونکہ وہ دیسی گھی کی رسیا تھیں، اس لیے قل کے کھانے کے لیے دیسی گھی کا خاص انتظام کیا گیا تھا. بریانی میں گوشت قدرے چاولوں سے زیادہ اور لذیذ زردے میں کسی بھی میوے کی کسر نہیں چھوڑی گئی ۔۔سونے پہ سہاگہ ہوگیا.
سفید رنگت کی بالکل سفید بالوں والی شفیق سی خاتون، جن کی عمر 80 کے قریب تھی، اچھی خاصی چنگی بھلی کچھ دن پہلے ہی گرمیوں کے نئے کپڑوں کا ڈھیر سلوایا تھا اور بالکل تندرست توانا بڑے سے گھر میں خراماں خراماں چلا پھرا کرتیں، بس اچانک ہی شدید گرمی کی لپیٹ میں آگئیں اور کچھ ہی دیر میں چٹ پٹ اللہ کو پیاری ہوگئیں.
ماشاءاللہ سے پانچ بیٹے اور چار بیٹیوں کی ماں تھیں، پھر پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اور دو تین تو ان میں سے بھی شادی شدہ اور شوہر کا بھی دو سال پہلے ہی انتقال ہوا تھا. شادی شدہ زندگی کے اٹھاون سال تو ضرور دیکھے ہوں گے. پھر پورے گھر اور سسرال پہ راج کیا، نہ کوئی کمی رہی تھی زندگی میں نہ کبھی کوئی زیادتی ہوئی ان کے ساتھ،
الغرض عیش و عشرت میں ہی کٹی تھی یہ بے وفا زندگی بھرے پرے گھر کی تھیں پھر خوب سارے بہن بھائی ان کی آل اولاد، شوہر کا خاندان بھی کچھ کم نہ تھا.
المختصر کچھ مختصر نہ تھا اور اس وقت قل کے موقعے پر محلے کے کم لوگ تھے، سارے گھر کے تھے. ویسے بھی نئی نسل اسکول کالج چلی گئی تھی. انھیں کیا دل چسپی تھی کسی عمر رسیدہ خاتون کے قل میں، نانی دادی کو بس یاد کیا جاتا ہے، ان کی یاد میں اپنی سرگرمیاں نہیں چھوڑی جاتیں.
اس وقت جب صفیں بچھیں تو وہ ظہر کی نماز کی نہیں بلکہ کھانے کی تھیں اور سب مرد و خواتین الگ الگ کمروں میں خود بہ خود اس طرح تقسیم ہو گئے جیسے باقاعدہ فوج سے ٹریننگ لی ہو، بنا دیر لگائے جھٹ پٹ سیدھے سیدھے سفید اجلی اجلی چاندنیوں پہ بیٹھ گئے. ملازموں کا ہراول دستہ بڑی چابک دستی سے دسترخوان بچھا کر پلیٹیں لگانے لگا اور پھر بریانی اور زردے کے بڑے بڑے تھال لائے گا. شدید گرمی میں سلاد باسی اور دہی کھٹا ہو جاتا ہے، اس لیے اس کو موقوف کر دیا گیا.
کہنے کو تو قل تھا مگر یہ ہی "کل" تھا. واہ واہ کیا غضبناک لمبا لمبا باسمتی چاول، سلیقے سے کٹا گوشت. وہ بھی وافر مقدار میں. اور گرم مصالحے کے جائفل جاوتری بہت مزا دے گئے اور زردے کو تو شاہی زردہ کہنا چاہیے. کون سا میوہ تھا جو ڈالا نہ گیا. کاجو، پستہ، بادام، کشمش اور سب سے بڑھ کر کھویا اور چاندی کے اوراق سے مزین ہر رنگ کے چاول، ہرے، لال، پیلے، سنہرے اور سب سے زیادہ رنگ برنگی اشرفیاں جو زردے کی شان اور پہچان ہوتی ہیں، کثیر تعداد میں تھیں، دل کرتا تھا کہ رج کے کھانے سے پہلے رج کے دیکھا جائے، معدے میں اترنے سے پہلے آنکھوں کے ذریعے دل میں اترگئے.
نوکر چاکر بھاگ بھاگ کر کھانا کھلانے میں لگ گئے تو سب سے بڑی اور بوڑھی ملازمہ شفقت بی نے اپنے بیٹے بہو کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا اور آناً فاناً ان کے پانچ بچے بڑے بڑے شاپر لے آئے اور بڑی صفائی سے بھر بھرا کر جب تک اپنے کوارٹرز کو چمپت نہ ہوگئے، شفقت بی نے چاروں طرف نظر رکھی کہ اس سے پہلے بندر بانٹ ہو، اپنے لیے رکھ لیے جائیں. اسی طرح کچن میں موجود سب نوکروں کو بھی اشاروں کنایوں میں سمجھا دیا گیا کہ لوٹ لو جتنا لوٹ سکو، پھر نہ کہنا کہ شفقت بی نے قل کے کھانے میں ڈنڈی ماری. یعنی شفقت بی نے پوری ایمان داری سے اقربا پروری نبھائی اور کسی ملازم کو شکایت کا موقع نہیں دیا. سب رشتے دار گرم موسم کی وجہ سے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے تھے. کوئی خاتون کچن میں آئی بھی تو شدید گرمی کی وجہ سے زیادہ دیر رکنے کی کوشش نہیں کی. اس لیے سب صفائی مکمل صفائی سے انجام دے دی گئی.
سب کھانا کھا چکے اور چلنے کو اٹھے تو پھر رسماً سب کو کھانا بانٹنے کا مرحلہ آیا. کچھ نے منع کیا اور کچھ نے جو ملا لے لیا. بڑے لوگ تھے، روز مرغ مسلم کھانے کے عادی. کیا کیا نعمتیں حاصل نہ تھیں اس لیے زیادہ تردد نہیں کیا.
اگر کسی نے کہہ ہی دیا کہ شفقت بی پہلے کھالیں پھر بانٹیے گا تو انھوں نے روہانسی صورت بنا کر کہا ارے بی بی اس موقع پہ کھانے کو کب دل چاہتا ہے، کہاں اترتا ہے تر نوالہ بھی اور لمبی سی آہ بھر کے ان کو وہ پلاسٹک کی پیکنگ پکڑا دیتی جس طرح اچھے دکاندار گاہکوں کو صفائی اور نفاست کا احساس دلاتے ہوئے دیتے ہیں.
ملازموں کے اس جتھے میں اگر کوئی واقعی دل سے رنجیدہ تھا تو وہ تھی 28 سالہ نوری. سچ میں یتیم مسکین اور حاجرہ بی کی منہ بولی بیٹی نما ملازمہ، اس کی ماں حاجرہ بی کی بڑی چہیتی ملازمہ تھی. اس کی ماں ان کی ماں کی، نسل در نسل خاندانی. لیکن جب نوری کی ماں مری تو حاجرہ بی کو بہت دکھ ہوا اور نوری کم عمر تھی باپ کا سایہ بھی ماں سے کچھ ماہ پہلے ہی اٹھا اور اب ماں بھی گئی. ایک دو سال میں بالکل لاوارث ہوگئی. ویسے بھی اکلوتی تھی، بھائی نہ بہن، لیکن حاجرہ بھی نے بھی اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا. نوری کو بیٹی بنا کے رکھا. عید بقر عید پہ واقعی اس کی پسند کا مہنگا جوڑا دلایا، جوتے، مہندی، چوڑیاں۔ میڑک تک تعلیم بھی دلوائی اور پھر معقول رشتہ دیکھ کر شادی بھی کی. شادی کے بعد بھی لیا دیا چلتا رہا. لیکن نوری کی قسمت! اولاد نہ ہوسکی، مگر شادی کے پانچ سال بعد شوہر تپ دق سے چل بسا. پھر آن پڑی حاجرہ بی کے در پر،
حاجرہ بی نے پھر سنبھالا دیا.
کھانے کی شوقین نوری بھی تھی اور اس نے بھی شفقت بی کے زیر شفقت اپنے لیے بریانی اور زردے کے ڈونگے بھر لیے تھے اور مہمانوں کے جانے کے بعد ہی کھانے کی باری آنی تھی لیکن وہ مطمئن تھی کہ اس بھاگ دوڑ میں وہ کسی سے پیچھے نہیں رہی.
آخر عصر کے وقت تک گھر والوں کے علاوہ باقی سب رسمی ہائے ہائے کرتے چلے گئے.
مالکان اپنے کمروں میں آرام کرنے لگے اور شفقت بی کے زیر سایہ جو خواتین برتن دھو رہی تھیں ان کو پیسے اور کھانا دے کر رخصت کر دیا گیا اور جو دسترخوان پہ بچاگھچا کھانا تھا، جو امیروں کی سرشست میں ہے کہ پلیٹوں میں ضرور چھوڑتے ہیں وہ کھانا سمیٹ کر گھر کے باہر فقیروں بھکاریوں کی لمبی قطار میں برابر تقسیم کر کے حاتم طائی کی قبر کو لات ماری اور واقعی سب کچھ ٹھکانے لگا کر اپنے سگھڑاپے کا بھر پور مظاہرہ کیا.
اب سب مالکان کمروں میں اور ملازم کوارٹرز میں چلے گئے.
نوری نے بھی عصر کی نماز سے پہلے وہ کہاوت دہرائی
پہلے طعام پھر قیام
اور اہتمام سے دستر خوان بچھایا، ڈونگے اور پلیٹیں رکھیں اور ڈھکن کھولتے ہی دل للچایا کہ پہلے یہ خوش شکل زردہ تناول کیا جائے.
اور جیسے ہی زردے کے دو تین نوالے حلق سے اترے اس کی آنکھوں سے زردے میں پڑی اشرفیوں کی طرح کے موٹے موٹے آنسو زردے میں گرنے لگے کیونکہ وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ اس کی زندگی کا آخری لذیذ زردہ ہے.
***
کچھ افسانہ نگار کے بارے میں :

ارم رحمن کا تعلق اردو ادب کے اہم مرکز لاہور سے ہے۔ انھوں نے قانون کی تعلیم حاصل کرکے لاہور ہائی کورٹ میں وکالت کی۔ ادبی اعتبار سے ارم رحمن ایک منفرد طرز کی افسانہ نگار اور شاعرہ ہیں۔ ان کی نثری نظمیں موضوعاتی تنوع اور ٹریٹمنٹ کے لحاظ سے تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتی ہیں۔ ان کی نثری اور شعری تخلیقات میں جدت پسندی اور تجربہ پسندی اہم عناصر ہیں۔ ان کی تحریروں نے بہت جلد نقادوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ ‘وحشتِ دروں، آخری مسافر، اچھا، دو سال، آوازیں وغیرہ ان کے مقبول افسانے ہیں ۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے