ساہتیہ اکادمی’ یووا پرسکار‘ یافتہ چند فن کار

ساہتیہ اکادمی’ یووا پرسکار‘ یافتہ چند فن کار

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

زیادہ عرصہ نہیں گزرا، جب اردو شعر و ادب پر جمود طاری ہونے کاشکوہ کیا جا رہاتھا۔ مایوسی کے دھندلکے بڑھتے جارہے تھے۔ عہد کے مشاہیر ادب اپنی ادبی توانائی اور ادبی فرائض انجام دے کر عمرطبعی کو پہنچ کر نڈھال ہوچکے تھے اور کچھ دنیا سے رخصت ہورہے تھے۔ملک کے اندر اردو زبان کی زبوں حالی نے مایوسیوں کے دھندلکے کو مزید گہرا کر دیا۔ ان ہی مایوس کن حالات میں ہم اکیسویں صدی میں جب داخل ہوئے تو اس نئی صدی میں مایوسیوں کے دھندلکوں سے کچھ نئی ادبی کرنیں پھوٹتی نظر آئیں اور کئی ایسے ادبی چہرے سامنے آئے، جن کے قلم کی تازگی، توانائی اور تابندگی نے مایوسی کے بڑھتے اندھیرے کو کسی حدتک کم کردیا۔بڑھتی تاریکی میں ایک جگنو بھی امید کی کرن جگا دیتا ہے. ایسے کئی جگنو ادبی فضا پر اپنے وجود کا احساس کراتے ہوئے نظر آئے۔ ان ادبی جگنوؤں سے ایک بار پھر ادبی و تخلیقی کامرانیوں اور امکانات کے ممکنہ پہلو روشن ہونے لگے۔ ایسے بہت سارے نئے نام سامنے آئے جن سے اردو ادب کی سمت و رفتار کو دور تک لے جانے اور گراں قدر اضافے کی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ ایسے نوواردوں کی فہرست طویل ہے اور تنگیِ صفحات فی الوقت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی ہے کہ ان تمام روشن مستقبل کے ضامن ادبی فن کاروں کی تفصیل بیان کی جائے۔
اس لیے میں سردست  ایسے چند نوجوانوں کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جو اپنی ہمّت، حوصلے، جنون اور شوق و ذوق سے ادبی میدان میں متحرک اور فعال ہیں اور جنھیں حکومت ہند کے ساہتیہ اکادمی نے گذشتہ2011ء سے ’’ساہتیہ اکادمی یووا پر سکار‘‘ کا اعزاز عطاکر ان نئی نسل کے تازہ کار فن کاروں کے اندر ادبی جوش وخروش بھرتے ہوئے ان کے ادبی سفر میں کامیابی اور کامرانی کے راستے ہموار کیے ہیں۔ 2011ء سے 2020ء تک ساہتیہ اکادمی کا’یووا ساہتیہ پرسکار‘ پانے والوں میں وشال کھلر(دھند میں امان)، غضنفر اقبال (معنی مضمون)، معید رشیدی (تخلیق، تخیل اور استعارہ)، التفات امجدی (چکنے پات)، امیر امام (نقش پا ہواؤں کے)، عبدالسمیع (نگری نگری پھرا مسافر)، رشید اشرف خاں (مولانا محمد حسین آزاد اور ان کا شعری سفر)، شہناز رحمٰن (نیرنگ جنوں)، سلمان عبد الصمد (لفظوں کا لہو) اور ثاقب فریدی (میں اپنی بات کا مفہوم دوسرا ہو جاؤں) کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور ہر سال اس فہرست میں ایک نام کا اضافہ ہوگا، جو اپنے دوسرے ہم عصر ادبی فن کار کو مہمیز کرے گا۔ ساہتیہ اکادمی یووا پرسکار کا اعزاز پانے والے ان حوصلہ مند نوجوانوں میں بے اختیار پہلا نام ڈاکٹر غضنفر اقبال کا ابھرتا ہے۔ اس لیے ابتدا ان ہی سے کرتا ہوں۔
غضنفراقبال
ڈاکٹر غضنفر اقبال کو 2010ء میں شائع ہونے والے ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ’’معنی مضمون‘‘ پر ساہتیہ اکادمی دہلی نے 2012ء میں یووا ساہتیہ پرسکار سے نوازا تھا۔ اس ایوارڈ کے ملنے پر غضنفر اقبال نے یہ اعتراف کیا تھا کہ اس ایوارڈ نے میری ادبی زندگی میں ایک تحریک کا کام کیا ہے۔
17مارچ 1978ء کو ریاست کرناٹک کے گلبرگہ شہر میں پیدا ہونے والے غضنفر اقبال کی زیر تذکرہ کتاب میں تعارف پیش کرتے ہوئے منظور وقار نے لکھا ہے:
’’غضنفر اقبال سہروردی کے چہرے پر سنجیدگی، مزاج میں بذلہ سنجی، آنکھوں میں عزائم، خیالات میں گہرائی، افکار میں گیرائی، آواز میں نرمی، گفتگو میں شیرنی۔‘‘ (صفحہ:14)
ڈاکٹر غضنفر اقبال یوں تو اب تک درجنوں کتابوں کے مصنف اور مرتب ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے لیے ادب میں کٹھن راہ کا انتخاب کیا ہے. یعنی تنقیدنگاری اور اس میں بھی فکشن کی تنقید میں وہ اپنی منفرد شناخت قائم کرنے کے متمنی ہیں۔ ’’معنی مضمون‘‘ میں ہی اپنی اس ترجیح اور پسند کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے ترقی پسند افسانہ، بہ یک نظر، جدید اردوافسانہ نگار، نویں دہائی کے افسانہ نگار، قومی یکجہتی کے تناظر میں اردو افسانہ، افسانچہ: روایت اور تجربہ، اردو شاعری اور فکشن میں مزدور: ایک ناتمام جائزہ، پریم چند کے ناول ایک سرسری جائزہ، فراق گورکھپوری کے دوافسانے جیسے عنوانات قائم کرتے ہوئے اپنے ان تنقیدی مضامین میں اپنی تنقیدی بصیرت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔
اس کتاب سے قبل 2006 میں ڈاکٹر غضنفر اقبال کی ایک کتاب ’’اردو افسانہ1980ء کے بعد‘‘ منظرعام پر آئی تھی۔ جس میں انھوں نے 1980 کے بعد ابھرنے والے چند اہم افسانہ نگاروں کی تخلیقی جہات کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اپنے گہرے تنقیدی شعور اور فہم و ادراک سے نئے افکار و اظہار کے عمدہ نمونے پیش کیے ہیں۔ خاص طور پر 1980ء کے بعد اردو افسانے کے موضوعات و مسائل، ہیئت و تکنیک، کردار نگاری اور زبان و بیان میں ہونے والی تبدیلیوں پر بہ طور خاص روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب کے بعد 2018-19ء میں ڈاکٹر غضنفر اقبال کامیابی و کامرانی کی جست لگاتے ہوئے اردو فکشن پر مخصوص کتاب ’’وہ ایک کہانی‘‘ سامنے لے کر آئے اور اس بات کوثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ مہدی جعفر اور وارث علوی کی طرح افسانوی ادب کے پارکھ کے طور پر اپنی شناخت قائم کرناچاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں غضنفر اقبال کا کہنا ہے کہ ’’افسانوی ادب پر مضمون لکھنا اچھا لگتا ہے۔‘‘
فکشن کے تعلق سے ڈاکٹر غضنفر اقبال نے اپنے والد حمید سہروردی کے افسانوی ادب کی خدمات کا بھرپور تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کئی کتابیں شائع کی ہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک کتاب ’’تعبیر آگاہی‘‘ منظرعام پر آئی ہے۔ جس میں حمید سہروردی کی غیر افسانوی تحریروں کو بڑے اہتمام سے مرتب کرتے ہوئے اسے ایک دستاویزی شکل دی ہے۔ اپنی مرتب کردہ ایک دوسری کتاب ’’حامد اکمل جہات و جستجو‘‘ میں بھی ڈاکٹر غضنفر اقبال نے اپنی بہترین ناقدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ ’’عالم خیال میں‘‘ میں ڈاکٹر غضنفر اقبال نے ابن صفی، سلیمان خطیب، اعجاز صدیقی، محمود ایاز، زبیر رضوی، حمید الماس، جاوید ناصر، صابر شاہ آبادی اور عقیل جامد جیسی مشہور ومعروف شخصیات سے ملاقات نگاری جیسے نئے عنوان کے تحت’’الہامی انٹر ویو‘‘ یا ’’عالم برزخ میں‘‘ کی یاد دلاتے ہوئے، ان مرحومین کی شخصیت اور فن پر سوالات قائم کرکے، ان مرحومین کی نثر یا ان کے اشعار کے حوالے سے جس خوب صورتی سے جواب تیار کیا ہے۔ وہ یقینی طور پر ڈاکٹر غضنفر اقبال کی ذہانت کے بیّن ثبوت ہیں۔ ڈاکٹر غضنفر اقبال جس رفتار اور کامیابی کے ساتھ ادب کے سفر پر گامزن ہیں، اسے دیکھتے ہوئے یہ توقع ہے کہ ڈاکٹر غضنفر اقبال بہت جلدادب کے افق پر ایک روشن ستارہ بن کر ابھریں گے۔
عبدالسمیع
عبدالسمیع کی 376 صفحات پر مشتمل کتاب ’’نگری نگری پھرا مسافر‘‘ (دیوندر ستیار تھی:شخصیت اور آثار) 2015ء میں منظر عام پرآئی تھی۔ اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر 2016 میں انھیں اس کتاب پر ساہتیہ اکادمی کا ’’یووا پرسکار‘‘ ملا تھا۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں عبدالسمیع نے دیوندر ستیار تھی کے 106 افسانوں کی تخلیق کیے جانے کی اطلاع دینے کے ساتھ ساتھ ان کے لوک گیت جمع کیے جانے کے سلسلے میں لکھا ہے:
’’دیوندرستیارتھی -2003۔ 1908 کا شمار اردو کی ان چند شخصیات میں ہوتا ہے جنھیں ہم تہذیبی استعارے کا نام دے سکتے ہیں۔ لوک گیتوں کے سلسلے میں ان کی جو خدمات ہیں اس کی کوئی دوسری مثال ہندوستان کی ادبی اور تہذیبی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دیوندرستیارتھی نے لوک گیت جمع کرنے کے لیے سنیاسیوں کی طرح برصغیر ہند و پاک، بنگلہ دیش، لنکا، برما اور نیپال کے دور دراز علاقوں کا سفر کیا ہے۔ اس دس سالہ سفر کے بعد کچھ دنوں تک لاہور میں ان کا قیام رہا۔ لوک گیت پر ان کے مضامین ’ماڈرن ریویو‘ اور ’ایشیا‘ جیسے رسالوں میں شائع ہوئے۔ قیام لاہور کے دوران ستیارتھی کی شخصیت کا دوسرا رخ سامنے آیا۔ راجندر سنگھ بیدی کی تحریک پر ان کی افسانہ نگاری کا آغاز ہوا اور بہت جلد افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کی شناخت قائم ہو گئی۔ انھوں نے لوک روایت کے زیر اثر جو افسانے تخلیق کیے، انھیں ایک نئے تخلیقی تجربے کے طور پر دیکھا گیا۔‘‘
(نگری نگری پھرا مسافر! دیوندرستیارتھی: شخصیت اور آثار، صفحہ: 9)
دیوندر ستیارتھی، منٹو اور بیدی کے ہم عصر تھے اور ان دونوں فن کاروں سے ان کی دوستی بھی تھی اور اکثر ناچاقی بھی ہوتی رہتی تھی۔ بعض واقعات تو اتنے دل چسپ ہیں کہ پڑھتے ہوئے بے اختیار ان واقعات کو یاد کرتے ہوئے لطف لینے کی خواہش ہوتی ہے کہ جب دیوندرستیارتھی سے منٹو اور بیدی کے ادبی معرکے ہوا کرتے تھے۔ جسے عبدالسمیع نے کردار کشی کا نام دیاہے، حالانکہ یہ ہم عصرانہ چشمک تھی جو کافی دل چسپ اور دانشورانہ ہوا کرتی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ دیوندر ستیارتھی کے تعلق سے ایسے کئی واقعات اتنے دل چسپ ہیں کہ جاننے والے لکھتے جائیں اور پڑھنے والے لطف لے لے کر پڑھیں۔ بہر حال اپنی اس کتاب میں عبدالسمیع نے اپنے پیش لفظ کے بعد جو عنوانات مثلاً سوانح اور شخصیت کے تحت_ دیوندرستیارتھی: مختصر سوانحی خاکہ، دیوندرستیارتھی: سوانح اور شخصیت، دیوندرستیارتھی کی افسانہ نگاری کے تحت _ نئے دیوتا، اور بنسری بجتی رہی، شہر شہر آوارگی۔ دیوندرستیارتھی کے پانچ افسانے (تجزیہ) کے تحت_  لال دھرتی، بٹائی کے دنوں میں، قبروں کے بیچ و بیچ، پیرس کا آدمی، رفو گر، دیوندرستیارتھی کے لوک گیت کے تحت، میں ہوں خانہ بدوش، گائے جا ہندوستان۔دیوندر ستیارتھی کے خاکے، دیوندرستیارتھی کے دیباچے، دیوندر ستیارتھی کی تنقید، پریم چند اور دیوندر ستیارتھی، دیوندرستیارتھی اور راجندر سنگھ بیدی، منٹو اور دیوندرستیارتھی، منٹو اور دیوندرستیارتھی کے یہاں طوائف، دیوندرستیارتھی اور بلراج مینرا جیسے قائم کیے ہیں۔ وہ سب کے سب دیوندرستیارتھی کی حیات و خدمات کا پوری طرح احاطہ کرتے ہیں۔ جنھیں عبد السمیع نے بڑی محنت، عرق ریزی اور اپنی تنقیدی و تحقیقی بصیرت سے اہمیت کا حامل بنا یا ہے۔ کتاب کی ابتدا میں ہی عبدالسمیع نے اپنی تنقیدی صلاحیتوں کے شعور و ادراک کا اظہار کرتے ہوئے دیوندرستیارتھی کے پانچ افسانوں کا بہترین تجزیہ پیش کیا ہے۔
اس کتاب سے قبل 2012ء میں ڈاکٹر عبدالسمیع کی دیوندرستیار تھی کی کہانیوں کی تلاش و جستجو کے بعد ’’شہر شہر آوارگی‘‘ کے نام سے دوجلدوں میں منظرعام پر آئی تھی۔ ’’شہر شہر آوارگی‘‘ جلد 1میں دیوندرستیارتھی کے 30 افسانے اور جلد 2 میں 27 افسانے شامل ہیں۔ یعنی کل 57 کہانیوں کو سامنے لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ حالانکہ عبدالسمیع نے 106 افسانوں کی تلاش اور تحقیق کیے جانے کا ذکر کیاہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دیوندرستیارتھی کے بہت سارے افسانے اب اس لیے کمیاب یا نایاب ہیں کہ دیوندرستیارتھی کے افسانوی مجموعے کافی تلاش کے باوجود نہیں ملتے ہیں۔ جس کی وجہ کر عبدالسمیع نے ان کے کئی افسانوں کو ہندی سے اردو میں ترجمہ کر کے سامنے لایا ہے۔ دیوندرستیارتھی کی شخصیت اور فن پر جس فنکارانہ انداز سے تحقیق و جستجو عبدالسمیع نے کی ہے، اس کے مدنظر میرا خیال ہے کہ جس طرح جگن ناتھ آزاد کو ماہر علّامہ اقبال اور مالک رام و کالی چرن داس گپتا کو ماہر غالب قرار دیا گیا ہے، ٹھیک اسی طرح عبدا لسمیع کو ماہر دیوندرستیارتھی کے طور پر مانا جانا چاہیے۔ ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ بہ قول عبدالسمیع ’ان (دیوندرستیارتھی)کے ہم عصر جتنی آسانی سے انھیں دیکھا کرتے تھے، اتنی ہی آسانی سے بھُلا بھی دیا۔‘ یہ بھی سچ ہے کہ عبدالسمیع نے ستیارتھی کو تلاش کرلیا، ان کے فکر وفن میں ڈوبے، ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو دیکھا سمجھا اور پھر انھیں اپنی تین کتابوں میں اس طرح پیش کیا جو یقینی طور پر جوستیارتھی کو بھول جانے کی تلافی ہے۔ اس تلاش و جستجو کے لیے عبدالسمیع مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ویسے ہندی میں بھی ان پر کام ہوا ہے۔ ہندی ماہنامہ ’’ساریکا ‘‘ نے ایک زمانے میں دیویندر ستیارتھی پر بہت اچھا خاص نمبر شائع کیا تھا۔ لیکن عبدالسمیع کی تلاش و جستجو اس سے آگے ہے۔
عبدالسمیع نے اس شان دار اور یادگار کارنامہ انجام دینے کے ساتھ ساتھ 2016 ء میں ہی ایک اور بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کارنامہ کا نام ’’اردو میں نثری نظم‘‘ جیسی معیاری کتاب ہے۔ جس نثری نظم کے سلسلے میں کسی ناقد نے اسے دریابرد کرنے کی صلاح دی تھی، وہی نثری نظم اب جب کہ نصف صدی کا سفر طے کرچکی ہے۔ عبدالسمیع نے اپنی تحقیقی تلاش و جستجو اور تنقیدی شعور و آگہی سے نثری نظم کی پوری تاریخ کو اتنے منظم اور مؤثر طور پر اپنی اس کتاب میں پیش کیا ہے کہ آج اس صنف شاعری کی قدروقیمت بڑھ گئی ہے۔ جس کے نمایاں ثبوت اس کتاب کی مقبولیت ہے جو جغرافیائی حدود کو توڑتی ہوئی دوردورتک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ 10اکتوبر 2020ء کو ’حلقۂ ارباب ذوق‘ کراچی کی جانب سے’’اردومیں نثری نظم‘‘ کے تعلق سے ایک اعزازی و تفہیمی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے اس کتاب کی اہمیت و افادیت تسلیم کی گئی۔ میرے خیال میں عبدالسمیع کی اس کاوش کی پذیرائی دراصل ان کی اس اہم موضوع کی تعبیر، تدوین و تحقیق کا اعتراف ہے۔ عبدالسمیع نے ان کتابوں کے علاوہ پروفیسر محمدحسن کے مشہور کالم ’’آڑے ترچھے آئینے‘‘ عنوان سے لکھی گئی کتاب میں بھی اپنی ذہانت اور گہرے مطالعہ و مشاہد ہ کا ثبوت دیا ہے۔
اب جب کہ عبدالسمیع ملک کی ایک اہم یونیورسٹی بی ایچ یو کے شعبہ اردو سے منسلک ہیں اور درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں، اردو حلقہ کو اس بات کی توقع ہے کہ وہ اپنی تلاش و جستجو کو عصری ادبی منظرنامے میں دیکھنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور اپنی تنقیدی و تحقیقی صلاحیتوں اور اپنے اظہار و ابلاغ سے ان دونوں میدان میں قابل قدر اضافہ کرتے ہوئے اردو ادب کی نئی دنیا آباد کریں گے۔
شہناز رحمٰن
شہناز رحمن ایک اچھی افسانہ نگار اور افسانوں کی ناقد ہیں، یعنی وہ افسانوی تخلیق اور تنقید دونوں صنف ادب میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ 2016ء میں شائع ہونے والے ان کے افسانوی مجموعہ ’’نیرنگ جنوں‘‘ پر ساہتیہ اکادمی نے 2018ء میں’’ساہتیہ یووا پرسکار‘‘ جیسا اہم اور سرکاری اعزاز بخشا ہے۔ اس ایوارڈ سے شہناز رحمن کو بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس ایوارڈ کے اعلان ہوتے ہی وہ ایک ’’یووا افسانہ نگار‘‘ کی حیثیت سے افسانوی ادب میں متعارف ہوگئیں۔
شہناز رحمن کے پہلے افسانوی مجموعہ ’’نیرنگ جنوں‘‘ میں کل 23 افسانے ستیہ وان، خونچکاں، طائر بے نوا، باگ ڈور، انجانی تشنگی، نیرنگ جنوں، نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، مکمل نامکمل، اندھیروں کا راج، افسانہ، بے خوابیاں، جواں ہیں جس سمت دیکھیے، راج محل، ساغر ہو صراحی ہو، وہ ایک لمحہ، غرورشب، عجیب سکھ، ذکیہ تاب زریں، کاتب تقدیر، انمول کپوت، اپنا کہیں جسے، اداسی کا سبب، جیسے عنوانات کے تحت موجود ہیں۔ جو متنوع موضوعات، کردار، واقعات پر مبنی ہیں اور ہر افسانہ میں مشاہدہ کی گہرائی و گیرائی کا پرتو موجود ہے۔ افسانے کی بنت اور اسلوب بیان میں شہناز رحمن نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے۔
جہاں تک شہناز رحمن کے تعارف کا تعلق ہے۔ ’’نیرنگ جنوں‘‘ کے پیش لفظ میں میانوالی (پاکستان) کے محمود حامد سراج نے ان کے افسانوں کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا تعارف پیش کیا ہے، جوکئی لحاظ سے دل چسپ اور اہمیت کاحامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میرے لیے یہ بات حیران کن اور خوش گوار تھی کہ ایک نیپالی لڑکی اتنی شفاف اردو بول اور لکھ سکتی ہے۔ وہ بچپن سے نیپال میں رہی، پھر اردو زبان و ادب کے ساتھ کیسے اتنا گہرا جڑگئی کہ اردوادب ہی اس کی پہچان اور نام کی شناخت ہے۔ اس نے کب اردو زبان سے محبت کی …؟ بچپن سے …؟ اس نے اردو رسم الخط کب سیکھا …؟ یہ سب جاننا ضروری ہے۔ اس کے بنا شہناز رحمن کی تخلیق کے پرت نہیں کھلیں گے۔ شہنازرحمن کا کہنا ہے:
’’کپل وستو میں ڈھنگ کا کوئی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے میں پانچویں کلاس سے ہی ہاسٹل چلی گئی تھی۔ ہاسٹل میں 90% ہندوستان کے مختلف خطوں کی لڑکیاں تھیں جو اودھی بولتی تھیں۔ پانچویں کلاس سے انٹرمیڈیٹ تک تاریخ، جغرافیہ، ہندی اور انگریزی کی طرح ایک مضمون کی حیثیت سے اردو پڑھتی رہی۔ دسویں سے افسانے جیسی تحریریں لکھنے لگی تھی… …‘‘
’’نیرنگ جنوں‘‘ جیسے خوب صورت افسانوی مجموعہ کی اشاعت کے بعد شہناز رحمن 2018ء میں ’’اردو فکشن: تفہیم تعبیر اور تنقید‘‘ کے نام سے اپنے تنقیدی مضامین کا مجموعہ لے کر آگئیں۔ یہ تنقیدی مضامین کا مجموعہ عام ڈگر سے الگ ہٹ کر ہے۔ اس کتاب کے پیش لفظ بہ عنوان ’’اپنی بات‘‘ میں انھوں نے اس بات کو نشان زد کیا ہے کہ ’’ان مضامین کو رسمی اور روایتی سمجھ کر نہ پڑھا جائے‘‘ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے شہناز رحمن نے لکھاہے کہ ’’میں افسانے کے تجزیے میں عجلت اور سطحی مطالعے کے بجائے اس وقت تک افہام و تفہیم کے عمل میں سرگرداں رہتی ہوں جب تک متن کے پوشیدہ نکات روشن نہ ہوجائیں۔‘‘ شہناز رحمن نے اپنے ان مضامین کے ضمن میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ’’ان مضامین میں عمومی اور روایتی طریقہ کار تک محدود رہنے کے بجائے ایسے نکات کی نشاندہی کی گئی ہے جواس سے قبل بمشکل ہی نظرآتے ہیں۔‘‘
شہناز رحمن کے اس دعویٰ کے بعد ان کی کتاب کے مطالعہ کے دوران جگہ جگہ ایسے جملے ضرور نظر آتے ہیں جو اس امر کا اظہار ہیں کہ شہناز رحمن نے لکیر پیٹنے کے عمل سے گریز کرتے ہوئے اپنی تنقید میں متن کے پوشیدہ نکات تک رسائی حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ مثال کے طوپر انتظار حسین کے افسانہ ’’وہ جو کھوئے گئے‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی ناقدانہ بصیرت کا اظہار کرتے ہوئے وہ یہ لکھتی ہیں۔ ’’مگر پلاٹ کی بنیادی شرط یعنی تسلسل کا فقدان ہے۔‘‘
شہناز رحمن کی ایسی ناقدانہ بصیرت سے متاثر ہوتے ہوئے اپنے عہد کے مشہور افسانہ نگار اور نامور فکشن ناقد مرزا حامد بیگ نے اس کتاب کے آخری سرورق پر اپنی رائے دیتے ہوئے یہ اعتراف کیاہے کہ ’’شہناز رحمن کی اردو فکشن سے جرأت حیران کن ہے۔ ان کا مطالعہ عمیق اور ناقدانہ بصیرت خداداد۔ زندہ روایت کا شعور اس پر مستزاد۔ جس نے انھیں رسمی اور روایتی تنقید کے ہتھکنڈوں سے دور رہنے کا شعور ارزاں کردیا-‘‘
شہناز رحمن کی تنقید میں ایسی ہی بے باکی اورروایتی تنقید کے اصول سے باغیانہ رویہ رہا تو وہ بہت جلد اردو تنقید میں ایک نئی روایت قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں خواتین تنقیدنگاروں کی بڑی کمی کو دور کریں گی۔
سلمان عبدالصمد
اپنے افسانوں، ناول، تنقید اور صحافت کے حوالے سے سلمان عبدالصمد اردو دنیا میں اپنی ایک خاص پہچان بنا نے کے بہت قریب ہیں۔ 2016 ء میں ان کا ناول ’’لفظوں کا لہو‘‘ منظر عام آیا اور بہت ساری خوبیوں اور حسن و معیار کے باعث اس ناول کو نہ صرف پسند کیا گیا بلکہ ادبی حلقوں میں موضوع بحث بھی رہا۔ اکیسویں صدی کی پہلی اور دوسری دہائی کے درمیان جو چند ناول سامنے آئے اور ان پر جو مضامین لکھے گئے ان میں سلمان عبدالصمد کے اس ناول کا تذکرہ بھی خوب رہا۔ اس ناول کی شہرت اور مقبولیت کا ہی یہ ثمرہ ہے کہ 2019 ء میں اسے ساہتیہ اکادمی کے یوا ساہتیہ پرسکار کا اعزاز بخشا گیا۔
عہد حاضر کے جبر، ظلم، استحصال، حق تلفی، عدم رواداری اور ناانصافیوں کے گھٹتے ماحول میں جس طرح لوگ، سماجی انتشار، خوف و دہشت اور سراسیمگی کے عالم میں جینے پر مجبور ہیں۔ ان کی بھرپور عکاسی اس ناول میں کی گئی ہے۔ ہمارا سماج، معاشرہ اور اس سماج و معاشرے کی خواتین جو عہد حاضر میں اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم کی جارہی ہیں۔ مختلف طرح کے استحصال، ان کے ہر بڑھتے قدم کو روک رہا ہے۔ خواتین کو آزادی اور ان کے حقوق دینے کی باتیں تو کی جا رہی ہیں لیکن در حقیقت ان کے سیاسی و سماجی استحصال کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے۔ ایسے بہت سارے مسائل کے خلاف احتجاج کرنے اور آواز اٹھانے والی صحافت کی بے اعتنائی اور صارفیت کے ہجوم میں اپنی تمام تر صحافتی ذمّے داریوں کو فراموش کر دینے والی صحافت کی کریہہ شکل کو بھی بے نقاب کرنے کی سلمان عبدالصمد نے اپنے اس ناول میں کامیاب کوشش کی ہے۔
سلمان عبدالصمد نے عہد حاضر کی کربناکیوں کو جس طرح اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے، وہ اس امر کا غمّاز ہے کہ موجودہ عہد کے دھندلکے میں زندگی کی جو رعنائی، شادمانی، سرشاری، انبساط، معدوم ہوتی جا رہی ہیں ان کے تئیں سلمان عبدالصمد فکر مند ہیں اور صحافت جو کہ سماج کے ناسور پر نشتر لگانے اور سماج کے دکھ درد سے پریشان حال لوگوں کے زخموں سے بھرے دلوں پر مرہم لگانے کا بھی کام کرتی ہے۔ وہ صحافت اپنے مثبت راستے سے بھٹک کر ایسی راہ پر چل پڑی ہے، جو ملک و قوم کو تباہی و بربادی کے دہانے تک پہنچا سکتی ہے۔ اس ناول کی ابتدا میں محسن جس طرح ایک اہم کردار بن کر سامنے آتا ہے، اس سے اندیشہ ہوتا ہے کہ ناول کا یہ مرکزی کردار ہے۔ لیکن ناول جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے اور زنیرا، نائلہ اور نیلا ناول کے حدود میں داخل ہوتی ہیں ویسے ویسے ناول کا منظر نامہ بدلتا چلا جا تا ہے۔ یہ لڑکیاں اپنے استحصال کے خلاف اور نسائی آزادی کی پرزور صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ خواتین اپنی خودداری اور نسوانی حقوق کی پامالی کی تمام تر زنجیروں کو توڑ دیں گی۔ ـَ ’ہم تو بیڑیاں توڑنے ہی نکلے ہیں‘۔ (صفحہ: 219 )
اپنے ناول کی جزئیات کو سلمان عبدالصمد نے اس خوب صورتی اور فنکارانہ ڈھنگ سے بیان کیا ہے کہ قاری ان کے تخلیقی اسلوب میں ڈوبتا چلاجاتا ہے اور یہی اس ناول اور ناول نگار کے فکر و فن کا حسن و کمال ہے۔ یہ ایک اقتباس دیکھیے، جو بہت کچھ عیاں کر دیتا ہے:
’’ قیمتی سرمایے پر مول بھاؤ کرنے والے ایڈیٹر کے ساتھ ذرا بازاری پن کا سا رویہ کیا گیا تھا -بس اتنا ہی نا: لیکن انہی بازاری لفظوں میں نیلا نے ایڈیٹر کو ایسا پھانس لیا کہ:
یہ مجبوری تھی اس کی۔
حالات کا تقاضا تھا۔
قوانین کی بساط پر انوکھا کھیل تھا — اپنے مطلب کے لئے نہیں، معاشرہ کی بھلائی کے لئے!
کچھ کر گزرنے کے لئے!
نئی پہل کے لئے!
کیڑے مکوڑوں کو صاف کرنے کے لئے!
جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے!
(لفظوں کا لہو، صفحہ: 190)
سلمان عبدالصمد نے صحافت کی پگڈندیوں پر بھی سفر کیا ہے اور اس سفر میں اپنے پاؤں کو لہولہان کیا ہے اور ان لہو کے ہر قطرہ میں ایک نئی داستان چھُپی ہے۔ اپنے صحافتی سفر میں انھوں نے صحافت کی گم ہوتی قدروں اور سیاست کی چیرہ دستی کو بہت قریب سے دیکھا اور شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے اپنے محسوسات کا اظہار اپنے ناول میں فکری و فنّی آمیزش کے ساتھ کیا ہے۔ سلمان عبدالصمد نے ناول کے ساتھ ساتھ افسانوی ادب میں بھی اپنے وجود کا احساس کرایا ہے۔ ان کے کئی افسانے مثلاََ دامور داس، چوتھا ستون، بریانی، گاگل، نیا خدا اور نیا بجوکا وغیرہ اپنے متنوع موضوعات، کردار نگاری اور جزیات نگاری کے باعث اہمیت کے حامل ہیں۔ ان افسانوں میں سلمان عبدالصمد نے اپنے مشاہدات کا بڑی چابک دستی اور فنکارانہ انداز میں منفرد اسلوب کے ساتھ اظہار کیا ہے۔ دیہی سماج کو اپنے افسانے کا موضوع بنا کر انھوں نے ایک خاص تاثر دینے کی بھی کوشش کی ہے۔ صارفیت کے اس دور میں ہماری تہذیب اور قدریں کس طرح پامال ہو رہی ہیں، ایسے موضوعات پر بھی سلمان عبدالصمد کے کئی عمدہ افسانے ہیں۔ اپنے افسانہ ’’نیا بجوکا‘‘ میں سریندر پرکاش کے مشہور افسانہ ’بجوکا‘ کی روایت کو آگے بڑھانے کی بھی انھوں نے کامیاب کوشش کی ہے۔ سریندر پرکاش کے دور میں بجوکے فصل تیار ہونے کے بعد اپنے حصے کا مطالبہ کرتے تھے، لیکن سلمان عبدالصمد کے دور کے بجو کے ایسے ہیں جو شہر میں بھی موجود ہیں اور کسانوں کا استحصال کرنے میں آگے نظر آتے ہیں۔ سلمان عبدالصمد کے کردار یوں تو ویسے ہی ہیں جنھیں پریم چند اور سریندر پرکاش نے پیش کیا ہے، لیکن سلمان عبدالصمد نے ان کرداروں کی حالیہ نسل کے معاملات زندگی سے رشتہ استوار رکھا ہے۔ جس کی وجہ کر ان کے کردار ماضی میں مدغم ہوتے ہوئے بھی حال کے نمائندہ بن کر سامنے آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سلمان عبدالصمد کی افسانہ نگاری کی یہی رفتار رہی تومستقبل میں ان سے مزید اچھے اور معیاری افسانوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔
سلمان عبدالصمد نے اپنے تنقیدی مضامین کے حوالے سے بھی اپنی ایک خاص شناخت قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مکتوباتِ اکبر، مجالس النساء، تضاداتِ نیاقانون، عصمت کے فکشن میں مماثل عناصر، علاقائی تناظر میں صحافت، خسرو کا ہندوی کلام: محتویات واشکالات، ولی کی دلی آمد اور ان کی لسانی عظمت اور اقبال کا تصور فرد اور سماج، فاروقی کی تنقید اور شعر شور انگیز پر سوالات، کے علاوہ کئی دوسرے مضامین میں بھی انھوں نے اپنی تنقیدی بصیرت کا بیّن ثبوت پیش کیا ہے۔ ان کے غیر مطبوعہ مضامین کے مسودے پر پروفیسر عتیق اللہ نے لکھا ہے:
’’سلمان عبدالصمد میں جو بصیرت ہے اس کے اہل کم ہی ہوتے ہیں۔ وہ اپنی نسل میں نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ فکشن میں شاعری ہی کی طرح گہری ساخت میں معنی کے کئی ابعاد پردہ خفاد میں ہوتے ہیں، انھیں نمایاں کرنے کی کوشش اگر سلمان کے تجزیوں میں ملتی ہے تو اسے ضرور سراہنے کی ضرورت ہے۔ ان کا ذہن ناقدانہ ہے۔ سلمان میں نوجوانانہ جوش و خروش ہے اور ان کا متن ہی نہیں زبان بھی قدرے انحراف کی مظہر ہے۔ وہ بڑا اچھا نفسیاتی درک رکھتے ہیں۔ ان سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ ‘‘
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سلمان عبدالصمد نئی نسل اور نئی فکر کی بھرپور نمائندگی کرنے میں بے حد کامیاب ہیں۔ اب جب کہ وہ ملک کی ایک اہم یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ سلمان عبدالصمد اپنے بعد کی نسل کو اردو زبان و ادب کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر کلاسیکی ادب کے ساتھ ساتھ جدید ادب تک کے سفر کو اپنے افکار و خیالات کی روشنی میں آگے بڑھانے کا فریضہ بہ خوبی انجام دیں گے۔ سلمان عبدالصمد نئی نسل کے فنکاروں میں اس لیے بھی اپنی انفرادیت رکھتے ہیں کہ انھوں نے اردو افسانے، ناول اور تنقید کے ساتھ ساتھ اردو صحافت میں بھی اپنی گراں قدر خدمات سے ان اصناف ادب و صحافت میں ایک منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اپنی ان صلاحیتوں، تجربات اور خدمات سے وہ درس و تدریس کے میدان میں بھی ایک مقام حاصل کریں گے، اس کی مجھے توقع ہے۔
ثاقب فریدی
مجھے ثاقب فریدی کے نام اور (ادبی) کام نے اس وقت چونکایا، جب انھیں 2020ء کاساہتیہ اکادمی کا یووا پرسکار 2018ء میں شائع ہونے والی ان کی کتاب ’’میں اپنی بات کامفہوم دوسرا چاہوں (بانی کی شاعری کا مطالعہ)‘‘پر دیے جانے کا اعلان ہوا. بانی کا ایک مشہورشعر ہے ؎
مرے حروف کے آئینے میں نہ دیکھ مجھے
میں اپنی بات کا مفہوم دوسرا چاہوں
اس شعر کے مصرع ثانی پرثاقب فریدی نے نہ صرف اپنی اس کتاب کا نام رکھا بلکہ اس شعر کوذہن میں رکھ کر 158صفحات پر مشتمل پوری ایک کتاب ہی لکھ ڈالی. اس کتاب میں پیش لفظ کے ساتھ ساتھ جو عنوانات قائم کیے گئے ہیں، وہ ہیں، بانی: سوانحی خاکہ اور بانی: سوانح اور شخصیت۔ اس کے بعد بانی کی غزل گوئی کے تحت کئی عنوانات اس طرح ہیں۔ بانی کی غزل میں تصور عشق، بانی کی غزل میں زیاں کا احساس، بانی کی غزل میں متکلم کا وجود، بانی کی غزل میں رشتوں کی شکست و ریخت، بانی کی غزل کا کلاسیکی رنگ، بانی کی غزل میں مناظر فطرت۔ ان عنوانات کے بعد بانی کی نظم نگاری اور بانی کے ناقدین جیسے عنوان دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کتاب کے آخر میں ان کتابوں اور رسائل کی فہرست دی گئی ہے جن سے مصنف نے بانی کی شاعری کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیے استفادہ کیا ہے۔
اس کتاب کے مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بانی جن کا پورا نام راجندر منچندہ تھا، وہ ملتان میں پلے بڑھے اور تقسیم ملک کا کرب جھیلتے ہوئے ہجرت کرکے دہلی آگئے اور صرف 49 سال کی عمر میں ’’حرف معتبر (1971ء) اور ’’حساب رنگ‘‘ (1976ء) جیسے دو اہم اور یادگار شعری مجموعے ادبی دنیا کو سپرد کرتے ہوئے 11 اکتوبر1981ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے. ان کے انتقال کے بعد ’’شفق شجر‘‘ (1982) اور ’’کلیات بانی‘‘ (2013ء اور2017 ء) کی اشاعت ہوئی۔بانی جانے کو دنیا سے چلے گئے لیکن جاتے جاتے یہ احساس لے کرگئے کہ:
’’…ہم نے اردو شاعری کو اتنا کچھ دیا ہے بتاؤ آخر کب ہماری قدر ہوگی …‘‘ (میں اپنی بات کامفہوم دوسرا چاہوں:صفحہ 19)
حقیقت یہ ہے کہ بانی جس ’قدر‘ کے مستحق تھے انھیں وہ قدردانی زندگی میں نہیں ملی اور بہ قول ثاقب فریدی: ’’میں نے بانی کے جن ناقدین کو پڑھا ہے انھوں نے بانی کو ایک اہم جدید شاعر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں نئی حسیت پر خاصہ زور دیا گیا ہے۔‘‘(میں اپنی بات کامفہوم دوسرا چاہوں: صفحہ: 9)۔ بانی کی ناقدری کا افسوس ناک پہلو تو یہ بھی ہے کہ جس بانی نے تجریدیت کے سفر میں اپنی شاعری کی مشعل لیے آگے آگے رہے، اس جدیدیت کے علم بردار نقاد شمس الرحمن فاروقی نے بھی ان پر توجہ نہیں دی اور جب بانی کو موت نے شکست دے دی تب وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ -’’ہم نے اس کا قرض اس کی زندگی میں نہ ادا کیا، کسے خبر تھی کہ وہ اتنی جلد مرجائے گا۔‘‘ (میں اپنی بات کا مفہوم دوسرا چاہوں:صفحہ:23)
حقیقت یہ ہے کہ بانی کی موت کے بعد بھی ان کا (ادبی) قرض اتارنے کی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی۔ بس جب کبھی کسی نے جدیدیت کی تحریک کے زیر اثر اردو شاعری پر مضمون لکھا، اس مضمون میں بانی کو جدیدیت کا اہم شاعر قرار دیتے ہوئے، ان کے چند اشعار کو مثال کے طور پر پیش کردیا۔
اس پورے تناظر میں ثاقب فریدی نے اپنی اس مختصر لیکن جامع کتاب میں بانی کی شاعری کی روح میں اتر کر شعرفہمی، ناقدانہ شعور اور فہم و ادراک کا اظہار بڑی خوب صورتی اور روانی کے ساتھ اپنے مخصوص لب و لہجہ میں کیا ہے۔ ثاقب فریدی کا یہ انداز بیان اور یہ اسلوب نہ صرف چونکاتا ہے  بلکہ عصری ادبی منظرنامہ میں اردو تنقیدوتحقیق جس طرح اپنا اعتماد اور اعتبار کھوتی جارہی ہے، ایسے ادبی ناگفتہ بہ حالات میں ثاقب فریدی کی تنقید ایک اہم ستون کی بنیاد کا احساس کراتی ہے۔
ثاقب فریدی نے بانی کے ایک ایک شعر میں جس طرح حسن و معیار اور معنویت کی تہہ داری کو واضح کیا ہے، وہ بانی کے افکار و اظہار کے کئی نئے ڈائمینشن کو سامنے لانے میں کامیاب ہیں۔ اس کامیابی کی وجہ یہ بھی رہی کہ ثاقب فریدی نے عصری شاعری کے ساتھ ساتھ کلاسیکی شاعری کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے۔ ثاقب فریدی اپنی اس کتاب کے پیش لفظ میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ:
’’… مجھے ان (بانی) کے بہت سے اشعار پر کلاسکیت کا یوں گمان ہوتا ہے کہ وہ زبان اور فکر کے اعتبار سے نئے بھی ہیں اور پرانے بھی۔ ان کے اشعار پڑھ کر میرؔ کے اشعار یاد آنے لگتے ہیں۔ فکر کا یہ ایسا داخلی سفر ہے جو فطری طور پر جاری رہتا ہے۔‘‘
(میں اپنی بات کا مفہوم دوسرا چاہوں:صفحہ:9)
ثاقب فریدی کا تنقیدی سفرجب مزید آگے بڑھتا ہے تو وہ جدیدیت کے دور سے نکل کر کلاسکیت کے دور میں داخل ہوتے ہیں اور ’’راسخ عظیم آبادی -کلاسکیت، شعریت اور انفرادیت‘‘ جیسی ایک دوسری 422صفحات پر مشتمل اہم کتاب منظر عام پر لاتے ہیں اور راسخ کے دور کی شاعری کی ایک شان دار تاریخ مرتب کرتے ہیں۔اس کتاب میں بھی ثاقب فریدی نے اپنی تحقیقی و تنقیدی صلاحیتوں کا ایک شان دار اور جان دار نمونہ پیش کیا ہے۔ اپنے ایم فل کے اس موضوع پر ثاقب فریدی نے بہت گہرائی تک ڈوب کر کام کیا ہے اور اپنے زمانے کے اس مشہور و مقبول شاعر کو عہد حاضر میں ایک نئے زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ایم فل کے اس موضوع کے بعد ثاقب فریدی نے ’’ن۔م۔ راشد کی تخلیقی جہات‘‘جیسے عنوان کو پی ایچ۔ڈی کا موضوع بنایا ہے۔
ان کتابوں کے ساتھ ساتھ ثاقب فریدی کے کئی اہم مضامین بھی منظرعام پرآتے رہتے ہیں۔ ان تنقیدی اور تحقیقی مضامین کے موضوعات اور عنوانات مثلاً  ’’نسخہ حمیدیہ میں غالب کے مقطعے ردیف الف تک‘ شوق نیموی کی غزل گوئی‘ غالب اورشاد‘ اختر الایمان کی تراکیب، انشاللہ خاں انشا کی قصیدہ گوئی، اردو غزل کے اہم موڑ ایک نئی قرات وغیرہ چونکاتے ہیں۔ ان مضامین کے مطالعہ کے دوران یہ اندازہ ہوتاہے کہ ثاقب فریدی کا رجحان اردو شاعر اور شاعری کی جانب زیادہ ہے اور وہ ادبی نثر و نثر نگاروں پر اپنی توجہ مبذول کرنے سے نہ جانے کیوں گریز کر رہے ہیں۔ حالانکہ نئی نسل کے فن کار اردو نثرنگاروں خصوصاً فکشن نگاروں کی تنقید پر زیادہ دل چسپی لیتے نظر آرہے ہیں۔
ثاقب فریدی نے اپنی دونوں کتابوں اور مضامین میں اپنی بے پناہ تنقیدی وتتحقیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ توقع ہے کہ وہ اپنے اس تنقیدی و تحقیقی سفر کو جاری رکھیں گے اور معیاری اردو ادب پر جس طرح دھندلکے چھارہے ہیں ان دھندلکوں کو دورکرنے میں اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لائیں گے۔
اردو تنقید، تحقیق، فکشن، شاعری اور صحافت کی دنیا میں جس طرح نئی نسل اپنے نئے افکار و اظہار کے ابلاغ سے متوجہ کر رہے ہیں، ان کی ایسی کوششوں سے ایسا لگتا ہے کہ اردو ادب کے سلسلے میں مایوسیوں کے دھندلکے بہت جلد چھٹ جائیں گے۔ اردو زبان و ادب کی نئی نسل اور نوواردوں کے لیے مختلف اردو شعبوں کے سینئر اساتذہ اور قارئین کی ذمّہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان کی ہمّت افزائی اور حوصلہ افزائی میں فراخ دلی کا مظاہرہ کریں۔ ایسا اگر ہو تا ہے تو اردو کی کتابوں اور رسائل کی آمد بڑھے گی، قارئین بڑھیں گے اور اردو زبان و ادب زبوں حالی کے دور سے نکل کر ایک بار پھر اپنی تہذیبی، تمدنی، شیرینی، یک جہتی، رواداری اور ثقافتی جیسی اہم خصوصیات سے لوگوں کے دلوں پر حکومت کرے گی۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب اردو طبقہ بے پناہ ہوتی اردو زبان کو اپنے گھروں میں پناہ دینے میں سبکی نہیں بلکہ فخر محسوس کریں۔
٭٭٭٭٭
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :ڈاکٹر سیّد احمد قادری کا پچاس سالہ ادبی و صحافتی سفر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے