صحافی بھی ادب تخلیق کرتا ہے… سہیل انجم

صحافی بھی ادب تخلیق کرتا ہے… سہیل انجم

سینئر صحافی اور وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم سے علیزے نجف کا انٹرویو

فی زمانہ اردو زبان کا ادب اور اردو صحافت بلاشبہ کئی طرح کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہے۔ ایک طرف اسے زبان کی حیثیت سے اپنی شناخت کو مستحکم بنانے کا مسئلہ درپیش ہے دوسری طرف اس کے لیے تکنیکی دور کی تیز رفتاری اور بدلتے تقاضوں کے ساتھ اپنے معیار کو بلند کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ زبانوں کی بقا اور ارتقا اپنے بولنے، لکھنے، پڑھنے والوں کے مرہون منت ہوتی ہے۔ اس لیے اردو زبان کی بقا اور استحکام کی ذمے داری ہم سب پہ بھی عائد ہوتی ہے۔ جس طرح انسانی زندگی میں مشکلات اور خطرات کے آنے سے انسان کی صلاحیتوں کو مہمیز ملتی ہے اور اس کی ساری صلاحیتیں اپنی بقا و ارتقا کے لیے بیدار ہو جاتی ہیں. اگر اردو زبان و صحافت کو درپیش مشکلات کا سامنا ایسی ہی پامردی کے ساتھ کیا جائے تو یہ بات بعید از حقیقت نہیں کہ اردو ادب و صحافت اپنی ارتقا پذیری کے سفر کو جاری رکھنے میں کامیاب ہو جائے۔ اس متوقع ترقی کا انحصار ہماری حقیقت پسندانہ حکمت عملی پہ ہوگا جس میں کہ اداروں کے قائدانہ کردار کے ساتھ عام انسانوں کو بھی بہ حیثیت قاری کے صائب الرائے بن کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا. اس طرح کی عملی کوشش کے بغیر اردو زبان کے ماضی کی شان دار تاریخ کے دہرانے کے لیے کسی معجزاتی کرشمے کا انتظار کرنا خود فریبی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔
ہر میدان میں ہمیشہ نابغۂ روزگار ہستیوں نے جنم لیا ہے. تاریخ کے اوراق جن کی خدمات کی گواہی دیتے ہیں. اردو ادب و صحافت کی بساط پہ بھی ایسے تاریخی کرداروں کے نقوش ملتے ہیں۔ دنیا امکانات سے کبھی خالی نہیں ہوتی. آج بھی ایسی شخصیات موجود ہیں جو شب و روز جاں فشانی کے ساتھ اردو ادب و صحافت کی آبیاری کر رہے ہیں انھی میں سے ایک معتبر و مستند نام سہیل انجم صاحب کا بھی ہے. میدان ادب و صحافت میں تین دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزار چکے ہیں۔ سہیل انجم صاحب نے قومی آواز جیسے مؤقر اخبار کی ادارت کر کے اردو صحافت کے معیار کو پا بہ عروج تک پہنچایا تھا. قومی آواز کی شہرت و مقبولیت اردو صحافت کے لیے ایک مستند حوالہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ بیس برسوں سے 45 زبانوں کی نشریات کے عالمی ادارے "وائس آف امریکہ" واشنگٹن کی اردو سروس کے دہلی میں نمائندہ اور براڈ کاسٹر ہیں، انھیں کثیر التصانیف مصنف ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انھوں نے ادب و صحافت کے لیے خود کو وقف کر دیا ہے. ان کی ادبی و صحافتی خدمات کا اعتراف ہر اس حلقے میں کیا جاتا ہے جہاں اردو زبان کا ذکر ہوتا ہے. انھیں اب تک کئی سارے اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت اور گوناگوں خصوصیات دنیاے ادب کے لیے ایک گراں قدر اثاثہ ہے ان کے بارے میں جاننا ہم جیسے طالب علموں کے لیے باعث شرف ہے. ان کے بارے میں جاننے کے لیے آئیے ہم ان سے ہی براہ راست انٹرویو کی صورت گفتگو کرتے ہیں. ان کی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو انھی کی زبانی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ علیزے نجف
علیزے نجف: ہم سب سے پہلے آپ سے آپ کا تعارف چاہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں آپ نے کس سر زمین پر آنکھ کھولی، اس سرزمین کی تاریخی حیثیت کیا ہے اور اس وقت آپ کہاں مقیم ہیں؟
سہیل انجم: میں نے یکم جولائی 1958 کو اترپردیش کے بستی ضلع کے کرنجوت (لوہرسن بازار) میں ایک علمی خانوادے میں آنکھیں کھولیں۔ بستی ضلع اب تقسیم ہو کر تین اضلاع بستی، سدھارتھ نگر اور سنت کبیر نگر میں تبدیل ہو چکا ہے اور میرا گاؤں جو اب ایک قصبہ بنتا جا رہا ہے، سنت کبیر نگر ضلع میں آگیا ہے۔ یوں تو میرے گاؤں کی کوئی خاص تاریخی حیثیت نہیں ہے البتہ روایت ہے کہ کسی زمانے میں گوتم بدھ کے پیروکار اس علاقے سے گزر رہے تھے۔ جب وہ ایک تالاب کے پاس پہنچے تو صبح صادق کا وقت ہو گیا لہٰذا انھوں نے اس جگہ کو ”لوہرسنڈ“ کہا۔ دیہی بلکہ ہندی زبان میں سورج طلوع ہونے سے قبل شفق کی ہلکی سرخی کو ”لوہا لگنا“ کہتے ہیں۔ یعنی اس وقت وہاں لوہا لگ گیا جس کی وجہ سے انھوں نے اس جگہ کو لوہرسنڈ کہا جو کثرت استعمال سے لوہرسن ہو گیا۔ جب وہ قافلہ تھوڑا اور آگے بڑھا تو ایک اور تالاب پڑا۔ اس وقت سورج طلوع ہو رہا تھا لہٰذا انھوں نے اس جگہ کو ”کرن جیوتی“ کہا جو کثرت استعمال سے ”کرنجوت“ ہو گیا۔ مذکورہ دونوں تالابوں کے ساحل پر آباد مواضعات کو لوہرسن اور کرنجوت کہا جاتا ہے۔ کرنجوت قرب وجوار کا سب سے مشہور مقام اور مسلمانوں کی جانی پہچانی اور اہل علم کی بستی ہے۔ اس علاقے میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس سرزمین سے میرا تعلق ہے۔ لیکن میں 1987 کے اوائل سے مع اہل و عیال دہلی میں مقیم ہوں۔ یہاں میرے بچے بھی سیٹل ہیں۔
علیزے نجف: آپ کا بچپن کس طرح کے ماحول میں گذرا، بچپن کی کوئی خاص عادت جو اس وقت کرنا آپ کی پہلی ترجیح ہوتی تھی، اپنے بچپن کی کون سی سرگرمیوں کو آپ آج بھی بہت یاد کرتے ہیں؟
سہیل انجم: جب تک میں پرائمری اسکول کا طالب علم رہا، اپنے گاؤں ہی کے ایک دینی مدرسے ”مدرسہ مدینة العلوم“ میں، جسے ہمارے والد گرامی مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم نے 1960 کے آس پاس قائم کیا تھا، ناشتے سے قبل اور مغرب سے عشا تک مذہبی تعلیم حاصل کرتا تھا۔ ہمارے والد کی کوششوں سے گاؤں کا ماحول بڑا علمی اور مذہبی تھا۔ ہمارے گھر اردو کے تقریباً تمام ادبی رسائل و جرائد اور اخبارات آتے تھے۔ ہم لوگ گاؤں کے علمی پروگراموں اور دینی جلسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اسی دور میں مجھے شاعری کا شوق ہوا۔ میں نے تقریباً ایک دہائی تک شاعری کی مگر کوچۂ صحافت میں آنے کے بعد اسے خیرباد کہہ دیا۔ بچپن میں ہم لوگ مسجد، مدرسہ یا کسی باذوق شخص کے گھر پر حفیظ جالندھری کا شاہ نامۂ اسلام ترنم سے خوب پڑھتے۔ کلیات اقبال بھی ہم لوگوں کے ہم رکاب رہتی۔ ان دونوں کتابوں کی بہت سی نظمیں ہم لوگوں کو ازبر تھیں۔ جب کہ اردو کی دیگر کتابوں سے بھی ہم فیضیاب ہوتے۔ 1970 کے آس پاس جب گاؤں کی جامع مسجد کے لیے لاؤڈ اسپیکر آیا تو ہمارے والد نے رمضان المبارک میں اہل قریہ کو سحری کے وقت بیدار کرنے کی غرض سے کئی نظمیں لکھ کر دیں۔ ان نظموں کو ترنم سے پڑھ کر ہم لوگ سحری میں لوگوں کو جگاتے۔ یہ قصہ بہت طولانی ہے، اختصار کے ساتھ عرض ہے کہ میرا بچپن انتہائی علمی اور مذہبی ماحول میں گزرا۔ میں بچپن کو ہر لمحے یاد کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کاش اگر وہ دور واپس آجائے تو کتنی اچھی بات ہو جائے۔ لیکن افسوس کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔
علیزے نجف: کہتے ہیں انسان ایک معاشرتی حیوان ہے، رشتے اور تعلق اس کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے. میرا سوال یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں وہ کون سے رشتے ہیں جنھوں نے آپ کی ذات کی تشکیل اور جذبات کی تسکین میں اہم کردار ادا کیا اور اس رشتے کی خاص خوبی کیا ہے اور ان سے آپ کا رشتہ کس نوعیت کا رہا ہے؟
سہیل انجم : ذات اور کردار کی تشکیل و تعمیر میں ہمارے والدین کی نصیحت و تربیت کا بڑا ہاتھ ہے۔ جب کہ جذبات کی تسکین دو طرح سے ہوتی رہی۔ ایک جذبہ جو والدہ محترمہ سے محبت کی ڈور میں بندھا ہوا تھا اور دوسرا ازدواجی رشتہ۔ دونوں کی نوعیت جدا ہے لیکن دونوں مقدس جذبے ہیں۔ ہماری والدہ نے انتہائی جاں فشانی کے ساتھ ہم لوگوں کی پرورش و پرداخت کی۔ ہم لوگوں نے انہی سے قرآن مجید اور اردو کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ لیکن جب ہم لوگ ان کی خدمت کے قابل ہوئے تو انھوں نے دوسری دنیا آباد کر لی۔ جب میں ان کو یاد کرتا ہوں تو اقبال کی نظم ”والدہ مرحومہ کی یاد میں“ کا یہ شعر برجستہ نوک زبان پر آجاتا ہے کہ
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی
دوسرے جذبے کی تسکین ظاہر ہے اہلیہ کی ذات سے ہوئی جنھوں نے ہر اچھے برے وقت میں رفاقت کا حق ادا کیا اور اب بھی کر رہی ہیں۔ انھوں نے مجھے خانگی ذمہ داریوں سے آزاد کر رکھا ہے جس کی وجہ سے میں تحریری و تصنیفی کام کر پاتا ہوں۔ میرا جو کچھ بھی مقام ہے، حالانکہ کچھ بھی نہیں ہے، اس میں ان کا بھی حصہ ہے۔
علیزے نجف: آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز کس طرح کے ماحول میں کیا اور کن تدریجی مراحل سے گذر کر آپ نے تعلیم مکمل کی اور آپ کی تعلیمی لیاقت بہ صورت ڈاکومنٹس کیا ہے اور اس سفر سے وابستہ کیا کوئی خوب صورت یاد ہم سے شیئر کرنا چاہیں گے؟
سہیل انجم: ابتدائی تعلیم کا کچھ ذکر اوپر آگیا ہے۔ میں نے مقامی پرائمری اور ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ مارواڑ انٹر کالج گورکھ پور سے انٹر، رتن سین ڈگری کالج بانسی ضلع بستی (اب سدھارتھ نگر) سے بی اے اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے اردو سے ایم اے کیا ہے۔ آپ کہہ سکتی ہیں کہ تعلیمی مراحل کے دوران مجھے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا پڑا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کی اردو کی تعلیم کسی اسکول یا کالج میں نہیں ہوئی۔ میں نے بی اے میں جا کر پہلی بار اردو کو بہ طور سبجکٹ لیا۔ اور اب اردو ہی میرا ذریعۂ معاش ہے، ذوق و شوق ہے، اوڑھنا بچھونا ہے اور علمی جذبات کی تسکین کا وسیلہ ہے۔ دوسری دل چسپ بات یہ ہے کہ پتہ نہیں کیوں میری اردو تحریر پڑھ کر بہت سے لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ میں نے کس مدرسے سے فراغت حاصل کی ہے۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ میں ندوی ہوں، قاسمی ہوں، سلفی ہوں، فلاحی ہوں یا اصلاحی ہوں۔ شاید لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مدرسے کا پروڈکٹ ہی اچھی اردو لکھ سکتا ہے۔ حالانکہ ایسا سوچنا غلط فہمی پر مبنی ہے۔
علیزے نجف: کامیاب زندگی گذارنے کے لیے ایک واضح نظریہ کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور ان نظریات کی تشکیل میں کئی عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آپ زندگی کے تئیں کیا نظریہ رکھتے ہیں اور ان نظریات کی اساس کیا ہے؟
سہیل انجم: زندگی کے بارے میں میرا زاویۂ نظر مثبت ہے۔ میں مایوسی کو ناپسند کرتا ہوں۔ خوش امیدی یا پر امیدی میں یقین رکھتا ہوں۔ ایمان داری و دیانت داری کو عزیز سمجھتا ہوں۔ اپنے پیشے سے وفاداری کو اپنا عقیدہ مانتا ہوں۔ میں جد و جہد میں بھی یقین رکھتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص منفی رویے کو خیرباد کہہ کر زندگی گزارنے کو عزیز رکھتا ہو تو کامیابی اس کے قدم چومے گی۔ لیکن اگر کسی کام میں کامیابی حاصل نہ ہو تو مایوس ہونے کے بجائے مزید کوشش کرنی چاہیے۔ اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرنی چاہیے لیکن ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی نقصان دہ ہوتی ہے۔ مجھے فضول خرچی اور اسراف سے نفرت ہے۔ میں قناعت پسندی کو محبوب رکھتا ہوں۔ حالانکہ اقبال کا یہ شعر بھی پیش نظر رہتا ہے کہ
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی ہے
لیکن میں اس شعر کو علاجِ تنگی داماں تک ہی محدود رکھتا ہوں۔ علاجِ خواہشِ بےجا تک نہیں جانے دیتا۔
علیزے نجف: آپ نے میڈیا پہ اسپشلائزیشن کیا ہوا ہے، پچھلی کئی دہائیوں سے آپ صحافت کے شعبے میں سرگرم ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے صحافت کا ہی انتخاب کیوں کیا کیا؟ بچپن سے آپ اس کی جانب رجحان رکھتے تھے یا کسی کی کامیاب صحافت کو دیکھتے ہوئے آپ کو صحافی بننے کی انسپریشن ملی؟ اگر آپ صحافی نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
سہیل انجم : حقیقت یہ ہے کہ میں اتفاقیہ طور پر کوچۂ صحافت میں آگیا۔ ایم اے کرنے کے بعد میں بے روزگار تھا۔ ایک بار ذہنی مصروفیت کی خاطر میں نے اپنے وقت کے دہلی کے ایک مقبول ہفت روزہ ”اخبار نو“ میں اپنے علاقے کے مسائل پر ایک رپورٹ ارسال کی جو نہ صرف شائع ہوئی بلکہ اخبار نو کے مدیر جناب م افضل نے مجھے بستی سے اپنے اخبار کا نمائندہ بنا دیا۔ اب تو میرے شوق کو پر لگ گئے اور میں ہر ہفتے رپورٹ بھیجنے لگا۔ ممبئی کے معیاری ہفت روزہ ”بلٹز“ میں بھی میری رپورٹیں شائع ہونے لگیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں کسی معقول و نامعقول ملازمت کی تلاش بھی کرتا رہا۔ اچانک ایک روز مجھے م افضل صاحب کا خط موصول ہواجس میں انھوں نے مجھے دہلی آکر اپنے اخبار میں کام کرنے کی پیش کش کی تھی۔ میں نے ان سے تمام تفصیلات معلوم کیں اور نتائج کی پروا کیے بغیر فروری 1987 میں دہلی وارد ہو گیا۔ میں نے صحافت میں سنجیدگی کے ساتھ جد و جہد شروع کر دی۔ دوسری طرف مڑ کر بھی میں نے نہیں دیکھا۔ وہ دن اور آج کا دن، صحافت نے مجھے چھوڑا نہ میں نے صحافت کو۔ حالانکہ اس سے قبل 1983 اور 1984 میں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے مکتبہ جامعہ میں کلیریکل کام کر چکا تھا۔ البتہ بچپن میں اپنے والد گرامی کے شوق کو دیکھ کر مجھے بھی ریڈیو سننے کا شوق ہوا اور میں بی بی سی بڑی پابندی سے سننے لگا۔ بعض اوقات مجھے ریڈیو براڈ کاسٹرس پر بڑا رشک آتا۔ شاید تحت الشعور میں ریڈیو سے وابستہ ہونے یا صحافت کرنے کا کوئی جذبہ رہا ہو۔ بہرحال اب صورت حال یہ ہے کہ میں 1985 سے باضابطہ صحافت میں ہوں اور 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے عزت اور شہرت بھی دے رکھی ہے اور بڑی حد تک کشادگی بھی۔ جس کی وجہ سے میں اپنی دفتری مصروفیات سے وقت فارغ کرکے تصنیف و تالیف کا بھی کام کر لیتا ہوں۔ نہ تو میں کسی صحافی کی صحافت سے متاثر ہو کر اس میدان میں آیا نہ کسی قلم کار کی تحریر سے متاثر ہو کر۔ البتہ صحافت میں ایک طویل عرصے تک جد و جہد کے بعد میں مولانا آزاد، مولانا محمد عثمان فارقلیط اور دیگر کئی صحافیوں کی تحریروں سے متاثر بھی ہوا اور میں نے ان سے خوشہ چینی کی کوشش بھی کی۔
جہاں تک میڈیا میں اسپیشلائزیشن کی بات ہے تو اس کا سہرا بڑی حد تک ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کے اخبار ”قائد“ اور جماعت اسلامی ہند کے سہ روزہ ”دعوت“ کے ایڈیٹر مرحوم محفوظ الرحمن کے سر جاتا ہے۔ غالباً 2005 میں دہلی اردو اکادمی نے میڈیا پر ایک سمینار کا اہتمام کیا۔ اس نے مجھ سے ”میڈیا اور معاشرہ“ کے موضوع پر مقالہ پیش کرنے کی درخواست کی۔ میں نے کافی محنت سے مقالہ تیار کیا جسے بہت پسند کیا گیا۔ اسی دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کے صدر پروفیسر شیث محمد اسمٰعیل اعظمی نے ”مسلم مسائل اور میڈیا“ کے موضوع پر اپنے شعبے میں مقالہ پیش کرنے کو کہا۔ اسے بھی لوگوں نے بالخصوص مہمان خصوصی پروفیسر اختر الواسع نے پسند کیا۔ اس کے بعد میں نے میڈیا کا مطالعہ شروع کیا۔ اس بارے میں محفوظ الرحمن میری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ جب مختلف اور متنوع موضوعات پر کئی مضامین تیار ہو گئے تو محفوظ الرحمن صاحب نے اسے کتابی شکل میں شائع کرنے کا مشورہ دیا۔ انھوں نے ہی اس کتاب کا نام ”میڈیا روپ اور بہروپ“ رکھا۔ چونکہ اردو میں اس موضوع پر وہ پہلی اور اکلوتی تصنیف تھی لہٰذا اس کو کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔ خاص طور پر یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں اردو میں ماس میڈیا کی تعلیم میں وہ ایک اہم تصنیف تسلیم کی گئی۔ اب تک اس کے پانچ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ میں صحافی نہیں ہوتا تو کیا ہوتا؟ اس بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے مجھے صحافت ہی کے لیے پیدا کیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ملازمتوں کے حصول کی میری تمام تر کوششیں رائیگاں چلی گئی تھیں۔
علیزے نجف: ملک کی موجودہ سیاست میں کہیں نہ کہیں آزادی اور آسودگی اپنا مفہوم کھوتی جا رہی ہے. ایسے میں صحافت کا کیا کردار ہے؟ وہ کس طرح ملک کو اس تنگ گلی سے باہر لا سکتی ہے اور اس کے لیے عام عوام پہ کیا ذمےداری عائد ہوتی ہے؟
سہیل انجم : یہ وقت سنجیدہ صحافت کے لیے بہت کڑا اور آزمائش کا ہے۔ حالات کے جبر نے بہت سے میڈیا اداروں کو اپنا قبلہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انھوں نے حکومت وقت کے قدموں میں سجدہ ریزی کو اپنے لیے معراج مان لیا ہے۔ لیکن ایسے مایوس کن ماحول میں بھی بہت سے صحافی ایسے ہیں جنھوں نے حقیقی صحافت کی شمع کو جلائے رکھا ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ حاکم کے خلاف بولنا اپنے وجود کو خطرے میں ڈالنا ہے، متعدد صحافیوں نے حق گوئی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا سے وابستہ صحافیوں نے جس جرات مندی کو اپنا وطیرہ بنایا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ صحافت یا میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک اور معاشرے کو سچی راہ دکھائے۔ ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرے اور دبے کچلے اور محروم طبقات کے مسائل کو اٹھائے۔ لیکن افسوس کہ عہد حاضر میں بیشتر صحافیوں نے اپنے فرض منصبی سے منہ موڑ لیا ہے۔ ایسے میں عوام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ابن الوقت اور خود غرض صحافیوں اور ان کے اداروں کا بائیکاٹ کریں اور حقیقی صحافیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ کیونکہ بہرحال اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کرنے والی صحافت سے عوام کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس نے ان کے اذہان کو پراگندہ کر دیا ہے اور مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے ہتھیار سے سچائی کو لہو لہان کر دیا ہے۔
علیزے نجف: ایک جمہوری ملک میں ہر انسان کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات کہہ سکے اور اپنا احتجاج درج کرا سکے، شرط یہ ہے کہ پرامن طریقۂ کار سے. میرا سوال یہ ہے کہ موجودہ وقت میں ملک میں جو پر تشدد احتجاجی کلچر ہے کیا اس سے اب تک کچھ حاصل کیا جا سکا ہے. اگر نہیں تو عوام کو کیسے اس حوالے سے ایجوکیٹ کیا جائے؟ کیوں کہ انھیں لگتا ہے کہ مرکزی حکومت ان کے پرامن احتجاج کو بہ آسانی نظر انداز کردیتی ہے؟
سہیل انجم : یقیناً پرامن احتجاج عوام کا حق ہے اور یہ حق ہندستانی آئین نے انھیں دیا ہے۔ جو قوم اپنے حقوق کی خاطر جد و جہد نہیں کرتی وہ یا تو فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے یا طاقتور کے رحم و کرم پر جینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ حکومت عوام کے پرامن احتجاج کو نہیں سنتی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوام اپنی آواز بلند کرنا بند کر دیں۔ پر امن احتجاج کبھی نہ کبھی رنگ لاتا ہے۔ کسانوں کا احتجاج اس کی تازہ ترین اور عمدہ مثال ہے۔ جہاں تک عوام کو ایجوکیٹ کرنے کی بات ہے تو انھیں یہ یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ انھیں خاموش نہیں ہونا ہے، بولتے رہنا ہے اور جب تک ان کی آواز نہ سنی جائے انھیں چپ نہیں ہونا ہے۔
علیزے نجف: آپ 45 زبانوں کے عالمی نشریات کے ادارے وائس آف امریکہ واشنگٹن کے دہلی برانچ میں بہ حیثیت براڈکاسٹر کے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ اس بین الاقوامی ادارے میں کام کرتے ہوئے آپ کا تجربہ کیسا رہا اور اس ادارے میں اردو صحافت کو اور دوسری عالمی زبانوں کی صحافت کے مقابلے میں کیسا پاتے ہیں؟ کیا اردو صحافت وقت کی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں کامیاب ہے یا تبدیلیوں کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
سہیل انجم: میری صحافت کا آغاز ہفت روزہ اخبارات سے ہوا۔ ان اخباروں میں آٹھ سال تک خدمات انجام دینے کے بعد میں دہلی کے روزنامہ قومی آواز کے شعبۂ ادارت سے وابستہ ہوا۔ وہاں جا کر مجھے معلوم ہوا کہ اصل صحافت روزنامہ کی صحافت ہے۔ وہاں میں نے بہت کچھ سیکھا اور میں نئے نئے تجربات سے گزرا۔ لیکن جب میں نے وائس آف امریکہ کو جوائن کیا تو کچھ دنوں کے بعد ہی یہ اندازہ ہو گیا کہ یہاں کے جام و سبو دوسرے ہیں۔ اس نے مجھے سکھایا کہ ایک صحافی کو فریق بننا یا کسی کی ہمنوائی نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا کام حقائق کو سامنے رکھ دینا ہے۔ عوام خود فیصلہ کریں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ وائس آف امریکہ میں غیر جانب داری اور صحتِ زبان کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس کا معیار بھی دوسری زبانوں کی سروس کا ہم پلہ ہے۔ وہ بھی تغیر پذیر زمانے سے کما حقہ واقف ہے۔ اس نے بھی حالیہ برسوں میں اپنے پروگراموں میں انقلابی تبدیلیاں کی ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ اب ریڈیو ازکار رفتہ ہو گیا ہے۔ بہت سی زبانوں کی ریڈیو نشریات بند ہو گئی ہیں۔ وائس آف امریکہ اردو کی ریڈیو نشریات بھی تقریباً ایک سال قبل بند ہو چکی ہیں۔ اب اس نے ویب سائٹ پر ایکسکلیوسیو رپورٹیں شائع کرنی شروع کر دیں۔ پوڈ کاسٹ کو رائج کیا۔ یومیہ متعدد بار فیس بک لائیو ہوتا ہے۔ ڈیجیٹل رپورٹنگ ہوتی ہے۔ مستقبل کے شکم میں کیا تبدیلیاں کروٹیں لے رہی ہیں اس کا اندازہ آگے چل کر ہوگا اور توقع ہے کہ وائس آف امریکہ ان تبدیلیوں کو بھی انگیز کرکے اپنا کام جاری رکھے گا۔
علیزے نجف: آپ ایک بہترین کالم نگار ہیں آپ کے کالمز ہندستان کے کم و بیش سبھی مؤقر اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں. آپ کے کالم قارئین کو اپنی جانب بے اختیار متوجہ کر لیتے ہیں کیوں کہ یہ آپ کی بصیرت کی غمازی کرتے ہیں. میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ ایک بہترین کالم نگاری کے لیے مطالعہ و مشاہدہ کے ساتھ خود اپنے نظریات کی تشکیل کرنا کس قدر ضروری ہے. موجودہ وقت کے کالم نگار اپنے ذاتی نظریات کی ترسیل کی کوشش کرتے ہیں یا راجح خیالات کو ہی اپنا خیال بنا کر منتقل کرنا شروع کر دیتے ہیں؟
سہیل انجم : قلم بہت مقدس شے ہے۔ وہ قلم کار کے ہاتھ میں سچائی کی امانت ہے۔ ایک قلم کار کو اس کی حرمت کا پاس رکھنا چاہیے۔ کالم نگاری اپنے کالم نگار سے بہت کچھ تقاضے کرتی ہے۔ کالم نگار کو لکھنے سے زیادہ پڑھنا چاہیے۔ جب تک ہم مطالعہ نہیں کریں گے، بزرگ صحافیوں کی تحریروں سے آشنا نہیں ہوں گے اور انسانیت نواز نظریات کو نہیں اپنائیں گے ہم اچھے کالم نگار نہیں بن سکتے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ادب سے بھی واسطہ رکھنا چاہیے۔ جس کو ادب سے دل چسپی نہیں ہے وہ اچھی اور شگفتہ تحریر نہیں لکھ سکتا۔ آج کل کے بہت سے کالم نگاروں کے پاس مطالعے و مشاہدے کی دولت نہیں ہے۔ نہ ہی ان کے پاس کوئی نظریہ یا کوئی وژن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کالم سپاٹ، پھیکے، غیر دل چسپ اور خالی خولی ہوتے ہیں۔
علیزے نجف: کسی اخبار کی کامیابی میں ایک مدیر بنیادی کردار ادا کرتا ہے. آپ قومی آواز کی ادارت سے بھی تیرہ سال تک وابستہ رہے. میرا سوال یہ ہے کہ کسی اخبار کو کثیر الاشاعت اور مقبول بنانے کے لیے ایک مدیر کو کن کن صفات سے متصف ہونا چاہئے اور کن پہلووؤں سے گریز کرنا چاہئے؟ قومی آواز کی مقبولیت کا راز کیا تھا، بہ حیثیت مدیر کے آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
سہیل انجم: قومی آواز کو پنڈت جواہر لعل نہرو نے 1945 میں لکھنؤ سے جاری کیا تھا۔ کہنے کو وہ کانگریس پارٹی کا ترجمان تھا لیکن سچائی یہ ہے کہ وہ پوری قوم کا ترجمان تھا۔ اس نے اردو صحافت کے روایتی ڈھرے سے الگ اپنی راہ بنائی۔ زبان و بیان کو معیاری بنانے کے لیے بہت سے اصول متعارف کرائے۔ اس نے اپنے قارئین کو واقعات و حالات سے بھی باخبر کیا اور ان کے ادبی جذبات کی تسکین بھی کی۔ وہ ایک ہمہ جہت اخبار تھا اور اس میں قارئین کے تمام طبقات کے ذوق و شوق کی چیزیں موجود تھیں۔ اس کا زاویۂ نظر بے حد مثبت تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ قارئین کا مقبول اور چہیتا اخبار بن گیا تھا۔ کسی اخبار کے مدیر کو سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر سچی صحافت کرنی چاہیے۔ اس کی نظر جہاں ملکی حالات پر ہو وہیں عالمی حالات پر بھی ہو۔ اسے عالمی اخبارات کے مطالعے کو اپنا معمول بنانا چاہیے۔ اسے زبان و بیان پر بھی قدرت حاصل ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں اور تقاضے ہیں جن کا اسے پاس و لحاظ رکھنا چاہیے۔
علیزے نجف: آپ کو کثیر التصانیف صحافی ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور آپ کی بیشتر کتابوں کو اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے. میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ کی پہلی کتاب کون سی تھی اور وہ کون سی کتاب ہے جس کو اعزاز سے نوازے جانے کی خوشی آپ کے لیے غیر متوقع تھی اور آپ کو اب تک کتنے اعزازات سے نوازا جا چکا ہے؟
سہیل انجم: جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ ”میڈیا روپ اور بہروپ“ میری پہلی تصنیف تھی اور وہی سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔ کسی مصنف کی کتاب پر جب کوئی ایوارڈ ملتا ہے تو اسے خوشی تو ہوتی ہی ہے۔ میری متعدد کتابوں کو مختلف اداروں سے ایوارڈز ملے ہیں۔ مذکورہ کتاب کے علاوہ خاکوں کے میرے دو مجموعوں ”نقش بر آب“ اور ”نقش بر سنگ“ ، حج کے دو سفرناموں ”پھر سوئے حرم لے چل“ اور ”بازدید حرم“، ”مولانا محمد عثمان فارقلیط: حیات و خدمات“، ”دینی رسائل کی صحافتی خدمات“، ”اردو صحافت اور علما“ اور تازہ ترین کتاب ”جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز“ کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ اب تک میری 27 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں بارہ کتابیں صرف صحافت اور میڈیا کے موضوع پر ہیں۔ مجھے کتنے ایوارڈز ملے اس کی میں نے کبھی گنتی نہیں کی۔ البتہ جو بڑے ایوارڈز ملے ان میں دہلی اردو اکادمی کے صحافت ایوارڈ، قطر کے ہیڈ کوارٹر سے چودہ ملکوں میں سرگرم ادبی تنظیم بزم صدف انٹرنیشنل کے ایوارڈ، مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی ایوارڈ اور دہلی اقلیتی کمیشن کے باوقار صحافت ایوارڈ کو قابل ذکر حیثیت حاصل ہے۔
علیزے نجف: ٹکنالوجی اکیسویں صدی کا سب سے بڑا تحفہ ہے جس نے انسان کے لیے آزادی و ترقی کی بےشمار راہیں ہموار کی ہیں لیکن وہیں کچھ مشکلیں بھی پیدا ہوتی نظر آ رہی ہیں. انھی میں سے ایک یہ ہے سچی اور جھوٹی خبروں میں اس قدر مشابہت پیدا ہو گئی ہے کہ سچ کی تمیز کرنا مشکل ہو گیا، جس کی وجہ سے معاشرتی امن خطرے میں رہتا ہے. ایک انسان اس طرح کی صورت حال سے کس طرح نمٹے، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
سہیل انجم: بلا شبہ یہ فیک نیوز کا دور ہے۔ بلکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آج کل جھوٹ ہی سب سے بڑا سچ ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ صحافیوں کی بڑی تعداد دروغ گوئی کی زلف گرہ گیر کی اسیر ہے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ فیک نیوز کو پکڑنے کے لیے کئی ویب سائٹس بھی کام کر رہی ہیں جو روزانہ جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کو بے نقاب کرتی ہیں۔ اگر ہم خاص طور پر ہندی نیوز چینلوں (چند ایک کو چھوڑ کر) پر اعتبار کرنا بند کر دیں تو نشر کیے جانے والے جھوٹ سے دامن بچا سکتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ نے صحافت کے ساتھ ساتھ ادب پہ بھی بہت کچھ لکھا ہے. اس سلسلے میں آپ کی کتابیں جیسے بازیافت، عکس مطالعہ، فاروق انصار کے افسانے، مولانا ثناء اللہ امرتسری وغیرہ وغیرہ منظر عام پہ [آ کر] قارئین کو متوجہ کر چکی ہیں میرا سوال یہ ہے کہ آپ اردو ادب اور اردو صحافت کے درمیان کن نکات کو بالکل یکساں دیکھتے ہیں اور وہ کون سے زاویے ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں؟ اردو صحافت و ادب کا مستقبل کیا ہے آپ کی نظر میں؟
سہیل انجم: آج کے فکری و نظریاتی انحطاط کے دور میں بھی سچائی کا علم بلند کرنے والے جرأت آموز افراد کی کمی نہیں ہے۔ ایسے جری قلم کار ادب میں بھی ہیں اور صحافت میں بھی ہیں۔ تاہم ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ عصری دانش گاہوں کے بہت سے اساتذہ بھی اچھی اردو نہیں جانتے۔ اسی طرح بہت سے صحافی بھی اچھی اردو سے نابلد ہیں۔ دوسری افسوسناک بات یہ ہے کہ یونی ورسٹیز کے اردو اساتذہ اردو صحافیوں کو خود سے کمتر تصور کرتے ہیں۔ جب کہ ایک صحافی بھی ادب تخلیق کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے عجلت میں لکھا گیا ادب کہا گیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مستقبل کا مؤرخ جب تاریخ سازی کرتا ہے تو اس کا بیشتر انحصار اخبارات کی فائلوں پر رہتا ہے۔ ایک صحافی کو مضمون نگاری کی جتنی مشق ہوتی ہے ایک ادیب کو نہیں ہوتی۔
علیزے نجف: صحافت کو جمہوری ملکوں میں ایک اہم بنیادی ستون کی حیثیت حاصل ہے. اس کے ذریعے جمہوری اقدار کی حفاظت کی جاتی ہے. عوام کے حقوق کو تحفظ حاصل ہوتا ہے. میرا سوال یہ ہے کہ ملک کی موجودہ صحافت اب بھی انھی اقدار پہ قائم ہے جن اقدار پہ آزادیِ ہند کے وقت کھڑی تھی؟ آپ کو کیا لگتا ہے کہ صحافت اب وہ صحافت نہیں رہی جس کی آزادی اور بےباکی نے انگریزوں کے پنجے اکھاڑ دیے تھے؟ کیا صحافت کی اس آزادی کو اب محض خواب ہی سمجھنا چاہئے یا اس کی سابقہ آزادی کے بحال ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے؟
سہیل انجم: اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی سے قبل کی صحافت اور موجودہ صحافت میں فرق ہے۔ پہلے مشنری جذبے سے کام کرنے والے صحافی موجود تھے۔ وہ ہمیشہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ لیکن وہ وقت کا تقاضا تھا۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ اب صحافت مشن نہیں کاروبار بن گئی ہے۔ یہ صحافت کی مجبوری بھی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ صحافت، چاہے وہ کسی بھی زبان کی ہو، دوسری نوعیت کی پابندیوں میں گرفتار ہو گئی ہے۔ اس کی آزادی چھن گئی ہے۔ لیکن یہ ایک عارضی مرحلہ ہے۔ ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ یہ مرحلہ بھی ختم ہوگا اور صحافت کو حقیقی آزادی حاصل ہوگی۔
علیزے نجف: آپ کی شخصیت دنیاے ادب و صحافت میں کسی کے لیے محتاج تعارف نہیں. آپ کا تعلق ایک علمی خانوادے سے ہے. ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے خاندان کے بارے میں بھی کچھ بتائیں اور کس طرح کی علمی وراثت آپ تک منتقل ہوئی ؟
سہیل انجم: ہمارے والد مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم نے مدرسہ ریاض العلوم جامع مسجد دہلی سے فراغت حاصل کی۔ ا س کے بعد انھوں نے دہلی سے ہی تکمیل الطب کا کورس کیا۔ پھر وطن کی طرف مراجعت کی۔ وہاں انھوں نے کچھ دنوں تک بہت کامیاب طبی پریکٹس کی لیکن وہ جلد ہی اس پیشے سے اکتا گئے۔ انھوں نے ملت کے جسمانی عوارض کے بجائے روحانی عوارض کے علاج کو ترجیح دی۔ اس کے لیے انھوں نے دو راستے اختیار کیے۔ ایک تو یہ کہ انھوں نے ہند نیپال سرحد کے ناخواندہ علاقے میں (دونوں طرف) متعدد دینی مدارس قائم کیے اور دوسرے یہ کہ دینی جلسوں میں ایک مقرر اور خطیب کی حیثیت سے کام کیا۔ انھوں نے سیرت رسول کو اپنا موضوع بنایا اور اس کے توسط سے ملت اسلامیہ میں رائج بدعات و خرافات اور باطل عقائد کو دور کرنے کی کوشش کی۔ وہ بیک نشست تین چار گھنٹے خطاب کیا کرتے تھے۔ چونکہ وہ متنازعہ فیہ مسائل سے گریز کرتے اس لیے دوسرے مکاتب فکر کے افراد بھی انھیں خطاب کے لیے اپنے یہاں مدعو کرتے۔ وہ ایک بڑے اسلامی شاعر بھی تھے۔ بیشتر نعتیہ شاعری کرتے جو غلو سے پاک ہوتی۔ انھیں ”حسان جماعت“ کے لقب سے ملقب کیا گیا۔ ان کی حمدوں، نعتوں، اسلامی نظموں، اصحاب کرام کی شان میں کہی گئی نظموں اور کچھ غزلوں کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔ اب سات سو صفحات پر مشتمل ان کی کلیات ”کلیات انجم“ نام سے شائع کر دی گئی ہے۔ وہ ایک صحافی بھی تھے۔ انھوں نے تین رسالے ”الہلال“، ”خبرنامہ“ اور ”المؤتمر“ نکالے۔ 2013 میں ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ میرے بڑے بھائی حما دانجم ایڈووکیٹ نے ان کی شعری روایت کو آگے بڑھایا۔ ان کے بھی کئی حمدیہ و نعتیہ مجموعے شائع ہوئے اور ابھی نصف درجن سے زائد محتاج اشاعت ہیں۔ وہ اپنے علاقے کے ایک بڑے وکیل اور ادیب بھی تھے۔ 2015 میں ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ ہم پانچ بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹے بھائی ڈاکٹر شمس کمال انجم نے مدینہ یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ دہلی یونی ورسٹی سے عربی میں پی ایچ ڈی کی۔ وہ اس وقت بابا غلام شاہ بادشاہ یونی ورسٹی راجوری جموں میں شعبہ اردو کے سربراہ ہیں۔ وہ بھی ایک اچھے شاعر و ادیب ہیں۔ ان کی بھی بیس سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ باقی درمیان کے دو بھائی آبائی گاؤں میں اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ ان میں ایک عالم دین ہیں۔ میرا اکلوتا بیٹا ڈاکٹر سلمان فیصل حافظ، مولانا، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اردو میں پی ایچ ڈی اور اس وقت دہلی حکومت کے ایک سینئر سکنڈری اسکول میں ٹی جی ٹی استاد ہے۔ وہ بھی شاعر و ادیب ہے اور اس کے ادبی مضامین کے ایک مجموعے کو دہلی اردو اکادمی نے ایوارڈ سے نوازا ہے۔ میری بہو ایک سینئر سکنڈری اسکول میں لائبریرین ہے۔ میری بڑی بیٹی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اردو میں ایم اے اور ٹیچر ٹریننگ کا کورس، دوسری نے وہیں سے ایم بی اے اور تیسری نے ایم اے بی ایڈ کیا ہوا ہے۔ دونوں بڑی بیٹیاں شادی شدہ ہیں۔ آخری بیٹی دہلی میں ایک اسکول میں استاد ہے۔
علیزے نجف: آپ کی شخصیت نئی نسل کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے. نوجوان آپ سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں اور سیکھتے رہیں گے. میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ آپ دنیاے ادب کی کن معاصر شخصیات سے از حد متاثر رہے ہیں اور ان سے آپ نے کس طرح استفادہ کیا؟ انھوں نے آپ کو اس مقام تک پہنچانے میں کیا کردار ادا کیا؟
سہیل انجم: میں مولانا ابوالکلام آزاد، شورش کاشمیری، مولانا محمد عثمان فارقلیط، مولانا عبد الماجد دریابادی، ماہر القادری، مولانا عامر عثمانی، مشتاق یوسفی، ابن صفی وغیرہ کی نثر اور شعرا میں میر، غالب، اقبال، مصحفی، فیض، حفیظ جالندھری، حبیب جالب اور احمد فراز وغیرہ کی شاعری سے متاثر ہوا۔ میں جب ذہنی تکان کا شکار ہوتا ہوں تو ان کی نگارشات سے رجوع کرتا ہوں۔ عہد حاضر کے صحافیوں میں محفوظ الرحمن نے مجھے متاثر بھی کیا اور ان کی حوصلہ افزائی نے آگے بڑھنے میں میری مدد بھی کی۔
علیزے نجف: کسی بھی قوم کے عظمت یافتہ ہونے میں سب سے نمایاں کردار تعلیم و تربیت کا ہوتا ہے. ایک وقت تھا جب مسلمان قوم بھی عظمت و حشمت کی حامل تھی جب کہ علوم و فنون پہ ان کو دسترس حاصل تھی، لیکن اب یہ عظمت، عظمتِ رفتہ میں بدل چکی ہے. میرا سوال یہ ہے کہ مسلم قوم کو اپنی بدحالی کو دور کرنے کے لیے کس طرح کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے؟ کیا بدلتے وقت کے تقاضوں کے مدنظر وہ اپنا احتساب کرنے کو تیار ہے؟
سہیل انجم: مسلمانوں کو یک سو ہو کر تعلیم کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اپنے روزگار پر دھیان دینا چاہیے۔ شرانگیز عناصر کی ریشہ دوانیوں سے دامن کش ہو کر صرف اور صرف علم کی جستجو کرنی چاہیے۔ انھیں یقینی طور پر اپنا احتساب بھی کرنا چاہیے کہ آزادی کے 75 برسوں میں انھوں نے کیا کھویا اور کیا پایا اور پھر اس کے ایمان دارانہ جائزے کی روشنی میں اپنی آگے کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔
علیزے نجف: ہر انسان کی زندگی نشیب و فراز سے عبارت ہے. کامیاب زندگی گذارنے کے لیے فطرت کے قوانین سے آگہی حاصل کرنا ضروری ہے. میرا سوال یہ ہے کہ آپ اپنی ذاتی اور معاشرتی زندگی میں ان پیچ و خم سے کیسے نمٹتے ہیں؟ مشکل وقت میں آپ اپنے کو معتدل ذہنی سطح پہ رکھنے کے لیے کس طرح کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں؟
سہیل انجم: میں تفکرات سے نجات پانے کے لیے کتاب میں غرق ہونا اور مسجد میں جا کر اللہ سے لو لگانا پسند کرتا ہوں۔ اس سے مجھے بہت ذہنی سکون ملتا ہے۔
علیزے نجف: یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے اور اس کے سوالات سے آپ کس حد تک مطمئن تھے؟
سہیل انجم: آپ کے سوالات بہت اہم اور دل چسپ تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ نے بہت تیاری کے ساتھ سوالات کو مرتب کیا تھا۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ ماضی اور حال کے سیاسی، سماجی و ادبی رویوں سے باخبر ہیں۔ آپ کے سوالات غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ البتہ بہت سے سوالوں کے جواب تفصیل طلب تھے۔ میں نے بہت اختصار سے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ میں مزید شرح و بسط کے ساتھ جواب دینا چاہتا تھا۔ لیکن مجھے بار بار طوالت کا احساس ہوتا رہا۔ مختصر گفتگو کرنے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ انٹرویو کافی طویل ہو گیا ہے۔ جب سوالات کی تعداد اتنی زیادہ ہو تو انٹرویو طویل ہوگا ہی۔
علیزے نجف: جی بالکل سوالات تو واقعی طویل تھے. آپ کی شخصیت کے ان گوناگوں پہلوؤں کی وجہ سے ان سوالات کو طویل کرنا ہی پڑا. اگرچہ تشنگی اب بھی باقی ہے لیکن میں پھر بھی اس دورانیے کو یہیں محدود کرنا چاہوں گی اور یہ تشنگی پھر کبھی ایسی علمی گفتگو کی وجہ بنے گی۔ ان شاءاللہ آپ کے ساتھ اس طرح سوالات و جوابات کی نشست کر کے بہت خوشی ہوئی۔ اللہ آپ کو ہمیشہ اپنی محبتوں اور عنایتوں کے حصار میں رکھے آمین ۔
***
 علیزے نجف کی گذشتہ گفتگو : میں موت سے زیادہ زندگی پر یقین رکھتا ہوں: شفیق الحسن

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے