اردو ناول کے امکانات  : غضنفر کے ناولوں کی روشنی میں

اردو ناول کے امکانات : غضنفر کے ناولوں کی روشنی میں

شفا فاطمہ

یہ بات سچ ہے کہ جہاں جدیدیت کے رجحان سے اردو شعر و ادب میں نئے امکانات پیدا ہوئے وہیں یہ بات بھی درست ہے کہ اس رجحان نے اردو ناول کے امکانات ختم کر دیے تھے۔ جدیدت کے دباؤ کے باعث ادب کا دائرہ سمٹ کر ذات تک رہ گیا تھا اور انسانی ذات کی پیچیدگی نے اظہار کو بھی مبہم اور پیچیدہ بنا دیا تھا۔ ایسے میں ناول جو بڑے کینوس اور بیانیہ کا متقاضی ہوتا ہے، کے پھیلنے اور کھل کر بیان ہونے کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔ اسی لیے جدیدیت کے دور میں ‌ناول نہیں لکھے جا سکے اور جو ایکے دکے لکھے بھی گئے تو کا میاب نہ ہو سکے۔ وہ تو بھلا ہو ا‌ن تخلیق کاروں کا جنھوں نے خود کو جدیدیت کے شکنجے سے آزاد کیا اور ذات کے تنگ دائرے سے نکل کر کائنات کی وسعت کی طرف رخ کیا۔ جن فن کاروں نے اس عمل کا آغاز کیا ان میں عبدالصمد، پیغام آفاقی اور غضنفرکے نام سرِ فہرست ہیں ‌۔ انھی کے ناولوں : دو گز زمین (عبدالصمد)، مکان (پیغام آفاقی) اور پانی( غضنفر) سے اردو میں ناول کی تجدید ہوتی ہے اور انھی سے ناول کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں مشہور و معروف شاعر و نقاد بلراج کومل کا مضمون ” تین نئے اردو ناول" بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اپنے اس مضمون میں بلراج کومل اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” یہ بڑا امید افزا امکان ہے کہ حال کے کچھ برسوں میں دیگر اصنافِ اظہار کے علاوہ رفتہ رفتھ ناول کی جانب بھی سرگرم توجہ دی جانے لگی ہے اور کچھ نئے نام منظرِ عام پر آئے ہیں۔ میرے سامنے اس وقت تین نئے ناول ہیں۔ عبدالصمد اردو کے جانے پہچانے افسانہ نگار ہیں۔ ان کا ناول دو گز زمین 1988 میں شائع ہوا تھا۔ غضنفر کا ناول 1989 میں شائع ہوا تھا۔ پیغام آفاقی بطور افسانہ نگار تو اپنی کامیاب پہچان کا سفر جاری رکھے ہوے ہیں۔ ان کا ناول مکان جو 1989 میں شائع ہوا جو ان کی تخلیقی شخصیت کا تازہ ترین گوشۂ امکان ہے۔"1
(1- اردو کے تین نئے ناول : بلراج کومل ، ایوانِ اردو، دہلی، فروری 1990 ص 19)
"ہم سب واقف ہیں کہ 1990 کے آس پاس اردو کے
جن تین ناولوں نے اردو ناول کا رخ موڑ دیا ان میں عبدالصمد کا "دو گز زمین"، پیغام آفاقی کا "مکان"
کے ساتھ ساتھ غضنفر کا ناول "پانی" بھی تھا۔
پانی، کے ہر طرف چرچے، تذکرے اور تبصرے تھے
اور آج بھی ہیں۔ آج سے تقریبا بارہ تیرہ سال(89)
قبل چھپا محض سو صفحات پر مشتمل یہ ناول
وہ کام کر گیا جو موٹے موٹے ناول نہ کر سکے۔"
{دیدہ و دل تمام آئینہ : علی احمد فاطمی، غضنفر: اردو فکشن کی ایک معتبر آواز، مرتبین: ڈاکٹر محمد انور، آصف ابرار : عصری سنگ میل پبلی کیشنز، پٹنہ، 2006، ص:30.31}
یہ تینوں ناول اپنے منفرد موضوعات اور اپنی الگ الگ تکنیک اور پیش کش کے اعتبار سے اتنے نئے اور پرکشش ثابت ہوئے کہ دیکھتے ہی دیکھتے پوری اردو دنیا میں مشہور و مقبول ہو گئے۔
ان کی مقبولیت ایسی بڑھی اور ان کے خالقوں کی ایسی پذیرائی ہوئی کہ وہ اور سنجیدگی اور دل جمعی کےساتھ ناول نگاری کے میدان میں اتر گئے۔اور تابڑ توڑ کئی اور ناول بھی انھوں نے اردو فکشن کی جھولی میں ڈال دیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے افسانہ نگار بھی اپنے لیے ناول میں امکانات دیکھنے لگے۔ اور بہت جلد کئی اور افسانہ نگار بھی ناول لے کر اردو قارئین کے سامنے حاضر ہو گئے۔
اس صف میں افسانہ نگار تو شامل ہوئے ہی شاعر اور نقاد بھی شریک ہو گئے اور اب وہ بھی اپنا اپنا میدان چھوڑ کر ناول کی صنف میں اپنی قسمت آزمانے لگے اور ان میں سے بہت سارے کامیاب بھی ہوئے۔ اس طرح فکشن میں ناول کے امکانات بڑھتے گئے۔
ان نئے ناول نگاروں میں جنھوں نے زیادہ ناول لکھے ان میں غضنفر کا نام نمایاں ہے اور چوں کہ ان کے ناولوں میں موضوعات اور اسلوب بیان دونوں میں تنوع اور بوقلمونی دوسرے ناول نگاروں کے مقابلے میں زیادہ ہے، اس لیے ان کے ناولوں کے امکانات کی شعاعیں بھی زیادہ پھوٹتی ہیں.
یہاں یہ بات عرض کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ غضنفر اردو ناول نگاری میں کئی نئی چیزوں کے موجد بھی ہیں جن کا اعتراف ان کے معاصرین نے بھی کیا ہے۔ مثلا پروفیسر حسین الحق لکھتے ہیں:
"!س ناول(دویہ بانی ) کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ اردو میں دلت ادب کا پہلا اور تادمِ تحریر اکلوتا نمونہ ہے۔ دویہ بانی سے پہلے یا تو دلت ادب کے ترجمے اردو والوں تک پہنچے جس کا بہت ہی خوب صورت نمونہ وقار قادری کی کتاب "دلت کتھا" ہے یا کچھ اور عزیزوں کی تحریریں جو انھوں نے پس ماندہ طبقات کے پس منظر میں لکھیں اور اسے دلت ادب مشہور کیا مگر دویہ بانی دلت احساس، دلت مسائل اور دلتوں پر ہونے والے مظالم کا اردو میں پہلا لیکھا جوکھا ہے۔"
{ دویہ بانی : پہلی قرات کے بعد: حسین الحق
غضنفر: اردو فکشن کی ایک معتبر آوار، مرتبین:
ڈاکٹر محمد انور اور آصف ابرار، عصری سنگ میل
پبلی کیشنز، پٹنہ، 2006 ص 159.160}
اور "فسوں" کے متعلق پروفیسر شافع قدوائی فرماتے ہیں:
"اردو میں کیمپس ناول شاذ ہی لکھے گئے ہیں۔ نئی نسل کے معروف فکشن نگار ڈاکٹر غضنفر نے اپنے ناولدویہ بانی کے توسط سے اردو میں دلت ڈس کورس کو قائم کرنے کے بعد ایک کیمپس ناول بھی لکھا ہے۔
پانی، کینچلی، کہانی انکل، مم، دویہ بانی اور فسوں ناول کے صنفی تقاضوں کی پاس داری کے ساتھ ایک نوع کی تجرباتی جہت کو بھی آشکارا کرتے ہیں کہ یہ ناول علت و معلول کی مانوس منطق پر استوار یک رخے بیانیہ سے کسبِ فیض نہیں کرتے۔"
{ اردو کا اہم کیمپس ناول: ڈاکٹر شافع قدوائی
غضنفر: اردو فکشن کی ایک معتبر آواز: مرتبین
ڈاکٹر محمد انور، آصف ابرار، عصری سنگ میل پبلیکیشنز، پٹنہ 2006، ص:176}
غضنفر کی تخلیقی توانائی کآ اعتراف خود ان کے دو معاصرین بھی کرتے ہیں۔ مثلاً پیغام آفاقی لکھتے ہیں:
"چھٹی دہائی اور اس کے بعد دور تک کوئی ایسا ناول نہیں دکھائی دیتا جو اپنے عصری صورتِ حال کے قلب میں اتر کر اس کی عکاسی کر رہا ہو‌‌۔ ‌ساتویں اور آٹھویں دہائی تک یہ سناٹا اس وقت تک قائم رہا جب تک اردو میں کچھ نئے ناولوں نے بازیافت نہیں کردی۔ ان ادیبوں نے جنھوں نے ناول کی فصل کو زمینی زندگی پر از سرِ نو بویا اور عصری فکشن کی آبیاری کی ان میں بہ حیثیت ناول نگار غضنفر کا اپنا ناقابلِ فراموش حصہ ہے۔
یوں تو اس تجدید کے سلسلے میں عموماً تین ناولوں پانی، دو گز زمین اور مکان کا نام لیا جاتا ہے لیکن تصویر کو صاف طور پر دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ گنتی گنوانے کے بجائے انفرادی طور پر اس تجدید کے مختلف پہلوؤں کا مختلف ادیبوں کے حوالے سے مطالعہ کیا جائے، کہ ان تینوں ناولوں میں سوائے اس کے اور کوئی مشترک عنصر نہیں ہے کہ یہ لگ بھگ ایک ساتھ شائع ہوۓ تھے اور اردو ناولوں میں تجدید کی بات اس کے بعد ہی چلی۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ تجدید کا معاملہ کس ناول سے کہاں تک جڑا ہوا تھا۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس دور میں غضنفر اپنے ناول پانی سے لے کر وش منتھن تک ایک بالکل منفرد ناول نگار کی حیثیت سے ابھرے ہیں اور ان کے جتنے ناول ہیں کسی قدر ان کے ارد گرد کئی ادبی سوالات بھی قائم ہوۓ ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر غضنفر کے ناول کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کے ناولوں نے اردو فکشن کے پیڑ کو نئے رنگ کی شاخیں دی ہیں۔"
{گوشۂ غضنفر شعر و حکمت، کتاب 9، دور سوم ص: 544-اور 545}
عبد الصمد نے اپنے ایک مضمون نما خط میں لکھا:
"جو لوگ فکشن کی زبان، تخلیقی نثر اور سپاٹ بیانیہ وغیرہ کا غیر ضروری طومار کھڑا کرتے رہتے ہیں، انھیں تمھاری زبان سے سبق لینا چاہیے اور چپ چاپ مان لینا چاہیے کہ فکشن کی زبان ایسی ہونی جاہیے۔ یہ سب دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا ہوں اور بہ بانگِ دہل کہتا ہوں کہ فکشن کی زبان تمھاری ہونی چاہیے اور بس۔ یعنی غضنفر کی زبان۔"
{فلیپ: پارکنگ ایریا، غضنفر، ایجوکیشنل بک ہاؤس، دہلی، 2016}
عبدالصمد کے خیال کی تائید مشہور ماہرِ لسانیات پروفیسر مسعود حسین خاں کی اس تحریر سے بھی ہو جاتی ہے:
"نئی نسل بالعموم زبان پر اتنی قدرت نہیں رکھتی، غضنفر کے نئے اندازِ بیان نے مجھے چونکا دیا ہے۔"
{مسعود حسین خاں، وش منٹھن : غضنفر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی 2004ص: 9}
یہاں شمس الرحمان فاروقی کی اس بات کا ذکر بھی غیر مناسب نہیں ہوگا جو انھوں نے غضنفر کو ایک ذاتی خط میں لکھا:
” تم نے بعض نئی اور موثر چیزیں ناول میں داخل کی ہیں۔"
{شمس الرحمان، وش منتھن: غضنفر، ص: 9}
بلا شبہ غضنفر نے اردو ناول میں نئی چیزیں داخل کی ہیں اور زبان و بیان اور تکنیک میں بھی جدت سے کام لیا ہے۔ میں ڈاکٹر رمیشا قمر کے نتائج سے پورا پورا اتفاق رکھتی ہوں جو انھوں نے غضنفر کے ناولوں سے اخذ کیے ہیں اور ان کے ناولوں کے کلیات "آبیآژہ" کے مقدمے میں درج کیے ہیں:
"غضنفر کی افسانوی تخلیقات کے مطالعے کے دوران بعض خصوصیات ایسی بھی نظر آتی ہیں جو انھیں منفرد بناتی ہیں اور اپنے معاصرین میں متاز کرتی ہیں۔ مثلآً درج ذیل امتیازات غضنفر کے افسانوی تخلیقات میں نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں:
تجرباتی رجحانات
نثر اور نظم کا امتزاج
نثری ایجاز و اختصار
فن کارانہ سیاسی شعور
اسلوب کی رنگا رنگی
مداواے درد کی تلاش"
{پرتوے آبیاژہ : غضنفر کے ناول، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی 2022 ص: 15}
غضنفر کے ناولوں کا اختصار بھی فن کاروں کو ناول کی صنف کی طرف متوجہ کرتا ہے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ چھوٹے کینوس پر بھی اچھے اور کامیاب ناول لکھے جا سکتے ہیں۔
غضنفر کے ناولوں کے اثرات اب اور بھی بڑھیں گے اور ان سے اردو ناول کے امکانات مزید روشن ہوں گے کہ غضنفر کے ناول جو آؤٹ آف پرنٹ ہو گئے تھے اور ںئی نسل کی رسائی ان تک نہیں ہو پاتی تھی، آبیاژہ کی شکل میں یک جا ہو کر منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ اب یہ ناول آسانی سے نئے لکھنے والوں تک پہنچ سکیں گے جو یقیناً ان کے لیے باعثِ تحرک ہوں گے‌.
آخر میں میں اپنی بات مشہور فکشن نگار سید محمد اشرف صاحب کے اس بیان پر ختم کرنا چاہوں گی کہ غضنفر کے ناولوں کے مطالعے کے دوران مجھے بھی محسوس ہوا:
” آبیاژہ کی صورت میں یہ نو ناول ایک بہت بڑی پینٹنگ کی طرح ہیں جہاں بہت سے مناظر یکجا کر دیے گئے ہیں۔ گویا ہم پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہیں کہ کوہستان کی بلندی، وادی کا حسن، دریا کی روانی، نیلے جاودانی آسمان کی وسعت، روپہلے بادلوں کا ہجوم اپنا اپنا الگ حسن بھی رکھتے ہیں اور اس کلیات میں جمع ہو کر ایک ایسی وحدت کا تاثر بھی دیتے ہیں، جس میں ہر قدم پر کثرت کی جلوہ نمائی ہے‌۔ کلیات کی شکل میں ان ناولوں نے ایک ایسے طویل بیانیے کو جنم دیا ہے جسے پڑھنے والے مدتوں یاد رکھیں گے۔"
{سید محمد اشرف، دیباچہ : آبیاژہ ،غضنفر کے ناول: مرتبہ ڈاکٹر رمیشا قمر، 2022، ص: 12-11
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :غضنفر: ایک نئے ذہن کا ناول نگار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے