گوشہ گیری کو انعام: ظفر کمالی کو ساہتیہ اکادمی کا ادبِ اطفال کا انعام

گوشہ گیری کو انعام: ظفر کمالی کو ساہتیہ اکادمی کا ادبِ اطفال کا انعام

تحقیق، تنقید، رباعی گوئی، ظریفانہ شاعری، خاکا نگاری اور تذکرہ نگاری کے ساتھ ادبِ اطفال کی مسلسل خدمات کا اعتراف
صفدر امام قادری
ملک میں بالعموم انعام دینے والے اداروں کی ساکھ روز بہ روز اتنی کم زور ہوتی جارہی ہے کہ معتبر لکھنے والے رفتہ رفتہ یہ بات بھولتے جارہے ہیں کہ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے انعامات انھیں بھی مل سکتے ہیں۔ جمہوری نظام میں عوام کی گاڑھی کمائی سے حکومتیں ٹیکس کی شکل میں جو رقومات حاصل کرتی ہیں، انھیں ہی ایسے اخراجات میں شامل کیا جاتا ہے۔ اصول یہ کہتا ہے کہ یہ ہمارا عوامی حق ہے مگر بڑے بڑے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں پر نام نہاد مالکانہ حق ان لوگوں کو حاصل ہے جن کا ایک نکاتی پروگرام یہی ہوتا ہے کہ حق داروں کا حق چھین لو اور ان کی جگہ صفِ دوم اور صفِ سوم سے لوگوں کو چن کر سرکاری ریوڑیاں بانٹ دو۔ وقتی طور پر تھوڑے بہت اعتراضات ہوتے ہیں مگر سب آنے والے وقت میں کچھ پانے کی توقع میں رفتہ رفتہ خاموش ہوجاتے ہیں۔ چھوٹے بڑے اداروں کی کون کہے، اپنے ملک میں سب سے بڑے سرکاری ادبی ادارے یعنی ساہتیہ اکادمی کے انعامات پر ایسے سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ کلیم الدین احمد، قاضی عبدالودود اور احتشام حسین سے لے کر کرشن چندر اور عصمت چغتائی تک ایک پورا سلسلہ ہے جنھیں ان کی کسی کتاب پر ساہتیہ اکادمی نے انعامات کے لیے کبھی منتخب نہیں کیا۔ جب کہ اس کے مقابل صلاح الدین پرویز، گیان سنگھ شاطر، عنبر بہرائچی، ش۔ک۔نظام، چندربھان خیال اور نظام صدیقی وغیرہ ایسے مصنفین ہیں جنھیں ساہتیہ اکادمی نے نواز کر ان کے ہم عصروں کو ذلیل و رسوا کرنے کا ایک ناخوش گوار ماحول بنایا۔
ساہتیہ اکادمی نے بعد کے زمانے میں ترجمے کے لیے، نوجوان مصنفین کے لیے اور ادبِ اطفال کے لیے الگ الگ زمرے انعام کے قائم کیے مگر اس میں بھی اہل لوگوں کے مقابلے نااہلوں کا انتخاب کرنے کا کم از کم باضابطہ سلسلہ برسوں سے دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔ ہر کس و ناکس یہ بات جانتا ہے کہ گذشتہ پینتیس برسوں میں گوپی چند نارنگ مرحوم کی براہِ راست قانونی یا غیر قانونی ایسی مداخلت رہی کہ یہ سارے انعامات ان کے حلقے سے کبھی باہر نہ جاسکے۔ ابھی گذشتہ دنوں ان کا ٩٢/برس کی عمر میں امریکا میں انتقال ہوا اور خدا کا یہ فضلِ خصوصی رہا کہ ان کی وفات کے بعد اردو کے سلسلے سے جو پہلا فیصلہ ہوا، اس میں ایک نہایت ہی مستحق ادبی شخصیت ظفر کمالی کو بچوں کی شاعری کے حوالے سے ٢٠٢٢ء کا انعام دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ آیندہ ١٤/نومبر کو ہونے والی اس تقریب میں انھیں یہ انعام پیش کیا جائے گا۔
ظفر کمالی عمر کی ٦٣/بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ ان کی تمام مطبوعات کی گنتی کرلی جائے تو وہ دو درجن کو پہنچتی ہیں۔ کیا شاعری اور کیا نثر؛ کیا سنجیدہ ادب اور کیا ظرافت؛ ان کی پہلی تصنیف ١٩٨٦ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس اعتبار سے ان کی تصنیفی عمر ٣٦/برس مکمل ہوچکی ہے۔ مگر مقامی اداروں سے لے کر صوبائی اور قومی اداروں تک میں سے کسی کو یہ توفیق نہ ہو سکی کہ ان کی کسی تصنیف اور کسی تحریر کو چھوٹے بڑے انعام و اکرام سے نوازیں۔ حد تو یہ ہے کہ بہار اردو اکادمی نے بھی اب تک ان کی کسی کتاب کو اس لائق نہ سمجھا کہ ہزار دو ہزار کا بھی انعام دے دیا جائے۔
ظفر کمالی احمد جمال پاشا مرحوم کے خاص شاگردوں میں رہے ہیں۔ پاشا صاحب نے ہی انھیں اعلا تعلیم کے لیے عظیم آباد کا رخ کرنے کا حکم دیا تھا۔ پہلے اورینٹل کالج، پھر بی این کالج اور شعبۂ اردو، پٹنہ یونی ورسٹی میں رفتہ رفتہ وہ تعلیمی مدارج طے کرتے رہے۔ پاشا صاحب کی زندگی میں ہی ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے تحقیق کا خاکا تیار ہوا اور پروفیسر اعجاز علی ارشد کی نگرانی میں انھوں نے اپنی تحقیق کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اردو کے ساتھ فارسی میں بھی ایم اے کیا اور شعبۂ تعلیم سے بی ایڈ میں بھی کامیابی پائی۔ دس بارہ برسوں میں عظیم آباد کے اساتذۂ فن کی تربیت کے بعد ملازمت کے سلسلے سے انھیں اپنے وطن سیوان چلے جانا پڑا۔ اس دوران ان کے استاد احمد جمال پاشا بھی راہی ملک عدم ہوچکے تھے۔ پٹنہ میں جب تک قیام رہا، گنگا کنارے دولی گھاٹ میں گوشہ نشیں رہے یا کتب خانۂ خدا بخش میں کتابوں پر آنکھیں گڑائے مل جاتے تھے۔ بک امپوریم سے کتب و رسائل خرید کر پھر کتابوں سے لدے اپنے کمرے میں واپس ہوجاتے تھے۔
بڑے شہر کی تربیت کے بعد اس کی ہنگامہ زائیوں سے نکل کر جب وہ سیوان پہنچے تو ایسا لگا کہ اپنے استاد احمد جمال پاشا کے نقشِ قدم پر وہ چل رہے ہوں۔ پاشا صاحب لکھنؤ سے آکر سیوان میں کیا بسے کہ وہیں کی خاک میں ہمیشہ کے لیے پیوست ہوگئے۔ ظفر کمالی نے صرف شہر نہیں بدلا بلکہ اپنی تعلیمی زندگی کے رخ کو موڑنے میں بھی کامیابی پائی۔ عظیم آباد میں وہ جب تک تھے، تحقیق و تنقید کی دنیا میں رفتہ رفتہ ان کا نام ہونے لگا تھا۔ شاعری تو وہ تھوڑی بہت یہاں بھی کرتے تھے مگر بنیادی ارتکاز تحقیق پر تھا۔ مگر عظیم آباد سے رخصت ہونے کے بعد اچانک ان کی ظریفانہ شاعری پہ موسمِ بہار کی چاندنی پڑنے لگی۔ شگوفہ کے ہر اہم شمارے میں ان کی شعری تخلیقات شایع ہونے لگی اور دوسرے رسائل بھی اس جانب متوجہ ہونے لگے۔ یہ مختلف قسم کی ظریفانہ شاعری تھی جس میں اعلا پائے کا طنز اور دانش ورانہ شعور موجود تھا۔ ’ظرافت نامہ‘، ’نمک دان‘، ’ڈنک‘ اور ’ضربِ سخن‘ کے ناموں سے اس دوران چار مجموعے سامنے آئے۔ تھوڑے وقفے سے رسائل میں ان کی رباعیاں چھپنے لگیں اور رباعیوں کے دو مجموعوں کے بعد مکمل دیوانِ رباعیات بھی منظرِ عام پر آگیا۔ اتنی بڑی تعداد میں اس عہد میں شاید ہی کسی رباعی گو نے اپنی مشقِ سخن کا ثبوت فراہم کیا ہو۔
ظفر کمالی کی بنیادی حیثیت ایک بڑے حلقے کے لیے محقق کی ہے۔ ’متعلقاتِ احمد جمال پاشا‘، ’تحقیقی تبصرے‘، ’احمد جمال پاشا‘ (مونوگراف) کے علاوہ ترتیب و تدوین کے بہت سارے کام ان کے قلم سے نکلے ہیں۔ تذکرہ سخن ورانِ سارن، مستقبل قریب میں آنے والی ایک دستاویزی کتاب، ان کی تحقیق کا ایک معیار ثابت ہوگی۔ رسائل و جرائد میں دو دہائیوں سے زیادہ وقفے سے بچوں کے تعلق سے ان کی نظمیں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ’بچوں کا باغ‘، ’چہکاریں‘ اور ’حوصلوں کی اڑان‘ سے ادبِ اطفال میں ان کی اچھی خاصی مداخلت سمجھ میں آتی ہے۔ ٢٠٢٠ء میں کورونا وبا سے ٹھیک پہلے ان کی بچوں کی نظموں کا قدرے ضخیم مجموعہ ’حوصلوں کی اڑان‘ شایع ہوا جس پر ابھی ساہتیہ اکادمی نے ادبِ اطفال کا انعام تفویض کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
احمد جمال پاشا کی تربیت میں علمی کاموں کا اور بے پروائی و بے نیازی کے ساتھ تصنیف و تالیف میں مبتلا رہنا انھوں نے سیکھا تھا۔ اپنی فقیرانہ وشی اور مجمعے سے دور رہنے کی خو نے انھیں اپنے گھریلو کتب خانے میں قید کردیا۔ عظیم آباد سے ضرور وہ دکھی ہوکر نکلے تھے مگر سیوان جیسے اوسط درجے کے شہر میں روزگار کی سہولت میسر آجانے کے بعد گویا ان کے فقر اور علمی انہماک میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ چھوٹے شہروں کی بھانت بھانت کی چپقلشوں اور بغیر مطلب کے ادیبوں اور شاعروں کی حلقہ بندیاں انھیں راس نہیں آسکتی تھیں۔ وہ اور بھی تنہا، گوشہ نشیں اور الگ تھلگ ہوتے گئے۔ صبر اور توکل، ستایش اور صلے سے بے پروائی اور نام و نمود سے بے گانگی نے انھیں قلم اور کاغذ پر کچھ اس طرح سے مرتکز کیا جیسا نصیب کم لوگوں کو میسر آتا ہے۔ گذشتہ تیس برسوں میں تصنیف و تالیف میں یہ انہماک اتنا بڑھا جس کے مقابلے کوئی دوسری مثال کم از کم بہار میں نظر نہیں آتی۔ ہر سال کوئی کتاب چھپ کر سامنے آجائے، دوستوں یاروں اور اہلِ علم میں تقسیم ہوجائے، اور پھر وہ اگلی کتاب کی تیاری میں لگ جائیں؛ اس مشغلے میں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔ کسی کتاب پر کسی شخص نے تبصرہ کر دیا تو وہ شایع ہو گیا ورنہ ان کی بہت ساری کتابوں پر تو کسی اہلِ علم نے دس جملے کا ایک تبصرہ بھی نہیں کیا۔ مگر اس سے ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا بلکہ زیادہ محنت سے نئے کاموں کی طرف مڑ جانے کا ایک شوق پیدا ہوا۔ رفتہ رفتہ اس انہماک نے ان سے ایسا معیاری اور علمی اعتبار سے فرومایہ سرمایہ اکٹھا کرادیا جسے دیر سویر پہچان ملنی ہی تھی۔
ادبِ اطفال کے لیے انعام سے ظفر کمالی کی قدرشناسی کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ ساہتیہ اکادمی نے بچوں کی شاعری کے حوالے سے انھیں پہچانا، یہ واقعتا سپاس گزاری کا موقع ہے۔ ان کی کتاب ”خاکِ جستجو‘ ٢٠١٧ء اور ’تحقیقی تبصرے‘ ٢٠١٧ء کو پیش نظر رکھیں اور ان برسوں میں ساہتیہ اکادمی کے سینئر انعامات کے لیے جن کتابوں کا انتخاب ہوا، ان کے سامنے ان کتابوں کو رکھاجائے تو ظفر کمالی کئی انعام یافتہ افراد سے زیادہ معتبر اور ان کی کتابیں زیادہ مستحکم معلوم ہوں گی مگر ان کی درویشی اور گوشہ نشینی نے دوسروں کو کبھی یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ ان کی خدمات کا بھی اعتراف کیا جانا چاہیے۔ کاش! ایمان اور انصاف کی بنیاد پر انعامات دینے کا چلن ہوتا تو ادبِ اطفال کے ساتھ ساتھ انھیں ساہتیہ اکادمی کا سینئر انعام بھی مل چکا ہوتا!
ہماری جماعت سے اہلِ علم گھٹتے جارہے ہیں۔ ایسے لوگ جن میں گہرائی ہو، دو چار دس فنون کی مہارت ہو اور بزرگوں کی سادگی اور فقیرانہ وشی شامل ہو؛ آپ اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں پر ایسے لوگوں کا شمار کرنا چاہیں تو انگلیاں بچی رہ جائیں گی۔ جو مشہور لوگ ہیں، ان کے پاس خدا کے فضل سے خانۂ علم خالی ہے۔ جن کی درجنوں تصنیفات نظر آرہی ہیں، ان کے بارے میں ایسے بہت سارے کہنے والے مل جائیں گے کہ انھوں نے کرایے کے مصنفین پال رکھے ہیں۔ نام بڑے اور درشن چھوٹے۔ حقیقت میں موجودہ اردو کے منظر نامے کے لیے ہی کہا گیا تھا۔ بڑی بڑی یونی ورسٹیوں اور اداروں کے سربراہ ایسے بالشتیے نظر آتے ہیں جو اپنے اسلاف کی روایت اور تاریخ کے لیے بدنما داغ سے کم نہیں ہیں۔ ایسے ماحول میں ظفر کمالی جیسی شخصیت کا موجود ہونا گوشے میں بیٹھ کر تصنیف و تالیف کے رنگا رنگ دفتر سجانا اور اپنے بزرگ عالموں کے انداز میں خاموشی سے خدمت ادب میں صبح و شام منہمک رہنا، صرف نیک فال نہیں ہے بلکہ ہم سب نااہلوں کے لیے دیوارِ آبرو کی طرح سے ہے۔ وہ ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا عہد عالموں سے خالی نہیں۔ ہمارا زمانہ فقر و استغنا سے غیر آباد نہیں۔ خدا کرے کہ وہ اسی یک سوئی اور بے نیازی سے اپنے کام کرتے رہیں، آج نہیں تو کل ان کے آستانے پر ان کا عہد دستکیں دے گا اور انھیں ان کے بزرگوں کی طرح لازمی طور پر نوازا جائے گا۔
Safdar Imam Quadri, 202, Abu Plaza, NIT More, Ashok Rajpath, Patna-800006
Mob.: 9430466321, Email: safdarimamquadri@gmail.com
صفدر امام قادری کی گذشتہ نگارش: مقابلہ جاتی امتحانوں کے کھیل کو سمجھیے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے