ادبِ اطفال کا ایک معیاری نمونہ: ’حوصلوں کی اُڑان‘

ادبِ اطفال کا ایک معیاری نمونہ: ’حوصلوں کی اُڑان‘

محمد مرجان علی
شعبۂ اردو، جے پرکاش یو نی ور سٹی، چھپرا
Email: mdmarjanali07@gmail.com

بہار کے خطۂ سارن کے ادبا و شعرا کے سلسلے سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ موجودہ دور میں اردو ادب میں سب سے نمایاں نام کون سا ہے تو اس کے جواب میں ظفر کمالی کا نام سامنے آئے تو شاید کسی کو اعتراض نہ ہو۔ ظفر کمالی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ ادیب اور شاعر کی حیثیت سے تقریباً چار دہائیوں سے اردو ادب کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ظفر کمالی ادبی منظر نامے پر کئی نوعیّت سے چمکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ تنقید و تحقیق سے ان کا خاص تعلّق رہا ہے۔ اس کے علاوہ شاعری کی متعدد اصناف میں بھی انھوں نے طبع آزمائی کی ہے۔ غزل گوئی، نظم نگاری، ظرافت نگاری کے علاوہ شاعری میں سب سے مشکل ترین صنف رباعی گوئی ان کے خاص میدان ہیں۔
ان سب سے الگ، ایک مدّت سے ادبِ اطفال کی بدولت بچوں کے محبوب شاعر کے طور پر اُن کی پہچان ثابت ہو چکی ہے۔ ’بچوں کا باغ‘ ادبِ اطفال کے سلسلے سے ان کی پہلی کتاب تھی۔ بعد میں انھوں نے بچوں کے نام رباعیات کا مجموعہ ’چہکاریں‘ شائع کیا۔ اب ان کا تیسرا مجموعہ ”حوصلوں کی اُڑان“ اپنی زبان کے نونہالوں کے لیے منظرِ عام پر آیا ہے۔ اگر چہ ادبِ اطفال کے تعلّق سے وہ اس قدر اہمیت کے حامل ہیں کہ ان کے مجموعی کام کے حوالے سے طول طویل مقالہ لکھا جائے مگر اس کے لیے معتبر صاحبانِِِِ علم و دانش زیادہ موزوں ہوں گے۔ یہاں ان کی تازہ ترین کتاب ”حوصلوں کی اُڑان“ پر راقم الحروف گفتگو کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دورِ حاضر میں سینکڑوں کی تعداد میں سے می نار، وے بی نار اورخاص طور سے مدارسِ اسلامیہ وغیرہ میں تربیتِ اولاد کے سلسلے سے جلسے منعقد ہوتے رہے ہیں۔ عہدِ قدیم میں بھی بچوں کی تربیت کے معاملے میں ہمارے اسلاف فکر مند رہتے تھے۔ ڈپٹی نذیر احمدنے تربیتِ اولاد کے سلسلے سے لگاتار کئی ناول رقم کر ڈالے۔ ظفر کمالی کے لیے بھی یہ سب سے پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ ان کی یہ تصنیف ادبِ اطفال اور بالخصوص تربیتِ اولاد کے موضوع کے سلسلے سے بیش بہا ہے۔ اس دور میں جہاں ایک طرف کتابوں سے رغبت ختم ہونے کا بجا طور پر شکوہ کیا جا رہا ہے اور اس کے مقابلے میں بچوں کی تربیت اور اسی کے ساتھ تفریح کے ایک سے ایک سازوسامان کسی نہ کسی شکل میں تکنیکی ہوش ربائی کے ساتھ دستیاب ہیں۔ لیکن ظفر کمالی نے اپنی پُرانی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ایک ایسی کتاب تیّار کی جس سے بچوں کے ابتدائی دور کے پیش ِنظر ان کی اس طریقے سے تربیت ہو جائے کہ اس میں تہذیب و ثقافت کے بہترین اوصاف دائمی طور پر پیوست ہو جائیں۔
بچوں کے لیے ظفر کمالی کی یہ نظمیں کتابی شکل میں اگرچہ۲۰۲۰ء میں منظرِ عام پر آئیں مگر اس سے پہلے متعدد اخبارات و رسائل میں شایع ہو کر ہمارے بچّوں تک پہنچ چکی تھیں۔ مجموعے میں شامل ٤٠ نظموں کے ساتھ گیارہ رباعیات بھی الگ سے رنگارنگی کا باعث ہیں۔ چوں کہ رباعی گوئی ظفر کمالی کا خاص میدان ہے تو بھلا اس مجموعے کے قارئین کیسے خالی ہاتھ رہ سکتے تھے؟ اس کے علاوہ ظفر کمالی صاحب کی شاعری کے حوالے سے اس کتاب میں دو مضامین بہ طورِ مقدمہ شامل کیے گیے ہیں۔ ”ظفر کمالی کا کمالِ ہنر“ از حقانی القاسمی اور نئی نسل کے ادیب عبد الوہاب قاسمی کا مضمون ”ظفر کمالی اور بچوں کی نظمیں“ سے پڑھنے والوں کو شاعر کے مقام و مرتبے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
اس کتاب میں متعدد موضوعات پر نظمیں شامل کی گئی ہیں۔ اسلاف کی قدیم روایت رہی ہے کہ اپنے دیوان یا مجموعوں کو تیّار کرتے ہوئے حصولِ برکت کی خاطر اللہ اور رسول کی بارگاہِ اقدس میں مناجاتِ باری تعالیٰ اور نعتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہ طور نذرانۂ عقیدت پیش کر دیے جائیں۔ ظفر کمالی نے بھی اپنا مجموعہ تیّار کرتے ہوئے اس روایت سے خود کو الگ نہیں رکھا اور بچوں کے دلوں میں ایک ایمانی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ دورِ جدید میں یہ کہاں موقع ملتا ہے کہ بچے اپنے ابتدائی دور میں مذہبِ اسلام کے سلسلے سے کچھ ایسی باتیں پڑھ لکھ جائیں جن سے انھیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں آسانیاں پیدا ہوسکیں۔
”مناجات“ کے علاوہ حمد کے سلسلے سے دو نظمیں بھی شامل ہیں: ”یا اللہ“ اور ”اللہ ترا شکر ہے“؛ ان نظموں میں اللہ کی وحدانیت اور اللہ کی شان کو بیان کیا گیا ہے۔ مناجات میں شاعر بچوں کی زبانی اللہ کے حضور یہ دعا مانگتا ہے کہ اللہ ہمیں صراطِ مستقیم کا مسافر بنادے، علم کی دولت سے مالامال فرما دے، ذہن و فکر کی تازگی عطا کردے وغیرہ وغیرہ۔ یہ دعا ان تمام چیزوں کا احاطہ کرتی ہے جن کی بچوں کے لیے خاص اہمیت ہے. ”یا اللہ“ نظم میں اللہ تبارک تعالی کی شان کو واضح کیا گیا ہے۔ دنیا کا ذرہ ذرہ اللہ کی قدرت سے کیسے روشن ہے، اس کا ذکر ہوا ہے۔ چڑیاں، جنگل، پیڑ، پہاڑ، دریا سب چیزیں اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہیں۔ ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی تمام رشتے انھی کے صدقے ہیں۔ اللہ کی شان کو بہت ہی خوش اسلوبی سے شاعر نے یہاں واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
ظفر کمالی کی شاعری میں موسمِ بہار، علم و فن کی اہمیت، حیوانات و نباتات سے محبت، رشتوں کی معنویت، ماں باپ کی شفقتیں، مزدور کی عزت، قوم سے محبت، اچھے بُرے کی پہچان جیسے زندگی افروز تمام اجزا کچھ اس طریقے سے شامل ہیں کہ یہ شاعری کے ساتھ ایک نصیحت آمیز کتاب بھی بن گئی ہے۔ جگہ جگہ مزاح کی شمولیت نے باتوں کو سنجیدہ فلسفہ بننے سے محفوظ رکھا ہے۔ اگر بچوں کے سامنے سنجیدگی سے باتیں کی جائیں تو وہ بوریت کا شکار ہو جائیں گے، اس کا خیال اُن کی پیش تر نظموں میں رکھا گیا ہے جس سے ان نظموں کی ادبی اور علمی جہت بھی درجۂ کمال کو پہنچتی ہے۔
”کتابیں پڑھیں“ اور ”قلم کی عظمت“ عنوان سے نظموں میں علم کی اہمیت اور قلم کی طاقت واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قلم وہ طاقت ہے جس کی بدولت ہم جنگلوں سے اٹھ کر ایک مہذب انسان بنے اور نئی دنیا کی تلاش میں کامران ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی پہلی وحی نازل فرمائی جس میں ”اقرا“(پڑھو) کے ساتھ قلم کی اہمیت بھی واضح الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ قلم سے بڑے بڑے معاہدے پایۂ تکمیل تک پہنچے۔ قلم کے ذریعہ ہی ساری احادیث کریمہ اور قرآن پاک کو محفوظ کیا گیا ہے۔ قلم سے ہی قوم کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔ قلم نے ہی قلم کار پیدا کیے۔ قلم کی اہمیت واضح کرتے ہوئے ظفر کمالی نے وہ تمام باتیں یکجا کر دی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ قلم بندوق اور توپ کی طاقت سے بھی بڑھ کر ہے۔
’کتابیں پڑھیں‘ عنوان سے نظم بھی اہمیت کی حامل ہے۔ کتاب ہماری سب سے اچھی دوست ہے۔کتاب وہ شےَ ہے جو مردہ دل کو بھی زندہ بنا دیتی ہے۔ اجڑے چمن کو بھی شاداب اور گلزار بنا دیتی ہے۔ کتابیں ہی ہمیں جینے کا سلیقہ سکھاتی اور ہماری ذہنی طاقت کو مزید مستحکم بناتی ہیں۔ اس نظم سے دو بند ملاحظہ ہوں:
انھیں سے ہے شاداب دل کا چمن
کریں ان کی خاطر نہ کیوں ہم جتن
انھیں سے ہے یہ انجمن، انجمن
انھیں سے تو روشن ہے شاعر کا فن
کتابیں پڑھیں ہم کتابیں پڑھیں
بنا دیں یہ ہشیار نادان کو
سکھا دیں یہ تہذیب حیوان کو
یہ گل زار کر دیں بیابان کو
دبادیں قیامت کے طوفان کو
کتابیں پڑھیں ہم کتابیں پڑھیں
کتاب کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ظفر کمالی نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کتابیں ہی ہماری ترقی میں مرکزی رول ادا کرتی ہیں۔ کتاب کو اگر ہم رول ماڈل بنا لیں تو ہمیں اپنی ترقی سے کوئی روک نہیں سکتا۔
”حوصلوں کی اُڑان“ نظم میں بھی اپنے نونہالوں سے نئی اُڑان اور زندگی میں حوصلہ بھرنے کے لیے ماحول بنانے کی پُر زور کوشش کی گئی ہے۔ اس عنوان کی اہمیت واضح ہے. کیوں کہ کتاب کا اسے سر نامہ بنایا گیا ہے۔ بچے یا نوجوان حوصلوں کی کمی کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہو رہے ہیں۔ آج قوم کے نونہالوں کو حوصلہ بخش طبقے کی سخت ضرورت آن پڑی ہے جسے ہم Backbone کی اصطلاح سے یاد کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر کمالی نے اسی بیک بون کی اصطلاح کو اپنی شخصیت میں شامل کرکے قوم کے نو نہالوں میں ان کے خوابوں کے ساتھ اُڑنے کاحوصلہ فراہم کرنے کی ذمّے داری ادا کی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کام دشوار ہے تو کیا پروا
راہ پُرخار ہے تو کیا پروا
حوصلے جب اُڑان بھرتے ہیں
چاند پر جا کے وہ ٹھہرتے ہیں
ان اشعار کو پڑھتے ہوئے علامہ اقبال مرحوم کا شعر یاد آتا ہے:
دشت تو دشت ہے، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
یہاں علامہ اقبال نے اسلام کے ماضی کے قصے بیان کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کیسے قوم کے نوجوانوں نے حوصلوں کی اڑان سے اڑتے ہوئے دشت کیا، وہ تو دریا میں بھی گھوڑے دوڑانے کا حوصلہ رکھتے تھے اور بلندی تک جا پہنچتے تھے۔ یہاں ظفر کمالی اپنے نوجوانوں میں مستقبل کے خوابوں کو جگانے اور اُن خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کی منزلوں تک پہنچانے کے گُرسکھا رہے ہیں۔
ظفر کمالی کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ وہ فطرت(Nature) سے بہت قریب نظر آتے ہیں۔ یہاں صرف ایک بات عرض کر دوں کہ پچھلے دنوں ایک اتّفاقی ملاقات کے دوران بر سبیلِ تذکرہ ظفر کمالی صاحب نے کہا کہ ”مجھے بچوں اور چڑیوں سے بڑی انسیت ہے“۔ ان کی نظموں میں اُن کی اس انسیت کا کثرت سے اظہار ملتا ہے۔ ”حوصلوں کی اُڑان“ مجموعے میں شامل نظمیں ’پانی‘ اور ’درخت‘ میں پانی اور ہرے درخت کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ظفر کمالی نے اپنے سائنسی تجربے کو بھی پیش کیا ہے۔ Save the water اور Don’t cut the tree کا نعرہ دے کر سائنس دانوں نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ پانی اور درخت کے بغیر ہمارا جینا مشکل ہی نہیں، ایک دن ناممکن ہو جائے گا۔ درختوں کے زیادہ مقدار میں کٹنے سے گلوبل وارمنگ کا خطرہ پورے عالمِ انسانیت کے لیے مشکلات کا باعث ہے۔ ان باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ظفر کمالی نے بچوں کے درمیان اس موضوع کو بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے۔ شاعر یہاں ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کے لیے پیڑ کیوں کر ضروری ہیں، اس کے بارے میں ایک سماجی بیداری کا بھی کام کر رہا ہے۔ ظفر کمالی نے اپنی شاعری میں ماحولیاتی مسائل کو سماجی آئینے میں اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ چند مثالیں دیکھییے:
زندگی کا مَدار ہے پانی
اِس چمن کی بہار ہے پانی
بے مزا ہے حیات اس کے بغیر
کچھ نہیں کائنات اس کے بغیر
سارے دریا رواں اسی سے ہیں
یہ سمندر جواں اسی سے ہیں
ہم جو پانی بچا کے رکھّیں گے
زندگانی بچا کے رکھیّں گے
جس نے تحفہ دیا ہے پانی کا
شکریہ اس کی مہربانی کا
(پانی)
ہماری روح کی راحت ہماری دولت ہیں
ہرے درخت خدا کی عظیم نعمت ہیں
بغیر اس کے یہ دنیا اُجاڑ ہو جائے
یہاں پہ سانس بھی لینا پہاڑ ہو جائے
ہزاروں قسمیں ہیں ان کی، ہزاروں ان کے نام
نہیں ہوں یہ تو بگڑ جائے زندگی کا نظام
کریں یہ عزم، نئے پیڑ ہم لگائیں گے
ہرے درخت ہیں جتنے، انھیں بچائیں گے
(ہرے درخت)
جہاں تک بچوں سے ان کی اُنسیت کی بات ہے تو یہ انسیت بھی قارئین کو حوصلوں کی اُڑان کے صفحات میں دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ نظم ’بچے‘، ’ہادیہ بیٹی‘، ’یاور میاں‘، ’دادا پوتے کی دوستی‘ جیسی نظموں میں بچوں کی ہمہ جہت شبیہیں اُبھارنے کی پُر زور کوششیں کی گئی ہیں۔ بچوں کی شرارت، نادانی، ناسمجھی، ان کا نٹ کھٹ پن؛ ان تمام حرکتوں کو اپنی نظموں میں شامل کرکے ظفر کمالی نے بچوں کے کردار کو پیش کرنے میں کامیابی پائی ہے۔ نظم ’ہادیہ بیٹی‘ ظفر کمالی صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر جاوید اقبال، (الکشن آفیسر) کی صاحبزادی کو سامنے رکھ کر کہی گئی ہے۔ نظم کا عنوان تو Particular ہے لیکن نظم میں جو باتیں پیش کی گئی ہیں، وہ Universal ہیں جو ہر چھوٹی بچی میں ہوتی ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
تیز و طرّار، چلبلی، بھولی
ان کی کویل کے جیسی ہے بولی
جو بھی آئے اسے کریں یہ سلام
دل میں ان کے سبھی کا ہے اکرام
روٹھنا یوں تو جانتی ہی نہیں
روٹھ جائیں تو مانتی ہی نہیں
چھوٹی روٹی یہ بیل لیتی ہیں
بَیڈمنٹن بھی کھیل لیتی ہیں
سن کے تعریف اپنی شرمائیں
دیر تک سر جھکائے رہ جائیں
اپنے ابّو کی ہیں مُشیر یہی
شاہ وہ ہیں تو ہیں وزیر یہی
(ہادیہ بیٹی)
’یاور میاں‘ نظم بھی اسی انداز کی ہے۔ یہاں Baby Boy کی نزاکت، معصومیت، شوخی، بدمعاشیاں اور نٹ کھٹ پن کو سامنے لایا گیا ہے۔ بچوں میں نئی نئی چیزیں سیکھنے کی بھی Curiosity ہوتی ہے۔ ان تمام اجزا کو سمیٹ کر ظفر کمالی صاحب نے اپنی نظموں کے موضوع میں انھیں شامل کیا ہے۔ اسی سلسلے سے ایک اور نظم شامل ہے: ’دادا پوتے کی دوستی‘؛ اس نظم میں دادا اور پوتے کے رشتے کو بڑے ہی ظریفانہ انداز میں ابھارا گیا ہے۔ پوتے کے مل جانے سے خزاں رسیدہ چمن میں نئی بہار یعنی بڑھاپے میں جوانی آ جاتی ہے اور دادا کی زندگی معطر ہو جاتی ہے۔ جیسے انھیں ایک نئی زندگی مل گئی ہو۔ ہر طرف خوشیاں چھا جاتی ہیں۔ بچے زیادہ تر اپنے دادا اور دادی سے متاثر ہوتے ہیں کیوں کہ بچپنا کا زیادہ تر وقت بچے اپنے دادا اور دادی کی گود میں ہی گزارتے ہیں اور کہیں نہ کہیں ہمارا ایک دوستانہ تعلق ان سے ہو جاتا ہے۔ اسی سلسلے سے یہ نظم بہت اہم ہے جس کو پڑھ کر ہمیں بھی وہ دادا دادی کے ساتھ گزارا ہوا بچپن یاد آ جاتا ہے:
ہنس ہنس کے دونوں کرتے ہیں آپس میں گفتگو
مشہور ہو گئی ہے محبت یہ چار سو
کھانا ہر ایک وقت وہ کھاتے ہیں ساتھ ساتھ
مسجد نماز پڑھنے بھی جاتے ہیں ساتھ ساتھ
عینک پہن کے دادا کی وہ کھِل کھلا تے ہیں
دادا بھی دل ہی دل میں بہت مسکراتے ہیں
ضد پر کبھی اڑیں کہ میں ٹب میں نہاؤں گا
خرگوش کو میں آپ کی چادر اڑھاؤں گا
بھالو کے ناچ کا بھی بہت دل میں ذوق ہے
اتنی سی عمر میں ہی کبڈّی کا شوق ہے
(دادا پوتے کی دوستی)
دادا کا اپنے پوتے پوتیوں سے پیار ایک فطری جبلت ہے۔ ہر دادا اپنے پوتے میں اپنا بچپن دیکھتا ہے۔ اسی طرح شاعر نے اپنی اس نظم میں ان کیفیات پر مرکوز رہنے کی کوشش کی ہے۔ نظم کے عنوان سے ہی سب کچھ ظاہر ہوجاتا ہے۔ دادا اور پوتے کا رشتہ واقعی زندگی کا ایک عظیم رشتہ ہوتا ہے۔ وہ وہی ہوتے ہیں جنھوں نے ہمارے والدین کو ویسے ہی بنایا جیسے وہ ہیں۔ یہ اُن کی پرورش کا ہی نتیجہ ہوتا ہے کہ ہمارے والدین ہماری تربیت صحیح ڈھنگ سے کر پاتے ہیں۔ آپ کسی بچے سے پوچھیں گے کہ آپ کو سب سے زیادہ پیار کون کرتا ہے تو ان میں سے اکثر کا یہی جواب ہوتا ہے کہ ہمارے دادا دادی۔ اسی طرح اگر دادا دادی سے پوچھا جائے تو وہ کہیں گے کہ اپنے پوتے پوتیوں سے۔ دادا دادی سے پوتے پوتیاں بغیر کسی شرط کے پیار کرتے ہیں۔ حالاں کہ وہ ہماری غلطیوں کو سدھارتے بھی ہیں اور ضرورت پڑنے پر اصلاح بھی کرتے ہیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دادا دادی ہماری زندگی کی ایک عظیم نعمت ہیں جو ہر کسی کی زندگی میں میسر نہیں ہوتے۔ اسی رشتے کی بنیاد پر اس نظم کی تعمیر و تشکیل ممکن ہوئی ہے۔
اہمیت، ضرورت اور مرکزیت کیا چیزیں ہیں، اور ہماری زندگی میں کون کون سی ایسی چیزیں ہیں جن کا Importance ہماری ترقی میں بنیاد کا پتھر ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کی ترجمانی شاعر نے اپنی کئی نظموں میں کی ہے۔ ”وقت‘، صبح کا وقت‘، ’ماں باپ کی عزت کرو‘، ’مزدور کی عزت کرو‘، وغیرہ وغیرہ نظموں میں اس موضوع کو شامل کر کے شاعرنے بچوں سے کچھ خاص باتیں کہی ہیں۔’وقت‘ اور ’صبح کا وقت‘ عنوان سے نظمیں بہت ہی بہترین انداز میں وقت کی اہمیت کو سمجھانے کی کوششیں ہیں۔ ’وقت‘ پر لکھی گئی نظم میں ظفر کمالی نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وقت جب نکل جائے تو وہ دوبارہ ہاتھ نہیں آنے والا۔ دنیا میں اگر کسی کی حکمرانی ہے تو وہ وقت کی حکم رانی ہے۔اگر ہمارے اندر وقت کی پابندی آ جائے تو ہمیں یہ وقت فقیر سے بادشاہ بنا سکتا ہے اور اگر اس کی قدر نہیں تو ہم بادشاہ سے فقیربھی بن سکتے ہیں۔”If you mar the time, time will mar you”۔ آگے انھوں نے لکھا ہے کہ جو وقت کی پابندیاں کرے، وہ ستاروں پہ اپنی کمند یں ڈال سکتا ہے۔ وقت کی اہمیت پر تو بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن بچوں کے لیے پُر اثر انداز میں وقت کی اہمیت پر یہ نظم خاصے کی چیز ہے۔ ’صبح کا وقت‘ عنوان سے جو نظم شاملِ کتاب ہے، اس میں بھی صبح کی اہمیت اجاگر ہوئی ہے۔ آج کل جو یہ رواج چل نکلا ہے کہ دیر رات جاگیے اور صبح دیر تک سوئیے؛ ان کے لیے یہ نظم تازیانہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ظفر کمالی صبح کی اہمیت واضح کرنے سے پہلے صبح کی کیفیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ٹھنڈی اور تر و تازہ ہوائیں چلتی ہیں اور ایک سرور کی سی کیفیت پیش نظر ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر صبح کے وقت کی اہمیت کو بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ وقت وقتِ ربانی اور کارِ سلطانی ہے۔ یہ ادیبوں کے لیے فکرِسخن کا وقت ہے اور نعمتوں کے حصول کا وقت ہے۔
حب الوطنی اور قومی جذبے سے سرشار اشعار بھی یہاں کم نہیں ہیں ’۔ترانہ‘، ’ہماراجھنڈا‘، ہمارا ملک‘ یہ تینوں نظمیں اس نوعیت کی ہیں۔ وطنیت اور قومیت کے موضوعات بڑے حساس ہیں اور آج کے زمانے میں انھیں متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے ایسے موضوعات پر اپنی قوم کے نونہالوں سے شاعر کی گفتگو توجہ کے ساتھ سنی جانی چاہیے۔ اس سے شاعر کے پختہ سماجی شعور کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ چنداشعار ملاحظہ ہوں:
رنج و غم، مشکلیں، سختیاں جھیل کر
تیری رکشا کریں جان پر کھیل کر
ساتھ مل کر لڑیں شیخ اور برہمن
اے وطن اے وطن اے وطن اے وطن
(ترانہ)
یہی جھنڈا سبھوں کو ایک دھاگے میں پروتا ہے
محبت اور چاہت کے دلوں میں بیج بوتا ہے
یہ نفرت کے سفینوں کو سمندر میں ڈبوتا ہے
کدورت ہو اگر دل میں تو اس کو بھی یہ دھوتا ہے
وطن پر جاں لٹانا دین ہے، ایمان ہے پیارے
یہ وہ جھنڈا ہے جو لاکھوں دلوں کی جان ہے پیارے
(ہماراجھنڈا)
’چیونٹیوں کی قطار‘، ’بیمار چوہیا‘، ’گوریّا رانی‘، ’ریشم کی گڑیا‘، ’میرا بکرا‘، ’گڈے کی برات‘ اور بلّی؛ یہ نظمیں بہت حد تک داستانی طرزِ اظہار سے تعلق رکھتی ہیں جہاں عام طور سے بچوں کو قصّے کہانیوں میں جانور اور پرندے انسانی حرکات و سکنات میں نظر آتے ہیں۔ ’چیونٹیوں کی قطار‘ نظم ایک طرح سے ترغیبی نظم کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک شعر کے بعد دوسرا شعر سامنے آتا ہے اور تعلیم و تربیت کے دفتر کھل جاتے ہیں۔ یہاں شاعر کا مشاہدہ کتنا وقیع ہے یہ بہت آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔شاعر یہاں چینٹیوں کی زندگی کو موضوع بنا کر بچوں میں رغبت پیدا کر رہا ہے۔ عام طور سے دیکھا جائے تو چینٹیاں اپنے مزاج اور طریقِ زندگی کے معاملے میں ہم سب کو متاثر کرتی ہیں۔ چینٹیوں کو ایک قطار میں چلتے ہوئے سب نے دیکھا ہوگا۔ اپنے کام میں مگن رہنا اور آپسی ربط کی خوش سلیقگی سے کون نا واقف ہے۔ یہ سب مشاہدے کی چیزیں ہیں جو شاعر اپنی نظم میں پیش کر رہا ہے۔ شاعر چیونٹیوں کی چال ڈھال، طریقہ سلیقہ، ان کی ذہانت، کام کرنے کے ہنر سے متاثر ہو کر انھیں منی مشین کہہ رہا ہے۔ اپنی منزلوں کی طرف حوصلوں کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا بچوں کے لیے ایک اہم سبق ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ ایک چینٹی کو موضوعِ بحث بنا کر اس نے سادہ اُسلوب میں سنجیدہ باتیں کہنے کا کیسا ہنر ظاہر کیا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک کمال درجے کا ہنر ہے۔ مثال دیکھیے:
کتنی دل کش ہے چیونٹیوں کی قطار
ہیں یہ اتنی، نہیں ہے جن کا شمار
عزم و ہمت سے ہیں سبھی لبریز
اپنے کاموں میں ہیں یہ کتنی تیز
طور کیسا ہے کیا طریقہ ہے
کیسی تہذیب ہے سلیقہ ہے
اپنی منزل کی سَمت سب ہیں رواں
حوصلے ان کے لگ رہے ہیں جواں
سخت راہوں سے بھی گزر جائیں
مشکلوں سے کبھی نہ گھبرائیں
دے رہی ہیں یہ محنتوں کا پیام
ہم کریں ان کے حوصلوں کو سلام
(چیونٹیوں کی قطار)
”بیمار چوہیا“ نظم تمثیلی نوعیت کی ہے۔ ایک قصے کی طرح نظم شروع ہوتی ہے اور ایک بیمار چوہیا کی کہانی پیش کی جاتی ہے جہاں رات بھر بیماری میں مبتلا، نزلہ اور بخار سے تڑپتی ہوئی چوہیا کو دیکھ کر چوہا گھبرایا ہوا ہے۔ علاج کے لیے ڈاکٹر بندر کو بلایا جاتا ہے. یہ تمثیلی قصّہ بہت ہی دل چسپ اور پُر لطف اندازمیں پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے جو بچوں کی تفریح کے لیے نہایت اہم ہے لیکن ظفر کمالی کا کمال یہ ہے کہ آخر میں انھوں نے ایک بہت ہی ضروری پیغام دیا ہے کہ دکھ درد میں جو ساتھ دے، اس سے رشتہ اٹوٹ ہو جاتا ہے۔ اس نظم میں چوہیا کو مثال بنا کر دکھ میں ساتھ دینے والوں سے محبت اور قربت کی باتیں واضح کی گئیں ہیں:
چوہیا کے سر میں درد تھا
چہرا بھی اس کا زرد تھا
نزلہ تھا اس کو اس قدر
چھینکا تھا اس نے رات بھر
چوہا تھا گھبرایا ہوا
اندر سے بَولایا ہوا
دوڑا گیا بندر کے گھر
جنگل کا تھا وہ ڈاکٹر
چوہیا نے جب کھائی دوا
آرام اس کو ہو گیا
چوہے کی خدمت دیکھ کر
اس کی رفاقت دیکھ کر
دونوں میں الفت بڑھ گئی
کچھ اور قربت بڑھ گئی
یوں ہو گئے شیر و شکر
ٹوٹا نہ رشتہ عمر بھر
دکھ درد میں جو ساتھ دے
بھولے کوئی کیسے اسے
(بیمارچوہیا)
”شریر بچہ“ عنوان سے بھی نظم اہمیت سے خالی نہیں۔ بچے نہ شریر ہوتے ہیں اور نہ سنجیدہ بلکہ بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ بچوں کی زندگی سے جڑے کچھ ایسے مسئلے ہوتے ہیں جن سے ان میں کبھی سنجیدگی اور کبھی شرارت کا نقش اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ یہ نظم پڑھنے کے ساتھ علامہ اقبال کی مشہور نظم ”بچے کی دعا“ (لب یہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری) سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ دونوں نظموں میں بچوں کی دعا شامل ہے۔ ظفرکمالی کی ظریفانہ نظم کا کمال یہ ہے کہ اس کا اُسلوب تو ظریفانہ ہے لیکن اس کے بین السطور پر جب ہم غور کرتے ہیں تو وہ ایک سنجیدہ نظم معلوم ہوتی ہے۔ ظریفانہ شاعرکو یہ سہولت حاصل ہے کہ اپنی ظریفانہ باتیں کہتے ہوئے ایک سنجیدہ، پُر اثر اور پُر وقار اندازِ نظر اختیار کر سکتا ہے۔ نظم ”شریر بچہ“ میں بچہ اپنے لیے دعا تو کرتا ہی ہے لیکن اس میں بچے کے ذہن میں صرف شرارت ہی نہیں بلکہ ایک سنجیدہ فکر کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے۔ دادا ابّا جو بوڑھے ہو چلے ہیں، اُن کو پھر سے بچہ بنانے کی دعا وغیرہ سے اشارہ ملتا ہے کہ اس نظم میں ایک ایسی فکر شامل ہے جو نہایت ہی بلیغ ہے کیوں کہ ہم سب کو یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ ہمارے والدین بوڑھے ہو چلے ہیں۔ ان کی صحت، ان کی فکر بھی ستاتی رہتی ہے۔ دادی کے منہ میں دانت نہیں، اس کی بھی فکر بچے کی دعا میں شامل ہے۔ اسی لیے ہم اسے صرف ظریفانہ نظم سمجھ لیں، یہ مناسب نہیں۔
کتاب کے پیش لفظ میں حقانی القاسمی نے ادبِ اطفال کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسے سنجیدگی سے تنقید کے ہر پہلو سے دیکھا جانا چاہیے۔ ظفر کمالی کی شاعری کے حوالے سے انھوں نے مشورہ دیا ہے کہ بدلتی دنیا کے موضوعات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حالاں کہ ظفر کمالی کے یہاں صرف روایتی موضوعات نہیں بلکہ درجنوں نئے پہلو زیرِبحث ہیں۔ گلوبل وارمنگ اور ماحولیات کے سلسلے سے ان کی کتاب میں کئی تخلیقات شامل ہیں۔ پیڑ اورپانی سے متعلق نظموں کی پذیرائی ہونی چاہیے کیوں کہ وہ ایک سنگین مسئلے کے ساتھ ساتھ نئی بیداری اور بدلتی دنیا کا حوالہ بن گئی ہیں۔ اسی کے ساتھ نئی نسل کے ادیب عبدالوہاب قاسمی نے۳۰ صفحات پر مشتمل اپنے تفصیلی مضمون میں ظفر کمالی صاحب کی نظموں کا فرداً فرداً جائزہ لیا ہے۔ ان کا یہ مضمون ظفر کمالی کو سمجھنے میں خاصی معاونت کرتا ہے۔ ابتدا میں انھوں نے ادبِ اطفال کے تعلق سے ظفر کمالی صاحب کے نظریات کا مختصر خاکہ بھی پیش کیا ہے جس سے اس مضمون کی افادیت بڑھ گئی ہے۔
خلاصۂ کلام یہی ہے کہ”حوصلوں کی اُڑان“ کے اندر ذہن و فکر کے سلسلے سے ایک مکمل دنیا آباد ہے۔ بڑوں کی شاعری کے لیے جو عام طور سے لفظی اور ذہنی تیاری کی جاتی ہے، وہی خیال انھوں نے بچوں کی نظم کے لیے بھی استعمال کیا ہے تاکہ بچوں کے ذہن و فکر میں ترقی ہو۔ جہاں یہ مجموعہ بچوں کے لیے تفریحی نظمیہ مواد فراہم کرتا ہے، وہیں اس میں ایک جہان معنی بھی پوشیدہ ہے جو بچوں کے ذہنی فکر اور توانائی کا موثر ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ کتاب کے سرنامے میں ہی ایک معنی پوشیدہ ہے جو ایک فلسفہ اور مُثبت سوچ کو ظاہر کرتا ہے اور ہمارے حوصلے اور فکری بلندی کی باتیں کرتا ہے جو یہ بھی بتاتا ہے کہ اڑان پنکھوں سے نہیں بلکہ حوصلوں سے ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ سرنامہ ہی بچوں کے دل میں جوش پیدا کرنے کے لیے کافی ہے.
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:رسالہ ’ثالث‘ کا گوشۂ شمس الرحمان فاروقی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے