خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

محمد ہاشم القاسمی
(خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
موبائل فون : 9933598528

خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ’’عام الفیل‘‘ کے تقریباً 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے، اور نبوت کے چھٹے سال پینتیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوکر حرم ایمان میں داخل ہوئے۔
آپ ؓ کا نام عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں حلقہ اسلام میں داخل ہو کر نور ایمان سے منور ہوچکی تھیں۔
حضرت عمر فاروقؓ کا رنگ سفید مائل بہ سرخی تھا، رخساروں پر گوشت کم، قد مبارک دارز تھا، جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو سب سے اونچے نظر آتے، ایسا معلوم ہوتا گویا آپؓ سواری پر سوار ہیں آپ زبردست بہادر اور بڑے طاقتور تھے، اسلام لانے سے قبل جیسی شدت کفر میں تھی، اسلام لانے کے بعد ویسی ہی شدت اسلام میں بھی ہوئی۔ آپؓ خاندان قریش کے باوجاہت اور شریف ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں سفارت کاکام آپ ہی کے متعلق ہوتا تھا۔
ایک رات بیت اللہ کے سامنے عبادت کرتے ہوئے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردِگار سے عجیب دعا کی، مانگی بھی تو عجب شے مانگی۔ کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ ’’اے اللہ! عمروابن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے علام الغیوب پر چھوڑ دیا کہ اللہ ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکو شرفِ قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغِ برہنہ لیے جارہے تھے، راستہ میں بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا، جس نے پوچھا کہ عمر! خیریت! کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے: محمد کو قتل کرنے جارہا ہوں ،اس نے نئے دین کا اعلان کرکے مکہ والوں میں تفریق کردی ہے، کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کردوں۔ بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے کہا کہ: عمر! اگر تم نے ایسا کیا تو کیا ’’بنو ہاشم وبنو زہرہ‘‘ تم سے انتقام نہیں لیں گے؟ کہنے لگے: لگتا ہے کہ تم بھی اس نئے دین میں شامل ہوچکے ہو، انھوں نے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو، تمھاری بہن و بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں، جلال میں نکلنے والا عمر سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے، یہاں سیدنا خباب بن الارث رضی اللہ عنہ ان کے بہنوئی و بہن کو سورۂ طہٰ پڑھا رہے تھے، باہر سے آواز سنی اور دروازہ پر دستک دی، اندر سے پوچھا گیا کون؟ عمر! نام سنتے ہی سیدنا خباب چھپ گئے، عمر نے آتے ہی پوچھا: تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ انھوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ: ہم آپس میں باتیں کررہے تھے، کہنے لگے: میں نے سنا ہے تم نئے دین میں شامل ہوگئے ہو؟ بہنوئی نے کہا کہ: عمر! وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے، تو جس دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے، بس سننا تھا کہ بہنوئی کو دے مارا زمین پر، بہن چھڑانے آئی تو اتنی زور سے اس کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرے سے خون نکل آیا، بہن کے چہرے پہ خون دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ: اچھا! لاؤ، دکھاؤ، تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے کہا کہ: تم ابھی اس کلام کے آداب سے ناواقف ہو، اس کلامِ مقدس کے آداب ہیں، پہلے تم وضو کرو، پھر دکھاؤں گیگی، انھوں نے وضو کیا اور سورۂ طہٰ پڑھنی شروع کی، یہ پڑھتے جارہے تھے اور کلامِ الٰہی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جارہے تھی۔ خباب بن ارث رضی اللہ عنہ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے: عمرؓ ! کل رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی تھی’’اللّٰھمّ أعزّ الإسلام بأحد الرجلین إمّا ابن ھشام وإمّا عمر بن الخطاب‘‘ اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ: ’’اللّٰھم أید الإسلام بأبي الحکم بن ھشام وبعمر بن الخطاب۔‘‘ اے اللہ ! عمرو بن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا، یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کی تائید فرما۔‘‘ اے عمر! میرے دل نے گواہی دی تھی کہ یہ دعاے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب کے حق میں پوری ہوگی۔ اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب یا ابوجہل کو دیکھتے تو رب العزت کے حضور دستِ دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اس سے اپنے دین کو قوت عطا فرما۔ (طبقات ابن سعد)
سیدنا خباب بن ارث رضی اللہ عنہ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اچھا ! تو مجھے بتاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، انھوں نے بتایا کہ "صفا پہاڑی پر واقع ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام پذیر ہیں" سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چل پڑے، دَرّے پر مقیم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جب دیکھا کہ عمر آرہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے، تو گھبرائے ہوئے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، وہیں اسداللہ و رسولہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی تھے، وہ فرمانے لگے: آنے دو، اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو میں اس کی تلوار سے اس کا کام تمام کردوں گا۔
جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی جاری تھا، چند لمحوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر  سے فرمایا: ’’اے عمر ! تم کس چیز کا انتظا رکررہے ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو؟ !۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ فوراً کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار و مشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادیِ مکہ گونج اُٹھی۔ پھر نبی رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سینۂ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائی” اَللّٰھُمَّ اخْرُجْ مَافِيْ صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ وَأَیِّدْ لَہٗ إِیْمَانًا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’یا اللہ۔ ! اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔‘‘ (مستدرک للحاکم)
قبولِ اسلام کے وقت بعض مؤرخین کے نزدیک آپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال تھی۔ مصر کے ایک بہت بڑے عالم، مفسرِ قرآن جناب علامہ طنطناویؒ نے عجیب جملہ کہا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا آغاز ہوا ۔‘‘
مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’جبرئیل  میرے پاس آئے اور کہا کہ آسمان والے عمر  کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں"۔(مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)
حضرت علیؓ کا ارشاد ہے، حضرت عمرؓ کے سوا کوئی شخص ایسا نہیں جس نے علانیہ ہجرت کی ہو۔ جس وقت حضرت عمرؓ ہجرت کے ارادے سے نکلے، آپ نے تلوار کی میان شانے پر لٹکائی اور تیر پکڑ کر خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ پھر وہاں موجود کفارِ قریش میں سے ایک ایک فرد سے الگ الگ فرمایا، تمھاری صورتیں بگڑیں، تمہارا ناس ہوجائے، ہے کوئی تم میں جو اپنی ماں کو بیٹے سے محروم، اپنے بیٹے کو یتیم اور اپنی بیوی کو بیوہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، وہ آئے اور پہاڑ کے اس طرف آکر مجھ سے مقابلہ کرے، میں اس شہر سے ہجرت کررہا ہوں۔‘‘ کفار کو آپ کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ ہوسکی۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر  کی فضیلت و بزرگی چار باتوں سے ظاہر ہے، بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں قتل کا حکم دیا گیا اور آیت مبارکہ نازل ہوئی (جس سے فاروق اعظمؓ کی رائے کی تائید فرمائی گئی) آپ نے ازواجِ مطہراتؓ کے پردے کی بابت اپنی رائے کا اظہار کیا جس پر آیت نازل ہوئی (یوں حضرت عمر ؓ کی تجویز کی وحی کے ذریعے تائید کی گئی) حضور اکرم ﷺ نے آپ کے متعلق دعا فرمائی کہ اے اللہ، عمر کو مسلمان بنا کر اسلام کو غلبہ عطا فرما۔
آپ  نے سب سے پہلے صدیق اکبر سے بیعتِ خلافت کی۔ (صحیح بخاری)
اسلام میں خلافت کا سلسلہ گرچہ حضرت ابوبکر صدیق کے عہد سے شروع ہوا اور ان کے قلیل زمانہ خلافت میں بھی بڑے بڑے کام انجام پائے لیکن منظم اور باقاعدہ حکومت کا آغاز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد سے ہوا، انھوں نے نہ صرف قیصر و کسریٰ کی وسیع سلطنتوں کو اسلام کے ممالک محروسہ میں شامل کیا، بلکہ حکومت و سلطنت کا باقاعدہ نظام بھی قائم کیا اور اس کو اس قدر ترقی دی کہ حکومت کے جس قدر ضروری شعبے ہیں، سب ان کے عہد میں وجود پزیر ہوچکے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت جمہوری طرز حکومت سے مشابہ تھی، یعنی تمام ملکی و قومی مسائل مجلس شوریٰ میں پیش ہوکر طے پاتے تھے، اس مجلس میں مہاجرین و انصار  کے منتخب اور اکابر اہل الرائے شریک ہوتے تھے اور بحث و مباحثہ کے بعد اتفاق آراء یا کثرت رائے سے تمام امور کا فیصلہ کرتے تھے، مجلس کے ممتاز اور مشہور ارکان یہ ہیں: حضرت عثمان ، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عوف ، حضرت معاذ بن جبل ، حضرت ابی بن کعب ، حضرت زید بن ثابت ۔ مجلس شوریٰ کے علاوہ ایک مجلس عام بھی تھی جس میں مہاجرین و انصار کے علاوہ تمام سرداران قبائل شریک ہوتے تھے، یہ مجلس نہایت اہم امور کے پیش آنے پر طلب کی جاتی تھی، ورنہ روز مرہ کے کاروبار میں مجلس شوریٰ کا فیصلہ کافی ہوتا تھا، ان دونوں مجلسوں کے سوا ایک تیسری مجلس بھی تھی جس کو ہم مجلس خاص کہتے ہیں، اس میں صرف مہاجرین صحابہ شریک ہوتے تھے۔ مجلس شوریٰ کے انعقاد کا عام طریقہ یہ تھا کہ منادی”الصلاۃ جامعۃ” کا اعلان کرتا تھا لوگ مسجد میں جمع ہوجاتے تھے، اس کے بعد ہر ایک کی رائے دریافت کرتے تھے، جمہوری حکومت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہرشخص کو اپنے حقوق کی حفاظت اور اپنی رائے کے علانیہ اظہار کا موقع دیا جائے، حاکم کے اختیارات محدود ہوں اور اس کے طریق عمل پر ہر شخص کو نکتہ چینی کا حق ہو، حضرت عمرؓ کی خلافت ان تمام امور کی جامع تھی، ہرشخص آزادی کے ساتھ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا تھا اورخلیفہ وقت اختیارات کے متعلق خود حضرت عمؓر نے متعدد موقعوں پر تصریح کردی تھی کہ حکومت کے لحاظ سے ان کی کیا حیثیت ہے، نمونہ کے لیے ایک تقریر کے چند فقرے درج ذیل ہیں: "مجھ کو تمھارے مال میں اسی طرح حق ہے جس طرح یتیم کے مال میں اس کے مربی کا ہوتا ہے، اگر میں دولت مند ہوں گا تو کچھ نہ لوں گا اور اگر صاحب حاجت ہوں گا تواندازہ سے کھانے کے لیے لوں گا، صاحبو! میرے اوپر تمھارے متعدد حقوق ہیں، جن کا تم کو مجھ سے مواخذہ کرنا چاہیے، ایک یہ کہ ملک کا خراج اور مال غنیمت بے جاطور پر صرف نہ ہونے پائے، ایک یہ کہ تمھارے روزینے بڑھاؤں اور تمھاری سرحدوں کو محفوظ رکھوں اور یہ کہ تم کو خطروں میں نہ ڈالوں۔” (تاریخ اسلام)
تذکرہ نگار بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر وہ پہلے شخص ہیں، جنھیں امیر المومنین سے موسوم کیا گیا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے تاریخ و سنہ ہجری جاری کیا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے ماہِ رمضان میں صلوۃ التراویح کی نماز باجماعت جاری فرمائی۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے لوگوں کے حالات کی خبر گیری کے لیے راتوں کو گشت کیا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے (بے جا) مذمت کرنے والوں پر حد جاری فرمائی۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نےشرابی پر اسی 80 کوڑے بہ طور سزا لگوائے۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نےنماز جنازہ میں چار تکبیریں کہنے کا حکم دیا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے دفاتر قائم کیے اور وزارتیں مقرر کیں۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے سب سے زیادہ فتوحات حاصل کیں۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے صدقے کا مال اسلامی امور میں خرچ کرنے سے روکا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے ترکہ کے مقررہ حصوں کی تقسیم کا نفاذ فرمایا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے گھوڑوں پر زکوٰۃ وصول کی۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نےسیدنا علیؓ کو ’’اطال اللہ بقاءک اور ایدک اللہ‘‘ (یعنی اللہ آپ کی عمر دراز فرمائے اور آپ کی تائید فرمائے) کہہ کر دعا دی۔ سب سے پہلے درّہ ایجاد کیا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے شہروں میں (باقاعدہ) قاضی مقرر کیے۔ آپ نے کوفہ، بصرہ، جزیرہ، شام، مصر اور موصل کے شہر آباد کیے۔ آپ ہی نے مقامِ ابراہیم کو اس جگہ قائم کیا، جہاں وہ اب ہے، ورنہ پہلے وہ بیت اللہ سے ملا ہوا تھا۔ آپ نے مسجد نبویؐ کی توسیع کی اور اس میں ٹاٹ کا فرش بچھایا۔ آپ نے مسجد میں قندیل روشن کرنے کا رواج عام کیا۔ آپ نےعشر و خراج کا نظام نافذ کیا۔ جیل خانہ وضع کیے اور جلاوطنی کی سزا متعارف کرائی۔ سیدنا عمرفاروقؓ کسی کو گورنر یا حاکم مقرر کرنے سے پہلے یہ عہد لیتے تھے کہ وہ اعلا گھوڑے پر سوار نہ ہوں گے۔ باریک کپڑے نہ پہنیں گے۔ چھنا ہوا آٹا نہیں کھائیں گے۔ ذاتی خدمت کے لیے نوکر چاکر نہیں رکھیں گے۔ ضرورت مندوں سے ہمیشہ ملیں گے۔ خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں سیدنا عمر ابن خطاب  نے فرمایا: لوگو!مجھے تم سے آزمایا جارہا ہے اور تمھیں مجھ سے۔ میں اپنے دونوں پیش روؤں کے بعد تم میں جانشین بن رہا ہوں، جو چیز ہمارے سامنے (یعنی مدینہ میں) ہوگی اُسے ہم شخصی طورپر انجام دیں گے اور جو چیز غائب (دوسری جگہ) ہوگی تو اس کے لیے قوی (قابل) اور امین (دیانت دار) لوگوں کو مامور کریں گے۔ جو اچھا کام کرے گا اس پر ہمارا احسان بھی زیادہ ہوگا اور جو بُرا کام کرے گا، ہم اُسے سزا دیں گے۔ اللہ ہمیں اور تمھیں معاف کرے۔ اس کے بعد آپ نے اپنے مقرر کردہ عمال اور گورنروں سے مخاطب ہو کر فرمایا یاد رکھو! میں نے تمھیں لوگوں پر حاکم اور جبار بناکر نہیں بھیجا کہ تم لوگوں پر سختی کرو، بلکہ میں نے تمھیں لوگوں کا امام بناکر بھیجا ہے، تاکہ لوگ تمھاری تقلید کریں۔ لہٰذا تمھارا فرض ہے کہ تم لوگوں کے حقوق ادا کرو اور انھیں زد و کوب نہ کرو کہ ان کی عزتِ نفس مجروح ہوجائے اور نہ ان کی بے جا تعریف کرو کہ وہ غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں۔ ان پر اپنے دروازے بند نہ رکھو کہ زبردست کم زوروں کو کھا جائیں اور نہ ان پر کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح دو کہ یہ ان پر ظُلم کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شانِ رفیعہ میں چند فرامینِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پیش خدمت ہے. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ”اے ابن خطاب !اس ذات پاک کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، جس راستے پہ آپ کو چلتا ہوا شیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے، وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری)
حضور پاک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حالتِ خواب میں دودھ پیا، یہاں تک کہ میں اس سے سیر ہوگیا اور اس کی سیرابی کے آثار میرے ناخنوں میں نمایاں ہونے لگے، پھر میں نے وہ دودھ عمرؓ کو دے دیا، اصحابِ رسولؓ نے پوچھا: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم‘‘۔(صحیح بخاری)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میں نیند میں تھا، میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اور انھوں نے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں، کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے نیچے تک، اور پھر عمرؓ کو پیش کیا گیا، انھوں نے ایسی لمبی وکھلی قمیص پہنی ہوئی تھی کہ وہ زمین پر گھسٹتی جارہی تھی، اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا کہ: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "دین" (صحیح بخاری)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔‘‘ یعنی اگر سلسلۂ نبوت جاری رہتا تو سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی منصبِ نبوت سے سرفراز کیے جاتے ۔ (بخاری شریف)
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تم سے پہلے جو اُمم گزری ہیں ان میں مُحدَث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی مُحدَث ہے تو وہ عمرؓ ہے۔‘‘ اسی حدیث مبارکہ میں لفظ ’’مُحدَث‘‘ کی تشریح میں صاحب فتح الباری علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ یوں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’المُحْدَث المُلْھَم وھو من ألقي في روعہ شيء من قبل الملاء الأعلٰی ومن یجری الصواب علیٰ لسانہٖ بغیر قصد۔‘‘ یعنی ’’محدث وہ ہے جس کی طرف اللہ کی طرف سے الہام کیاجائے، ملاء اعلیٰ سے اس کے دل میں القاء کیا جائے اور بغیر کسی ارادہ و قصد کے جس کی زبان پر حق جاری کردیا جائے۔‘‘ یعنی اس کی زبان سے حق بات ہی نکلے۔ (ابن ماجہ)
ایک بار عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عمرہ کی اجازت طلب کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یا أخي أشرکنا في صالح دعاءک ولا تنسنا‘‘ ۔۔۔ ’’اے میرے بھائی ! اپنی نیک دعاؤں میں ہمیں بھی شریک کرنا اور بھول نہ جانا۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے پہاڑ پر تشریف لے گئے، ہمراہ ابوبکر، عمرؓ اور عثمان  بھی تھے، اُحد کا پہاڑ لرزنے لگا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قدم مبارک اُحد پر مارتے ہوئے فرمایا ’’اے اُحد! ٹھہر جا، تجھ پر اس وقت نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ اور کوئی نہیں۔‘‘ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ’’اللّٰھم ارزقني شھادۃ في سبیلک وموتا في بلد حبیبک‘‘ ۔۔۔ ’’اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت دینا اور موت آئے تو تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں آئے ۔‘‘
آخری ایامِ حیات میں آپؓ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں، آپؓ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد تشریف لے گئے، اس وقت ایک درّہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے، مسجد میں پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے، اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ اس روز بھی آپؓ نے ایساہی کیا، نماز ویسے ہی آپؓ نے شروع کی تھی، صرف تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو لؤلؤ (فیروز) جو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا، ایک زہر آلود خنجر لیے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا، اس نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین زخم کاری اس خنجر سے لگائے، آپؓ بے ہوش ہوکر گر گئے اس وقت حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ  آگے بڑھے اور اسی نماز کو مختصر پڑھ کر سلام پھیرا، ابولؤلؤ (حملہ آور) نے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جائے، مگر نمازیوں کی صفیں مثل دیوار کے حائل تھیں، اس سے نکل جانا آسان نہ تھا، اس نے اور صحابیوںؓ کو بھی زخمی کرنا شروع کردیا، تیرہ صحابی زخمی ہوئے، جن میں سے سات صحابی جاں بر نہ ہوسکے، اتنے میں نماز ختم ہوگئی اور ابولؤلؤ پکڑ لیا گیا، جب اس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہوگیا تو اسی خنجر سے اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا۔ (خلفائے راشدین از لکھنویؒ)
بالآخر آپ کی دعائے شہادت کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم میں بلکہ مُصلائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کو 27/ ذو الحجہ بروز چہار شنبہ (بدھ) زخمی کیا گیا اور یکم محرم بروز یک شنبہ (اتوار) آپ رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی۔
​ شہادت سے پہلے حضرت عمر فاروق نے ارشاد فرمایا خلافت کے لیے میں ان چھے صحابہ کو مستحق سمجھتا ہوں جن سے اللہ کے رسول دنیا سے راضی ہو کر گئے ہیں۔ پھر آپ نے چھے صحابہ کے نام بتائے۔ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت سعد بن وقاص ۔ ان چھ صحابہ میں سے جن کو چاہیں منتخب کر لیں۔ (ملاحظہ کیجیے تاریخ الخلفاء) ​
​ حضرت عمر فاروق کی شہادت کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے چھے صحابہ کو خلیفہ کے انتخاب کے لیے جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ پہلے تین آدمی اپنا حق تین آدمیوں کو دے کر خلافت کے حق سے الگ ہو جائیں۔ لوگوں نے اس کی حمایت کی۔ چنانچہ حضرت زبیر حضرت علی کے حق میں، حضرت سعد بن وقاص حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے حق میں، اور حضرت طلحہ حضرت عثمان کے حق میں دست بردار ہو گئے۔ ​
​ تینوں منتخب صحابہ باہمی مشورے کے لیے ایک طرف چلے گئے اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے فرمایا کہ میں اپنے لیے خلافت پسند نہیں کرتا لٰہذا میں اس سے دست بردار ہوتا ہوں. حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہما خاموش کھڑے رہے۔ پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے دونوں صحابہ سے فرمایا۔ اگر آپ دونوں حضرات خلیفہ کے انتخاب کا کام میرے ذمے چھوڑ دیں تو خدا کی قسم ! میں آپ دونوں میں سے بہتر اور افضل شخص کا انتخاب کروں گا۔ دونوں حضرات اس پر متفق ہو گئے۔ دونوں بزرگوں سے عہد و پیماں لینے کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک کونے میں لے گئے اور ان سے کہنے لگے کہ اے علی! آپ اسلام قبول کرنے والے اولین میں سے ہیں اور آپ حضور اکرم ﷺ کے قریبی عزیز ہیں لہذا میں اگر آپ کو خلیفہ مقرر کروں تو کیا آپ خلافت قبول کر لیں گے۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں ۔ اور اگر میں آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو آپ پر خلیفہ مقرر کروں تو کیا آپ منظور کر لیں گے۔ حضرت علی نے فرمایا۔ مجھے یہ بھی منظور ہے۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت عثمان غنی کو ایک کونے میں لے گئے اور یہی دو سوال کیے وہ بھی متفق ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کر لی اس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی بیعت کر لی۔​
شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک 63/تریسٹھ برس تھی، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبویؐ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں آپ  کی قبر بنائی گئی۔ رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ وأرضاہ .***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:ڈاکٹر گوپی چند نارنگ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے