پریم چند: اردو افسانہ کا رہبر

پریم چند: اردو افسانہ کا رہبر

(پریم چند کے یوم ولادت 31 / جولائی پر خصوصی مضمون)

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
7 / نیو کریم گنج، گیا 823001-(بہار)

پریم چند اردو افسا نوی ادب کا ایک ایسا نام ہے، جو آج بھی افسانوی سفر کے ہر مسافر کو روشنی دکھا رہا ہے۔ کسی نے یہ بھی کہا ہے کہ پریم چند افسانوی ادب کا ایک ایسا دیو ہے، جسے لاکھ چاہنے کے باوجود، اپنے کاندھے سے اتارنے میں اب تک کوئی کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے ہے، ان کے والد کا نام منشی عجائب لال ہے۔ پریم چند کی پیدائش31/ جولائی 1880ء کو بھارت کی ریاست اتر پردیش کے لمہی،(بنا رس) گاؤں میں ہوئی تھی۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق ان کے جو افسانوی مجموئے شائع ہوئے ہیں، ان کی فہرست کچھ اس طرح ہے۔ (1)سوزِ وطن، 1908ء (۵کہانیاں) (2)پریم پچیسی(جلد اول) 1914ء (12 کہانیاں) (3)پریم پچیسی(جلد دوئم) 1918ء (13 کہانیاں) (4)پریم بتیسی (جلداول) 1920ء (16کہانیاں)(5)پریم بتیسی (جلد دوئم)1920ء (16 کہانیاں) (6) خاک پروانہ،1928ء(16 کہانیاں)(7)خواب و خیال، 1928ء (14 کہانیاں) (8)فردوس خیال،1929ء(12 کہانیاں) (9)پریم چالیسی (جلد اول)1930ء(20 کہانیاں) (10)پریم چالیسی (جلد دوئم)1930ء (20کہانیاں) (11)آخری تحفہ،1934ء(13کہانیاں)(12) زاد راہ، 1936ء(15کہانیاں)(13)دودھ کی قیمت، 1937ء (9 کہانیاں) (14)واردات،1937ء(13 کہانیاں)۔
یہ ساری کہانیاں / افسانے پریم چند کے کئی لحاظ سے یادگار ہیں۔ مختلف وقت اور حالات کی نشان دہی کرنے میں یہ افسانے معاون ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ پریم چند کے افسانوی ارتقائی سفر سے لے کر فکری و فنّی بالیدگی کے اظہار و بیان میں نمایاں فرق کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ پریم چند ہی کیا کسی بھی فن کار کا یہ دعویٰ نہیں ہو سکتا ہے کہ اس کا ہر افسانہ شاہ کار ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ پریم چند کے کئی افسانے شاہ کار کا درجہ رکھتے ہیں۔
پریم چند کے تعلق سے کئی متنازع باتیں بھی سامنے آچکی ہیں۔ ان باتوں کے باوجود ان کی فن کارانہ عظمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر قمر رئیس، ڈاکٹر اصغر علی انجینئر، ڈاکٹر شیلیش زیدی، ابو محمد شبلی، بدر اورنگ آبادی اور مانک ٹالہ وغیرہ کے مباحث پریم چند کی بعض شخصی خامیوں کی جانب اشارہ ضرور کرتے ہیں۔ پریم چند کا آریہ سماج سے تعلق یا پھر مہاتما گاندھی کے عدم تشدد سے انکار، انھیں متنازع ضرور بناتا ہے، لیکن اس حد تک بھی نہیں، جس کی طرف گوپی چند نارنگ نے اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے:
”پریم چند کی ذات، شخصیت اور فن کے افہام و تفہیم، طرح طرح کے سیاسی، نیم سیاسی، مذہبی، سماجی اور لسانی تعصبات کا شکار ہیں اور ان تعصبات کو بجائے کم کرنے کے روز بروز اور بھڑکایا جاتا ہے۔“
(پریم چند کچھ نئے مباحث، صفحہ 47)
گوپی چند نارنگ کے اس خیال کو پوری شدت سے ردّ کرتے ہوئے اور ان مباحث سے الگ ہٹ کر پریم چند کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ ہی میرا موضوع ہے۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ پریم چند بھی ایک عام آدمی تھے، فرشتہ نہیں. غلطیاں ان سے بھی سرزد ہوئی ہیں، لیکن ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ بہ حیثیت فن کار کس قامت کے تھے۔
پریم چندکو اردو افسانے کا امام تسلیم کیا جائے تو غلط نہ ہوگا، انھوں نے مختصر اردو افسانے کو ہندستان کی سماجی زندگی سے ہم آہنگ کیا اور ایسی فنّی بالیدگی بخشی کہ مغرب کی نقل ہونے کی بجائے ہندستان کی تہذیبی وحدت کا ایک حصّہ معلوم ہونے لگا۔ سماجی شعور و فکر کی بالیدگی اور تنقید حیات کا وہ احساس جو افسانوں میں،نمایاں نہیں ہو پایا تھا، پریم چند کی تخلیقات میں پورے نکھار کے ساتھ جلوہ گر ہوا اور ان کے افسانے جو کہ ”سوزِ وطن، فردوسِ خیال، پریم پچیسی، پریم بتیسی، پریم چالیس، آخری تحفہ، خاک پروانہ، زادِ راہ، واردات، خواب و خیال، اور دودھ کی قیمت“ جیسے اہم افسانوی مجموعوں کی شکل میں موجود ہیں، یہ ثابت کردیا کہ یہ افسانے مٹھی بھر خوش حال افراد کا دل بہلانے کا سامان نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کی بگڑی ہوئی تقدیر کو بہتر بنانے کے لیے روشن مینارہ ہیں۔
پریم چند نے اپنے افسانوں میں نہ صرف دیہاتی کردار کے سطحی حالات کا مطالعہ و مشاہدہ پیش کیا، بلکہ ان کی نفسیات، ان کے جذبات اور تحت الشعور کی باتوں کو بھی صداقت کے ساتھ سامنے لایا اور یہی پریم چند کا فنّی کمال ہے۔ اسی غیر معمولی فنّی کمال نے پریم چند کو مختصر افسانہ نویسی کا رواج دہندہ بنادیا۔ فنّی آگہی کے علاوہ، پریم چند کی ایک دوسری خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے افسانہ نگاری میں انسانی قدروں کو اہمیت دیتے ہوئے نئی روایتوں کی بنیاد ڈالی جو دوسرے افسانہ نگاروں کے لیے مشعلِ راہ بنیں۔
پریم چند کے یہاں ادب کا مقصد انسانی معاشرت کے معائب دور کرنا ہے، جس کا اظہار خود انھوں نے لکھنؤ میں منعقدہ ترقی پسند مصنفین کی پہلی تاریخی کانفرنس میں اپنے صدارتی خطبے میں ان الفاظ میں کیا تھا:
”جس ادب سے ہمارا صحیح ذوق پیدا نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے، ہم میں قوت اور حرکت نہ پیدا ہو، ہمارا جذبۂ حسن نہ جاگے، جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچّا استقلال پیدا نہ کرے، وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ ادب آرٹسٹ کے روحانی توازن کی ظاہری صورت ہے اور ہم آہنگی حسن کی تخلیق کرتی ہے، تخریب نہیں، وہ ہم میں وفا، خلوص اور ہمدردی، انصاف اور مساوات کے جذبات کی پرورش کرتی ہے، جہاں یہ جذبات ہیں، وہیں استحکام ہے، زندگی ہے۔ جہاں ان کا فقدان ہے وہاں افتراق اور خود پروری ہے۔ نفرت اور دشمنی اور موت ہے۔ ادب ہماری زندگی کو فطری اور آزاد بناتا ہے، اس کی بدولت نفس کی تہذیب ہوتی ہے، یہ اس کا مقصد اوّلین ہے۔“ یہی وجہ ہے کہ لازمی طور پر ان کے افسانوں میں سماجی اور معاشرتی واقفیت پائی جاتی ہے۔ وہ غریب طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اکثر افسانوں میں وہ دیہاتوں کے دکھ درد، رنج و راحت، رسم و رواج، تقریب و تہوار کوپیش کرتے ہوئے ایک سچی تصویر سامنے لاتے ہیں۔ اتر پردیش، بہار مارواڑ اور پنجاب کے گاؤں کے توہم پرست، جاہل مرد عورت، مغرور چودھری، کنجوس بنیے، جابر زمین دار، رشوت خور نمبر دار، مقدمہ بازیاں، قرقیاں، نیلام، بھوک، مار دھاڑ، بیماری، موت، عصمت فروشیاں، جہیز کی لعنت، بیوہ عورتوں پر ڈھائے گئے مظالم اور اسی قسم کی بے شمار سماجی بدعتوں کو افسانوی روپ کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے کردار کے ذریعہ گاؤں کے مختلف حالات بیان کرتے ہیں۔ چونکہ پریم چند دیہات میں پیدا ہوئے اس لیے دیہات کے رنگ روپ کو بہتر طور سے سمجھا اور لوگوں کے سامنے نئے نئے عنوان سے پیش کیا۔ مثال کے طور پر”پنچایت“، ”بیٹی کا دھن“، ”بانکا زمیندار“، ”دو بیل“، ”پچھتاوا“، ”ایمان کا فیصلہ“، ”کفن“، ”ٹھاکر کا کنواں“ اور اسی قسم کے دوسرے افسانے پیش کیے جا سکتے ہیں۔
افسانہ ”پنچایت“ میں پریم چند نے گاؤں کے پنچایت کی اہمیت کو بتایا ہے اور یہ دکھانے کی سعی کی ہے کہ خواہ مجرم قریبی دوست ہی کیوں نہ ہو انصاف کی اونچی مسند پر بیٹھ کر نہ کوئی دوست، دوست رہتا ہے اور نہ کوئی دشمن، دشمن۔ سبھی یکساں نظر آتے ہیں اور چونکہ پنچ کا فیصلہ”حکم خدا“ ہوتا ہے اور خدا کے حکم میں کسی کی نیّت کو مطلق کوئی دخل نہیں ہوتا اس لیے حق اور راستی سے ذرا بھی ٹلنا دین و دنیا دونوں ہی سے روسیاہ بنا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں افسانہ ”پنچایت“ کا یہ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”گھنٹہ بھر بعد جمن شیخ الگو چودھری کے پاس آئے اور ان کے گلے سے لپٹ کر بولے ”بھیا جب سے تم نے میری پنچایت کی ہے میں دل سے تمھارا جانی دشمن تھا مگر آج مجھے معلوم ہوا کہ پنچایت کی مسند پر بیٹھ کر نہ کوئی کسی کا دوست ہوتا ہے نہ دشمن، انصاف کے سوا اور اسے کچھ نہیں سوجھتا اور یہ بھی خدا کی شان ہے۔ آج مجھے یقین آگیا کہ پنچ اللہ کا حکم ہے۔“
ایک دوسرے افسانہ ”ایمان کا فیصلہ“ میں ٹھیک اسی طرح کا واقعہ منشی ست نرائن لال کا ہے جو اپنے مالک کا ایک گاؤں بے ایمانی کرکے اپنے قبضے میں کرلیتا ہے لیکن جب حقیقتاً ایمان اور عزّت کا سوال آجاتا ہے تو اس سے جھوٹ نہیں بولا جاتا اور اپنی بے ایمانی کا اعتراف کرکے اپنی ایمان داری کا ثبوت دیتا ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے:
”تب بھان کنور نے ست نرائن لال کی طرف دیکھ کر کہا ”لالہ جی سرکار نے تمہاری ڈگری تو کر ہی دی، گاؤں تمہیں مبارک ہو۔ مگر ایمان آدمی کا سب کچھ ہے۔”ایمان سے کہہ دو کس کا ہے؟“
یہ سوال سن کر ہزاروں آدمی منشی جی کی طرف حیرت آمیز استفسار کی نگاہوں سے تاکنے لگے۔ منشی جی دریائے فکر میں ڈوبے دل میں نفس اور ایمان کے درمیان داؤں پیچ ہونے لگے۔ ہزاروں آدمیوں کی آنکھیں ان کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ اصل واقعہ کسی سے پوشیدہ نہیں تھا۔ اتنے آدمیوں کے روبرو جھوٹی بات زبان سے نہ نکل سکی۔ غیرت نے زبان بند کردی۔”میرا کہہ دینے میں کام بنتا ہے، کوئی امر نہ تھا، لیکن بد ترین گناہ کی جو سزا دنیا دے سکتی ہے، اس کے ملنے کا پورا خوف تھا۔ ”آپ کا“ کہہ دینے میں کام بگڑتا تھا۔ جیتی جتائی بازی ہاتھ سے جاتی تھی۔ لیکن بہترین فعل کے لیے دنیا جو انعام دے سکتی ہے، اس کے ملنے کی امید تھی۔ اس امید نے خوف کو دبا لیا۔ انہیں ایسا معلوم ہوا گویا ایشور نے انہیں سرخرو بننے کا یہ آخری موقعہ دیا ہے۔ میں اب بھی اپنے ایمان کو بچا سکتا ہوں۔ اب بھی دنیا کی نگاہوں میں عزت پا سکتا ہوں۔ انہوں نے آگے بڑھ کر بھان کنور کو سلام کیا اور کانپتی ہوئی آواز میں بولے”آپ کا۔“
فتح حق کا ایک نعرہ بلند کمرہ میں گونجتا ہوا عالم بالا تک جا پہنچا جج نے کھڑے ہو کر کہا ”یہ قانون کا فیصلہ نہیں، ایمان کا فیصلہ ہے۔“
پریم چند کا دل انسانی زندگی سے معمور تھا۔ وہ برے سے برے آدمی سے بھی نفرت نہیں کرتے بلکہ اس کی طرف ہمدردی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ وہ بہ خوبی سمجھتے ہیں کہ آدمی بنیادی طور پر نہ دیوتا ہوتا ہے، نہ شیطان، سماجی تقاضے اور حالات ہی اسے اچھا یا برا بنا دیتے ہیں۔
ان کے افسانہ ”بیٹی کا دھن“ کا جھکڑ شاہ لاکھ برا سہی مگر دراصل اتنا برا نہیں۔ وہ اپنی شعلہ ساماں آنکھوں کے پیچھے ایک خوب صورت دل رکھتا ہے جو سخت سہی لیکن بے حس نہیں۔ چودھری اس کا مقروض تھا اور اس کی بیٹی کا دھن، زیور قرق ہوچکے تھے۔
”چودھری جھکڑ شاہ نے اپنی گدی پر تسکین بخش انداز میں بیٹھتے ہوئے کہا۔ وہی پرماتما جس نے اب تک ٹھیک نباہی ہے، وہی تمہارا پرن بھی نباہے گا۔ لڑکی کے گہنے لڑکی کو دیدو……… لڑکی جیسی تمہاری ہے ویسی ہی میری ہے، میں ڈگری کے روپئے دے دوں گا، جب تمہارے ہاتھ روپئے آجائیں، مجھے لوٹا دینا چودھری جھکڑ شاہ کو چاہے لوگ جتنا برا کہیں مگر میں اتنا برا نہیں۔ہاں یہ ٹھیک ہے کہ میں روپیہ پانی کی طرح نہیں بہاتا۔“
(بیٹی کا دھن)
پریم چندنے اپنے افسانہ ”ٹھاکر کاکنواں“ میں قدرت کے انمول خزانہ پانی پر کس طرح بڑی ذات (زمین داروں) کے لوگوں نے پہرے بٹھارکھے ہیں۔ یہاں تک کہ چھوٹی ذات(غریب) کے لیے مخصوص کنواں میں کوئی جانور گر کر مر گیاہے، جس کی وجہ کر اس کنواں کا پانی سڑاندھ اور تعفن سے آلودہ ہو چکا ہے اور بدبو دے رہاہے۔ اس کے باوجود بھی گاؤں کی چھوٹی ذات کے بیمار شخص جوکھو کوبڑی ذات کے لیے مخصوص کنواں سے پانی لینے کی اجازت نہیں۔ بیمار جوکھو کی پیاس کی شدت اور اس کی بیوی گنگی کی تڑپ کو پریم چند نے اپنے اس افسانہ میں کس کرب اور فن کارانہ انداز میں پیش کیاہے۔ اس کے لیے یہ ایک اقتباس ملاحظہ کریں…..
”جوکھونے لوٹا منہ سے لگایا تو پانی میں سخت بدبو آئی۔ گنگی سے بولا…..
یہ کیسا پانی ہے؟ مارے باس کے پیا نہیں جاتا۔ گلا سوکھا جارہا ہے اور تو سڑا ہوا پانی پلائے دیتی ہے“۔
(افسانہ ”ٹھاکر کا کنواں“)
گھر میں پانی ہے نہیں، جوکھو کی بیوی گنگی نے اس پانی کو پینے سے منع کیا کہ سڑاپانی پینے سے بیماری بڑھ جائے گی۔ وہ مضطرب نظرآتی ہے اور رات گئے بڑی خاموشی سے ہمت جٹاکر چپکے چپکے ٹھاکرکے کنواں کے قریب جاتی ہے۔ دھیرے دھیرے کنواں میں ڈول ڈالتی ہے، آہستہ آہستہ ڈول کو رسّی کے سہارے اوپر لاتی ہے، پانی سے بھرا ڈول اب بس اس کے ہاتھ میں آیاہی چاہتا ہے کہ ٹھاکر کا آدمی کچھ آواز سن کر، گھر کے اندر سے باہر نکلتے ہوئے تیز آواز میں پوچھتا ہے، ”کون ہے“ اور آواز سنتے ہی مارے خوف سے گنگی کے ہاتھ سے پانی سے بھرے ڈول کی رسّی چھوٹ جاتی ہے اور پانی سمیت ڈول کنواں میں ڈوب جاتا ہے۔ گنگی کسی طرح بھاگتے ہوئے اور اپنی جان بچاکر گھرپہنچتی ہے تو دیکھتی ہے کہ ……
”جوکھو لوٹا منہ سے لگائے وہی میلا گندہ پانی پی رہا تھا۔“
پانی کے لیے غیرمنصفانہ اور غیرانسانی سلوک کو پریم چند نے اس افسانہ میں جس طرح غیر معمولی فنّی کمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے، گاؤں کے ایک غریب اور بیمار شخص کا، صاف پانی کے لیے تڑپ اور بے بسی کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی ہے، اسے پڑھ کر قاری بے اختیار تڑپ اٹھتاہے۔
پریم چند، بنکم چٹرجی کی کردار نگاری، سرت چندر کی جذباتیت، ٹالسٹائی کی تکنیک اور رتن ناتھ سرشار کی زبان سے بہت ہی متاثر تھے۔ در حقیقت ان کا فن ان سب کا امتزاج ہے۔ ان کے افسانے کسی اتھاہ جھیل کی طرح گہرے، دیہاتی جھرنوں کی طرح مترنم اور خوب صورت ہیرے کی طرح ترشے ہوئے ہیں، ان میں ایلورا کے مندر کی رعنائی، تاج محل کی طرح مرمریں جھلکیاں، گنگا کی پاکیزگی، شہد کی مٹھاس اور بہت بڑے سماجی انقلاب کے آہنی قدموں کی چاپ پوشیدہ ہے۔ افسانے کی تکنک پریم چند کے ہاتھوں میں گیلی مٹی کی طرح ہے، وہ جس طرح چاہیں، حسین مورتیاں بنا سکتے ہیں ان کے ہاتھوں کے بنے ہوئے سودیشی کوزے اپنی نفاست کے اعتبار سے بدیش کی بلوری صراحیوں کو شرما دیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے حسین جملے، اچھوتی تشبیہیں اور استعارے، تیکھا طنز اور ہلکا مزاح پریم چند کے اسلوب کی خصوصیات ہیں۔
پریم چند کے افسانوں میں مزاح کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے۔ اگرچہ انھیں باقاعدہ مزاح نگاروں کی فہرست میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ پریم چند نے نہ صرف سنجیدہ اور خشک افسانے لکھے ہیں بلکہ وہ افلاس، سیاسی غلامی، جہالت اور اسی طرح کے دوسرے سنجیدہ موضوعات کی پیش کش کے دوران نہایت شستہ مزاح سے قاری کے دل میں گدگدیاں پیدا کردیتے ہیں۔ اس ضمن میں دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
”میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ لوگ جب سسرال جاتے ہیں تو نہ جانے خوب بن ٹھن کر جاتے ہیں۔ نہ جانے
سسرال پر اپنا ٹھسا جمانے یا بیوی پر اپنی شان و شوکت جمانے، بہر حال، میں ان سب باتوں کو تضیع اوقات سمجھتا ہوں مگر جب سسرال سے بیوی کا پہلا خط آیا اور مجھے سسرال بلایا گیا تو نہ جانے کیوں میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی خوب بن ٹھن کر جاؤں۔ کلائی پر سونے کی گھڑی، تازہ دھلی ہوئی اچکن اور چاندی کی مٹھی والی چھڑی اور……
(مانگے کی گھڑی)
…… ”برطانیہ کی تاریخ یاد رکھنا بھی جوئے شیر لانے سے کیا کم ہے۔ کمبخت انگریز کو نام ہی نہیں ملتے جب دیکھو ایک ہی نام کے ساتھ اول، دوئم، سوئم، چہارم، ہنری پنجم، ہنری ہفتم وغیرہ وغیرہ بیوقوف کہیں کے۔ اگر اس کار خیر میں میرا تعاون حاصل کرتے تو وہ نام بتاتا کہ کبھی ایک سے دوسرا نہیں ملتا۔ مگر یہ لوگ اُف توبہ۔“
(بڑے بھائی صاحب)
ایسے بہت سارے افسانے ہیں جن میں پریم چند نے مزاحیہ کیفیت پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔جیسے ’آخری فیصلہ، ‘’مابہ تفریح‘’شطرنج کے کھلاڑی‘ وغیرہ وغیرہ۔
پریم چند کی یہ وہ فن کارانہ جہتیں ہیں، جن کے پیش نظر ان کے بعد کے بیش تر افسانہ نگاروں نے ان کی دکھائی ہوئی افسانوی ڈگر کو اپنایا۔ ان میں علی عباس حسینی، اعظم کریوی، سدرشن، حامد اللہ افسر، فضل حق قریشی، شیدا کیوروی، اختر اورینوی، صادق الخیری اور سہیل عظیم آبادی وغیرہ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان افسانہ نگاروں نے پریم چند کی راہ پر چل کر اپنے فکری و فنّی اظہار خیال سے افسانوی ادب میں قابلِ قدر اضافہ کیا ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اردو افسانوں میں آج بھی نت نئے تکنیکی اور فنّی تجربات کے باوجود پریم چند جیسا دیو اردو افسانہ نگاری پر حاوی ہے۔
٭٭٭٭٭ ٭٭
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش: حکومت اتنی خوفزدہ کیوں ہے؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے