مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: مبصّر کی حیثیت سے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: مبصّر کی حیثیت سے

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی علماے کرام کے اُس سلسلے کی ایک مضبوط کڑی ہیں جب مدارسِ اسلامیہ سے کثیر تعداد میں اصحابِ تصنیف و تالیف نکلتے تھے۔ اردو کی ادبی تاریخ بیسویں صدی کے ربعِ اوّل تک ایسے علماے کرام اور فارغینِ مدارس سے درخشاں ہے۔ گذشتہ سو برسوں میں جہاں ایک طرف یونی ورسٹی کی تعلیم عام ہوئی اور وہاں سے ہماری زبان کے شعرا و ادبا اور مصنفین آنے لگے؛ اِسی کے ساتھ یہ بھی ہواکہ زمانے کی گردش میں مدارسِ اسلامیہ سے اردو کے ادبی منظرنامے پر اُبھرنے والے اہالیانِ قلم نا پید ہونے لگے۔ غالباً مدارس کے نصابِ تعلیم اور داخلی ماحول نے اِس رغبت کے لیے نرم مٹی تیّار کرنے کا کام کم کر دیا اور عربی نصاب یا مذہبی کاموں تک یہ مدارس خود کو محدود کرنے کے لیے آمادہ ہوتے چلے گئے۔ شاید یہ بھی سبب ہو کہ بیسویں صدی میں اردو زبان کی کئی ایسی تحریکیں بھی اُبھر کر سامنے آئیں جن کی غیر مذہبیت اور بعض اوقات مذہب بے زاری یا لا مذہبیت عروج پر رہیں جس سے فطری طور پر علماے کرام بھی اردو ادب کے منظر نامے سے بے رُخ ہونے کے لیے مجبور ہوئے۔
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی فی الوقت صوبۂ بہار میں تنہا ایسے عالمِ دین ہیں جس نے تصنیف و تالیف کے کام کو پورے استقلال کے ساتھ اپنی زندگی کا حصّہ بنا لیا ہے۔ مذہبی موضوعات کے ساتھ ساتھ ادبی موضوعات اور صحافت کے نقطۂ نظر سے سماجی اور سیاسی موضوعات پر بھی تواتر کے ساتھ وہ تحریریں پیش کرتے رہتے ہیں۔ مذہبی، تنظیمی اور تحریکی مشاغل سے وقت چرا کر تصنیفی کاموں کے لیے اتنی وسیع و عریض دنیا آباد کر لینا اُن کے انہماکِ علمی کے ساتھ ساتھ لفظ و بیان کے تئیں گہری وابستگی کا بھی مظہر ہے. ورنہ آرام کرنے کے اور معمول کی نیند سے دو چار گھڑیاں اُدھار لے کر کوئی شخص اُسے اپنی تصنیفی زندگی کو سپرد کرتا ہے تو یہ بغیر جاں سوزی اور جگر کاوی کے کیسے ممکن ہے۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کے اِس تصنیفی کمٹ مِنٹ کی قدر کی جانی چاہیے۔ اگر علماے کرام میں سے اُن کے جیسے افراد ادب اور سماج کے ہزاروں موضوعات پر لکھنے کی قدرت کے ساتھ میدان میں نہ آئیں تو ہماری زمین بنجر ہو جائے گی یا مدارس کی علمی زرخیزی پر سوالیہ نشان قائم ہو جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے بعض ضروری معاملات عام سماج کے سامنے آنے سے رہ جائیں۔
گذشتہ برسوں میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی تصنیفات سلسلے وار طریقے سے سامنے آتی رہی ہیں۔ ادبی اور علمی موضوعات کو اُنھوں نے مذہبی امور کے شانہ بہ شانہ قایم رکھا۔ امارتِ شرعیہ کے ترجمان”نقیب“ کی ادارت سے بھی ان کے تصنیفی کاموں میں ایک با قاعدگی پیدا ہوئی۔ اُن کی خدمات کے اعتراف کا بھی سلسلہ شروع ہوا اور مختلف یونی ورسٹیوں میں اُن کے کارناموں کے حوالے سے تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ مولانا کی خدمات کے حوالے سے آزادانہ طور پر کئی کتابیں اِس دوران منظرِ عام پر آئیں۔ اعترافاتِ خدمات سے بعض شخصیتوں کے کام کرنے کی رفتار میں رُکاوٹیں بھی آتی ہیں مگر مولانا ثناء الہدیٰ قاسمی نے اِس شناخت نامے کو ترغیباتِ علمی کا ایک اضافی ذریعہ سمجھا اور لکھنے پڑھنے کی رفتار میں مزید جوش و جذبے کے ساتھ وہ آگے بڑھتے گئے۔ ابھی حالت یہ ہے کہ اُن کی ایک کتاب منظرِ عام پر آ رہی ہے، دوسری کتاب تکنیکی معاونین کے ہاتھ میں ہے اور مولانا خود نئے مضامین پر کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ادبی اور علمی کاموں میں اِس طرح وہی شخص مشغول ہو سکتا ہے جو بزرگوں کی اصطلاح میں فنا فی العلم ہو۔ بے شک مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی اُسی راستے کے مسافر ہیں اور پوری مستعدی کے ساتھ اپنے علمی کاموں میں چوبیس گھنٹے مصروفِ کار ہیں۔ اُن کی یہ لگن اور مشقت قابلِ رشک ہے؛ بہ قولِ مخدوم محی الدین: الٰہی یہ بساط رقص، اور بھی بسیط ہو۔
”آوازۂ لفظ و بیاں“ عنوان سے ایک سو سے زائد مختصر اور مختصر تر تبصروں اور تنقیدی تاثرات کی تازہ کتاب مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنی منتخب تحریروں سے مرتَب کی ہے۔ چار ابواب میں مذہبی، ادبی، تاریخی اور تعلیمی عنوانات کے تحت یہ تحریریں جمع کی گئی ہیں۔ کوئی مضمون اتنا طویل نہیں کہ پڑھنے والا اس کے لیے فرصت نہ نکال سکے۔ موضوع پر ارتکاز اس طرح سے ہے کہ جو باتیں حقیقتاً گوش گزار کر دینی چاہییں، مولانا نے انھیں اجمالاً ایک سلسلے سے درج کر دیا ہے۔ اہلِ علم کی تفصیلی گفتگو سے بعض افراد شاکی رہتے ہیں کہ لکھنے والے کو اپنے پڑھنے والوں کے علم پر اعتبار کرنا چاہیے اور ہر چیز کے لیے یہ لازم نہیں کہ آپ صراحت سے گفتگو کریں۔ اس معاملے میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی اِس کتاب میں شامل ایک بھی تحریر طول بیانی اور تفصیل نگاری سے گراں باری کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ نپے تلے انداز میں اور موضوعِ مخصوص پر مرتکز ہو کر چند جملوں میں ما فی الضمیر کی ادایگی کا انھیں وہ ہنر آتا ہے جسے محاورتاً دریا کو کوزے میں بند کرنا کہا جاتا ہے۔
مختلف علوم و فنون اور موضوعات کی کتابوں سے گزرتے ہوئے مولانا ثناء الہدیٰ قاسمی کی وسعتِ نظر کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ وہ چار حصّوں میں اپنی تحریریں پیش کرتے ہوئے اوّلاً اِس بات کے لیے ہمیں متوجہ کرتے ہیں کہ وہ مذہبی، ادبی، تاریخی اور تعلیمی میدانوں میں ہم سے مخاطب ہیں مگر اِن ابواب کے داخل میں اتریے تو سمجھ میں آئے گا کہ ہر باب اپنے اندر متعدد ذیلی شق اور دائرۂ علم میں بندھا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام مضامین کم از کم ایک درجن شعبہ ہاے علم سے متعلق ہیں اور مقامِ حیرت یہ ہے کہ ہر جگہ یکساں گہرائی اور کمال کے ساتھ مولانا زیرِ بحث موضوعات پر اپنی دلیلیں پیش کرتے ہوئے فیصلہ کن موڑ تک ہمیں لے آتے ہیں۔ وہ حسبِ ضرورت حذف و اضافہ، قطع و برید اور دیگر علمی مشاغل کے لیے اپنے مضامین میں اشارے بھی کرتے چلتے ہیں۔ یہ تمام باتیں اُن کی اُس علمی مہارت کا ثبوت ہیں جن کی وجہ سے یہ کتاب ایک معقول خزینۂ علم بن جاتی ہے۔
مصنف نے اکثر کتابوں پر گفتگو کرتے ہوئے اُن کے مشتملات کو کچھ اِس طرح سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہر کتاب اور اُس کتاب کے مصنف کو وہ موقع دیتے ہیں کہ اپنی بنیادی باتیں پیش کر سکے۔ اِسی سے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مصنف اپنے گہرے علم کو کسی دوسرے مصنف پر کچھ اِس طرح سے تھوپنا بھی نہیں چاہتا جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ حقیقی مصنف معمولی آدمی ہے اور مبصر علم کا آخری وارث۔ کتابوں اور مصنفین کے تئیں یہ خلوص اور اپنائیت کا مظہر ہے۔ تبصرہ نگاری کی یہ بنیادی شان ہے کہ مبصر چاہے جتنا بھی عالم و فاضل ہو مگر وہ تبصرے کے دوران مصنفِ کتاب کے سامنے اخلاص و محبت کے ساتھ ہی کھڑا رہے۔ مفتی ثناء الہدیٰ نے اِس کتاب کی شاید ہی کسی تحریر میں اصل مصنف کو ہیچ، بے علم اور کورا ثابت کرنے کی مہم جوئی کی ہو۔
اِس تفصیل سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے تبصروں، تاثرات یا تقریظوں میں خود کو تعارف تک ہی محدود رکھا ہے۔ اگر جلدی میں کوئی ایسا نتیجہ اخذ کر لے تو وہ مولانا کی تحریروں کے ساتھ انصاف نہیں کرے گا۔ یہی نہیں، ایسے نتائج اِس کتاب کے بڑے حصّے کو نظر انداز کر کے ہی پیش کیے جا سکتے ہیں۔ تعارف اِن مضامین کا ایک حصّہ ہے مگر اِس سے باہر نکلنے پر مصنف کی عالمانہ شان، تجزیے کی صلاحیت، تحقیقی توجہ اور مختلف علوم و فنون میں درک کے ثبوت اپنے آپ فراہم ہوتے جاتے ہیں۔ بہت سارے تبصروں میں مولانا نے طباعت اور اشاعت کے تکنیکی پہلوؤں کی طرف جو خصوصی مشورے دیے ہیں، اُن سے یہ بات بھی کھُل کر سامنے آتی ہے کہ ہمارے عہد کے مولوی حضرات نئے شعبہ ہائے علوم تک کس قدر پختہ اور ماہرِ فن بن کر پہنچتے ہیں۔
اِس کتاب کا نام اگر چہ ’آوازۂ لفظ و بیاں‘ متعین ہے جس سے ایرانی خوشبو اور عربی و فارسی کی زور آور زبان دانی چغلی کھاتی ہوئی ملتی ہے مگر مولانا ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے نثری اُسلوب کو عربیت و فارسیت سے اتنا پُر شور نہیں بنایا کہ عام پڑھنے والے کو کسی اضافی مشقت کے بغیر منزلِ مقصود حاصل نہ ہو پائے۔ دارالعلوم دیوبند کے بڑے بڑے علما کے سامنے انھوں نے زانوے ادب تہہ کیا مگر اُن سے وہ کمال بھی پایا کہ مشکل باتوں کو سادہ اور آسان لفظوں میں کیسے عوام کے سامنے رکھا جا سکتا ہے۔کتابوں پر گفتگو کے دوران مصنفین کے اُسلوب پر بحث کرتے ہوئے زبان کے اِس پہلو پر اُن کی نگاہ رہی۔اُن مصنفین کو اُنھوں نے سراہا جو مشکل موضوعات کو عام فہم لفظوں میں آئینہ کر دیتے ہیں۔ اُن کی زبان کی بھی انھوں نے تعریف کی جو اپنے علم و فضل و کمال کے باوجود سادگی اور صراحت کو اپنا شعار بناتے ہیں۔ بہت مشکل سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی نثر میں عربی و فارسی الفاظ رُعب قایم کرنے کے لیے یا علم کا بے جا زور واضح کرنے کے لیے استعمال میں آئے ہیں۔ یہ ہنر بے حد قیمتی اور قابلِ توجہ ہے۔ اس سلسلے سے مولانا کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
< ”اصطلاحوں کو سادہ اور سلیس زبان میں مولانا نے اس انداز سے سمجھا دیا کہ ہم جیسا اس راہ سے نا واقف اور کندہ فہم بھی آسانی سے سمجھ گیا۔“
< ”سید مصباح الدین احمد کا اسلوب سادہ اور صاف ہے۔ وہ عربی اور فارسی آمیز اردو لکھنے سے پرہیز کرتے ہیں، تتابع اضافات اور لفظیات میں تنافر حروف اور غرابت الفاظ کا ان کے یہاں گزر نہیں ہے۔ ان کی تحریر میں تسلسل، روانی اور معلومات کی فراوانی ہے جو مضمون شروع کرنے کے بعد قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور پورا مضمون پڑھوا کر ہی چھوڑتی ہے۔“
مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی مرحلہ وار گفتگو کے قائل ہیں۔ کتابوں پر تنقید و تبصرہ کے مرحلے میں بھی وہ شروع میں ہی اپنے نتائج بغیر مکمل جانچ پرکھ کے نہیں پیش کرتے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُنھوں نے اپنا تنقیدی ڈسپلن ہی ایسا بنایا کہ جس انداز سے مصنف نے اپنی باتیں پیش کی ہیں، اسے صبر اور ضبط کے ساتھ سنا اور سمجھا جائے۔ ایک ادبی اور علمی نقّاد کے طور پر ان کا یہ طور پذیرائی کے لائق ہے ورنہ جس نقّاد کو اپنے علم کے اظہار کا شوقِ فراواں ہوتا ہے، اُسے اکثر بڑھ چڑھ کر کچھ کہہ گزرنے کی عادت ہوتی ہے۔ مولانا ثناء الہدیٰ قاسمی کے یہا ں ترتیبِ مطالعہ اور مرحلہ وار نتائج کے اخذ کرنے کا معاملہ اِس قدر پختہ اور اُصول کے تابع ہے کہ وہ اپنے اِس طریقۂ کار سے یک سرِ مو تجاوز نہیں کرتے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اِس کتاب میں ایسی تحریریں بھری ہوتیں جہاں اصل مصنف کو زیر کرتے ہوئے مبصر نے اپنے علم کا بول بالا قایم کر دیا ہوتا؛بھلے تبصرہ نگاری کے پہلو سے وہ بات منصفانہ نہ ہوتی اور ماہرین کی نگاہ میں غیر مستحسن قرار دی جاتی۔
مفتی ثناء الہدیٰ صاحب تبصرے کی پچھلی روایت کے بہترین وارث ہیں۔ اُنھیں معلوم ہے کہ اچھے تبصروں سے کتاب کی جانب بڑھنے کا ایک شعور پیدا ہوتا ہے۔ اچھے مبصرین کتاب کے ظاہری اور باطنی دونوں خوبیوں پر توجہ دیتے ہیں۔ موضوع اور اُسلوب، صحتِ زبان اور تجزیے کے معیار پر تو ہرجگہ گفتگو ہے ہی، مولانا نے اکثر کتابوں کی پیش کش، کتابوں کی سِٹنگ، کمپیوٹر کمپوژنگ کے مسائل اور جلد بندی کے انداز و اطوار بھی اپنے دائرۂ کار میں شامل رکھے ہیں۔ فی زمانہ کوئی تبصرہ نگار اِن پہلوؤں سے کتابوں کو دیکھتا اور دکھاتا نہیں ہے۔ یہ بات اِس لیے بھی قابلِ توجہ ہے کہ مولانا کتاب کی تعمیر و تشکیل کے ہر پہلو سے ماہرانہ واقفیت رکھتے ہیں اور اُسی شخص کو یہ زیب بھی دیتا ہے کہ وہ اِن اُمور پر گفتگو کرے اور ضرورت کے موقعے سے مشورے پیش کرے۔ ذیل کے چند اقتباسات سے اِس بات کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے:
< ”ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے چھپی اس کتاب کی بائنڈنگ مضبوط ہے لیکن قاری کو پریشان کرتی ہے۔ دونوں ہاتھ سے پکڑ کر رکھیے تبھی پڑھ سکتے ہیں۔ اتنی ضخیم کتاب کی بائنڈنگ جزو بندی کے ساتھ ہوتی تو قاری کھول کر پڑھتے اور مندرجات کو نوٹ کرنے کے لیے قلم کا بھی استعمال کرتے۔موجودہ بائنڈنگ کے ساتھ آپ یہ کام نہیں کر سکتے۔“
< ”جلد اور ٹائٹل خوب صورت اور دیدہ زیب ہے، البتہ کمپوزیٹر سِٹنگ کے فن سے بالکل ناواقف اور نابلد ہے۔ سِٹنگ کی اس کمی نے کتاب کے حسن کو خاصہ مجروح کیا ہے؛ اس لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ کمپوزنگ کوئی کرے، ایک اچھے سِٹنگ کرنے والے سے اس کے کاکل و گیسو کو سنوروانا چاہیے، چاہے اس کے لیے اضافی رقم کیوں نہ خرچ کرنی پڑے۔“
< ”اس میں مضامین کی درجہ بندی نہ تو حروف تہجی کے اعتبار سے کی گئی ہے اور نہ ہی تاریخ وفات کا لحاظ، تقدیم و تاخیر میں رکھا گیا ہے۔ اگر درجہ بندی ان دونوں میں سے کسی طریقہ سے کر دی جاتی تو آج کے علمی انداز کے مطابق یہ کتاب ہو جاتی۔“
مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی تبصرے کے دوران کام کی باتوں پر ارتکاز برتتے ہیں۔ ایک بھی ایسی کتاب نہ ہوگی جس پر گفتگو کے دوران وہ کسی دوسری سَمت چلے گئے ہوں۔ اپنے خاص موضوع پر ارتکاز اور اُسی دائرے میں رہ کر اپنے علمی فرائض کی ادایگی ایک صبر آزما کام ہے۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنی تبصرہ نگاری میں اپنے اِس ہنر سے سب کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ اِس فن کے بہترین وارث ہیں۔”نقیب“ میں لکھتے ہوئے اُس ادارے اور اُس اخبار کی روایت کا تو اُنھیں پاس ہے ہی مگر دشوواری یہ ہے کہ وہ اُس دائرے کو حسبِ ضرورت کم کم توڑتے ہیں۔ اختصار پسندی کی وجہ سے بڑی بڑی کتابوں پر اُنھیں ایسے عمومی تبصرے بھی پیش کرنے پڑے ہیں جن کے لیے انھیں چند اور صفحات مل جاتے تو وہ اُن کتابوں کے ساتھ مزید عالمانہ واسطہ قایم کرتے مگر اخبار کا جبر اور اُس کی روایت نے اُنھیں اِس دائرے سے نکلنے نہیں دیا۔
یہ کتاب سینکڑوں کتابوں کا مغز ہے۔ اِسے پڑھتے ہوئے اگر آپ رواروی سے گزر جائیں تو اُس لطفِ خاص سے بے ذائقہ رہ جائیں گے جس کے لیے یہ کتاب حقیقتاً سامنے آئی ہے۔ یہاں لفظوں میں جو باتیں ہیں، اُس سے بڑھ کر اشاروں میں ہیں اور اُس سے بڑھ کر بین السطور میں۔ سرسری گزرتے ہوئے اگر آپ نے وہ سنجیدگی اور متانتِ علم قائم نہیں رکھی جس کا تقاضا کتاب کے صفحات پکار پکار کر کرتے ہیں تو آپ دھوکا کھائیں گے اور اِسے محض تبصروں کی ایک عام کتاب سمجھ بیٹھیں گے۔ سو سے زائد دماغوں کی اصل مفتی ثناء الہدیٰ کے تبصروں میں یکجا ہو کر ہمیں دعوتِ مطالعہ اور فکر و فلسفہ کے لیے مجاہدہ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ایسی کتابوں کو رُک رُک کر، ٹھہر کر اور فرانسس بیکن کے لفظوں میں چبا چبا کر پڑھنا چاہیے.
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش :(کتاب) صحافت: کتابیات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے