احتجاجی سیاست: بے فائدہ ہی نہیں نقصان دہ بھی

احتجاجی سیاست: بے فائدہ ہی نہیں نقصان دہ بھی

عبدالرحمٰن
Abdul Rahman
نئی دہلی
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
rahman20645@gmail.com

اپنی کم زوری کا اعتراف دراصل، اس کو دور کرنے کی سمت میں پہلا زینہ ہے۔ اس لیے یہ اعتراف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اپنے ہی ملک ہندستان میں تاریخ کی طاقتور ترین مسلم قوم مختلف وجوہ سے اپنے دوسرے ہم وطنوں سے علمی اور اقتصادی میدان میں کافی پیچھے رہ گئی ہے۔ علم اور مَعاش ایسے عوامل (factors) ہیں جن میں اگر ضعف (infirmity) پیدا ہوجائے تو وہ انسان کی اخلاقیات کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی انسان کے اخلاق و کردار (character) میں آئی معمولی سی گِراوٹ (degradation) بھی اس کی شخصیت کو تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑتی۔
موجودہ حالات کے پس منظر میں، مسلمانوں کو اگر پس ماندہ (backward) کہنا مناسب نہیں، تو بہت سے بہت ’ترقی پذیر‘ (developing) کہا جاسکتا ہے، مگر’ترقی یافتہ‘ (developed/advanced) قطعاً نہیں۔
ترقی پذیر ملکوں کی طرح، کارکردگی کے مختلف میدانوں میں ترقی پذیر قوموں یا افراد کی پالیسی (policy) پرائمری (primary) نوعیت کی ہونی چاہیے تاکہ بنیادیں مضبوط کرنے کے بعد، مستقبل میں ترقی یافتہ افراد کی صفوں میں شامل ہو نے کے ہدف (target) کے ساتھ دوڑنے کے لیے لائحہ عمل وضع کیا جاسکے۔ موجودہ کم زور صورت حال کے تناظر میں مسلمانوں کی سیاسی حکمت عملی (strategy) بھی یقیناً مختلف ہونی چاہیے۔ ہم کسی ایسی حکمت عملی کا تحمل نہیں کرسکتے جو ہمارے نوجوانوں کے لیے مضر ثابت ہو۔ وقت کا تقاضا ہے کہ سارا زور قوم کے بچوں اور نوجوانوں کو علم و ہنر سے مزین اور باصلاحیت قیمتی افراد بنانے میں لگایا جائے۔ زیر نظر مضمون کے ذریعے یہ سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندستان میں جمہوریت (democracy) ہونے کے باوجود کیوں مظاہرے اور احتجاجی جلسہ و جلوس کی سیاست مسلمانوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔
الله تعالیٰ سے برصغیر ہند و پاک کے طنز و مزاح کے میدان میں مشہور و معروف فن کار مرحوم محمد عمر عرف ’عمر شریف‘ (19اپریل 1960ء تا 02 اکتوبر 2021ء) کی مغفرت کی دعا کے ساتھ، راقم الحروف یہاں ان کے ایک لا جواب مزاحیہ فن پارہ کا موضوع کی مناسبت سے ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک وقت ایسا بھی رہ چکا ہے جب بس، ٹرین، دوکان، مکان اور آفس وغیرہ میں بم رکھے جانے کی افواہیں عام ہوا کرتی تھیں۔ اس پس منظر میں کئی سیریل اور فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔ حالات کی عمدہ عکاسی کرتے ہوئے عمر شریف نے بھی مزاح کی دل فریب چاشنی میں ڈبوکر ایک دل کش واقعہ تخلیق کیا ہے جس کا مفہوم اگلی سطور میں درج کیا جاتا ہے:
کچھ سماج دشمن عناصر (anti social elements) کی بہت دنوں سے ایک بڑے مکان پر نظر تھی۔ ان کو اس مکان کو غصب (plunder) کرنے کا کوئی موقع دستیاب نہیں ہو رہا تھا۔ بم کی افواہوں کے ماحول میں ان بدمعاش لوگوں کو خیال آیا کہ کیوں نہ پیدا شدہ ’بم کلچر‘ (Bomb Culture) سے فائدہ اٹھایا جائے۔ کئی لوگوں پر مشتمل یہ غنڈہ پارٹی اچانک بڑی سُرعت کے ساتھ مذکورہ مکان میں یہ شور مچاتے ہوئے داخل ہو گئی کہ فوراً مکان خالی کرو، یہاں بم ہے۔ پھر ان لوگوں نے کسی کی ایک نہ سنی اور مکان سے سامان باہر پھینکنا شروع کردیا۔ گھر میں افراتفری مچ گئی اور تھوڑی ہی دیر میں مکان خالی ہوگیا اور غیر مالک مکان بہ زور مالک مکان بن کر بیٹھ گئے۔ گھر سے سامان باہر پھینکتے وقت وہ لوگ برابر بم کا ذکر کر رہے تھے۔ گھر کی عورتوں پر نظر پڑی تو انھیں بم کہنے لگے۔ دریں اثنا، وہاں ایک عمر رسیدہ بزرگ خاتون وارد ہوئیں اور اپنی ہلتی ہوئی آواز کے ساتھ یوں گویا ہوئیں: ”ارے مجھے کس نے بم کہا“؟
یہ جملہ سن کر غنڈوں کے لیڈر کو غصہ آگیا۔ وہ غضب ناک ہوتے ہوئے، بوڑھی عورت سے بولا کہ اب تمھیں کون بم کہے گا، یہ ’چلا ہوا بم’۔ جنگ آزادی اور تحریک آزادی کے زمانے میں اگر ”احتجاج“ (protest) کا واقعی کوئی مطلب ہوتا تھا تو آج وہ صرف ایک چلا ہوا بم (fused bomb) ہو کر رہ گیا ہے۔ اور جیسا کہ نام سے ہی عیاں ہے، چلا ہوا بم ماحول میں بدبو تو پھیلا سکتا ہے، چھوٹا یا بڑا کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتا، یہاں تک کہ دیوالی کے پٹاخہ بم کے طور پر بھی نہیں۔ حقیقت میں، آج احتجاجی مظاہرے اور جلسہ و جلوس پرانے آزمائے ہوئے ناکارہ ہتھیار ہوکر رہ گئے ہیں۔ گہرائی کے ساتھ غور کرنے پر سمجھ میں آتا ہے کہ احتجاجی سیاست مسلمانوں کے لیے بے فائدہ ہی نہیں، بلکہ نقصان دہ بھی ہے۔
یہ دیکھ کر بہت تعجب اور افسوس ہوتا ہے کہ ملک کی آزادی (independence from British rule) کے 75 ویں برس اور 21 ویں صدی عیسوی کی انسانی علمی ترقی کے باوجود، مسلمان آج بھی ماضی بعید کے طریقوں میں ہی جی رہے ہیں۔
ایوانِ حکومت تک اپنی بات پہنچانے کے لیے ہم ابھی تک کوئی نئی اور بااثر حکمت عملی وضع نہ کرسکے، بلکہ جلسہ و جلوس کے پرانے طریقوں میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ سیاسی طبیعت کے لوگ اپنی تقریروں اور مباحثوں میں مسلم نوجوانوں کو احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے اور سڑکوں پر اُترنے کے لیے آمادہ کرتے ہوئے نظر آتے رہتے ہیں۔ اپنی بات میں مزید مضبوطی پیدا کرنے کی غرض سے وہ اکثر نوجوانوں سے کہتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں کہ ہمارا ملک ایک جمہوری (democratic) ملک ہے اور اس لیے احتجاج کرنا ہمارا آئینی حق (constitutional right) ہے، جب کہ سچائی یہ ہے کہ یہ بیان اپنے آپ میں پوری بات نہیں ہے۔
دراصل، بھارتیہ سنوِدھان (The Constitution of India) جس چیز کی اجازت دیتا ہے، وہ ہے: ’پُرامن احتجاج‘ (peaceful protest)۔ اور جہاں تک کسی احتجاجی جلوس کے پر امن رہنے کا سوال ہے، تو وہ گویا جوئے شیر لانے ( herculean task) کے مترادف ہے۔ کیا کوئی شخص یہ ضمانت دے سکتا ہے کہ جوشیلے نوجوانوں کی بھیڑ (crowd) کا مظاہرہ اول تا آخر پر امن بنا رہے گا؟ کسی کے اشتعال دلانے پر بھیڑ میں موجود لوگوں میں سے کوئی بھی مشتعل نہیں ہوگا؟ اور کیا شر پسند عناصر بھیڑ میں شامل ہوکر پر امن احتجاج کو پر تشدد نہیں بنا سکتے ہیں؟ احتجاجی بھیڑ کو صرف پیس فل (peaceful) حدود میں ہی آئینی محافظت (protection) حاصل ہے۔ مظاہرین کے پر تشدد ہونے کے ساتھ ہی احتجاج سے متعلق سارے آئینی حقوق خود بہ خود حذف ہوجاتے ہیں اور کمان نظم و ضبط (administration) سنبھالنے والے سرکاری افراد کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ اب انہی حکام اور کارکنان کی صواب دید (discretion) پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ بھیڑ سے کس طرح نبرد آزما ہوں۔
ماضی بعید کے واقعات سے قطع نظر، حالیہ دنوں میں وقوع پذیر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے منفی تجربات سے کسی کے لیے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ بھیڑ کا پر امن بنے رہنا گویا ”ناممکنات“ میں سے ہے۔ یہاں تک اچھی طرح واضح ہو جانا چاہیے کہ مظاہرہ اور احتجاج نام کے ہتھیار وقت کے ساتھ ساتھ ناکارہ اور بے کار ہوچکے ہیں۔ اب ان سے کسی افادیت کی امید بے سود ہے۔ اس کے بر عکس، یہ اکثر اوقات الٹے نتائج پیدا (counterproductive) کرنے کا باعث ہو جاتے ہیں۔ برآمد ہونے والے برے نتائج کے تناظر میں اب مسلمانوں کو بلا تاخیر احتجاجی نوعیت کے اپنے جملہ مشاغل کو ترک کر دینا چاہیے، اور اپنی ساری توجہ اور اپنے سارے وسائل کو قوم کے نونہالوں کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جامع تربیت اور اعلا تعلیم پر مرکوز کر دینا چاہیے۔
سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آخر مسلمانوں سے ہی کیوں اپنے اوپر بہت سی پابندیاں عائد کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ جواب بہت آسان ہے کہ گوناگوں مسائل اور مشکلات سے بالخصوص مسلمان ہی دوچار ہیں اور اپنی انہی پریشانیوں کے سبب وہ ترقی کی دوڑ میں اپنے ہم وطن ساتھیوں سے پچھڑ گئے ہیں۔ جس طرح ایک حکیم صاحب اپنے مریض کی بیماری کے علاج کے لیے مختلف قسم کے پرہیز تجویز کرتے ہیں، اسی طرح مسلمانوں کو بھی درپیش مسائل کے تسلی بخش حل کے لیے بہت سی پابندیاں اور تدابیر اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمان کوئی ترقی نہیں کر رہے ہیں۔ بلاشبہ، ہندستانی مسلمان بھی ترقی کررے ہیں، مگر ان کی ترقی ابھی وقت کی امیدوں سے بہت دور ہے۔ اس لیے، مسلمانوں کی ترقی کو دوسرے ہم وطنوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے پر حکمت اقدام کی سخت ضرورت ہے۔
مسلمانوں کے نوعمر بچوں (adolescents) اور نوجوانوں (youths) کو احتجاج (agitation) کی غرض سے سڑکوں پر لانے کے لیے رغبت دلانے کے بجائے، قوم کے بڑے لوگوں کو ان کی بہترین تعلیم کے واسطے فکر مند ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی، معاشرے کے ذمے داروں سے زیادہ خود بچوں کے والدین کی یہ بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے نو نہالوں کے مستقبل کی حفاظت کریں۔ 95 فی صد ذمے داری والدین کو قبول کرنی چاہیے۔ اس مقدار میں اساتذہ بھی شامل ہیں، جب کہ معاشرے کے بڑوں پر 5 فی صد سے زیادہ بوجھ (weight) نہیں ڈالا جانا چاہیے، آخر ان کے اپنے بچے بھی تو ہیں۔
اب وقت آگیا ہے، جب سڑکوں پر سیاسی جلوس نکالنے کی جگہ مسلمانوں کی گلیوں اور محلوں میں جلوس نکالے جائیں۔ یہ جلوس لوگوں کی یاد دہانی اور اطمینان کے لیے نکالے جائیں کہ اسکول- کالج جانے کی عمر کے سارے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مقصد تو تعلیم حاصل کرنا ہے؛ پھر وسعت کے حساب سے وہ چاہے گھر میں ہو یا پڑوس میں، مدرسہ میں ہو یا اسکول میں، کالج میں ہو یا یونی ورسٹی میں۔ مالی مشکلات کی وجہ سے جن گھروں میں بچوں کی تعلیم رک گئی ہے ان کے نام قوم کے معزز اور خوش حال افراد اور رفاہی تنظیموں کے سپرد کیے جانے چاہئیں تاکہ متاثرہ بچوں کی تعلیم کا سلسلہ پھر شروع ہوسکے۔
چوں کہ موجودہ زمانہ علم کا زمانہ ہے، اس لیے ہماری حکمت عملی کی صورت اور سیرت دونوں کو علمی ہونا چاہیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ”بھیڑ“ (crowd) کسی بھی بڑے کام کو کرنے کی اپنی طاقت اور صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ آج کے دور میں، کوئی بھی بڑا کام کرنے کے لیے اعلا تعلیم یافتہ (well educated) نوجوانوں کے منظم (well disciplined) گروہ (groups) درکار ہیں۔ قوم کو لاحق کسی بھی سنگین صورت حال سے حکومتِ وقت کے اہل کاروں (executives) کو واقف کرانے کے لیے، بھیڑ کی بنیاد پر وضع کی جانے والی احتجاجی حکمت عملی کے بجائے چند صاحبِ بصیرت اور با صلاحیت افراد پر مشتمل ایک چھوٹی سی جماعت ”عرض داشت“ (memorandum) کا طریقہ اختیار کرسکتی ہے، اور اپنے جائز اور ضروری معاملات (matters) کو متعلقہ عہدیداروں تک بہ آسانی پہنچا سکتی ہے۔ موجودہ وقت میں جلسہ، جلوس اور نعرہ بازی کے طریقوں کو یکسر ختم کردیا جانا چاہیے۔ ہمیں اپنے معاملات سے متعلق گزارشات (applications) متعلقہ عہدیداروں، اداروں اور عدلیہ کے سامنے احتجاج کے طور پر نہیں، بلکہ باقاعدگی کے ساتھ (through proper channel) پیش کرنی چاہئیں۔ ہم سب کو ادراک ہونا چاہیے کہ جہاں ایجیٹیشن کا طریقہ متعلقہ حکام اور عہدیداروں کی انا (ego) کو بھڑکا سکتا ہے، تو وہیں پروپر چینل کا طریقہ ان کے ضمیر کو بیدار کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔ یقیناً، الله تعالیٰ نرمی کے ساتھ کیے گئے کاموں کو سرخروئی عطا کرتا ہے۔
حدیث شریف کا مفہوم ہے: ”بے شک الله تعالیٰ مہربان ہے اور مہربانی اور نرمی کرنے کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ ثواب دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا“ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 3688)۔
یہی بات ایک دوسری جگہ اس طرح بیان کی گئی ہے: ”جو آدمی نرمی اختیار کرنے سے محروم رہا وہ آدمی بھلائی سے محروم رہا“ (صحیح مسلم حدیث نمبر: 6598)۔
یقیناً، میمورنڈم دینے کے لیے تشکیل دی گئی اس چھوٹی سی جماعت کے ہر حال میں پر امن بنے رہنے کی توقع کی جاسکتی ہے، حالاں کہ عمومی طور پر، زوال یافتہ قوموں کے لیے یہ ادراک نہایت مشکل ہوتا ہے کہ پر امن رہنا کسی قوم اور اس کے افراد کے لیے بہت بڑا اور بیش قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کے برعکس، زوال (opposite of rise, that is, fall) کا شکار افراد کو جہاں بھیڑ بھاڑ، شور شرابہ، توڑ پھوڑ اور تشدد کے دیگر واقعات میں طاقت اور بہادری نظر آتی ہے، تو وہیں پُر امن معاملات میں کم زوری اور بزدلی؛ جب کہ یہ محض ان کی نظر کا دھوکا (فریب) ہے۔ اور جب تک انھیں اس فریب کا علم ہوتا ہے، تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور وہ خود مزید کم زور اور ناکارہ۔ اس پس منظر میں، عقل مندی یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے مشاہدات اور تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس ضمن میں نصیحت پذیری کے لیے، اسلام کی تاریخ سچے اور آزمودہ واقعات کا بے مثال گہوارہ ہے۔
اوپر کی سطور میں پیش کی گئیں احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ امن (peace) الله تعالیٰ کی نظر میں کتنی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اپنی نوعیت میں فطری ہونے کی وجہ سے، امن کے حالات میں خوش معاملگی اور انصاف کے رجحانات فروغ پاتے ہیں، جب کہ منافرت اور تشدد کے حالات میں انسانوں کے اندر خوش اسلوبی اور انصاف کے داعیات کم زور پڑنے لگتے ہیں۔ انسانی اوصاف کی جگہ گروہی تعصبات، عداوت اور دشمنی کے جذبات و احساسات ابھر آتے ہیں۔ اس لیے، معاشرے میں انصاف کے معاملات کو فروغ اور دعوت جیسے بڑے مشن کو استحکام حاصل ہونا، امن کے حالات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ”صلح حدیبیہ“ کے نام سے معروف اسلامی تاریخ کے بے جوڑ مگر مسلمانوں کے حق میں بظاہر ایک ذلت آمیز نا جنگ معاہدہ (No War Pact) کے پیچھے الله رب العالمین اور اس کے آخری رسول حضرت محمد صلی الله عليه وسلم کی دس سالہ مدت کے لیے امن حاصل کرنے کی مصلحت کارفرما تھی۔
قریشِ مکہ کی بڑھتی ہوئی جارحیت (aggression) نے جزیرہ نما عرب میں اسلام کے بڑھتے ہوئے قدموں کو گویا روک دیا تھا۔ اسلام کے دشمن ہونے کے باوجود، قبیلہ قریش کی اعلا ظرفی کے پس منظر میں امید کی جاسکتی تھی کہ ایک مرتبہ نا جنگ معاہدہ ہوجانے کے بعد قریش اس کی پاس داری کریں گے اور مسلسل ہونے والی اپنی جارحیت کو ترک کر دیں گے۔ اس لیے، الله تعالیٰ کی مرضی کے مطابق رسول الله صلى الله عليه وسلم کے سامنے جو ہدف (target) تھا وہ صرف اور صرف نا جنگ معاہدہ تھا نہ کہ اس کو حاصل کرنے کے لیے دی جانے والی قیمت۔ تب ہی تو آپ صلی الله عليه وسلم معاہدہ کی تحریر (draft) سے لفظ ”محمد الرسول الله“ کاٹ کر اس کی جگہ ”محمد ابنِ عبداللہ“ لکھوانے کے لیے بغیر کسی پس و پیش کے راضی ہوگئے، جب کہ حقیقت میں آپ کا ”رسول الله“ ہونا ہی اسلام کا بنیادی مشن تھا۔ معاہدہ کی یہ سخت ترین شرط تھی۔ اس کے علاوہ قریش کی جانب سے اور بھی کئی شرطیں عائد کی گئی تھیں جن کی وجہ سے تمام صحابہ (رضی الله عنہم اجمعین) اپنی زندگی کی سب سے بڑی پسپائی اور ذلت کے احساس سے دوچار تھے۔ مزید یہ کہ الله تعالیٰ نے بھی اس درمیان انھیں بظاہر کوئی راحت فراہم نہیں کی، بلکہ انھیں صبر کی مشکل ترین کیفیات میں اس وقت تک مبتلا رکھا جب تک کہ یہ معاہدہ اپنی تکمیل کو نہیں پہنچ گیا۔ قرآن پاک میں اس بات کی وجہ کہ مومن بندے کیوں مشکل میں مبتلا کیے جاتے ہیں، اس طرح بیان کی گئی ہے :
”وہی ہے جس نے مومنوں کے دل میں اطمینان اتارا تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ ان کا ایمان اور بڑھ جائے۔۔۔“ ( الفتح-48: 4).
صلح حدیبیہ کے واقع ہوجانے کے بعد خود الله تعالیٰ نے مسلمانوں کے تمام اندیشے اور پریشانیاں رفع کر دیں جب یہ ارشاد فرمایا: اِنّا فَتَحنا لَك فتحًا مبينًا (الفتح-48: 1)، یعنی اے نبی(صلی الله علیہ وسلم) ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی۔ امن کا کمال: الله، الله، سبحان الله! صلح حدیبیہ یعنی امن (نا جنگ) کا معاہدہ دس سال کے لیے کیا گیا تھا، مگر دو سال کے عرصہ میں ہی مکہ فتح ہوگیا اور سارے اسلام دشمن اسلام کے وفادار اور سچے دوست ہوگئے، اور بین الاقوامی سطح پر ’مکہ- مدینہ‘ ہمیشہ کے لیے توحید کے مرکز قرار پائے۔
سیدھے الله تعالیٰ اور اس کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی الله عليه وسلم سے متعلق صلح حدیبیہ کا واقعہ کسی بھی تردد سے بالاتر یہ واضح کردیتا ہے کہ سچی فلاح اور کام یابی کے لیے حالات کا پر امن ہونا بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اب مسلمانوں کے پاس کوئی جواز باقی نہیں ہے کہ وہ اپنے معاملات میں ادنا سے ادنا درجہ میں بھی کسی قسم کا تشدد (violence) گوارا کریں۔ صرف اور صرف پُر امن جدوجہد (peaceful endeavour) ہی مسلمانوں کی زندگی کا لائحہ عمل (strategy) ہونا چاہیے۔
مسلمان ہونے کی روشنی میں ہم پر لازم ہے کہ ہم ہر حال میں اسلامی اصولوں اور قوانین کی پاس داری کریں۔ مسلمانوں کے لیے، اسلامی اطوار کی فرماں برداری بہ شمول سیاست، زندگی کے سبھی معاملات میں ضروری ہے۔ کسی بھی قسم کی شکایت (complaint or grievance)، احتجاج اور مظاہرہ بازی اسلامی نقطہ نظر سے پسندیدہ افعال نہیں ہیں۔ دراصل، شکایت کی جملہ اقسام فرشتوں کا آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کے پس منظر میں شیطان کی سنت (طریقہ) ہیں۔ اس حقیقت کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ شیطان مردود سے منسوب ہونے کی وجہ سے، احتجاجی سرگرمیاں عام طور پر خیر سے خالی ہوتی ہیں۔ اس لیے، ان سے دوری بنائے رکھنا ہی مسلمانوں کے لیے بہترین انتخاب ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ الله تعالیٰ کی قدرت کے تحت کام کر رہے فطری قوانین (natural laws) کے ذریعے صادر ہوتا ہے، نہ کہ انسانی دشمنی یا سازشوں کی وجہ سے۔ اس لیے، کسی شکست (failure) یا محرومی (deprivation) سے دوچار ہونے کی صورت میں، کسی انسان یا افراد کے خلاف منافرت (abhorrence)، احتجاج یا شکایات میں مبتلا ہونے کے بجائے، شکست کے اسباب کی نشان دہی کرتے ہوئے جلد از جلد ان کے ازالے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ متعلقہ دفاتر اور اداروں میں عرضی (application) یا عرض داشت (memorandum) پیش کرنا سنجیدہ کوششوں میں ہی شمار ہوتا ہے۔
اس بات میں شک نہیں کہ 15 اگست 1947ء کو حاصل ہونے والی آزادی سے قبل ہندستان میں انگریزوں کے خلاف ایک طویل احتجاجی جدوجہد جاری رہی ہے۔ مگر اُس وقت کے احتجاج اور مظاہرے آج ہونے والی احتجاجی سرگرمیوں سے یکسر مختلف تھے۔ ذات برادری اور مذہب و ملت سے قطع نظر، اُس وقت ہندستان کا ہر شہری صرف اور صرف ’ہندستانی‘ ہوتا تھا، اور سبھی کا مشترکہ نصب العین (purpose) ملک کی آزادی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ ہندستانی ہونے کے ساتھ ساتھ، آج کے شہری ذات پات اور مذہبی ترجیحات کو بھی بہت اہمیت دیتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف منافرت کے جذبات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں، کسی احتجاج یا مظاہرے کا عدم تشدد (non violence) کے ساتھ اختتام پذیر ہونا کیا آسان نظر آتا ہے؟
اسی طرح آج کے قائدین (Leaders) کے طور طریقے بھی کل کے بے مثال قائد مہاتما گاندھی سے مختلف ہیں. راشٹر پتا مہاتما گاندھی’سمپل لِونگ، ہائی تھنکنگ‘ کی ایک جیتی جاگتی عملی تصویر تھے۔ گاندھی جی نے خود کو اُن سارے انحرافات (distractions) سے محفوظ کر لیا تھا جن سے کسی کے ارادوں میں کم زوری پیدا ہو سکتی ہے۔ وہ سادگی کے ساتھ ساتھ، مضبوط ارادوں والی تاریخ کی ایک با اصول منفرد شخصیت تھے۔ آزادی کی تحریک میں شامل ہونے سے پہلے ہی ان کو ‘تشدد‘ میں پنہاں کم زوریوں کا بہ خوبی ادراک تھا۔ اسی لیے انھوں نے اپنی تحریک کو کبھی ’عدم تشدد‘ کی پٹری سے اترنے نہیں دیا۔ گاندھی جی نے امن کی بے پناہ طاقت کو بھی وقت رہتے دریافت کرلیا تھا۔ مہاتما گاندھی کے سوانحی مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں ان کے لیے اسلامی تعلیمات بھی معاون ثابت ہوئیں۔ اسلام کے پہلے دو خلفاے راشدین کے طور طریقوں سے وہ بہت زیادہ متاثر تھے۔
چوں کہ انسانی ضمیر (conscience) اپنا کردار ادا کرتا ہے، اس لیے پرامن احتجاج کر رہے افراد پر تشدد جاری رکھنا انگریز افسروں کے لیے نہایت مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ وہ اپنی حتی الامکان کوشش کر رہے تھے کہ گاندھی جی کی عدم تشدد کی تحریک کسی طرح پر تشدد ہوجائے۔ مگر، شاعر مشرق علامہ اقبال کے الفاظ میں، مہاتما گاندھی کے ”یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم“ نے انگریزوں کی جملہ کوششوں کو ناکام بنا کر رکھ دیا تھا۔ آخر کار، انگریزوں کو ہندستان چھوڑ کر جانا پڑا۔
تحریکِ آزادی کے زمانے کی نوعیت کے برعکس، اکیسویں صدی کے حالات گویا بالکل بدل گئے ہیں۔ آج کی سیاسی شخصیات عام طور پر، عیش و عشرت کی زندگی، عالی شان محل و باغات اور دولت کی ریل پیل(abundance) سے بڑی حد تک متاثر نظر آتی ہیں۔ حالاں کہ جائز طریقوں سے کثیر مقدار میں بھی دولت کمانا اور صالح مقاصد و ضروریات میں خرچ کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے، مگر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ دولت کی ہوس (greed) معیوب ہی نہیں مضر بھی ہے۔ جب دولت برائے دولت اور ذخیرہ اندوزی (hoarding) کے لیے کمائی جانے لگتی ہے، تب یہ کمانے والے کے لیے ہی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے سامنے بھی بہت سی مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔ اس نوعیت کے ساتھ دولت کمانا اور ذخیرہ کرنا مختلف قسم کی بدعنوانیوں (corruption) کو جَنم (birth) دیتا ہے۔ ملک و معاشرے کی خوش حالی اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے کہ دولت گردش (circulation) میں رہے۔
معاشرے میں اقتدار اور دولت کے تئیں بڑھتی دل چسپی کی صورتِ حال نے سیاست کے طور طریقوں کو گویا بالکل اُلٹ پَلٹ (jumbled up) کر کے رکھ دیا ہے۔ حالات نے جو کروٹ بدلی ہے، اس کے تناظر میں اب یہ ضروری نہیں سمجھا جا سکتا کہ عوام کا کوئی نمائندہ (representative) الیکشن میں منتخب ہوکر قانون ساز اسمبلی (Legislative Assembly) میں پہنچنے کے بعد اپنی پرانی وفاداریوں (loyalties) سے ہی وابستہ رہے گا۔
سیاست کی موجودہ صورت اور سیرت کو دیکھتے ہوئے، لوگوں کو چاہیے کہ وہ الیکشن میں ہونے والی رائے دہندگی (voting) کے رائج طریقوں پر بھی نظر ثانی کریں۔ اس جانب مسلمان پہل کرسکتے ہیں۔ مجوزہ (proposed) تجرباتی عمل ان کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ موجودہ دور میں ووٹنگ کا جو طریقہ اپنایا جا رہا ہے اس کو مثبت (positive) طریقہ تصور نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ آج کل کسی سیاسی جماعت، ذات پات یا مذہبی پہچان کو نظر میں رکھ کر ووٹنگ کی جاتی ہے، جب کہ رائے دہندگی متعدد افراد کے گروہ (group) سے کسی ایک فرد کو منتخب کرنے کی غرض سے کی جانی چاہیے۔ انتخاب کا یہی طریقہ مثبت طریقہ ہے۔
اس لیے، مذہب (religion)، ذات پات (caste and creed) اور سیاسی جماعتوں (political parties) کی رعایت (consideration) کے بغیر موجود امیدواروں (candidates) میں سے ان کے اخلاق و کردار کی خوبیوں اور خصائص کی روشنی میں بہترین کینڈیڈیٹ کا انتخاب کیا جانا ہی جمہوریت کے عین مطابق ہوگا۔ بے شک، کچھ وقت درکار ہوگا، مگر مستقبل قریب میں خوش آئند نتائج برآمد ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ اچھی فطرت کے افراد (persons of good nature) عام طور پر سنگین صورت حال میں بھی اپنے انسانی اوصاف ترک نہیں کرتے ہیں۔
مورخہ 10 جون 2022ء (جمعہ) کے حالیہ احتجاجی واقعہ کو مسلمانوں کی زندگی میں نصیحت پکڑنے کے لیے ایک بڑے واقعہ کے طور پر تسلیم کیا جانا ہی نہیں، بلکہ اس کے مشابہ دیگر واقعات کے نہ دوہرائے جانے (repetition) کا عزمِ مصمم (firm determination) کیا جانا بھی نہایت ضروری ہے۔ نمازِ جمعہ کے بعد مختلف شہروں میں سڑکوں پر اُترے نو عمر بالغ اور نابالغ لڑکوں کے مظاہروں کے پُرامن حیثیت میں نہ ٹھہر پانے کی پاداش میں انھیں جن مشکلوں اور صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا تھا، ان کو وہ خود اور ان کے والدین سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے؟ اسی کے ساتھ جیل خانے اور عدالتوں سے وابستہ پریشانیوں کا ایک لمبا سلسلہ ابھی باقی ہے۔ دعا ہے کہ الله تعالیٰ متاثرین کی مدد فرمائے اور غیر متاثرہ لوگوں کو کسی بھی منفی صورت حال سے سبق اخذ کرنے کی توفیق۔
قابلِ غور و فکر بات یہ ہے کہ جو ابا حضور اولاد کو مارنے کے نام پر ہاتھ تک نہیں لگاتے ہیں، خود انہی کو مظاہروں کے پُرتشدد ہوجانے کی صورت میں، اپنے لختِ جگر کو لاٹھیوں سے پیٹا جانا بھی برداشت کرنا پڑسکتا ہے۔ اس لیے، پیدا شدہ صورت حال کے پس منظر میں، اپنے مستقبل کے متعلق لائحہ عمل خود متاثرہ نوجوانوں اور ان کے والدین سے بہتر کون مرتب کرسکتا ہے؟ امید کی جاسکتی ہے کہ متاثرہ افراد ہی نہیں بلکہ دوسرے اشخاص بھی مذکورہ واقعات سے سنجیدگی کے ساتھ سبق حاصل کریں گے۔ اس ضمن میں، نصیحت پذیری کے لیے جو درست فارمولا ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ’باقاعدہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ملازمت یا کاروبار میں اچھی طرح پیوست (engrossed) ہونے تک کسی طرح کی کوئی سیاست نہیں‘.
جن حضرات کو یہ بات سمجھنے میں دشواری لاحق ہو رہی ہو، وہ معاشرے میں اعلا تعلیم یافتہ اور مالی اعتبار سے خوش حال خاندانوں کا جائزہ لے کر دیکھ سکتے ہیں، ان کے مشاہدہ (observation) میں خود ہی یہ بات آجائے گی کہ مذکورہ پریواروں (families) کے بچے اور نوجوان مظاہروں اور جلسہ و جلوس میں حصہ نہیں لیتے ہیں۔ کم و بیش اسی طرح کی صورت حال کا تجربہ ان لوگوں کے بچوں کے ساتھ بھی کیا جاسکتا ہے جو خود عام مسلم نوجوانوں کو مختلف احتجاجی سر گرمیوں میں حصہ لینے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چوں کہ زندگی کے ہر واقعہ سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے، یہاں بھی سبق موجود ہے اور معاشرے کے عام افراد کے لیے پوشیدہ رہ نمائی کی طرف اشارہ بھی۔
عام مشاہدہ ہے کہ لیڈر قسم کے حضرات عام آدمیوں کے مقابلے زیادہ سوجھ بوجھ کے مالک ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے ارادوں (یا مشن) میں کبھی مشکل سے ہی ناکام ہوتے ہیں۔ اس لیے، اس حقیقت کے پیش نظر عوام کے لیے کام یابی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے رہ نماؤں کی صرف انہی باتوں کو عملی جامہ پہنائیں جن پر وہ اپنے معاملات میں خود عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جہاں تک جلسوں وغیرہ میں ہونے والی تقاریر کا تعلق ہے، وہ اکثر جذباتی ماحول میں کی جاتی ہیں۔
اب مزید وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ سیاست کا میدان ’خام خاں افراد‘ (immature persons) کے لیے نہیں ہے۔ ایسے نو عمر لوگوں کے لیے بہترین انتخاب یہ ہے کہ وہ سیاست کے بارے میں سوچنے سے پہلے صرف تعلیم اور مختلف علوم و فنون کے میدان میں اپنی جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے خود کو پختہ انسان (mature person) بنانے کی کوشش کریں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی زوال یافتہ قوم کے لیے اپنے ماضی کے عروج کو واپس حاصل کر لینا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس لیے، مسلمانوں کو خوش حالی اور عزت و وقار کے معاملے میں اپنا کھویا ہوا مقام واپس پانے کے لیے، علمی و فکری اور معاشی پختگی (educational and financial maturity) حاصل کرنے سے قبل سیاست کے میدان میں کود پڑنے سے ہر صورت اجتناب کرنا خود پر واجب لر لینا چاہیے۔ اس طرح کے عملی معاملات میں بچوں کے والدین ان کو اپنے تجربات کی روشنی میں، بہترین رہ نمائی فراہم کر سکتے ہیں۔
مسلم قوم کی موجودہ حالتِ زار کے تناظر میں، عقل مندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ فی الحال معاشرے میں سیاست (Politics) کا دائرہ کار صرف اقتصادی و معاشی اعتبار سے مضبوط (sound) اور سماجی اعتبار سے معزز (respected) حیثیت حاصل کر چکے اعلا تعلیم یافتہ (highly educated)، باصلاحیت (talented) اور بااخلاق (well mannered) حضرات تک ہی محدود رہنا چاہیے۔
(27.06.2022AD≈26.11.1443 AH)
صاحب تحریر کا گذشتہ مضمون :بدنامی کا ازالہ اور قومی تعمیر و ترقی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے