جہان ادب کے سیاح ڈاکٹر امام اعظم:  ایک جائزہ

جہان ادب کے سیاح ڈاکٹر امام اعظم: ایک جائزہ

✍️ قمر اعظم صدیقی
بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا
رابطہ: 9167679924
زیر مطالعہ کتاب "جہان ادب کے سیاح: ڈاکٹر امام اعظم" کے مصنف کا نام پروفیسر ڈاکٹر خالد حسین خاں ہے. آپ ادبی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہیں۔ آپ میرٹھ کالج میرٹھ یونی ورسٹی میں صدر شعبہ اردو کے عہدے پر فائز تھے. چند سال قبل آپ سبک دوش ہوئے ہیں. آپ درجنوں معتبر اداروں کے سرپرست اور رکن رہ چکے ہیں. حتیٰ کہ بہت سارے اداروں کے اب بھی سرپرست ہیں۔ آپ کے امتیازات، اعزازات، انعامات کی فہرست بھی طویل ہے. آپ کی تصنیفات اور تالیفات کی تعداد بھی دو درجن کے قریب ہے۔ آپ کی لکھے ہوئے بہت سارے نوٹس مثلاً "ارمغان ادب" (اردو نثر کی تنقید اور اردو شاعری کی تنقید)، "خضر راہ" (تنقید، تجزیہ اور تشریح)، "تصویر درد" (تنقید، تجزیہ اور تشریح)، "اقبال کی تین نظمیں" تجزیاتی مطالعہ اور اردو کے منتخب سوانح اور خاکے میرٹھ یونی ورسٹی کے بی اے اور ایم اے کے نصاب میں شامل رہ چکے ہیں۔ آپ کے تین درجن ریڈیو ٹاک آل انڈیا ریڈیو و دیگر جگہوں سے نشر ہو چکے ہیں. دو درجن کے قریب طلبا نے آپ کے زیر نگرانی اپنے ریسرچ کا کام مکمل کیا ہے۔
دراصل یہ کتاب ڈاکٹر امام اعظم پر لکھی گئی کتاب یا امام اعظم صاحب کی لکھی ہوئی کتاب کے تجزیے کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے۔ جس میں مصنف نے ڈاکٹر امام اعظم کی سیرت، ذکر، فکر، فن اور کارناموں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس کتاب کے مطالعہ کے بعد بخوبی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر خالد حسین خاں صاحب نے بہت ہی محبت، عقیدت اور محنت کے ساتھ اس کتاب کو تیار کیا ہے۔ مصنف کی ڈاکٹر امام اعظم صاحب سے کبھی رو برو ملاقات نہیں ہوئی ہے باوجود اس کے انھوں نے اپنی فراخ دلی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ڈاکٹر خالد صاحب امام اعظم صاحب کی علمی صلاحیت کے قدر داں ہیں۔
"پیش گفتار" میں مصنف نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے:
"ڈاکٹر امام اعظم اردو کے پاس دار، ہندی کے تاج دار، انگریزی کے راز دار، شعر و صحافت کے ذی وقار اور شخص طرح دار ہیں. ان کی تحریروں میں ایہام نہیں وضاحت ہے، ابہام نہیں صباحت ہے، ان کی شاعری میں زندگی کی جستجو ہے، وہ زندگی جو ماضی، حال، مستقبل تینوں سے عبارت ہے، جس میں ماضی کا طرب، حال کا کرب اور مستقبل کی بشارت تینوں کی عکاسی و نقاشی اپنی بہار دکھاتی ہے۔
اس تحریر میں اردو کے موجودہ حالات اور مستقبل میں اردو کے نتائج کے تعلق سے مصنف کے درد کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"آج اردو دنیا میں انتشار، افتراق اور اشتہار کا ماحول ہے۔ ہر شخص اپنی خودستائی، خود نمائی اور خود توصیفی نیز "ہم چنیں دیگرے نیست" کی ڈفلی بجا رہا ہے۔ کسی کو یہ فکر نہیں کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی نیز اشاعت و ترسیل کی راہ میں حائل مشکلات و معاملات کو کیسے دور کیا جائے، کون سی ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جو اردو کی فلاح و بقا کے لیے مفید اور کار آمد ہو۔ اس کے برخلاف اردو والوں کو فکر ہے تو صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کی.
(جہان ادب کے سیاح ڈاکٹر امام اعظم، صفحہ 7)
"جہان ادب کے سیاہ: ڈاکٹر امام اعظم" کے عنوان سے اپنی تحریر میں ڈاکٹر خالد صاحب نے موجودہ و آنے والی نسلوں کے لیے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"وہ لوگ جو اردو سے انحراف کر رہے ہیں گویا وہ اپنے اسلاف و آبا کی تاریخ و تہذیب سے انحراف کر رہے ہیں، گرچہ اردو اسلامی زبان نہیں ہے تاہم ہندستان میں اسلامی امور اور تہذیبی و ثقافتی مذہبی، دینی و ادبی شعور پر ساری کتابیں اردو زبان میں ہی ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی نسل نو کو اردو زبان سے آشنا رکھنا ہی ہوگا تاکہ ہماری اولادیں ہماری صحیح تاریخ، تہذیب، ثقافت، اور ادب سے واقف ہو سکیں اور سچائیوں کے چور اور زعفرانی سیاست کے تلخ امور انھیں گمراہ نہ کر سکیں۔ (صفحہ 11)
"تمثیل نو" کے تعلق سے مصنف کے خیالات ملاحظہ فرمائیں:
"تمثیل نو" کا اولین شمارہ مارچ 2001 میں مطلع ادب پر طلوع ہوا تھا اور تواتر کے ساتھ تقریباً 20 برسوں سے شائع ہو رہا ہے۔ تمثیل نو کے مختلف گوشے اس حقیقت کے غماز ہیں کہ اس کا دائرہ تنگ نہیں آفاقی ہے اور اردو کے معمر و معتبر فعال و فہمیدہ تخلیق کاروں کے علاوہ نو وارد قلم کاروں کے لیے بھی ایک وسیع و عریض، کھلا آسمان اور زمین ان کے ادبی چوکڑیوں کے لیے موجود ہے جس میں وہ نڈر ہو کر زرقندیں بھر سکتے ہیں۔ (صفحہ 18)
امام اعظم کی دین داری، خاکساری عاجزی اور اردو دوستی کے تعلق سے مصنف یوں رقم طراز ہیں:
"ڈاکٹر امام اعظم باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ باعمل بھی ہیں۔ صرف دین اسلام کے داعی نہیں دین دار مسلمان بھی ہیں۔ اردو کے راہی نہیں پختہ حامی بھی ہیں۔ وہ ایک ممتاز و متمول خاندان کے چشم و چراغ ہیں لیکن ان کو اپنے خاندان پر غرور بالکل نہیں ہے۔ ان کا مطمح نظر ابتداے عمر سے یہ رہا ہے کہ پڑھو اور بڑھو۔ تمثیل نو میں ان کا یہی موقوف و منشا کار فرما ہے۔ وقت کی پابندی پر وہ ہمیشہ گامزن رہتے ہیں۔ (صفحہ 28)
"سہرے کی ادبی معنویت" کے تعلق سے ڈاکٹر خالد صاحب کے خیالات کو ملاحظہ فرمائیں:
"ڈاکٹر امام اعظم میرے محب پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی روش و راہ پر گامزن نظر آتے ہیں جس کا واضح ثبوت ان کی مرتبہ کتاب بہ عنوان "سہرے کی ادبی معنویت" سے ہویدا ہے۔ جس طرح کرسٹو فرکولمبس نے امریکا دریافت کر کے دنیا کو محو حیرت کر دیا تھا اور تاریخ کائنات میں سدا کے لیے اپنا نام و کام ثبت کرا دیا۔ کچھ اسی طرح ڈاکٹر امام اعظم نے بھی دنیائے شعر و ادب میں اکیلا انوکھا اور ان ہونا کارنامہ سر کیا ہے۔ یعنی موصوف نے صنف "سہرا" کے ذیل میں پہلی بار اس کی تاریخ، تعریف، تفسیر، توضیح اور تشریح کے باوصف اس میدان میں اولیت کا سہرا بھی اپنے سر باندھ لیا ہے، ان کا یہ کام تاریخ سہرا میں یقیناً کارنامہ شمار ہوگا".
(صفحہ 31)
"ڈاکٹر امام اعظم بحیثیت شاعر" کا تجزیہ کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ:
ڈاکٹر امام اعظم کی سیرت و کردار کی طہارت، نفاست، شرافت، وراست اور صلاحیت کے سبب ان کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری بھی شفافیت، طہاریت، صالحیت اور اخلاقیات کی غماز ہے۔ موصوف اپنی نظم و نثر دونوں میں میزان عدل کا دامن کہیں نہیں چھوڑتے۔ (صفحہ 57)
موصوف اسی ضمن میں آگے لکھتے ہیں کہ:
"ڈاکٹر امام اعظم کے شعری مجموعوں ("قربتوں کی دھوپ" اور "نیلم کی آواز") میں محبت کے گہر، عقیدت کے ثمر، عاشق کے شرر اور شاعری کے ہنر سبھی دیدنی و دادنی ہیں۔ انھوں نے اپنے ذہن و ذات کے دروازے بیرونی ہواؤں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے اور ان کا فراخ دلی سے استقبال کیا نیز ان کی تازگی و سادگی کو محسوس اور تسلیم بھی کیا ہے. " (صفحہ 59)
چٹھی آئی ہے کا تجزیہ بھی مصنف نے بہت ہی عمدہ انداز میں کیا ہے۔ مصنف کا یہ انداز بیاں مجھے بہت ہی پسند آیا کہ وہ بہت ہی محبت و خلوص کے ساتھ لفظوں کا جادو چلاتے ہوئے تنقیدی باتوں کو بھی محبت کی لڑیوں میں پرو دیتے ہیں۔ پہلے شاہد اقبال کے لیے چند تعریفی کلمات جو کہ مصنف نے "چٹھی آئی ہے" کے حوالے سے کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
” شاہد اقبال کا اختصاص یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے ادبی سفر کی سیاحی میں سند باد جہازی کی طرح ایسا تنقیدی، تدوینی اور قدرے تحقیقی و تاریخی کام انجام دے ڈالا ہے جسے کرنے میں دوسروں کو برسہا برس لگ جاتے ہیں۔ شاہد اقبال کا یہ ترتیبی، تدوینی، مکتوباتی ادب میں "کارنامہ" کہا جا سکتا ہے.” (صفحہ 65)
اب مصنف کے تنقیدی پہلو کا جائزہ لیں جس میں انھوں نے خط کے حوالہ نمبر ( 5 ) پانچ کا ذکر کیا ہے جو کہ (مکتوب گوپی چند نارنگ کے صفحہ 33) کا حوالہ ہے. اور پھر اس کا تجزیہ کچھ اس انداز میں کیا ہے، اقتباس ملاحضہ فرمائیں:
"مذکورہ خط میں ( ایک اچھا اقدام ) محل نظر ہے کیونکہ "ایک" (واحد) ہے اور "اقدام" (جمع)، یہاں یوں لکھا جاتا تو راقم کی نظر میں زیادہ مناسب و موزوں رہتا ۔ "ایک اچھا قدم اٹھایا ہے". 
یا جملہ اس طرح لکھا جاتا "ان پر مباحثہ قائم کر کے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے".(صفحہ 76)
اس کتاب کا سب سے آخری مضمون "دربھنکہ کا ادبی منظر نامہ: ڈاکٹر امام اعظم کی ادبی و صحافتی خدمات کے حوالے سے" ہے. مصنف نے اپنے خیالات کو کچھ اس انداز میں ظاہر کیا ہے :
"سرزمین بہار کا نسبتاً چھوٹا ضلع دربھنکہ دیار درخشاں، مہر تاباں اور قابل بیاں شہر ہے۔ اس شہر رنگ و نور میں سدا سے ہی دانشور، سخنور، ہنرور، اور علما، فصحا، شرفا اور ادبا نے آنکھیں کھولیں اور حسب توفیق اس گلشن ادب کی سیرابی کی ہے۔ جس طرح غالب کو غالب دوراں بنانے اور منوانے میں حالی اور عبدالرحمن بجنوری جیسے لائق و فائق شیدائی میسر آئے نیز عبدالحلیم شرر کو مناظر عاشق ہرگانوی جیسا عاشق صادق اردو ملا جس نے شرر کے ادبی و شعری شراروں کو اپنے ریسرچ کے وسیلے سے شعلہ جوالہ بنا دیا اسی طرح ڈاکٹر امام اعظم کو سرور کریم جیسا دانش مند، ہوش مند اور درد مند کرم فرما محب ملا۔ صفحہ (101)
مصنف آگے امام اعظم کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:
"جس طرح سرزمین ہند نے دو عظیم المرتبت اکبر پیدا کیے. ایک مغل شہنشاہ اکبر اعظم اور دوسرا اکبر الہ آبادی، اسی مانند دربھنگہ نے امام اعظم نامی و گرامی قلم کار و فن کار، صحافی و مدیر کو جنم دیا جو اکبر اعظم کی طرح مملکت اردو کا امام اعظم قرار دیا جا سکتا ہے." صفحہ (102)
اخیر میں صفحہ 104 سے 105 تک مصنف نے شناس[؟] نامہ لکھا ہے اس کے بعد صفحہ 106 سے 112 تک کوائف درج ہے۔ یہ کتاب امام اعظم اور ادب کے حوالے سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ ادب کی دنیا میں یہ کتاب قدر کی نگاہوں سے دیکھی جائے گی اور ری سرچ اسکالر کے لیے کافی مفید ثابت ہوگی. 112صفحات پر مشتمل یہ کتاب بہت ہی معیاری و دل کش ہے۔ مصنف نے اپنی اس کتاب کا انتساب اپنے والدین کے نام کیا ہے۔ اس کتاب کی قیمت 150روپیہ ہے جسے بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ، ناولٹی بکس دربھنگہ، شمسی بک سینٹر سمستی پور، اور عثمانیہ بک ڈپو کولکاتا سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مزید معلومات کے لیے9358285859 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: ہم عصر شعری جہات: ایک مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے