آسان نہیں پرورش لوح و قلم بھی

آسان نہیں پرورش لوح و قلم بھی

امان ذخیروی
رابطہ: 8002260577

مجھے امید ہے کہ پریم چند سے کم پڑھا لکھا ہوا انسان بھی واقف ہوگا. انھیں دنیائے ادب قلم کے سپاہی کے لقب سے جانتی ہے. مگر ان میں کہیں سے سپاہیانہ رعب ظاہر نہیں ہوتا جو آج کل کے سپاہیوں کا طرۂ امتیاز ہے. در اصل ہر زمانے میں ہر فرض شناس انسان اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں اس طرح ہلکان و پریشان ہوتا کہ اسے خود کا بھی ہوش نہیں ہوتا، کجا کہ اپنے عہدے کا غرور قائم رکھ سکے. ذمہ داریوں کا بوجھ اسے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتا ہے. چاہے وہ امن و امان کا محافظ سپاہی ہو یا قلم کا سپاہی. قلم کا سپاہی تو پھر بھی بے تنخواہ، طلب ہوتا ہے. اسے نہ ستائش کی تمنا ہوتی ہے نہ صلے کی پروا. اسے اس عرق ریزی کا کوئی صلہ نہیں ملتا. دنیا میں ایسے بے غرض عاشق کی کوئی دوسری مثال نہیں مل سکتی، جو نہایت خاموشی سے لیلاے ادب کی چاہت میں خون جگر جلاتا ہے اور جواب میں اپنے معشوق سے خود کو چاہے جانے کی کبھی فرمائش نہیں کرتا. نہ آہ و بکا کرتا ہے. نہ شور و غوغا کر آسمان سر پر اٹھاتا اور نہ دامن چاک کر صحرا نشیں ہوتا ہے. واہ کیسی بے نیازی پائی ہے قلم کے سپاہی نے، جب کہ فرہاد کا جوئے شیر لانا بھی بے مقصد نہیں تھا. ہر چند کہ وہ جوئے شیر تو نہ لا سکا لیکن اس دکھاوے کے عمل نے اس کے عشق کی داستان کو لازوال کر دیا. کہتے ہیں ہاو و ہو کرنے اور آنسو بہانے سے کچھ ہو نہ ہو غم کا بوجھ کچھ کم ضرور ہو جاتا ہے. لیکن عاشق اپنے محبوب کی فرقت کا غم اپنے سینے میں چھپائے، آنکھوں کے سیلاب کو روکے اپنی زندگی کے شام و سحر گزارتا ہے، اس کے اعصاب کیسے اور کب تک سلامت رہ سکتے ہیں. … اس مثال کے لیے جمیل مظہری کا یہ شعر کتنا صادق آتا ہے…..
پگھل جاتا ہے اکثر آبگینہ تندیِ مے سے
غلط کیا ہے جمیل ناتواں پر اک نظر کرنا
اسی تندی نے قلم کے سپاہی پریم چند کو ناتواں بنا دیا. آپ جو یہ تصویر دیکھ رہے ہیں ظاہر ہے اس وقت کی ہی ہوگی جب ان کے جسم سے روح جدا نہ ہوئی ہوگی. 1880 سے 1936ء کے درمیان محض 56 سال کا عرصہ ہوتا ہے. یہ عمر تو ہندستان کی اوسط عمر سے بھی کافی کم ہے. پھر وہ کون سا غم تھا جس نے قلم کے سپاہی پر بے وقت ناتوانی اور ضعیفی طاری کر دی. در اصل اس عظیم فن کار کی زندگی غم و آلام سے سے لبریز رہی. بچپن میں ماں کا سایا سر سے اٹھ گیا، سوتیلی ماں کا ناروا سلوک، پندرہ سال کی عمر میں شادی جیسی بڑی ذمہ داری کا بوجھ اور شادی کے ٹھیک ایک سال بعد والد کا انتقال. آٹھویں جماعت کے ایک طالب علم پر گھر بار کا بوجھ کوئی کھیل تماشہ نہیں. بچپن کے کھیل تماشے تو ماں کے ساتھ ہی رخصت ہو گئے تھے. ماں کی ممتا میں بڑی طاقت ہوتی ہے. اپنے چاہے جانے کا احساس اسے ہمیشہ ہشاش بشاش رکھتا ہے. ماں کی فرقت اور سوتیلی ماں کی نفرت کا مداوا باپ کی شفقت میں تلاشنا بھی نصیب نہیں ہوا. اس طرح پریشانیوں سے جوجھتا ہوا ایک بچہ جب جوان ہوا تو حزن و ملال اس کے رگ و پے میں پیوست ہو چکا تھا. ان غموں سے چھٹکارا پانے کے لیے اس نے قلم کا سہارا لیا اور خود کے جیسے وقت کے مارے ہوئے کرداروں کی تلاش اس نے شروع کر دی. یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ قلم کار اپنے کرداروں میں خود کی تلاش کرتا ہے. اداکاری کا یہ اصول ہے کہ تب تک وہ کردار لازوال نہیں ہوتا جب تک ایک اداکار اس کردار کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال نہیں لیتا. میں نے محسوس کیا ہے کہ پریم چند نے اپنی کہانیوں کے کرداروں کے قلب میں خود کو داخل کیا یے. یا خود جیسے بھولے بھالے معصوم، مظلوم کسانوں، مزدوروں کا کردار. دنیا میں کہانیوں کے ایسے بہت سارے کردار ہیں جن کی شہرت و مقبولیت کسی چلتے پھرتے ذی روح انسان سے بھی زیادہ ہے جیسے فسانۂ آزاد کا ہیرو آزاد یا میاں خوجی، آگ کے دریا کا کردار گوتم نیلامبر، فسانۂ عجائب کا کردار شہزادہ جان عالم، ابن الوقت کا کردار مرزا ظاہردار بیگ، ٹالسٹایے کے ناول کا کردار اناکریننا اور گودان کا کردار ہوری رام اور دھنیا. ان کے علاوہ بھی بے شمار امر کرداروں کی پوری دنیا میں دھوم ہے. میں نے پریم چند کا ناول گودان پہلی بار 1988ء میں اس وقت پڑھا تھا جب میں میٹرک کے امتحان کے بعد فارغ تھا. اس وقت کا پڑھنا تو صرف تفریح طبع کے لیے تھا. اس کے بعد دوسری بار سنہ 2000ء میں ایم اے کے امتحان کی تیاری کے دوران کافی توجہ کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا. یوں تو کہانی کے پلاٹ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے پریم چند نے بہت سارے کردار وضع کیے ہیں. چاہے وہ پنڈت ماتادین، داتادین کا کردار ہو چاہے بھولا مہتو، ہیرا اور شوبھا کا کردار ہو یا متھرا اور گوبر کا کردار.اور دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے والے کئی تعلیم یافتہ کردار، جن کے نام ابھی مجھے یاد نہیں ہیں. کردار بھی وہی یاد رہتے ہیں جو ہماری طبیعت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں. ان سب میں مجھے ہوری اور دھنیا کے کردار سب سے زیادہ پسند آئے. ہوری کے کردار میں ہندستان کی سچی جھلک دکھائی دیتی ہے. ہوری ہندستان کی بھولی بھالی جنتا کا نمائندہ کردار ہے. ایک ایسے باضمیر انسان کا کردار جو ہر دکھ درد سہ کر بھی اپنے ضمیر کا سودہ نہیں کرتا. خود دھوکہ کھاتا ہے لیکن کسی کو فریب نہیں دیتا. کسی کے حالات کا غلط فائدہ نہیں اٹھاتا. عجز و انکسار، معصومیت، اور عفو و در گزر اس کی فطرت کا خاصہ ہے. دھنیا کے کردار میں ہر حال میں مشکور ایک شوہر پرست بیوی کی جھلک دکھائی دیتی یے. ہزار اختلاف کے باوجود اپنے شوہر کے قدم سے قدم ملا کر چلتی ہے. اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کو اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے. اپنے شوہر کے کم زور اور ناتواں وجود کو دیکھ کر دل ہی میں کڑھتی ہے. اس کے ہر دکھ مصیبت کو اپنے دامن میں سمیٹ لینا چاہتی ہے. کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ہوری میں پریم چند کی اور دھنیا میں شیوا رانی دیوی کی روح داخل ہے؟
***
امان ذخیروی کی گذشتہ نگارش:امن و امان کے درمیان

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے