چِپ

چِپ

غضنفر

چِپ اک ایسی
فِٹ ہے مجھ میں
ساری بات بتا دیتی ہے
کس کے اندر کیا رکّھا ہے
اک اک چیز دکھا دیتی ہے
کیا کیا کس میں راز چھپا ہے
اک اک بھید بتا دیتی ہے
اندر کیا کیا گونج رہا ہے
اک اک ٹیپ سنا دیتی ہے
پوشیدہ جو راگ ہے پیچھے
وہ بھی ساز بجا دیتی ہے

آہّا ! تم سے مل کر پیارے
کتنا خوش ہوں کیا بتلاؤں
لیکن کوئی اندر بولا،
” آ دھمکا منحوس یہ پھر سے
جانے کب تک بور کرے گا
پچھلی بار یہ جب آیا تھا
سارا دن برباد کیا تھا"

"دیکھ کے تم کو
دل کھِل جاتا
تن میں، من میں
رس گھل جاتا
جیسے میٹھا پھل مل جاتا
لیکن اندر بول یہ گونجا :
” کام یقیناً بگڑے گا اب
آیا ہے یہ کوّا جو اب
جب تک یہ منحوس رہے گا
کائیں کائیں سے کان پھٹے گا
پورے دن کا ناش پِٹے گا"

یار تمھاری بیوی کتنی سندر ہے
ایسا لگتا جیسے کوئی پیکر ہے
سندرتا کی دیوی اس میی بستی ہے
سچ مچ بھائی حور پری سی لگتی ہے
دور سے پر آواز یہ آئی
جیسے دل نے ٹیپ بجائی :
” ہونہہ ! یہ کالی کتنی ہے
جیسے کوئی بُھتنی ہے
بتّے بھر کی ٹھِگنی ہے
اوپر سے یہ بھینگی ہے"

کتنا اچھا بچّہ ہے
بالکل ابّا جیسا ہے
صاحب ! یہ تو افسر ہے
بالکل آپ کے اوپر ہے
پر اندر سے بولا کوئی
اصلیت کو کھولا کوئی :
"سسرا کیسا بچّہ ہے !
کتنا ٹیڑھا میڑھا ہے !
آنکھ میں کیچڑ کتنا ہے!
ناک سے نیٹا بہتا ہے
ہی ہی ہی ہی کرتا ہے
بندر جیسا پِھرتا ہے"

تجھ سا کوئی اور نہیں ہے
کوئی زیرِ غور نہیں ہے
کھو کر تجھ کو مر جاؤں گا
تجھ سا پیار کہاں پاؤں گا
اندر سے آواز جو نکلی
وہ تو اس کے بالکل الٹی :
” تجھ جیسی تو لاکھوں پاؤں
بلکہ تجھ سے بہتر لاؤں
پیچھا تجھ سے چھوٹے تب نا
تیری قسمت پھوٹے تب نا
کب جاگے گی قسمت میری
کب جائے گی صورت تیری"

شعر یہ کتنا اچھا ہے
بالکل غالب جیسا ہے
لہجہ کیسا ستھرا ہے
جذبہ کتنا سچّا ہے
موسیقی ہے، پیکر ہے
کیا کیا اس میں جوہر ہے
پیچھے سے یہ سُر بھی گونجا:
” کیسا روکھا پھیکا ہے
بیگن، آلو جیسا ہے
لہجہ کتنا بھونڈا ہے
نکتہ بھی فرسودہ ہے"

تم ہی بس‌ ایک ناقد ہو
باقی تو نقال ہیں سب
نقادی کی محفل میں
یوں سمجھو قوّال ہیں سب
لب پر یہ سُر تال تھے لیکن
لب کے نیچے بول یہ تھا :
” کترن جوڑ کے لانے والا
بنتا ہے نقاد بڑا
اردو کی تنقید کے اوپر
کتنا بھاری وقت پڑا"

کیا لکھا ہے ناول تم نے
جیسے ایپک لکھ ڈالا
برسوں یاد کرے گی دنیا
ایسا قصہ گڑھ ڈالا
اور یہ سُر بھی گونج رہا تھا :
"مست رام سا ناول لکھ کر
ادبی سانڈ بنا پھرتا ہے
املا، انشا، الٹا پلٹا
پھر بھی بھانڈ بنا پھرتا ہے"

اور بھی کتنے راز بتائے
کیسے کیسے روپ دکھائے
کیسی کیسی آہ سنائے
کیسی کیسی ضرب لگائے
کام بگاڑے، کام بنائے
دور کا منظر پاس میں لائے
پاس کا منظر دور بھگائے

چِپ یہ جامِ جم جیسی ہے
میری آنکھ کے ساغر میں بھی
دنیا کو لا کر رکھتی ہے
اندر کا منظر دکھتا ہے
منظر میں خنجر دکھتا ہے
نیلا پیلا بن جاتا ہے
اجلا کالا بن جاتا ہے

دوست اعزا بھی تو میرے
میری جانب تاک رہے ہیں
چِپ یہ مجھ سے مانگ رہے ہیں
***
غضنفر کی گذشتہ تخلیق :کورٹ سے کچن تک

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے