نیا حمام : ایک مطالعہ

نیا حمام : ایک مطالعہ

ایس ایم حسینی
فون نمبر 8960512979
ندوہ کیمپس، ڈالی گنج، لکھنؤ

"نیا حمام" پانچ افسانچے اور پچیس زندہ کہانیوں پر مشتمل دو سو تین صفحات پر پھیلا ہوا ذاکر فیضی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے، جس کے کردار ہمارے اور آپ کے درمیان ہی سانس لیتے ہیں اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں، ڈاکٹر ذاکر فیضی نے جواہر لال نہرو یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے اور اس وقت تدریس سے وابستہ ہیں، نیا حمام منظر عام پر آنے کے بعد ذاکر فیضی کا نام کسی الجھن کا شکار نہیں، آپ کا تعلق شہر مرادآباد سے ہے اور فی الوقت دہلی میں رہائش ہے، ذاکر فیضی تین دہائیوں سے لکھ رہے ہیں اور اردو کے معتبر رسائل و جرائد میں آپ کی کہانیاں، تنقیدی و تحقیقی مضامین مسلسل شائع ہوتے رہے ہیں، مزید پاکستان سے شائع ہونے والے افسانوی انتخاب سرخاب میں آپ کی ایک کہانی بھی شامل ہے۔
"نیا حمام" کی کہانیاں اسلوب، انداز، بیان اور ہیئت کے اعتبار سے ایک نیا احساس اور انفرادیت لی ہوئی ہیں، جس میں فن کے لوازمات کا پاس اور تخلیقی رو کا بہترین استعمال ملتا ہے، ذاکر فیضی کی کہانیوں پر اجنبیت کا نقاب نہیں پڑا ہے بلکہ انھوں نے اپنے افسانوں میں جو تصویر دکھائی ہے وہ ہمارے آج کے معاشرے کا عکس ہے، ان پر قدامت و رجعت کا ٹھپا نہیں لگایا جاسکتا، آپ کے قلم کے نیچے زمانے کی نبض دھڑکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، جس نے ذاکر فیضی کو واقعی "فرضی کہانی کار" ہونے سے بچالیا ہے، آپ کے افسانوں میں کشمکش اور دائمی اضطراب کی کیفیت ملتی ہے، ذاکر فیضی تجربے اور احساسات کی نئی صورتیں وضع کرتے ہیں جو زیادہ مانوس، زندگی سے قریب اور سچی معلوم ہوتی ہیں، افسانوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے زندگی کو بہت قریب سے، گہری اور حساس نظروں سے دیکھا ہے۔
کتاب کی ابتدا میں غلام عباس نیر کی نظم "خواب کو موت آتی نہیں" شامل ہے، ایک صفحہ پر مشاہیر کے اقوال ہیں، اگلے صفحات پر رضی شہاب اور ڈاکٹر رغبت شمیم کے تاثرات کے علاوہ مصنف نے اپنے قلمی، تعلیمی اور لکھنے سے چھپنے تک کا مرحلہ طے ہونے کی مختصر روداد بیان کی ہے، پہلا افسانہ "نیا حمام" ہے اور یہی کتاب کا نام بھی ہے، جس میں ڈاکٹر فیضی نے میڈیا کے اس تاریک اور پوشیدہ حصے سے نقاب اٹھایا ہے جو آج عام ہوکر بھی ایک دائرہ میں قید محسوس ہوتا ہے، ہم سمجھتے بوجھتے ہوئے اس سے نظر پھیر رہے ہوتے ہیں، کہانی میں مرکزی کردار گودی میڈیا ہے اور اسکرپٹ رائیٹر، رپورٹر، کیمرہ مین، چینل ایڈیٹر، این جی اوز کے صدر، فلاحی تنظیمیں اور ادارے، بزنس مین وغیرہ ایسے مہرے جو آنکھوں پر مفاد پرستی کا عینک چڑھا کر اپنا بھرپور رول ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جرم میں بھی جواز کی شکل ڈھونڈ لاتے ہیں، کہانی میں ٹی آر پی کے لیے میڈیا کی ان شرمناک حرکتوں کا بیان ہے جو انسانیت سے اعتماد اٹھانے کے لیے کافی ہے، معاشرے کے افراد میں مادیت پرستی کے عناصر ایسے پیوست ہوچکے ہیں کہ انسان جرم کے ارتکاب سے بھی گریز نہیں کرتا اور ایسے طریقے اپناتا ہے جس سے سیاہ بھی سفید نظر آنے لگے، کہانی پڑھ کر قاری ایک بار چونکتا ضرور ہے، فیضی صاحب نے اتنے آہستہ روی سے یہ کہانی بنی ہے کہ قاری تشنج میں مبتلا ہوجائے، کہانی کی ابتدا چونکانے اور قاری کو باندھ لینے والی ہے جس کے اختتام پر ماں کی ممتا کا عکس دھندلا ہوجاتا ہے۔
افسانہ "ٹوٹے گملے کا پودا" انسانی رشتوں کی شکست و ریخت کی ایک مضطرب کہانی ہے، آج کا انسان محبت بانٹنا بھولتا جارہا ہے جس سے نئے نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں، جو کسی تپکن سے کم نہیں ہوتے، یہ افسانہ "پدرم سلطان بود" بے جا انا اور خود فریبی کا عکاس ہے، "فنکار" ایک چبھتا ہوا افسانہ ہے، ہر شخص اپنے فن اور آرٹ کی آڑ لے کر اپنی تسکین اور مفاد دیکھتا ہے، وہ اذیت کی تصویر تو کھینچ دیتا ہے لیکن اذیت اس کے لیے ایک کہانی، ایک پینٹنگ اور ایک تصویر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، اصل فن کار تو وہ ہیں جو اس کرب سے گزرتے ہیں، خاموش مصائب کو جھیلتے ہیں اور ان کے خشک لبوں سے مسکراہٹ لمحہ بھر کو بھی نہیں بجھتی، یہ ایک تیزاب زدہ لڑکی کی کہانی ہے، جس میں کچھ نہ کہہ کر بہت کچھ کہہ دیا گیا ہے، مثلا ہزاروں سال سے عورتوں کا استحصال ہوتا چلا آرہا ہے لیکن اب اس کا طریقہ کار بدل گیا ہے، جس کی ذمہ دار عورتیں نہیں مرد خود ہیں، افسانہ کا ایک اقتباس پڑھیے اور غور کیجئے:
"چوتھے نے تینوں کو باری باری دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا: یہ تو حقیقت ہے کہ مردوں کے لیے استعمال ہونے والی چیزیں بھی لڑکیاں ہی نظر آتی ہیں، مگر کیا کبھی ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ان پروڈکٹ کی کمپنیوں کے مالک بھی زیادہ تر مرد حضرات ہی ہوتے ہیں، اور ایڈ بنانے والی ایجنسیوں کے مالک بھی مرد ہی ہوتے ہیں، آخر وہ کیوں لڑکوں کا استعمال نہیں کرتے، آخر پبلک تو وہی دیکھتی ہے جو کمپنیاں دکھاتی ہیں، اس اعتبار سے معاشرے کی گرتی ہوئی قدروں کے ذمہ دار عورتیں نہیں ہیں"۔
"ٹی او ڈی" کے عنوان سے لکھا گیا افسانہ، افسانہ نہیں بلکہ ہماری اور آپ کی حقیقی داستان ہے، یہ ان کی کہانی ہے جو خواب دیکھتے ہیں اور اس کا ٹیکس اپنی سانسوں سے ادا کرتے ہیں، یہ کہانی حکومت کی تانا شاہی اور من چاہے فیصلوں کو بیان کرتی ہے، جسے پڑھ کر گزشتہ سالوں کے واقعات ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں، "وائرس" ایک نفسیاتی قسم کی کہانی ہے، جس میں قاتل پر مقتول کے آخری جملے اثر انداز ہوتے ہیں اور وہ نفسیاتی الجھن، تناؤ اور بے چینی کا شکار ہوکر ایک زندہ لاش بن جاتا ہے۔
"اسٹوری میں دم نہیں ہے" بچوں سے زیادتی اور ان کے جسمانی استحصال پر مبنی ہے، ساتھ ہی نیوز رپورٹرس اور تھانے داروں کی بخیہ ادھیڑی گئی ہے، لیکن جملے بے ربط ہیں اور روانی سے خالی ہیں، کہانی بس ٹھیک ہے، "ہریا کی حیرانیاں" میں جمورا وقت کا استعارہ ہے، یہ ایک دل چسپ کہانی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، "میں آدمی وہ انسان" اس کہانی میں بتایا ہے کہ آج بھی کچھ افراد ایسے ہیں جن کے اندر کا انسان ابھی بھی زندہ ہے اور وہ اس بھری پُری بے ڈول دنیا میں بغیر کسی غرض اور مقصد کے محض ہم دردی کے جذبے سے لوگوں کا دکھ درد بانٹتے ہیں، "اتفاق" یہ ایک استعاراتی کہانی ہے، جس میں ترقی یافتہ گھرانے کے ماحول، بے حیائی، بڑھتی ہوئی بے شرمی اور ان خواتین پر بھرپور چوٹ کی ہے جو شوہر کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور ہر وہ کام انجام دے لینے کی ہمت رکھتی ہیں جو اپنے شوہر کے ساتھ نہیں کرتیں، کہانی کا اختتام دل خراش اور حیرت زدہ کرنے والا ہے۔
یادیں ہمیشہ ہمارا پیچھا کرتی رہتی ہیں، بہ طور خاص زمانہ طالب علمی کے ایام اور وہ جگہ جہاں یہ دن گزارے گئے ہوں شدت سے یاد آنے لگتے ہیں، بے جان چیزوں سے بھی آپ کو بعض وقت لگاؤ ہوجاتا ہے اور چھوٹی سے چھوٹی بات بھی خوشی دیتی ہے، افسانہ "میرا کمرہ" اسی جذبہ اور احساس کی عکاسی کرتی ہے، آپ کے اندر کا ہنس مکھ اور کھلنڈر جوان ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور کالج لائف کی مٹر گشتیاں دل کے کہیں کسی گوشہ میں چھپی بیٹھی رہتی ہیں. "جنگ جاری ہے" یہ افسانہ ضمیر، ایمان، شیطان، سچ، جھوٹ، حال، مستقبل کے ذریعہ بُنی گئی ہے، لفظوں کی بنت مزیدار نہیں ہے، البتہ کہانی ہمارے حال کی آئینہ دار ہے جس میں سماجی، معاشرتی و سیاسی منطر نامہ کی بھرپور تصویر کشی کی گئی ہے، "ہم دھرتی پر بوجھ ہیں" ایک عجب کہانی ہے جس کی ابتدا اور اختتام نرالا ہے، جس کا موضوع افلاس، پریشانی، کش مکش، تعصب، فرقہ وارانہ فسادات ہیں، ساتھ ہی افسانہ نت نئی بیماریوں، لوگوں کی کس مپرسی، لاچاری و بےچارگی کو بیان کرتا ہے، یہ پورا افسانہ بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے جس کی آواز کی گونج وقتا فوقتا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور سہتے رہتے ہیں. "عجوبہ کا عجائب گھر" یہ کہانی خاندانی شرافت، بے لوث محبت، خلوص اور اخلاقیات کا درس دیتی ہے. "گیتا اور قرآن" میں مطلب پرستی اور مفاد پرستی کو درشایا گیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کہانی کار فرضی قصوں میں مرچ مسالہ لگا کر، سچ و جھوٹ کا مکسچر کرکے اپنی مارکیٹ بنانے کے لیے کس طرح لوگوں کے جذبات سے کھیلتا ہے، حالانکہ قصے کا اختتام دوسرے رنگ اور ڈھنگ سے بھی کیا جاسکتا تھا۔
"پروفیسر صمدانی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا: بھئی بات یہ ہے کہ مارکیٹ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، بازار واد ہے، مارکیٹ کا زمانہ ہے، ڈیمانڈ اور سپلائی کا معاملہ ہے، آج کل ایسی ہی کہانیوں، افسانوں اور ناول کی ڈیمانڈ ہے، مارکیٹ ہے تو میرے ذہن نے اسی کو سپلائی کیا، انھی لفظوں کے ساتھ پروفیسر صمدانی کی گاڑی آگے بڑھ گئی"۔
"آدی مانو" ریپ، لوٹ مار، عورتوں کے استحصال پر ایک اچھی کہانی ہے، آج کی جو صورت حال ہے وہ یقینا زمانہ قدیم کی طرف ہمیں ڈھکیل رہی ہے. "مُردوں کی الف لیلی" نے مجھ پر ایک خاص تاثر قائم کیا، افسانہ کے اختتام پر لمحہ بھر کو سکتہ سا رہا، اس میں جیتے جاگتے شخص کو مردے سے، گھر کو قبر سے تشبیہ دے کر پریشانیوں اور مصیبتوں کو، جن سے ایک انسان جھوجھتا ہے، کیڑے مکوڑوں سے تعبیر کرتے ہوئے پورا افسانہ بہترین پیرائے اور دل کش انداز میں لکھا گیا ہے، جس کے اخیر میں وہی مردہ یاد داشت کھونے کا ڈراما رچتا ہے:
"مردہ اب جلد ہی گھبرا جاتا ہے، یہ دیکھ کر کہ بڑی بیٹی کی شادی کا قرض سر پر ہے، چھوٹی بیٹی جوان ہوچکی ہے، یہ دیکھ کر کہ بڑا بیٹا بے روزگار ہے، سرکاری نوکری کے علاوہ زندگی کی جنگ لڑنا نہیں چاہتا، یہ دیکھ کر کہ چھوٹے بیٹے کی پڑھائی ادھوری ہے، یہ دیکھ کر کہ قبر کا ایک تختہ گل گیا ہے"۔
"دوست جاتے وقت مردے کی گود میں کاغذ کا ایک ٹکڑا ڈال گیا، ٹکڑے پر لکھا تھا، "ابے مردے! یادداشت کھوجانے کا ڈراما بند کردے، یہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ڈراما میں خود پر آزما چکا ہوں"۔
"کوڑا گھر"، "ورثے میں ملی بارود"، "کلائمکس"، "اخبار کی اولاد" اور "بدری" میں لڑکی کی پیدائش پر اظہار نفرت، غربت، مفلسی، بے روزگاری، رشوت خوری، پولیس والوں کی کمینگی اور چھپری باز لونڈوں کی حرکتوں کا ذکر ملتا ہے. "کھڑکی لرزتی ہے" آج کے نوجوانوں کی محبت اور عشق پر ایک شان دار افسانہ ہے. "دعوت نون ویج" پڑھتے ہوئے لگتا ہے یہ کہانی بچوں کے لیے لکھی گئی ہے، لیکن پروٹسٹر، آتنک وادی جیسے الفاظ پڑھ کر یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے، بہرحال ایک عمدہ اسٹوری ہے، جس میں موجودہ صورت حال کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔
کتاب میں شامل افسانچے "جھٹکے کا گوشت"، "اکیسویں صدی کی داستان"، "دلہن"، "انسان کی موت"، اور "کپڑوں میں پیشاب کرنے والے" اپنے اندر نیا پن اور انفرادیت لیے ہوئے ہیں. "اکیسویں صدی کی داستان" درد و کرب میں لپٹا ایک دل چسپ افسانچہ ہے، جس کا ایک جملہ نذر قارئین ہے: "یہی کہ ان کے پیٹ میں روٹی ہے، بوڑھے نے یہ کہہ کر انٹلیکچوئلی کا بھاری گٹھر سر پر لاد لیا اور لرزتی، کانپتی سوکھی ٹانگیں آگے بڑھ گئیں".
ذاکر فیضی کہانی نہیں لکھتے ہیں تصویر میں رنگ بھرتے ہیں اور ساکت مجسمہ میں لفظوں سے روح ڈالنا آپ کے لیے کوئی مشکل عمل نہیں ہے، کمال تو یہ ہے کہ نہ صرف روح ڈالتے ہیں بلکہ ساکت مجسمہ کو بولنے پر مجبور کردیتے ہیں. آپ کی کہانیوں کا کینوس بہت وسیع ہے جو بیک وقت کئی چیزوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے. سیدھا صاف اسلوب، سلیس زبان و بیان چونکا دیتا ہے اور قاری اس میں محو ہوجاتا ہے، جیسے کوئی الٹی سگریٹ بے خیالی میں ہونٹوں پر رکھ لے، تصنع اور تکلف میں لپٹی زبان اور لفاظی بگھار کر قاری اور کہانی کے بیچ کے تعلق کو بوجھل نہیں کرتے ہیں. یوں سمجھیے کسی نے سگریٹ کا کش لے کر سانس چھوڑی ہے اور دھواں اپنے حساب سے فضا میں تحلیل ہورہا ہے، طباعت اور کاغذ عمدہ و دیدہ زیب ہے، کتاب کا جاذب نظر سرورق ایک معما معلوم ہوتا ہے جسے دیکھ کر ذہن کے کینوس پر مختلف شکلیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔
***
ایس ایم حسینی کی گذشتہ نگارش: کتاب : بندۂ مومن

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے