امن و امان کے درمیان

امن و امان کے درمیان


امان ذخیروی
رابطہ: 8002260577

آج (یکم جون، ۲٠۲۲) کا عظیم آباد (پٹنہ) کا سفر بہت کامیاب رہا. میرا یہ ماننا ہے کہ کوئی بھی شعر و ادب سے دل چسپی رکھنے والا شخص خواہ کسی بھی غرض سے پٹنہ جائے اور بک ایمپوریم سبزی باغ نہ جائے یہ ناممکن سا معلوم ہوتا ہے, اور اس سے بھی زیادہ ناممکن یہ ہے کہ بک ایمپوریم تک پہنچے اور رحمانیہ ہوٹل میں کم سے کم ایک کپ چائے نہ پیے. کیوں کہ رحمانیہ ہوٹل کی بھی اپنی ایک ادبی تاریخ رہی ہے. اس ہوٹل کو اگر دبستان عظیم آباد کا پارلیامنٹ کہا جائے تو بے جا نہیں یوگا. یہ ہوٹل ادب کے ان ستارہ گروں کی قربت کا امین رہا ہے جن کے فن کی خوشبو سات سمندر پار تک ہھیلی یے. یہاں غلام سرور کی ادبی, صحافتی اور سیاسی بصیرتوں نے جلا پائی ہے. جمیل مظہری کے نغموں کی گونج اب بھی اس کے در و دیوار میں پوشیدہ ہے. سہیل عظیم آبادی کے افسانوں کا پلاٹ اسی ہوٹل میں چائے کی چسکیوں کے ساتھ پروان چڑھا تھا. رضا نقوی واہی کی مزاحیہ نظموں کو یہیں قبولیت کی سند ملتی تھی. پروفیسر عبد المغنی نے تفہیم اقبال کا سراغ یہیں پایا تھا. کلیم الدین احمد نے یہیں سے اردو شاعری پر ایک نظر ڈالی تھی. عطا کاکوی کی نظموں کی خوشبو یہیں سے پھیلی تھی. اور کلیم عاجز کی غزلوں کو سوز اور ساز یہیں سے حاصل ہوا تھا. غرض رحمانیہ ہوٹل دبستان عظیم آباد کی عظمت کا پاس دار تب بھی تھا اور آج بھی ہے. ہمارے بزرگوں نے جو روایت قائم کی تھی اس پر آج کے شعرا و ادبا بھی گامزن ہیں. چنانچہ میں تو اس پر پابندی سے عمل کرتا ہوں. اور آج کے سفر میں تو یہ بات کل ہی طے پا گئی تھی. ہوا یوں کہ کل رات جب میں پٹنہ آنے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک محترم ڈاکٹر عطا عابدی صاحب کا فون آ گیا. دوران گفتگو میں نے انھیں بتایا کہ میں بھی پٹنہ آ رہا ہوں. یہ جان کر انھیں خوشی ہوئی. پھر ہم دونوں نے طے کیا کہ بک ایمپوریم پر شام کو ملاقات کریں اور رحمانیہ ہوٹل میں چائے سے لطف اندوز ہوں. چنانچہ مقررہ وقت پر ہماری ملاقات ہوئی. لطف کی بات یہ ہے کہ عطا عابدی صاحب سے پچھلے دس سالوں سے میرے گہرے مراسم رہے ہیں۔ مگر آج پہلی بار ہم رو بہ رو ہوئے. مگر ہمارے درمیان اجنبیت کبھی نہیں رہی. ہم نے پہلی ٹیلیفونک گفتگو میں ہی فرقت کے تمام فاصلےطے کر لیے تھے. ان کے ساتھ جناب اویناش امن بھی تشریف لائے تھے. ان سے بھی یہ میری پہلی ہی ملاقات تھی. میں اپنی نظموں کی کتاب "نوائے شبنم" ساتھ لے کر آیا تھا. لہذا ان دونوں حضرات کو میں نے اپنی کتاب پیش کی، جسے کافی محبت سے قبول کیا گیا. اب حسب دستور ہمیں چائے نوشی کے لیے رحمانیہ ہوٹل جانا تھا. جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ جناب خالد عبادی، جناب کاظم رضا اور جناب ڈاکٹر ممتاز فرخ پہلے سے ہی خوش گپیوں میں مصروف تھے. ان سب سے سلام و دعا کے بعد ہم نے چائے کی چسکیوں کے ساتھ ادبی گفتگو کا خوب لطف اٹھایا. میرے لیے یہ موقع بہت غنیمت تھا. ادب کے اتنے سارے ستارے ایک ساتھ زمین پر اتر آئے تھے. انھیں کیمرے میں قید کرنا بےحد ضروری تھا. اس لیے میں نے ان تمام سے یہ گزارش کی کہ ایک گروپ فوٹو ہونا ضروری ہے. اس بات سے سب نے اتفاق کیا. مگر بھائی عظا عابدی نے یہ شرط لگا دی کہ میں امن و امان کے درمیان رہوں گا. چنانچہ انھیں کی فرمائش پر ہم نے ترتیب بنائی. داہنے سے جناب ممتاز فرخ بک امپوریم کے مالک. آپ کئی کتابوں کے خالق ہیں. فکر تونسوی حیات و خدمات ان کی تازہ ترین کتاب ہے، جس نے کافی مقبولیت حاصل کی ہے. خالد عبادی کا نام شعر و ادب کی دنیا میں کافی نمایاں ہے. ان کے قطعات، موضوعاتی نظمیں اور غزلیں اخباروں اور رسالوں کی زینت بنتے رہتے ہیں. آپ کئی کتابوں کے خالق ہیں. غزلوں اور نثری نظموں ہر مشتمل ان کی کتاب "نہایت" ابھی حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے. آپ ستائش کی تمنا سے بے نیاز خود سے بے پروا قسم کے فن کار ہیں، لیکن آپ کا کلام قارئین کو دعوت خود آرائی دیتا ہے. ان کے بغل میں آپ امان ذخیروی کو دیکھ سکتے ہیں. ڈاکٹر عطا عابدی کو دنیائے ادب عزت و احترام کی نظر سے دیکھتی ہے. آپ کا اردو ادب میں بہت کام ہے. نثر و نظم دونوں میدانوں کے شہسوار ہیں. درجنوں کتابیں منظر عام پر آ کر داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں. آپ نے ادب اطفال پر بھی خوب کام کیا ہے. آپ کے فن اور شخصیت پر مقالہ سپرد قلم کر کچھ طالب علموں نے پی ایچ ڈی کی سند بھی حاصل کی ہے. ابھی حال ہی میں "بچوں کی کتابیں تعارف و تذکرہ" عنوان سے ان کی دستاویزی کتاب منظر عام پر آئی ہے. اس کتاب پر مضامین و تبصرے کا سلسلہ جاری ہے. اس کتاب میں اس ناچیز کی زیر طبع کتاب "آغوش میں چاند" پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے. حسب وعدہ عطا عابدی کے بعد جناب اویناش امن ہیں، جو ایک تازہ دم رہوار شعر و ادب ہیں. آپ کو بچپن سے ہی اردو سے عشق تھا. اسی عشق کی تکمیل کے لیے آپ نے اردو زبان و ادب کو اہنی تعلیم کا ذریعہ بنایا. بھاگل پور یونی ورسٹی اور پٹنہ یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل پی ایچ ڈی سند یافتہ اویناش امن ودھان پریشد کے اردو سیکشن میں اہنی خدمات بہ حسن و خوبی انجام دے رہے ہیں. ساتھ ہی اردو زبان و ادب کی آبیاری میں سر گرم ہیں. آپ کی کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں. "شیر کا احساس اور دیگر افسانے" آپ کا تازہ ترین افسانوی مجموعہ ہے. ان کے بعد جناب کاظم رضا دیکھے جا سکتے ہیں. آپ لطیف جذبوں کے مترنم شاعر ہیں اور کسی بھی مشاعرے کی کامیابی کی سند مانے جاتے ہیں. ان کے ساتھ کئی مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا ہے. اپنا شعری مجموعہ لانے کی تیاری کر رہے ہیں. ایک دوسری تصویر میں میرے ساتھ جناب عارف اقبال دربھنگوی ہیں. جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل آپ ای ٹی وی اردو سے وابستہ ایک بے باک صحافی ہیں. سوانحی ادب پر آپ نے بہت کام کیا ہے. "باتیں میر کارواں کی" عنوان سے امیر شریعت مولانا سید نظام الدین کی حیات و خدمات پر آپ نے ایک ضخیم کتاب ترتیب دی ہے. اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اسکا اجرا امیر شریعت نے خود اہنے دست مبارک سے کیا تھا. اس نوجوان قلم کار سے میرے دس سالوں سے مراسم ہیں، لیکن ان سے بھی آج ہی پہلی بار ملاقات یوئی. انھوں نے میری خوب ضیافت کی اور رحمانیہ ہوٹل میں رات کا کھانا بھی کھلایا. میں ان کا دل کی گہرائیوں سے ممنون و مشکور ہوں. غرض کہ میرا یہ سفر بےحد کامیاب رہا. میں اسے اپنا پہلا ادبی سفر مانتا ہوں.
***
امان ذخیروی کی گذشتہ تخلیق :عید آئی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے