عبدالصمد مرحوم کی زندگی مومنانہ تھی : ڈاکٹر خالد مبشر

عبدالصمد مرحوم کی زندگی مومنانہ تھی : ڈاکٹر خالد مبشر

مشہور تخلیقی نقاد اور صحافی حقانی القاسمی کے والد مرحوم کے لیے تعزیتی نشست کا انعقاد

نئی دہلی، 15 مئی، گزشتہ روز مشہور تخلیقی نقاد اور معروف صحافی حقانی القاسمی کے والد مرحوم عبدالصمد صاحب کے ایصال ثواب کے لیے ابوالفضل انکلیو میں ڈاکٹر خالد مبشر کی رہائش گاہ پر تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا، تعزیتی نشست اور مجلس ایصال ثواب سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خالد مبشر نے کہا کہ بعض مراحل زندگی کے ایسے ہیں کہ اس کا اندازہ اپنے اوپر بیتنے کے بعد ہی ہوتا ہے. انھی میں سے ایک والدین کا انتقال بھی ہے، حقانی صاحب کس درد سے گزر رہے ہیں ہم اسے اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں، مرحوم عبدالصمد کی زندگی بڑی مومنانہ تھی، اس سانحہ سے پہلے مرحوم کی شخصیت اور خدمات کا اندازہ نہیں تھا مگر سانحہ کے بعد جو تحریری تعزیت نامے سامنے آئے تو بہت سی خوبیاں سامنے آئیں، ان میں بے شمار خوبیاں تھیں، ان میں سے ایک اولاد کی تربیت بھی ہے اور یہ نبوی طریقہ کار ہے، بہت فکر مندی اور شعور کے ساتھ انھوں نے یہ فریضہ انجام دیا، مرحوم نے اولاد کی تربیت کے لیے بہت ہی منصوبہ بند اور شعوری کوشش کی ہے، ارریہ کو انھوں نے میدان عمل بنایا، الکتاب، الخلیل میموریل لائبریری، کتابوں کا بڑا ذخیرہ، نسلوں کی تربیت، بینک کے سودی نظام کو بہت کراہت سے دیکھتے تھے. اس کے لیے انھوں نے اپنے گاؤں بگڈھیرا میں غیر سودی بینک قائم کیا، وہ بھی چالیس سال پہلے، نوجوانوں کی تربیت اور ان کو مطالعہ کی ترغیب دینا یہ بڑی بات تھی. "
ماہنامہ یوجنا کے مدیر عبدالمنان صاحب نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ عبدالصمد مرحوم کو پہلی مرتبہ ۱۹۸۵ میں دیکھا تھا. صوم و صلوۃ اور اوراد و وظائف کے بہت پابند تھے، بلند اخلاق، طبعی شرافت اور سادگی کے پیکر تھے، وقت کی بہت قدرکرتے تھے، مجھے ان کے ساتھ سفر کا بھی اتفاق ہوا، وہ ایسی دولت کے مالک تھے جس پر اردو برادری کو ناز ہے، وہ دولت ان کی ایک اور نیک اولاد ہے جسے دنیا آج حقانی القاسمی کے نام سے جانتی ہے۔"
اس موقع پر قندیل کے مدیر عبدالباری قاسمی نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا کہ مرحوم بہت نیک صفت انسان تھے، انھوں نے نئی نسل اور نوجوانوں کی تربیت کے لیے تن تنہا ایک ادارہ کی طرح کام کیا، خود بھی مطالعہ کے شوقین تھے اور دوسروں کو بھی شوق دلانے کا ہنر جانتے تھے. اس کی نظیر الخلیل میموریل لائبریری اور الکتاب ہے، جو کام لوگ بڑے شہروں میں نہیں کر پاتے انھوں نے وہ کام ایک حاشیائی علاقہ میں کر دکھایا، علاقہ میں ان کی کیا مقبولیت اور قربانیاں تھیں اس کا اندازہ ان کے جنازہ کی تعداد سے بھی لگایا جاسکتا ہے، حدیث میں آتا ہے جس کی عمر طویل ہو اور اس کے اعمال اچھے ہوں تو وہ جنت میں جائے گا، مرحوم کے اندر یہ دونوں صفتیں موجود تھیں.
ڈاکٹر نعمان قیصر نے کہا کہ چچا عبدالصمد کی زندگی جو میں نے دیکھی جد و جہد سے بھری ہوئی تھی اور مسافر کی طرح زندگی تھی، دنیا پانے کی حسرت اور طلب نہیں تھی، ہمیشہ بے نیاز مسافر کی طرح رہے. میرا پچیس تیس برسوں ان سے رشتہ رہا، بہت متحرک انسان تھے، پوری زندگی لوگوں کو بیدار کرنے میں گزار دی. تمام بچوں کو اچھی تعلیم دی، تعلیم کی اہمیت بہت محسوس کرتے تھے، نوجوانی میں ہی غیر سودی بینک قائم کیا اور اس کو فروغ دینے کی کوشش کی. ان کی لائبریری تھی الخلیل میموریل لائبریری اس میں اسلامی اور تاریخی ناول بڑی تعداد میں تھے، سماج اور غریبوں کے تئیں درد مندی بہت تھی۔ ہمیشہ خاموشی سے ضرورت مندوں کی مدد کرتے تھے، کبھی کسی کو مایوس نہیں کرتے حالاں کہ خود بہت تنگی میں رہتے تھے. ان کے کارنامے روشن اور زریں ہیں۔
ڈاکٹر منظر امام نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ جناب عبدالصمد سے دو مختصر ملاقاتیں ہوئیں، وہ میری زندگی کا بہت یادگار لمحہ ہے، ان کاشمار ایسے لوگوں میں تھا جن کو دیکھ کر خدا یاد آجائے، کتابیں انھیں بہت پسند تھیں، حقانی صاحب جس صدمہ سے گزر رہے ہیں ہمیں احساس ہے یہ ایسا صدمہ ہے کہ اس سے نکلنے میں بہت وقت لگتا ہے۔
مشہور صحافی مولانا عبدالقادر شمس قاسمی کے فرزند مولانا عمار جامی قاسمی نے کہا کہ مجھے مرحوم سے متعدد مرتبہ ملاقات کا موقع ملا بہت ہی مشفق، سادہ اور نرم انسان تھے، بہت ہی متواضع انداز میں ملتے تھے، ایسے لوگ لاکھوں میں ایک ہوتے ہیں، اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔
مشہور شاعر اور ادیب عطا عابدی صاحب نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حقانی صاحب سے تین دہائیوں سے زیادہ سے تعلقات ہیں، مرحوم کے انتقال کے بعد افسوس ہو رہا ہے کہ کاش کہ ہم نے بھی مل کر دعائیں لی ہوتی، نہ مل پانے کا بہت افسوس ہے، حقانی صاحب میں جو خاکساری پہلے تھی آج بھی ہے، جو انکساری پہلے تھی آج بھی ہے، آج معلوم ہوا کہ وہ عکس اس آئینہ کا تھا جو ابھی گزرا ہے. والد کا غم بہت بڑا غم ہے. اللہ نیک لوگوں کو آزماتا ہے. دنیا سے سبھی کو ایک نہ ایک دن جانا ہے. اللہ مرحوم کی صفات پر چلنے کی ہم سب کو توفیق دے۔ حقانی صاحب اور جملہ ورثا کو صبر جمیل عطا کرے آمین۔
حقانی القاسمی نے والد مرحوم کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ عبدالصمد صاحب مرحوم صرف میرے ابو نہیں تھے بلکہ میرے استاد بھی تھے. اردو، انگریزی اور حساب دیگر چیزیں میں نے ان سے ہی پڑھی، حساب میں وہ بہت مضبوط تھے اور میں بہت کم زور. حالاں کہ میرے دیگر بھائی حساب اور ریاضی میں بہت مضبوط ہیں، میرے والد کی ڈرافٹنگ بھی بہت اچھی تھی، وہ صرف میٹرک پاس تھے مگر آج کے اعلی ڈگری یافتگان سے زیادہ مطالعاتی وسعت تھی، رسائل کا ان کے پاس بہت بڑا ذخیرہ تھا. میں نے پہلی بار بیسویں صدی، شمع، منادی، مولوی، آستانہ، وغیرہ اپنے ابو کے پاس ہی دیکھی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابو کو رسائل کے مطالعہ کا بہت شوق تھا، بہت زیادہ مطالعہ کرتے تھے، خاص طور پر سہ روزہ دعوت بہت اہتمام سے پڑھتے تھے، مجھے اپنے باپ پر ناز ہے اور انھیں بھی مجھ پر ناز تھا وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔وہ خوبیوں کا پیکر تھے اور میں خرابیوں کا مجموعہ، رشتہ داری نبھانا بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ اس طرح کسی کی مدد کرتے تھے کہ احساس بھی نہیں ہونے دیتے تھے۔ ابو جان کو علم و ادٍب سے بہت گہرا لگاؤ تھا۔ بہت ہی غم گسار آدمی تھے. مادیت پر انھوں نے کبھی توجہ نہیں دی. ہمیشہ روحانیت سے رشتہ رہا، ہمیشہ دوسروں کی مدد سے خوش ہوتے تھے، ان کا جذبہ نیک تھا۔ اللہ نے ان کے نیک جذبہ کی قدر کی اور عید سے ایک روز قبل ان کی وفات ہوئی اور عید کے دن ان کی تجہیز و تکفین ہوئی اور عید کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے۔
ڈاکٹر منظر امام کی دعا پر مجلس کا اختتام عمل میں آیا. آخر میں ڈاکٹر خالد مبشر نے سبھی حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :آج حقانی کے والد ہوگئے ان سے جدا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے