تخلیقی زبان

تخلیقی زبان

غضنفر

کہانی کی زبان وہ نہیں ہوتی جو کسی مضمون یا علمی تحریر کی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ کہانی کی زبان کا کام معلومات فراہم کرنا نہیں بلکہ لطف و انبساط کی فراہمی، بیداریِ احساس، بالیدگیِ ادراک و شعور اور تزکیۂ نفس ہے۔ اس کے لیے کہانی کار کو وہ وہ کرنا پڑتا ہے جن سے علمی زبان میں بچنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ بچنے کے لیے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ کیا گیا جو کہانی کی زبان میں کیا جاتا ہے تو علمی تحریر کے اظہار میں بیڑیاں پڑ جائیں‌، ہتھکڑیاں لگ جائیں، اسے لقوہ مار جائے، زبان اینٹھ جائے اور اس کا مقصد فوت ہو جائے۔
کیوں کہ علمی زبان یا مضمون کی زبان کا مقصد ہوتا ہے کہ معلومات کی ترسیل آسانی سے ہو جائے۔ اس کی راہ میں کسی قسم کی کوئی اڑچن نہ آئے۔ رنگ ونور [کی] کوئی دھنک نہ تن جائے۔ کوئی نگار خانہ نہ بن جائے۔ اگر یہاں تشبیہ، استعارے اور صنائع بدائع کی پریاں اتر گئیں یا اتار دی گئیں تو موضوع و مواد کا آگے بڑھنا دشوار ہو جائے گا۔ رفتار ٹھٹھک جائے گی۔ نگاہیں چوندھیاں جائیں گی۔ خیال الجھ کر رہ جائے گا اور اگر علامتیں شامل کر دی گئیں تو ممکن ہے اظہار کا کھلنا بھی دشوار ہوجائے۔
کہانی کی زبان عام زبان نہیں ہوتی۔ وہ کسی اہم خبر کو اس طرح نہیں سناتی جیسا کہ کوئی یہ کہے:
میں ایک چونکانے والی یا حیرت میں ڈالنے والی خبر لایا ہوں.
بلکہ یوں سناتی ہے:
” لا، ہاتھ دے، ایسی خبر سناؤں کہ تیری گنجی کھوپڑی پر بال اُگ آئیں۔"
تخلیقی زبان فکر مند، بیمار اور لاغر ابّا کے لیے یہ نہیں کہتی کہ ابا فکر اور بیماری کے سبب کافی دبلے پتلے ہوگئے ہیں بلکہ ان کی اس حالت کو اس طرح بیان کرتی ہے:
” ابا کتنے دبلے پتلے لمبے جیسے محرم کا علم ایک بار جھک جاتے تو سیدھے کھڑا ہونا دشوار تھا۔"
پریم چند کی تخلیقی زبان کفن کے بے درد، خود غرض اور بے حس گھیسو اور مادھو کے بارے میں یہ نہیں کہتی کہ وہ آلو کھا کر اطمینان اور بے فکری سے سو گئے بلکہ یہ کہتی ہے:
” آلو کھا کر دونوں نے پانی پیا اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر پاؤں پیٹ میں ڈالے سو رہے تھے جیسے دو بڑےاژدر کنڈلیاں مارے پڑے ہوں اور بدھیا ابھی تک کراہ رہی تھی۔"
اس زبان میں ان کی بے حسی اور بے فکری کا بیان ہی نہیں ہے بلکہ ان کی طینت کی سفاکی کی عکاسی بھی ہے اور ان کو انسان سے سانپ بنا دینے والی صورت کی تصویر کشی بھی۔ ساتھ ہی ان سے ڈسی جانے والی معصوم عورت کی چھٹپٹاہٹ کی مصوری بھی۔
تخلیقی زبان کا حسن دیکھنا ہو اور اس حسن سے حواس میں حرکت و حرارت محسوس کرنا ہو تو ان نمونوں پر بھی نگاہیں مرکوز کیجیے:
” نام کی گوری تھی مگر کم بخت سیاہ بہت تھی، جیسے الٹے توے پر کسی پھوہڑیا نے پراٹھے تل کر چمکتا چھوڑ دیا ہو۔"
” اس کی باہیں جو کاندھوں تک ننگی تھیں، پتنگ کی طرح پھیلی ہوئی تھیں جو اوس میں بھیگ جانے کے باعث پتلے کاغذ سے جدا ہو جائے۔ دائیں بازو کی بغل میں شکن آلود گوشت ابھرا ہوا تھا جو بار بار مونڈنے کے باعث نیلی رنگت اختیار کر گیا تھا جیسے نچی ہوئی مرغی کی کھال کا ایک ٹکڑا وہاں پر رکھ دیا گیا ہے۔"
تخلیقی زبان جب آگے بڑھتی ہے تو اپنے پیچھے دھنک تانتی جاتی ہے۔ شفق کی لالی اور پھولوں کی مہک چھوڑتی جاتی ہے۔
چلتی ہے تو اس سے پٹاخے پھوٹتے ہیں۔ پھلجھڑیاں چھوٹتی ہیں۔ اس کی دھمک سے دھند چھٹتی ہے۔ بدلی پھٹتی ہے۔ تیرگی ہٹتی ہے۔
تخلیقی زبان وہ آبشار ہے جس سے پگھلی ہوئی چاندی کی دھاریں اچھلتی ہیں، رنگین پھوہاریں نکلتی ہیں اور فضائیں ٹھنڈک سے بھر جاتی ہیں۔
یہ وہ زبان ہے جس میں خوشبو دکھائی دیتی ہے اور رنگ سنائی دیتا ہے۔
اس کی صوت و صدا کا لمس چھوتا ہے تو لہو میں لہریں اٹھنے لگتی ہیں۔ رگوں میں کیف و سرور کی نہریں بہنے لگتی ہیں۔ مساموں میں لطف و نشاط کی موجیں لہر لینے لگتی ہیں۔
تخلیقی زبان یوں نہیں بنتی۔ یہ تشبیہوں کے جمال، استعاروں کے کمال، صنعتوں کے خط و خال، علامتوں کے مال و منال، زندگی کے تمثال اور لفظوں کے تخلیقی استعمال سے خلق ہوتی ہے۔
یہ وہ آبشار ہے جس سے پگھلی ہوئی چاندی کی دھاریں اچھلتی ہیں، رنگین پھوہاریں نکلتی ہیں۔
اس کی صوت و صدا کا لمس چھوتا ہے تو لہو میں لہریں اٹھنے لگتی ہیں۔ رگوں میں کیف و سرور کی نہریں بہنے لگتی ہیں۔ مساموں میں لطف و نشاط کی موجیں لہر لینے لگتی ہیں‌۔
تخلیقی زبان کو خلق کرنے میں تین قوتیں کام کرتی ہیں: قوتِ احساس، قوتِ متخیلہ اور قوتِ ممیزہ۔
قوتِ احساس خارج کے دباؤ اور داخل کے اکساؤ کے باعث پیدا ہونے والے جذبات کے اظہار کے لیے ہم آہنگ الفاظ بھی فراہم کرتی ہے یا یوں کہیے کہ تلاش کرتی ہے۔ ان ہم آہنگ، موزوں و مناسب ذخیرے میں سے مناسب ترین الفاظ کا انتخاب جو قوت کرتی ہے وہ ممیزہ کہلاتی ہے۔ یہ مختلف بنیادوں پر چھان پھٹک کر ایسے لفظوں کو پیش کرتی ہے جو موضوع کو اس کے تمام تر جزییات و تفصیلات کے ایسا شدید اور موثر بنا کر پیش کرتی ہے کہ بات دل سے نکل کر سیدھے دل میں پہنچ جاتی ہے۔
ایسا کرنے میں یعنی لفظوں کے انتخاب اور اس کے استعمال میں رنگ آمیزی کا کام جو قوت انجام دیتی ہے وہ ہے قوتِ متخیلہ۔
ان تینوں پر تفصیل سے بات پھر کبھی کی جائے گی۔
***
غضنفر کی یہ نظم بھی پڑھیں:ماہِ صیام

شیئر کیجیے

3 thoughts on “تخلیقی زبان

  1. غضنفر صاحب کا انداز بیان خوب ہے۔ایک اہم مضمون جس میں بنیادی طور پر تین سوالات کے جوابات ملتے ہیں۔ 1.تخلیقی زبان کیا ہے؟ یہ وہ زبان ہے جس میں خوشبو دکھائی دیتی ہے اور رنگ سنائی دیتا ہے۔مثال بھی دی ہے کہ___
    "لا، ہاتھ دے، ایسی خبر سناؤں کہ تیری گنجی کھوپڑی پر بال اُگ آئیں۔”
    2.تخلیقی زبان کیسے بنتی ہے؟ اس کا جواب بھی غضنفر صاحب سے سن لیجیے ۔
    "تخلیقی زبان یوں نہیں بنتی۔ یہ تشبیہوں کے جمال، استعاروں کے کمال، صنعتوں کے خط و خال، علامتوں کے مال و منال، زندگی کے تمثال اور لفظوں کے تخلیقی استعمال سے خلق ہوتی ہے۔”
    3. تخلیقی زبان کو خلق کون کرتا ہے ؟
    "تخلیقی زبان کو خلق کرنے میں تین قوتیں کام کرتی ہیں: قوتِ احساس، قوتِ متخیلہ اور قوتِ ممیزہ۔”
    غضنفر صاحب کے لیے دعائیں کہ انہوں نے خوبصورت ڈھنگ سے اپنی بات رکھی ہے۔نیک خواہشات

  2. واہ۔۔ غضنفر صاحب نے تخلیقی زبان کے استعمال اور اہمیت کا مدلل تجزیہ پیش کیا ہے۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے