کیا غضب کا اُس کا میرے ساتھ یارانہ رہا

کیا غضب کا اُس کا میرے ساتھ یارانہ رہا

صفدر ہمدانی

کیا غضب کا اُس کا میرے ساتھ یارانہ رہا
نامکمل لکھنے والے کا جوں افسانہ رہا

شک نہیں اس کی وفا پر شاید ہم کم ظرف ہیں
عمر بھر بھی ساتھ رہ کر وہ جو بے گانہ رہا

آئینے میں عکس کی ایسی ہوئی عادت مجھے
میں کسی کا ہو کے بھی اپنا ہی دیوانہ رہا

اس نے لا کے بیچ دریا کے مجھے تنہا کیا
مرتے دم تک پھر میں جیسے رند مے خانہ رہا

شور ہے یوں تو مرے چاروں طرف صفدر مگر
میرے اندر اک عجب صورت کا ویرانہ رہا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے