احمد علی برقی اعظمی کی غزلیہ شاعری

احمد علی برقی اعظمی کی غزلیہ شاعری

(ایک تجزیاتی مطالعہ)

سرور عالم راز سرور
۱۲۲۰۔اِنڈین رَن ڈرائیو، نمبر۔۱۱۶
کیرلٹن، ٹیکساس، امریکا

بخشا خدا نے برق مجھے ایسا مرتبہ
سایہ بھی جب پڑا تو مرا روشنی کے ساتھ
جب جناب رحمت الٰہی برق اعظمی صاحب نے یہ شعر کہا تھا تو ان کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوگا کہ اس شعر کی تعبیر ان کے صاحب زادے احمد علی برقی اعظمی بحیثیت ایک شاعر کی شکل میں دُنیاے اُردو کے اُفق پرظاہر ہو کر ان کی یاد تازہ کر جائے گی۔ رحمت الٰہی برق صاحب اپنے وقت کے ایک صاحب طرز اُستاد شاعر تھے۔ ان کے مجموعہ کلام ’’تنویرسخن‘‘ کا سرسری مطالعہ بھی ان کی شاعرانہ مقام اور بلند پایہ صلاحیتوں کے اثبات و تصدیق کے لیے کافی ہے۔ اُردو کا ایک بہت بڑاَ المیہ یہ رہا ہے کہ ہر زمانہ میں اس میں خدا جانے کتنے بلند پایہ، صاحب علم اور منفرد رنگ کے شاعر اور ادیب پیدا ہوئے اور عمر بھر شعر و ادب کی بھر پور اور بے لوث خدمت انجام دے کرِ اس حالت میں راہی ملک عدم ہو گئے کہ اہل اردو نے نہ تو ان کی زندگی میں ان کی اور ان کے فن کی مناسب قدر کی اور نہ ہی ان کے بعد انھیں یاد رکھنے کی طرح یاد رکھا. چنانچہ آج بیشتر اُردو دنیا ان کے نام اور کام دونوں سے مطلق نا واقف ہے۔ جناب رحمت الٰہی برقؔ مرحوم بھی ایسے ہی شاعروں میں سے تھے۔ زیر نظر کتاب ’’روحِ سخن‘‘ ان کے صاحب زادے احمد علی برقی اعظمی کی شعر گوئی کا عکاس ایسا مجموعہ ہے جو اُن کے فن و فکر کی روشنی سے دنیائے اردو کو منور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر رحمت الٰہی صاحب آج زندہ ہوتے تو اس کتاب کو دیکھ کر یقیناً بہت خوش ہوتے کیونکہ یہ مجموعہ نہ صرف ان کے شعری ورثہ کی صحت اور زندگی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے بلکہ احمد علی برقی صاحب کے ہاتھوں خود بھی ایک نئے انداز فکر و بیان کی ابتدا کی ایک نیک فال کی حیثیت رکھتا ہے۔
برقی صاحب کی شاعری ایک سیدھے سادے، شریف النفس انسان کی سیدھی سادی شاعری ہے جس کو ہر صاحب دل سمجھ سکتا ہے اور محسوس بھی کر سکتا ہے۔ اس شاعری میں غزل کا کوئی مخصوص رنگ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں نہ تو مرزا غالب کی پیچیدہ خیالی اور فلسفہ ہے اور نہ میرتقی میر کا سا حزن و ملال، نہ ناسخ کی استادی ہے اور نہ داغ کی سادہ بیانی اور معنی آفرینی، نہ جگر مرادآبادی کی سرشاری ہے اور نہ فانی بدایونی کی قنوطیت اور گریہ و زاری۔ یہ شاعری انسانی جذبات و خیالات کا ایک عام سا اظہار ہے جس کو غزل کے سکہ بند اصولوں اور پیمانوں پر پرکھنا تحصیل لا حاصل کے مترادف ہو گا۔ اس میں ہر شخص کو اپنا دکھ درد، اپنی امید اور حوصلہ، اپنی نا کامی اور نامرادی، دنیا کے ہاتھوں خود پر گزرے ہوئے حالات و حادثات اور ایک عام انسان کی عام زندگی کے معمولات نظر آئیں گے اور یہی اس شاعری کی انفرادیت اور خصوصیت ہے۔ اگر شاعر کے ساتھ قدم بقدم چل کر وہ ذہنی سفر کیا جائے جو اس شاعری کا منبع ہے تو اس سے لطف اندوز اور مستفید ہونا بہت آسان اور خوش گوار ہے۔
’’روحِ سخن‘‘ پر ایک سرسری نگاہ ڈالیے تو جو چیز اس میں فوراً نمایاں نظر آتی ہے وہ اس کی سادہ بیانی اور بوجھل الفاظ و تراکیب کا بڑی حد تک فقدان ہے۔ جو لوگ برقی صاحب سے واقف ہیں ان کو کتاب میں موصوف کی شخصیت اوراخلاق و کردار کا عکس نظر آئے گا اور ان کے کلام کی سادگی اور پرکاری میں خود برقیؔ صاحب کارفرما دکھائی دیں گے۔ کتاب کا مطالعہ قاری کے لیے مختلف سطحوں پر خوش گوار اور خوش آئند ہے۔ اگر اس مجموعہ کا مطالعہ تفصیل اور دقت فکر و نظر سے کیا جائے تو صاحب کتاب کی غزلیہ شاعری کے چند ایسے مزید پہلو سامنے آتے ہیں جو اہل دل کو غور و خوض، تنقید و تنقیح اور تجزیہ و تحلیل کی دعوت دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں برقی صاحب کی غزل کے کچھ منفرد اور دل کش نقوش اجاگر ہوتے ہیں جو کتاب کی قدروقیمت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ اجمال کچھ تفصیل چاہتا ہے۔
غزل کے لغوی معنی ’’اپنے محبوب سے باتیں کرنا‘‘ ہیں۔ اس حوالے سے عشق کی وفا شعاری، حسن کی بے وفائی اور غفلت شعاری، عاشق و معشوق کے کچھ اصلی اور کچھ فرضی قصے، معاملات و واردات اور اسی قبیل کے دوسرے مضامین غزل کے عام اور معروف موضوعات میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ لیلیٰ اور مجنوں، شیریں اور فرہاد، سسّی اور پنوں کے اصلی اور فرضی قصے، گل وبلبل، گلشن وگل چیں، قفس اور صیاد کی کہانی، بہار وخزاں کا فسانہ، دنیا کی بے ثباتی اورانسانی زندگی کے صبر آزما حقائق اپنی تمام تفصیلات اور تلازموں کے ساتھ صدیوں سے غزل کی روایات کا ایک نہایت دل چسپ اور بیش بہا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ غزل کا تصور کیجیے تو ایسے سب خیالات، تصورات، تجربات، مشاہدات اور محسوسات ہماری نگاہ عشق پرست کے سامنے آ جاتے ہیں جن کا تعلق عشق اور معاملات عشق سے کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے۔ پھر یہی عشق کبھی اپنے مجازی روپ میں ہماری تنہائیوں کا ساتھی ہے اور کبھی عشق حقیقی کے روپ میں ہمارے دکھ، درد کا مرہم بن جاتا ہے۔ اُردو کے پہلے معروف شاعر ولی دکنی سے لے کر آج تک اُردو کی تاریخ میں ایک بھی شاعر ایسا نہیں گزرا ہے جس نے غزل کے ان معروف و مقبول موضوعات کو نظم کرنے میں تکلف سے کا م لیا ہو بلکہ کچھ اساتذہ تو عاشقانہ معاملات پر اس قدر زور دیتے ہیں کہ ایسے مضامین اور طرز فکر ہی ان کی شناخت بن گئے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شعرا نے اِن عاشقانہ مضامین کو صرف براہ راست ہی اپنی غزل میں ایک دل چسپ اور جذباتی موضوع کی طرح استعمال نہیں کیا ہے بلکہ شیریں و فرہاد، گل وبلبل، بہاروخزاں، ہجر و وِصال، صحرا نوردی اور سیر گلشن غرضیکہ ہر نفس شعر کو تشبیہ، استعارہ، اشارہ اور کنایہ کی طرح بھی باندھا ہے گویا کسی نہ کسی صورت سے یہ موضوعات ان کی غزلیہ شاعری کا چھوٹا یا بڑا جزو ضرور رہے ہیں۔ اب یہ صورت حال اتنی عام ہے کہ غزل اور عاشقانہ مضامین لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں گویا ایک کا تصور دوسرے کے بغیر نا ممکن ہے۔
درجِ بالا حوالے سے اگر برقی صاحب کی غزل کا مطالعہ کیا جائے تو ایک عجیب اور نہایت دل چسپ حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے اُردو غزل کے محبوب موضوعات حسن و عشق کی کارفرمائی، گل و بلبل کے افسانے، شیریں و فرہاد کے قصے، دنیا کی بے ثباتی اور کم سوادی، آشیانہ اور قفس، بہار و خزاں، تصوف و معرفت وغیرہ ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ غزل کی شعریت، تغزل، اثر پذیری، معنی آفرینی، ایجاز و اعجاز، داخلیت و خارجیت غرضیکہ ہر وہ خصوصیت یا انفرادیت جو اس کو بقول پروفیسر رشید احمد صدیقی صاحب ’’اردو شاعری کی آبرو‘‘ کا مقام عطا کرتی ہے اِنھی بنیادی موضوعات سے نمو پاتی ہے اور انھی سے سیراب ہوتی ہے۔ اگر غزل سے یہ نکال دیے جائیں تو وہ خشک، بے رنگ اور بے آب و گیاہ ہو کر رہ جائے گی۔ اردو شاعری کے کئی صدی پر محیط دَور میں ایک بھی شاعر ایسا نہیں گزرا ہے جس نے اپنے کلام میں ان معاملات عشق سے کسی سطح پر احتراز برتا ہو۔ غزل کے دوسرے مضامین بھی اکثر و بیشتر یا تو براہ راست یا پھر اشارہ، کنایہ اور تشبیہات و استعارات کی صورت میں انھی سوتوں سے پھوٹتے ہیں اور غزل کو اس کی صد رنگی سے مالا مال کرتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اگر برقیؔ صاحب کی غزل کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حیرت انگیز بات منکشف ہوتی ہے کہ انھوں نے غزل کے ان پرانے، آزمودہ اور روایتی موضوعات سے تقریباً مطلق پرہیز کیا ہے۔ ایک غزل کے بعد دوسری غزل پڑھتے جائیے تواِن موضوعات پر ایک آدھ شعر ’’بقدر بادام‘‘ نظر آجاتا ہے اور وہ بھی تلاش کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے مضامین والے اشعار کی فراوانی میں ایسے روایتی اشعار گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر گل، گلشن، قفس، بہاروخزاں کو ذہن میں رکھ کر ’’روحِ سخن‘‘ کا مطالعہ کیجیے تو گنتی کے چند اشعار دکھائی دیتے ہیں جن کے عمومی رنگ کی عکاسی نیچے دی ہوئی مثالوں سے بخوبی ہوتی ہے۔
سبھی نالاں ہیں جورِ باغباں سے
چمن کی درہم و برہم فضا ہے
گل و بلبل دَریدہ پیرہن ہیں
نہیں یہ ظلم ہے تو اور کیا ہے
مرادل خزاں کا شکار تھا مجھے انتظار بہار تھا
مگر آئی فصل بہار جب مرے بال و پر وہ کتر گئے
بہار میں بھی عیاں ہیں خزاں کے اب آثار
جسے بھی دیکھیے لگتا ہے سوگوار مجھے
غنچے چمن میں آج ہیں یہ سر بریدہ کیوں
گل پیرہن ہیں باغ میں دامن دَریدہ کیوں
یہ کون باغباں ہے یہ کیسا نظام ہے
بارالم سے برگ وشجر ہیں خمیدہ کیوں
گلوں کی چاک دامانی کا منظردیکھ کر اکثر
لبوں پر اہل گلشن کی شکایت آہی جاتی ہے
برقی صاحب کی غزل کے مطالعہ کے بعد ذہن میں دو سوال ابھرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ انھوں نے اپنی غزلیہ شاعری میں غزل کے روایتی مضامین یعنی عشقیہ معاملات و واردات سے اتنا مکمل احتراز کیوں برتا ہے؟ دوسرے یہ کہ ان مضامین کی کمی کو انھوں نے کس طرح پورا کرنے کی کوشش کی ہے؟ پہلے سوال کا جواب تو شاید برقی صاحب خود بھی نہ دے سکیں حالانکہ روایتی مضامین کے نہ باندھنے سے خود اُن کی شاعری کو کسی فائدہ کے بجائے نقصان پہنچا ہے کیونکہ اس طرح انھوں نے اپنے اوپر مضامین کا میدان نہایت تنگ کردیا ہے اور سامنے کے مضامین نیز یکسانیتِ زبان و بیان کو کلام میں کھل کھیلنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ احتراز صاحب موصوف کی زود گوئی اور بسیار گوئی کا شاخسانہ ہے۔ وہ غزل کا مطلع کہتے ہیں تو ان کی زود گو طبیعت اسی رنگ میں دوسرے اشعار بے تکان موزوں کرنے لگتی ہے اور پھر اس دَریا کی روانی کسی اور خیال یا بندش کو خاطر میں نہیں لاتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے غزل مکمل ہو جاتی ہے اور برقی صاحب کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ زیر تصنیف غزل کے مضامین سے ملتے جلتے مضامین وہ اور بہت سی غزلوں میں باندھ چکے ہیں۔ زود گوئی اور بسیار گوئی کا ایک لاحقہ یہ بھی ہے کہ شاعر اپنے کلام پر نظر ثانی کے توسط سے خود احتسابی کرنے میں کمزور ہوتا ہے۔ غزل کہہ کر اس کی زودپسند طبیعت اُس کی اشاعت اور ابلاغ کو دوسری باتوں پر ترجیح دیتی ہے اور اس طرح یہ صورت حال غزل دَر غزل قائم رہتی ہے۔
زیرنظر کتاب کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ برقی صاحب نے روایتی غزلیہ مضامین کے فقدان کا علاج دو طرح سے کرنے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کی ہے۔ غزل مسلسل برقی صاحب کے اس اقدام کا پہلا عنصر ہے۔ موصوف کی بیشتر غزلیں شروع سے آخر تک ایک ہی رنگ اور تقریباً یکساں مضامین کے مختلف پہلو اجاگر کرتی ہیں گویا ان کی غزلوں میں مسلسل غزل کا رنگ بہت نمایاں ہے۔ اس موضوع پر ان کے ساتھ گفتگو سے راقم الحروف نے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ ان کی غزل کا یہ رنگ غیر اختیاری ہے اور غزل کہتے وقت خود بخود مرتب ہوتا جاتا ہے یعنی وہ دانستہ غزل مسلسل نہیں کہنا چاہتے ہیں بلکہ ایسا غیر شعوری طور پر نا دانستگی میں ہو جاتا ہے۔ یقیناًیہ صورت حال بھی ان کی زود گوئی کی وجہ سے ہے جس کا قدرے مفصل بیان آگے آئے گا۔ جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے غزل شروع کرتے ہی ان کی زود گو طبیعت شعر گوئی کی باگ تھام لیتی ہے اور تقریباً بے اختیاری کے عالم میں غزل مکمل ہوجاتی ہے۔ ایسی غزل مسلسل کی دو مثالیں دیکھیے۔ یہ رنگ تغزل پوری کتاب میں نظر آتا ہے۔ یہ کہناغلط نہیں ہوگا کہ مسلسل غزل کی یہ یکسانیت غزل کی اثر پذیری کم کرتی ہے اور اس پر اتنی شدت اور التزام سے عمل نہیں ہونا چاہیے تھا۔
مُجھ کو ہنس ہنس کر رُلایا دیر تک
چین پھر اُس کو نہ آیا دیر تک
آنے والا تھا حریمِ ناز میں
مُنتظر تھا میں نہ آیا دیر تک
تھا بہت صبر آزما یہ انتظار
بارِ ناز اُس کا اُٹھایا دیر تک
آتشِ سیال تھا میرا لہو
میرا خوں اُس نے جلایا دیر تک
میں ورق اُس کی کتابِ حُسن کا
چاہ کر بھی پڑھ نہ پایا دیر تک
ایک یادوں کا تسلسل تھا جسے
میں نہ ہرگز بھول پایا دیر تک
حالِ دل برقی کا تھا نا گُفتہ بِہ
سر پہ چھت تھی اور نہ سایا دیر تک
غزل مسلسل کی ایک اور مثال درج ذیل ہے۔ ایک ہی مضمون کے مختلف پہلو بیان کرنے میں برقی صاحب کی مشاقی میں شبہ نہیں لیکن ایک حد کے بعد اچھی چیز کے حسن میں بھی کمی محسوس ہونے لگتی ہے۔
خانۂ دل میں تھے مہماں آپ تو ایسے نہ تھے
کردیا کیوں اِس کو ویراں آپ تو ایسے نہ تھے
آپ توافسانۂ ہستی کا عنواں تھے مرے
دیکھ کر اب ہیں گریزاں آپ تو ایسے نہ تھے
توڑ ڈالا زندگی بھر ساتھ دینے کا بھرم
کیا ہوئے وہ عہد و پیماں آپ تو ایسے نہ تھے
میرے دل میں کچھ نہیں ہے بھول جائیں آپ بھی کس لیے ہیں اب پشیماں آپ تو ایسے نہ تھے
آپ کے لب پر ہے آخر آج کیوں مُہرِ سکوت
سازِ دل پر تھے غزل خواں آپ تو ایسے نہ تھے
کیف و سرمستی کا ساماں آپ تھے میرے لیے
مثلِ آئینہ ہیں حیراں آپ تو ایسے نہ تھے
کچھ بتائیں تو سہی اِس بدگمانی کا سبب
کیوں ہیں اب برقی سے نالاں آپ تو ایسے نہ تھے
غزل کے روایتی موضوعات سے احتراز کے علاج کا دوسرا عنصر برقی صاحب کی وہ کوشش ہے جو ہر مضمون، ہر بیان اور ہر جذبہ کو ایک شخص واحد کے حوالے سے پیش کرتی ہے۔ یہ شخص واحد خود برقی صاحب ہیں۔ ان کی بیشتر غزلوں کا مرکزی کردار خود اُن کی ذات ہے۔ اگر یہ نکتہ ذہن میں رکھ کر اُن کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو یہ ظاہر ہو جائے گا کہ ان کی غزل انھی کی شخصیت کے اِردگرد گھومتی ہے اور اس کا ظاہر و باطن انھی کی ہستی ہے۔ کیا برقی صاحب اپنی غزل کو اس کی روایت سے الگ کر کے ان کوششوں سے ایک نیا روپ یا آہنگ دے سکے ہیں؟ یہ مسئلہ غور و فکر کا طالب ہے۔ اس تناظر میں ’’روح سخن ‘‘ کا مطالعہ دل چسپی سے یقیناً خالی نہیں ہے۔
برقی صاحب کا رنگ تغزل ان کی چھوٹی بحر کی غزلوں میں نکھر کر ظاہر ہوتا ہے۔ انھیں کم سے کم الفاظ میں اپنا مطلب بیان کرنے کا ہنر بخوبی آتا ہے۔ چونکہ موصوف نے فارسی زبان میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے اس لیے انھیں فارسی پر عبور حاصل ہے اور وہ تراکیب کے استعمال سے پوری طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اٹھاتے بھی ہیں۔ فارسی کی استعداد سے وہ مزید کام لے سکتے تھے لیکن ان کی چھوٹی بحر کی غزلوں میں تراکیب کم ہی نظر آتی ہیں۔ اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ برقی صاحب نے ایسی غزلوں میں خود کو آسان اور سامنے کے مضامین تک محدود رکھا ہے۔ وہ ایسے مضامین کو باندھنے پر مجبور بھی ہیں کیونکہ غزل کے عام اور معروف مضامین سے تقریبا مکمل پرہیز نے ان پر مضامین کا میدان بہت تنگ کر دیا ہے۔ غزل میں روایتی مضامین کا ایک عظیم ذخیرہ موجود ہے اور شاعروں کی بڑی اکثریت انھیں اپنے اپنے انداز میں باندھ کر اپنی غزل کے دامن میں وسعت پیدا کرلیتی ہے۔ برقی صاحب کے یہاں مضامین کی یکسانیت نظر آتی ہے جو بعض اوقات قاری کی عدم توجہ اور عدم دل چسپی کا سبب بن جاتی ہے۔ مضامین کی اس یکسانیت کے باوجود شاعر موصوف جا بجا اپنی شعر گوئی کی خداداد صلاحیت سے جذبات کا جادو جگاتے ہیں۔ سیدھے سادے انداز میں گہری بات کہہ دینا اور آسان اور عام فہم الفاظ میں قاری کے دل کو چھو لینا آسان کام نہیں ہے۔ برقی صاحب یہ ہنر خوب جانتے ہیں۔ چھوٹی بحروں کے درج ذیل چند اشعار ان کی قادرالکلامی کی دلیل ہیں:
دل کی ویرانی کبھی دیکھی ہے کیا
یہ پریشانی کبھی دیکھی ہے کیا
میری چشم نم میں جو ہے موج زن
ایسی طغیانی کبھی دیکھی ہے کیا
آئینہ میں شکل اپنی دیکھ کر
ایسی حیرانی کبھی دیکھی ہے کیا
رسم الفت کو نبھا کر دیکھو
دل سے اب دل کو ملا کر دیکھو
جو تمھیں ہم سے الگ کرتی ہے
تم وہ دیوار گرا کر دیکھو
بوجھ ہو جائے گا دل کا ہلکا
خود ہنسو اور ہنسا کر دیکھو
بدگمانی کا نہیں کوئی علاج
ہم کو نزدیک سے آکر دیکھو
میں نہ آؤں تو شکایت کرنا
پہلے تم مجھ کو بلا کر دیکھو
کیوں ہو برقی سے خفا کچھ تو کہو
تم اسے ا پنا بنا کر دیکھو
بہت رفتار تھی یوں تو ہوا کی
مری شمعِ وَفا پھربھی جلا کی
میں جس سے کر سکوں عرض تمنا
ضرورت ہے اسی درد آشنا کی
ہے شیوہ جس کا برقی بے وفائی
توقع اس سے کیا مہر و وَفا کی
دیدہ و دل ہیں فرشِ راہ مرے
تجھ کوبھی انتظار ہے کہ نہیں
مجھ سے باتیں اِدھر اُدھر کی نہ کر
یہ بتا مجھ سے پیار ہے کہ نہیں
منتظر کب سے ہے ترا برقی
تجھ کو کچھ پاسِ یار ہے کہ نہیں
جہاں فطرت فیاض نے برقی صاحب کو ذوق سلیم اور طبع موزوں سے متصف کیا ہے وہیں انھیں زود گوئی کی صلاحیت بھی عطا کی ہے۔ برقیؔ صاحب کی شعر گو ئی بھی ان کے تخلص کی مناسبت سے برق رفتار ہے۔ وہ شعر اس قدر تیزی سے کہتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ’’فی البدیہہ مشاعروں‘‘ میں اکثرشرکت کرتے ہیں اور سب سے پہلے غزل کہہ کر ہاتھ جھاڑتے ہوئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ برسوں کی مشق کے بعد اب ان کی زودگوئی کی یہ کیفیت ہے کہ برقی صاحب کے یہاں وقت، موقع، تقریب، جشن، محفل کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔کوئی تقریب یا محفل ہو، کیسا ہی موقع یا جشن ہو وہ جب چاہیں، جس وقت چاہیں، جس قدر چاہیں اور جس موضوع پر چاہیں فی البدیہہ ایک شعر کے بعد دوسرا شعر بلکہ پوری پوری غزلیں یا طویل نظم کہنے پر مکمل قدرت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اب شعر گوئی ان کی عادت میں داخل ہو گئی ہے اور ان کے لیے شعر کہنا یا کوئی واقعہ یا حادثہ نظم کرنا نثر لکھنے کے مقابلہ میں بدرجہا آسان ہے۔ چنانچہ ان کے پاس ’’موضوعاتی شاعری‘‘ کا ایک ایسا بہت بڑا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے جو انھوں نے اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات کے انگیز کرنے پر کی ہے۔ اس شاعری میں سیاسی، سماجی، مذہبی، اخلاقی غرضیکہ ہر موضوع پر چھوٹی یا بڑی نظم یا قطعہ نہایت چابک دستی اور شستگی سے نظم کیا گیا ہے۔ ان کی اس موضوعاتی شاعری کا ایک حصہ زیر نظر کتاب ’’روحِ سخن‘‘ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اتنے مختلف اور متنوع موضوعات پر یہ منظومات برقی صاحب نے بلا تکان و تکلف کہی ہیں اور یہ ان کے فن کے کمال کی مکمل عکاسی کرتی ہیں۔ موضوعاتی شاعری نہ صرف یہ کہ آسان نہیں ہے بلکہ یک گونہ خطرناک بھی ہے کیونکہ ذرا سی لا پروائی یا تساہلی سے موضوعاتی شاعری رنگ بدل کر ’’فضولیاتی شاعری‘‘ بن سکتی ہے۔ برقیؔ صاحب جس طرح اس خطرے سے دامن بچا کر نکل گئے ہیں اس سے ان کی دقت نظر اور شاعرانہ مہارت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
یہاں زود گوئی کے حوالے سے چند باتیں کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ زود گوئی صرف ایک قسم کی نہیں ہوتی۔ ایک زود گوئی تو وہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے غزل کے مضامین میں گہرائی اور گیرائی کم ہوجاتی ہے، اشعار میں زبان و بیان و مضامین کی یکسانیت دَر آتی ہے اور بعض اوقات کسی غزل پر یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ اس سے قبل نظر سے گزر چکی ہے۔ ایسی زود گوئی سے دامن بچانا مشکل ضرور ہے لیکن ایک ماہر اور صاحب فن شاعر کے لیے نا ممکن نہیں ہے۔ برقیؔ صاحب کی یہ زود گوئی اختیاری ہے۔ وہ حسب فرمائش جب کہیے ہر موضوع پر داد سخن دے سکتے ہیں اور دیتے ہیں۔ اُن کی زود گوئی ان کی غزل گوئی میں بھی دَر آئی ہے چنانچہ کئی زمینوں میں برقیؔ صاحب نے دو غزلے کہے ہیں۔ ویسے بھی ان کی عام غزل خاصی طویل ہوتی ہے۔ اختیاری زود گوئی میں ایک بڑا نقص یہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات اس کے ساتھ بسیار گوئی کا لاحقہ بھی لگا ہوتا ہے گویا زود گو ئی اور بسیار گوئی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔جو شاعر زود گو ہو گا وہ تقریباً ہمیشہ بسیار گو بھی ہوتا ہے۔ زود گوشاعر شعوری طور پر اگربسیار گو نہ بھی ہو تو غیر شعوری طور پر اس کی زود گوئی اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ شعر کے بعد شعر کہتا جائے گویا اس کی زودگو طبیعت شعر گوئی کا جو سوتا کھول دیتی ہے وہ فطری طور پر ایک دریا میں تبدیل ہو سکتا ہے اور شاعر اس میں بہنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔ بذات خود نہ تو زود گوئی میں کوئی برائی ہے اور نہ ہی بسیار گوئی کوئی عیب ہے۔ البتہ زود گوئی تو خطرناک نہیں ہوتی لیکن بسیار گوئی تقریبا ہمیشہ ہی خطرناک ہوتی ہے کیونکہ بسیار گو شاعر اپنی دُھن میں سامنے کے مضامین اور اچھے مضامین میں تمیز نہیں کر سکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کی شاعری بھرتی کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے۔
زود گوئی کی دوسری قسم غیر اختیاری ہے۔ اس کو علامہ اقبال کی شعر گوئی کے حوالے سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ علامہ موصوف کی شعر گوئی کے بارے میں بانگ دِرا کے دیباچہ نگار جناب شیخ عبدالقادرنے اپنے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’’ (اقبالؔ ) شعر کہنے کی طرف جس وقت مائل ہوتے تو غضب کی آمد ہوتی تھی۔ ایک ایک نشست میں بے شمار اشعار ہو جاتے تھے۔ ان کے دوست اور بعض طالب علم جو پاس ہوتے پنسل کاغذ لے کر لکھتے جاتے اور وہ اپنی دُھن میں کہتے جاتے۔ میں نے اس زمانے میں انھیں کبھی کاغذ قلم لے کر فکر سخن کرتے نہیں دیکھا۔ موزوں الفاظ کا ایک دریا بہتا یا ایک چشمہ اُبلتا محسوس ہوتا تھا۔ ایک کیفیت رِقّت کی عموماً ان پر طاری ہوتی تھی، اپنے اشعار سُریلی آواز سے ترنم میں پڑھتے تھے، خود وجد کرتے اور دوسروں کو وجد میں لاتے تھے۔‘‘ آگے چل کر شیخ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ’’بایں ہمہ موزونی طبع وہ (اقبال) حسب فرمائش شعر کہنے سے قاصر ہے۔ جب طبیعت خود مائل بہ نظم ہو تو جتنے شعر چاہے کہہ دے، مگر یہ کہ ہر وقت اور ہر موقع پر حسب فرمائش وہ کچھ لکھ سکے یہ قریب قریب ناممکن ہے۔‘‘
علامہ اقبالؔ کی زود گوئی غیر اختیاری تھی یعنی وہ ایک قسم کی کیفیت قلب تھی جو اُن پر کسی کسی وقت طاری ہو جاتی تھی۔ ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ جب چاہیں یہ کیفیت اپنے اوپر طاری کرلیں اور شعر کہنا شروع کردیں۔ کسی دوست یا عزیز کی فرمائش پر غزل یا نظم کہنا اُن کے لیے تقریباً نا ممکن تھا۔ دوسرے الفاظ میں ہم غیر اختیاری زودگوئی کو آمد کہہ سکتے ہیں۔
یہاں کسی سطح پر بھی علامہ اقبال اور برقی صاحب کا تقابل مطلق مقصود نہیں ہے بلکہ زود گوئی کی مختلف قسموں کی نشان دہی اور شناخت دکھانا منظور ہے اور اس کوشش کا مقصد بھی برقی صاحب کی غزل گوئی کے رموز ونکات کو واضح کرنا اور اُن پر دیانتداری سے اظہار خیال ہے۔ ادبی تنقید ایک صحت مند عمل ہے اور اس سے کسی کی تنقیص کبھی مقصود نہیں ہوتی۔ یہاں بھی یہی ادبی محرک کار فرماہے۔
’’روح سخن‘‘ اپنی جملہ خوبیوں کی وجہ سے دنیائے اردو میں تحسین کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ نگاہ نکتہ چیں کو اس میں ایسے مقامات بھی نظر آئیں گے جن کی اصلاح کتاب کو بہتر بنا سکتی تھی لیکن یہ تو ہر انسانی کوشش کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اس کیفیت کی ایک صورت کی جانب مختصر اشارہ کرنے میں حرج نہیں ہے۔ شعر کو شاعر کی معنوی اولاد کہا جاتا ہے اور ہر شاعر کو اپنا کلام عزیز ہوتا ہے۔ اس کے لیے اپنے پورے کلام میں سے بہتر کلام کا انتخاب کرنا کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا کیونکہ اس کام میں ایک شعر کو دوسرے پر ترجیح دینی ضروری ہے۔ یہ کلیہ برقی صاحب پر بھی صادق آتا ہے۔ وہ بھی ’’روح سخن‘‘ کی ترتیب و ترویج میں خود احتسابی کے صبر آزما مرحلے سے ہمیشہ کامیابی سے نہیں گزر سکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ کتاب کی اشاعت کے لیے غزلوں کے انتخاب میں خود احتسابی کا سخت ترین معیار اختیار کرتے اور اس طرح اس کا معیار بلند کرتے۔ لیکن وہ ہمیشہ ایسا نہ کر سکے ہیں چنانچہ دو چار مقامات پر ان کی غزلوں میں ایسے اشعار دَرآئے ہیں جو معیار کے لحاظ سے بہت کمزورہیں۔ اچھی خاصی غزل میں ایسے اشعار قاری کے لیے ایک لمحۂ فکریہ بن جاتے ہیں۔ چند مثالیں دیکھیے:
دیارِ شوق میں تنہا بلاکے چھوڑ دیا
حسین خوابِ محبت دکھا کے چھوڑدیا
کیاتھا وعدہ نبھانے کا رسم الفت کا
دکھائی ایک جھلک مسکرا کے چھوڑ دیا
’’رہا نہ گھر کابالآخر نہ گھاٹ کا برقی ‘‘
وہ آزماتا رہا، آزما کے چھوڑ دیا
مقطع کے پہلے مصرع کے صحیح سیاق وسباق کوذہن میں رکھا جائے تو اس کا جواز غزل میں نظر نہیں آسکتا۔ زیادہ حدِاَدب! اگلی مثالوں میں بھی قابل غورحصہ کو ’’۔۔۔۔‘‘ سے مقید کر دیا گیا ہے۔
دَرِ دل کھلا ہے چلے آئیے
یہ بے جا تکلف نہ فرمائیے
میں ہوں آپ کو دیکھ کر دم بخود
کہاں ہوں مجھے خود سے ملوائیے
’’ضیافت کے ساماں ہیں سب آپ کے
جو جی چاہے وہ پیجیے کھائیے‘‘
جلوہ گاہ خوباں میں جب کبھی وہ آتے ہیں
بارِ ناز سب ان کا شوق سے اٹھاتے ہیں
دل پہ اہل دل کے وہ بجلیاں گراتے ہیں
زیر لب ہمیشہ وہ جب بھی مسکراتے ہیں
’’دو ہزار گیارہ تھا جیسے وعدۂ فردا‘‘
سالِ نو میں بھی دیکھیں کیا وہ گل کھلاتے ہیں
برقی صاحب کے یہاں اچھے اشعار کی کمی نہیں ہے۔ ان سے موصوف کی شاعری کا حسن مزید بڑھ گیا ہے۔ اگر وہ اپنے کلام کے حق میں جذباتیت سے کام نہ لیتے تو اس حسن و قیمت میں اور بھی اضافہ ہوتا۔ بایں ہمہ برقی صاحب کی شاعری ایک حساس صاحب دل اور ماہر فن کی شاعری ہے۔ اُردو شاعری میں برقی صاحب نے اب تک جو مقام حاصل کیا ہے مستقبل میں اس میں ترقی یقینی ہے۔ اس ضمن میں ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔ درج ذیل اشعار موصوف کی مہارت سخن اور صلابت فکر کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں:
نہ تو ملتا ہے وہ مجھ سے، نہ جدا ہوتا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہوتا ہے
جب نہیں دیتا دَرِ دل پہ وہ دستک برقی
کیا بتاؤں میں تمھیں ایسے میں کیا ہوتا ہے
جاتا ہے مجھ کو چھوڑ کے اے بے خبر کہاں
’’تیرے بغیر رونقِ دیوار و دَر کہاں‘‘
پھر وہی شدتِ جذبات کہاں سے لاؤں
جیسے پہلے تھے وہ حالات کہاں سے لاؤں
منتشر ہو گئے اَوراقِ کتابِ ہستی
ساتھ دیتے نہیں حالات کہاں سے لاؤں
داستاں ایسی ہے جس کا نہیں عنواں کوئی
مجھ سا دُنیا میں نہیں بے سرو ساماں کوئی
سوچتا ہوں کچھ کہوں، پھر سوچتا ہوں کیا کہوں
اپنے آگے وہ کسی کی مانتا کچھ بھی نہیں
’’روحِ سخن‘‘ اُردو غزلیہ شاعری میں ایک بیش بہا اضافہ ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ برقی صاحب کی شاعری غزل میں نئے تجربوں کی طرف اچھی پیش قدمی ہے۔ ان کا اگلا قدم شاید اس شعور معرفت کی اگلی منزل کی طرف بڑھے گا جس کا انھوں نے اپنے اس خوب صورت شعر میں اشارہ کیا ہے۔ برقی صاحب کی یہی موعودہ خودشناسی اردو شاعری میں ان کے مقام کی ضامن ہو گی.
شعورِ معرفت مضمر ہے برقی خود شناسی میں ’’خودی کا رازداں ہو جا، خدا کاترجماں ہو جا‘‘
***
برقی اعظمی کے تعلق سے یہ بھی پڑھیں:ڈاکٹراحمد علی برقی اعظمی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے