یہ سید کام کرتا ہے

یہ سید کام کرتا ہے

فخرالدین بَلّے: ادب اور ثقافت کی ایک متحرک شخصیت
( 6اپریل1930 _ 28۔جنوری2004)

انتظار حسین
(بہ معرفت ظفر معین بلے) 
فخر الدین بلّے بڑی متحرک قسم کی شخصیت تھے۔ جتنا بھی ان کے متعلق سنا، جانا اور دیکھا، انھیں سرگرم ِعمل ہی پایا۔ بظاہر سرکاری ملازمت کر رہے تھے مگر سرکاری ملازمت کو انھوں نے قومی فریضہ کی ادائیگی سے عبارت جانا۔ ہماری قومی زندگی میں جو شعبہ سب سے زیادہ توجہ کا محتاج تھا اور جس کی اہمیت کا کم لوگوں کو احساس تھا، اسے ہی انھوں نے اپنی سرگرمی کا میدان بنایا۔ یہ ادب، فنون اور تہذیب کا شعبہ تھا۔
انھوں نے لاہور سے دور کے مقامات پر جا کر بھی فنون کے لیے بہت کام کیا۔ خاص طور پر تھیٹر پر ان کی توجہ تھی. اس کا تھوڑا تجربہ مجھے بھی ہے۔میرا ان سے ربط و ضبط ویسے تو بہت کم تھا مگر اتفاق ایسا ہوا کہ لاہور میں جب وہ سوشل ویلفیئر کے محکمہ سے وابستہ تھے تو وہ اسی محلہ میں آکر رہے، جہاں پہلے سے میرا بسیرا تھا۔ تو جتنے عرصے وہ اس محلہ میں رہے، اتنے عرصے میری ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں. اسی دوران انھوں نے سوشل ویلفیئر کے حساب سے تھیٹر کو فروغ دینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ تھیٹر کے ذریعہ سوشل ویلفیئر کے مقاصد کو پروان چڑھانے کا منصوبہ، اس سلسلہ میں انھوں نے مجھے ڈراما لکھنے پر اکسایا۔ میں نے سوچا کہ لاہور میں چونی والا تھیٹر تو زور شور سے چل رہا ہے لیکن بامعنی سنجیدہ تھیٹر کی سرگرمی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیا مضائقہ ہے کہ میں اپنی اس بھولی ہوئی سرگرمی کو یاد کروں اور کوئی ایسا اسٹیج پلے لکھوں، جو فنی اعتبار سے بھی معیاری سمجھا جائے اور کوئی سماجی مقصد بھی پورا کرتا نظر آئے۔ بہرحال میں نے اس عزیز کی تحریک پر ایک سٹیج پلے لکھا۔ ایک نامور سٹیج ڈائریکٹر سے معاملہ بھی طے پاگیا۔ مگر وہی ہوا جو ہمارے یہاں اکثر ایسے معاملات میں ہوتا چلا آیا ہے۔ بلے نے مجھے بتایا کہ ہم نے تو انھیں ڈائریکٹ کرنے کی فیس اور جملہ اخراجات کے پیش نظر رقم بھی ادا کر دی تھی مگر اس کے چراغوں میں روشنی نہ رہی. سکرپٹ بھی گیا اور بلے صاحب نے لاہور میں تھیٹر کے فروغ کا جو منصوبہ اس طرح بنایا تھا کہ اس سے سماجی مقاصد بھی پورے ہوتے نظر آئیں، وہ بھی دھرے کا دھرا رہ گیا۔
ملتان اور راولپنڈی میں جا کر انھوں نے اس مقصد میں زیادہ کامیابی حاصل کی۔ اصل میں ان میں ایک ایسا وصف تھا، جس کی وجہ سے وہ حالات کی ناسازگاری کے باوجود کسی نہ کسی طور کامیابی حاصل کرلیتے تھے. جس واقعہ کا میں نے ابھی ذکر کیا، ایسے تجربے سے گزرنے کے بعد آدمی مایوس اور بد دل ہو جاتا ہے اور یوں اس کے سارے عزائم ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ بلے صاحب ایسے تجربوں سے پہلے بھی ضرور گزرے ہوں گے کیونکہ ہمارے یہاں فضا ہی کچھ اس قسم کی ہے مگر وہ ہمت نہیں ہارتے تھے۔ لاہور میں وہ اپنے منصوبے کو پروان نہ چڑھا سکے تو ملتان، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں جا کر انھوں نے حالات کو زیادہ ساز گار پایا اور اپنے ارمان پورے کیے۔
جن کے اندر کوئی لگن ہوتی ہے، ان میں ایک یہ صفت بھی ہوتی ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں انھیں وہ اس طرح برتتے ہیں کہ ان کی لگن کی تسکین کی صورت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ بلے صاحب میں یہ صفت بہر حال تھی۔ انھوں نے کس طرح ملازمت کی کہ ملازمت والے فرائض بھی پورے کیے اور جس کام کی انھیں چیٹک لگی ہوئی تھی، اسے بھی ملازمت کے ذریعہ پروان چڑھانے کا کام لیا۔ پھر ساتھ میں شاعری بھی کی، جتنی شاعری کی، اس کے ساتھ انصاف کیا۔ اس پر ان کا علمی کام مستزاد۔
مختصر یہ کہ اس ملک کو سب سے بڑھ کر ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے، جو اپنے آپ کو کسی بھلے کام کے لیے وقف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں مگر پاکستان میں اس نام کی مخلوق عنقا ہے۔ بلے صاحب نے اس ملک کے تہذیبی فروغ کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا، اپنی حد تک انھوں نے یہ کام جوش و جذبے کے ساتھ انجام دیا۔ ان کے اس جذبے اور اس کام کی ہمیں قدر کرنی چاہئے۔
نام نیک رفتگاں ضائع مکن
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب: انتظار حسین کی افسانہ نگاری (تبصرہ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے