مجھے ایک گالی ایجاد کرنی ہے

مجھے ایک گالی ایجاد کرنی ہے

احمد نعیم
(موت ڈاٹ کام مالیگاوں بھارت)
(ہمارے عہد میں گالیوں کا چلن اس قدر بڑھ گیا ہے کہ قانون ساز اداروں میں قانون ساز حضرات ایک دوسرے کو گالی دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہے ہیں. بابائے قوم بھی گالیوں کی زد پہ ہیں اور پیر پیغمبر بھی….. ہیش ٹیگ بھی کبھی کبھی گالی بن جاتی ہے. گالی بھی تشدد اور نفرت کے کھیت کی فصل ہے…. جس سے کم زور کو مزید کم زور کرنے اور بھڑکانے، اکسانے اور تحقیر کرنے کا کام کیا جارہا ہے…. ایسے میں اگر کوئی ادیب و فن کار یہ خواہش ظاہر کرے کہ اسے گالی ایجاد کرنی ہے تو آپ کا متوجہ ہونا لازمی ہے…. یاد رہے کہ گالی الفاظ کی حرمت کی پامالی بھی ہے… الفاظ کی حرمت کا تحفظ ادیب و شاعر کی اولین ذمہ داری میں شامل ہے… زیر نظر نظم کے خالق احمد نعیم الفاظ کی بے حرمتی سے اضطراری کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں. انھیں اپنے وجود کی بھی فکر ہے… ان کے وجود کو خطرہ اس لیے لاحق ہے کہ سیاسی و سماجی مسائل کا سانپ بڑھا چلا آرہا ہے، سیلاب امڈتا چلا آرہا ہے… احمد نعیم وجودی فلسفہ پسند ہیں، ان کی تخلیقات اور تخلیقی ترجیحات میں وجودی فکشن و شاعری رچی بسی ہے… اس نظم میں وہ ہوا ہوائی نہیں چھوڑتے بلکہ جب وہ کہتے ہیں کہ گالی کی ابجد کو تبدیل کرنا ہے تو وہ گہری معنویت پیدا کردیتے ہیں… سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ زبان کے ارتقا کے سفر میں ہونے کا ذکر کرکے اپنی ذات سے نکل کر اس معاشرے اور سماج کے نمایندہ بن جاتے ہیں جو محبت، اخوت، بھائی چارہ اور ہم دردی کا شدید قایل ہے…طیب فرقانی) 

مجھے ایک گالی ایجاد کرنی ہے
جس میں کسی انسان کے
کسی صنف کے
کسی اعضا کی ہتک نہ ہو
ایک ایسی گالی میں ایجاد کرنا چاہتا ہوں
جس میں نہ نفرت ہو
نہ کراہت کا احساس ہو
اور نہ دکھ ہو
کیا صدیوں سے چلی آرہی گالی کی ابجد کو تبدیل کرسکتے ہیں؟؟؟؟؟
مجھے ایجاد کرنی ہے ایک بےحد گندی گالی
جسے زبان سے ادا کرتے ہوئے
کسی بھی اعضا کی ہتک نہ ہو
میں ابھی لفظوں کے ارتقا کے سفر میں ہوں
***
احمد نعیم کی یہ نظم بھی ملاحظہ فرمائیں : اک نظم جو ماچس نہ بن سکی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے