اردو کا محسن : وقار رضوی

اردو کا محسن : وقار رضوی

اویس سنبھلی

کرونا وائرس کی عالمی وبا ہندوستان میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہے، جس کے باعث اب تک ملک میں کروڑوں افراد متاثر اورکئی لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ وبا پورے ملک میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس سے نہ صرف عام لوگ متاثرہورہے ہیں بلکہ ملک کے ارباب علم و دانش بھی بہت تیزی سے اس کا شکار ہورہے ہیں۔ اب تک سینکڑوں کی تعداد میں علمی و ادبی شخصیات میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں سے سو سے زیادہ جان کی بازی بھی ہارگئے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ملازمین پر تو یہ وبا قہر بن کر ٹوٹی ہے۔ اب تک ۵۰؍کے قریب اساتذہ و دیگر ملازمین اس وائرس کا شکار بن کر داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں۔
کووڈ پینڈامک میں ہم نے اپنی کئی علمی و ادبی شخصیات کو کھویا ہے جن میں ایک طرف ملت اسلامیہ کے قائدین تو دوسری جانب اردو ادب کی اہم شخصیات شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سی شخصیات ایسی تھیں جنھیں ابھی کئی نسلوں کی رہبری کرنی تھی ۔درحقیقت یہ ایک بہت بڑا خسارہ ہے جس کے لیے علمی و ادبی دنیا ابھی تیار نہیں تھی۔ہمیں امید ہے کہ یہ سب اپنے رب کے یہاں بہترین مقام پر ہوں گے اور جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔ لیکن ان شخصیات کی یکے بعد دیگرے رحلت ہمارے لیے بہت بڑے خسارے کا باعث بن چکی ہے۔ شہر نگاراں لکھنؤ میں بھی اس وبا نے بہت سے اپنوں کو جدا کردیا ہے۔ یوگیش پروین،عشرت لکھنوی، وجاہت فاروقی ، احسن اعظمی، عشرت لکھنؤی ،مہتاب حیدر صفی پوری، اجے سنگھ جیسی اہم شخصیات اپریل کے مہینے میں رخصت ہوگئیں ۔
رمضان المبارک کی ۲۷؍ویں شب تھی نماز فجر سے فارغ ہوکر موبائل دیکھا تو برادربزرگ محترم ہارون نعمانی کا میسج تھا کہ ’’روزنامہ اودھ نامہ کے گروپ ایڈیٹر وقار رضوی صاحب کا ابھی کچھ دیر قبل انتقال ہوگیا۔۔۔اناللہ واناالیہ راجعون۔ خبر سن کر طبیعت پربہت اثر ہوا۔ چند منٹ بعد برادرم موسی رضا کو فون کیا۔۔۔۔موسی نے بھی غمگین لہجہ میں وقار بھائی کے رخصت ہوجانے کی اطلاع دی۔ اللہ تعالیٰ وقار بھائی کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔ آمین۔ لکھنؤ کی ادبی فضا کو اس کا کھویا ہوا ’وقار‘ واپس لاکر دینے والا محسن ’وقار رضوی‘ چلا گیا۔۔۔اور لاکھ کوشش کے باوجود اب یہ’وقار‘ لکھنؤ کو کبھی واپس نہ مل سکے گا۔ لیکن اس کی یادیں ، اس کی باتیں نیز اردو ادب و صحافت کے لیے اس کی خدمات اسے ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔۔۔۔وہ اودھ نامہ کی اردو صحافت کا وقار تھے ۔۔۔۔اودھ کی تہذیب کے نمائندہ ۔۔۔۔اور اردو کے بے لوث خادم۔لیکن ان کی سب سے اہم شناخت ’روزنامہ اودھ نامہ‘ تھی۔
روزنامہ اودھ نامہ کے اردو ایڈیشن کی اشاعت ۲۰۰۱ء سے شروع ہوئی۔ اس اخبار کی تشکیل محترم وقار رضوی کی خواہش پر محترم چودھری سبط محمد نقوی نے کی تھی ۔ چودھری صاحب نے ہی اخبار کے لیے عثمان غنی اور حفیظ نعمانی جیسے بے باک اور کھرے صحافیوں سے لکھنے کی درخواست کی تھی۔ قبل اس کے کہ روزنامہ’ اودھ نامہ‘ اخبار اشاعت پذیر ہوپاتا چودھری صاحب کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور وہ اخبار وقار رضوی کے سپرد کر کے سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ اخبار اس وقت تک منظر عام پرنہیں آیا تھا۔حفیظ نعمانی ایک غیر جانب داراور آزاد صحافی تھے لہٰذا اخبار پر ایک مخصوص فرقے کا غلبہ اورخاص مسلک کی ترویج واشاعت کے خدشہ کے پیش نظر۱۳؍برس تک انھوں نے خود کو اخبار سے الگ ہی رکھا۔لیکن ۲۰۱۳ء میں محترم عالم نقوی کے اصرار پر حفیظ نعمانی اخبار کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل ہو گئے اور اس طرح ان کی گراں قدر تحریریں اخبار کی زینت بننے لگیں۔حفیظ نعمانی نے محترم عالم نقوی سے متعلق اپنے مضمون میں اس سلسلہ کی کچھ روداد لکھی ہے:
’’۔۔۔۔چودھری سبط محمد نقوی مرحوم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ وقار رضوی صاحب اودھ نامہ نکال رہے ہیں، میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ اداریہ حفیظ لکھیں گے۔ پھر ۱۳؍ برس ہوگئے اخبار نکلتا رہا اور میں حکم کی تعمیل نہ کرسکا۔ دو سال ہونے والے ہیں جب عالم نقوی صاحب اخبار کے گروپ ایڈیٹر بن کر آئے اور انہوں نے وہ کرادیا چودھری صاحب کی خواہش تھی کہ میرا ہاتھ وقار رضوی کے ہاتھ میں دے دیا اور وقار صاحب سے کہا کہ اب اخبار کو ہم دونوں بنائیں گے۔ اودھ نامہ کے کھونٹے سے باندھ کر وہ تو کسی مجبوری کی بنا پر علی گڑھ چلے گئے اور میرے ہاتھ میں وقار رضوی کا ہاتھ اور اودھ نامہ کی باگ دے گئے۔۹؍برس پہلے ۲۰۰۴ء میں جو ٹانگ ٹوٹی تھی اس کی وجہ سے میں تو خانہ قید ہوگیا لیکن سید وقار رضوی اپنے کاندھوں پر بٹھاکر نہ جانے کتنی اوپر لے جانا چاہ رہے ہیں؟ میں جو ندائے ملت کے بعد صرف لکھنؤ اور سنبھل تک محدود ہوکر رہ گیا تھا پھر ٹانگ کے بعد سنبھل بھی چھوٹ گیا تھا۔ اودھ نامہ کی بدولت پورے ملک نہیں پوری دنیا میں پڑھا اور پہچانا جارہا ہوں۔
روزنامہ ’اودھ نامہ‘ کے ادارتی بورڈ میں حفیظ نعمانی، پروفیسر شارب ردولوی، فیاض رفعت،عالم نقوی، عبیداللہ ناصر جیسے افراد شامل رہے جن کی تحریروں نے اخبار کو منزل بہ منزل ترقی عطا کی اور عوام میں اخبار کی خوب پذیرائی ہوئی۔
وقار رضوی صاحب سے میری پہلی ملاقات ۲۰۱۳ء میں حفیظ نعمانی صاحب کے گھر پر ہی ہوئی تھی۔ ستمبر ۲۰۱۳ء سے ہی میں نے اودھ نامہ میں لکھنا شروع کیا۔ میں اس بات پرہمیشہ فخر محسوس کرتا رہوں گا کہ مجھے حفیظ نعمانی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔۔۔۔اور حفیظ صاحب کا بھانجہ ہونے کے سبب عالم نقوی، معصوم مرادآبادی، ندیم صدیقی ، سہیل انجم جیسے چوٹی کے صحافی ہمیشہ اپنی بے پناہ محبتوں سے نوازتے رہے اور حوصلہ افزائی کرتے رہے نیز اودھ نامہ کا احسان ہے کہ اس نے اس نااہل کی الٹی سیدھی تحریروں کو اخبار میں مضامین کی شکل میں جگہ دی۔۔۔اسی سے حوصلہ پاکر ۲۰۱۴ء کے الیکشن سے قبل پابندی سے کالم لکھنا شروع کیے۔۔۔ عالم نقوی صاحب مستقل رہ نمائی کرتے رہتے۔۔۔کبھی کبھی بہت غصہ کرتے لیکن پھر سمجھاتے ۔۔۔اس زمانے میں اودھ نامہ کا ادبی صفحہ رضوان فاروقی صاحب تیار کرتے تھے۔۔۔وقار بھائی بس اخبار کے مالک تھے۔۔۔اور ملازمین کو مقررہ دن سے ایک دن قبل تنخواہ دینے کا کام کرتے تھے۔مزاج میں ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب رضوان فاروقی صاحب اخبار سے الگ ہوگئے جب کہ وقار صاحب ایسا نہیں چاہتے تھے ۔اس سلسلہ میں انھوں نے کوشش بھی کی۔ ایک مرتبہ میں خود رضوان بھائی کو لے کر وقار صاحب کے گھر گیا۔۔۔بہت سی باتیں ہوئیں لیکن نتیجہ صفر۔بعض باتوں کو لے کر مجھے بھی وقار بھائی سے اختلاف ہوجاتا لیکن وہ بہت محبت سے اس اختلاف کو ختم کردیتے تھے۔یہ ان کی بڑی خوبی تھی۔
ولایت جعفری صاحب کی کتاب کی اشاعت کے سلسلہ میں وہ کئی مرتبہ پریس آئے ، خود ولایت جعفری صاحب بھی دو بار ان کے ساتھ تھے۔ اس کے بعد سے ہی وقار بھائی کو جب بھی کوئی مشورہ کرنا ہوتا یا اخبار کے سلسلہ میں کوئی اور بات کرنی ہوتی ،وہ پریس آجاتے تھے۔ایک زمانے میں وہ اردو اکادمی سے بہت نالاں تھے ،انھیں اردو اکادمی اور اس کے ذمہ داران سے بہت سی شکایات تھیں۔ان شکایات کے لیے وہ اردو اکادمی کے سکریٹری جناب ایس رضوان کو مجرم اور اس زمانے میں چیرپرسن محترمہ آصفہ زمانی کو بالکل معصوم سمجھتے تھے۔ اس کی مجھے ان سے سخت شکایت تھی ، میں ان سے کہتا تھا کہ تحقیق کے بغیر کوئی رائے قائم نہ کریں۔ اس سلسلہ میں ایک دن وہ پریس آئے اور اس موضوع پر بات ہوئی۔ انھوں نے میری بات مان لی اور بس اتنا کہا کہ رضوان صاحب سے میری ملاقات کرادیجئے۔ یہ میرے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا۔ ایک دن ان کی رضوان صاحب سے ملاقات کرائی اور اس کے بعد معاملات بہتر ہوگئے۔
لکھنؤ اڈیشن کی مقبولیت کے بعد اودھ نامہ کا علی گڑھ ایڈیشن شائع ہوا تو سنبھل کے لیے دو صفحات مختص کیے گئے اور محترم حفیظ نعمانی صاحب کے مشورہ سے برادر بزرگ سعد نعمانی کو سنبھل میں اس کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کے لیے وقار بھائی خود سنبھل گئے۔ اتفاق سے میں بھی سنبھل میں موجود تھا۔وقار بھائی کا قیام حفیظ صاحب کے آبائی گھر پر تھا۔اخبار کے سلسلہ میں سنبھل میں ایک میٹنگ ہوئی ، جس میں سنبھل کی متعدد علمی و ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ بڑی دھوم سے اودھ نامہ کا علی گڑھ ایڈیشن شائع ہوا۔ احسن ایوبی کو علی گڑھ میں اس کی ذمہ داری سونپی گئی اور سنبھل میں محترم سعد نعمانی اس کے ذمہ دار طے پائے ۔سنبھل کے قلم کاروں کو خاص جگہ دی جانے لگی ۔کچھ ہی عرصہ میں اخبار بہت مقبول ہوگیا، لیکن DAVPکی نئی شرائط کے سبب اخبار کو جاری رکھ پانا ممکن نہیں تھا لہٰذا علی گڑھ اڈیشن بند کرنا پڑا۔عالم نقوی صاحب علی گڑھ منتقل ہوگئے، فیاض رفعت صاحب اور پھر اس کے بعد عبید اللہ ناصر صاحب نے اخبار کو سنبھالا۔ حفیظ نعمانی صاحب کے انتقال کے بعد ،کورونا نے ایسے پیر بھیلائے کے اخبار کی اشاعت آن لائن(ای پیپر) تک محدود رہ گئی۔وقار بھائی اسے دوبارہ پٹری پر لانے کی کوشش کرتے رہے کہ کرونا نے انھیں ہی اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ ہمیشہ کے لیے موت کی آغوش میں سوگئے۔
وقار بھائی ایک بہت ہی بااخلاق ، خوش مزاج اور ملنسار انسان تھے۔۔۔ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی۔۔۔۔گذشتہ دس برسوں میں لکھنؤ کی ادبی سرگرمیوں کا اگر جائزہ لیا جائے گا تو اس عرصہ کی سب سے متحرک شخصیت محترم وقار رضوی صاحب کی نکل کر سامنے آئے گی۔ وہ چین سے بیٹھنا جانتے ہی نہیں تھے۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی پروگرام ان کے پیش نظر رہتا ۔آئے دن کوئی نہ کوئی ان کا ایک دعوت نامہ ملتا ، کسی کتاب کی رسم اجراء، کسی شخصیت کی لکھنؤ آمد پر اس کاپرزور استقبال ، کبھی سمینار تو کبھی کانفرنس کا انعقاد۔۔۔۔۔یعنی انھوں نے اپنی کوششوں سے لکھنؤ کو ایک مرتبہ پھرادبی مرکز بنادیا تھا۔ اودھ نامہ نے ادبی خبروں کو اہتمام سے شائع کرنا شروع کیا، مختلف شخصیات پر خصوصی نمبر نکالے ۔ یہ سب ان کی اردو سے محبت کا نتیجہ تھا۔
پروفیسر شارب ردولوی اور ڈاکٹر عمار رضوی کی سرپرستی انھیں پہلے دن سے حاصل رہی، جس سے قدم قدم پروقار بھائی نے استفادہ کیا اور سنبھل سنبھل کر قدم آگے بڑھاتے گئے۔ یہی سبب ہے کہ لکھنؤ میں ان سے اختلاف کرنے والوں کی تعداد محض انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے لیکن ان سے محبت کرنے والوں کی تعداد کا شمار کرپانا بہت مشکل ہے۔وقار بھائی ایک اردو دوست شخصیت کے مالک تھے ،ایسی شخصیات خال خال ہی پیدا ہوتی ہیں۔ لکھنؤ اور اہلیان لکھنؤ انھیں آسانی سے بھلا نہیں سکیں گے اور نہ ہی ان کی خدمات کو فراموش کرسکیں گے۔
آخر میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ جو لوگ وبائی مرض کورونا کے سبب اس دار فانی سے کوچ کر گئے رب العالمین ہمیں ان کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے ، ان کی قبروں کو نور سے منور فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے، انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور دنیا میں اُٹھائی گئی ان کی ہر تکلیف کے بدلے انھیں جنت میں راحت و سکون بخشے۔ آمین.
٭٭٭
رابطہ: 9794593055
محمد اویس سنبھلی کی گذشتہ تحریر : اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے