خالد بشیر تلگامی کی افسانچہ نگاری: ایک جائزہ

خالد بشیر تلگامی کی افسانچہ نگاری: ایک جائزہ

محمد ارشد کسانہ
پی ایچ ڈی اسکالر دہلی یونی ورسٹی
پونچھ، جموں و کشمیر

اردو ادب میں افسانچہ نگاری کا آغاز تقسیم کے فوراً بعد سعادت حسن منٹو کے ہاتھوں ہوا۔ ١٩٤٨ء میں ان کے افسانچوں کا مجموعہ ”سیاہ حاشیے“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ بعد میں جوگندر پال نے اس صنف کی آبیاری کی اور یوں اردو دنیا میں افسانچہ نگاری کی روایت شروع ہوگئی۔ دوسری طرف جموں و کشمیر میں اس صنف کو فروغ پانے میں طویل وقت لگا۔ یہاں ٢٠٢١ء میں ڈاکٹر نذیر مشتاق کے افسانچوں کا مجموعہ ”تنکے“ شائع ہوا۔ یہ جموں و کشمیر میں پہلا افسانچوں کا مجموعہ تھا۔ اسی سال خالد بشیر تلگامی کے افسانچوں کا مجموعہ ”دکھتی رگ“ شائع ہوا۔ یہ جموں و کشمیر کے اردو ادب میں دوسرا افسانچوں کا مجموعہ ہے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ جموں و کشمیر میں اردو افسانچہ نگاری کا باقاعدہ آغاز ٢٠٢١ء میں ہوا۔
خالد بشیر تلگامی کی کتاب ”دکھتی رگ“ میں کل ١٠٦ افسانچے ہیں اور ایک سال میں ہی یہ کتاب اردو دنیا میں کافی مشہور ہوچکی ہے۔ خالد بشیر افسانچے کی فنی باریکیوں سے واقف ہیں۔ انھیں سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر ایک افسانچہ مکمل محسوس ہوتا ہے۔ ”دکھتی رگ“ کے ابتدائی مضمون میں نور شاہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
”خالد بشیر تلگامی افسانچوں کی زلفوں کو سجانے اور سنوارنے میں جو تخلیقی کام انجام دے رہے ہیں وہ قابل توجہ ہے اور قابلِ تعریف و تحسین بھی۔ ان کی
ذہنی زرخیزی ان کے افسانچوں میں بہ خوبی دیکھی جاسکتی ہے۔ اور یہ زرخیزی ان کی بالغ النظری کی جانب بھرپور اشارہ کرتی ہے۔“
(دکھتی رگ، خالد بشیر تلگامی، ٢٠٢١ء، ص ١٤)
افسانچے انسانی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو غیر ضروری تفصیلات کے بغیر چھوٹی چھوٹی کہانیوں میں بانٹ کر پورے تاثر کے ساتھ قارئین تک پہنچاتے ہیں۔ جیسے غزل کا ایک شعر وسیع موضوع کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے ویسے ہی نثر میں افسانچہ کسی بڑے موضوع کو اپنے اندر سمیٹنے کی قوت رکھتا ہے مگر یہ دونوں ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔ غزل کے شعر سے افسانچے کا کوئی مقابلہ نہیں۔ افسانچہ اپنے آس پاس کے ماحول کی ترجمانی کرتا ہے اورسیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔ خالد بشیر تلگامی کے یہاں اسی طرح کا افسانچہ دکھائی دیتا ہے۔
انھوں نے موضوع اور فن دونوں پر یکساں توجہ دی ہے۔ حالانکہ اکیسویں صدی کے اردو ادب میں فن کے بجائے موضوع کو اہمیت مل رہی ہے۔ یہ اہمیت موضوع کو اس لیے مل رہی ہے کیوں کہ نئی صدی میں انسانی زندگی لاتعداد مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ ایسے میں ایک ادیب کو اپنے فن پارے کے لیے موضوعات کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ خالد بشیر نے ان موضوعات کا انتخاب کرنے میں مہارت دکھائی ہے اور پھر ان موضوعات کو بڑی چابک دستی سے افسانچے کے فن میں ڈھالا ہے۔ ان کا ایک افسانچہ بہ عنوان ”ڈھیل“ پیش ہے:
”ارے! دائیں بائیں دیکھنا بند کردو ورنہ ابھی پیپر چھین لوں گا۔“ ماسٹر جی نے امتحان ہال میں شاذیہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”سر، پلیز۔۔۔ تھوڑی سی ڈھیل۔۔۔۔“
”ہرگز نہیں، شاید تمھیں معلوم نہیں کہ میں اس معاملے میں بہت سخت ہوں۔“
”تو پھر سر!۔۔عابدہ آپ کی کیا لگتی ہے جس کو آپ نے ڈھیل دے رکھی ہے“
(افسانچہ: ڈھیل)
موجودہ دور کے تمام مسائل کو خالد بشیر نے اپنے افسانچوں کا موضوع بنایا ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ اکیسویں صدی میں لاتعداد مسائل نے انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انسان اپنے ماضی اور تہذیب سے نکلتا جارہا ہے۔ یہاں مشینوں کا اتنا وسیع جال پھیل چکا ہے کہ انسان بھی مشینوں سے گھر کر انسانیت کو بھولتا جا رہا ہے۔ ان تمام مسائل کو خالد بشیر نے افسانچوں کی صورت دی ہے تاکہ قارئین کے اندر دوبارہ انسانیت کی شمع جل سکے۔
ٍ زمانہ اگرچہ اکیسویں صدی میں داخل ہوچکا ہے مگر موجودہ دور میں بھی خواتین کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ عورت کو آج بھی ہوس کی نظروں سے دیکھاجاتا ہے۔ وہ اپنی اہمیت اور تحفظ کے لیے آج بھی جدوجہد کر رہی ہے۔ اس حوالے سے خالد بشیر کا افسانچہ ”صفائی“ بڑا اہم ہے۔ یہ افسانچہ غریب اور لاچار عورتوں کی حالت کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ افسانچہ ملاحظہ ہو:
”اپنے دروازے کے سامنے کھڑی جوان اور قبول صورت بھکارن کے سوال پر گھر کے مالک نے کہا۔
”بھیک مانگتے تمھیں شرم نہیں آتی۔۔۔ تمھارے ہاتھ پاؤں صحیح سلامت ہیں۔۔
تمہاری صحت بھی اچھی ہے۔۔۔ دو چار گھروں میں برتن اور کپڑے صاف کرنے کا کام کر سکتی ہو۔“
بھکارن نے درد بھرے لہجے میں کہا۔ ”کہتے تو آپ ٹھیک ہیں صاحب۔۔۔۔
میں کئی گھروں میں برتن مانجھنے اور گھر کی صاف صفائی کا کام مانگنے گئی تھی، مگر وہاں مجھے صفائی کا کیا دیتے۔۔۔ لوگ مجھ پر ہی ہاتھ صاف کرنا چاہتے تھے۔“
(افسانچہ: صفائی)
خواتین کے متعلق انھوں نے ”بیٹی بچاؤ“، ”بہادر بیٹی“، ”گفتار کاغذی“، ”بھول“، ”روبوٹ“، ”گناہ کا کھیل“، ”چراغ تلے“، ”سچا پیار“، ”ماں“، ”سنگھار“ وغیرہ جیسے افسانچے بھی لکھے۔
موجودہ دور میں کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ یہ وبا موجودہ دور کی سائنسی ترقی کی دین ہے۔ اس نے جہاں لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کو موت کی نیند سلایا ہے وہیں پوری دنیا کو لمبے عرصے تک اپنے گھروں میں قید بھی کر رکھا ہے۔ کورونا کے اس عہد میں کئی سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل بھی سامنے آئے ہیں اور دوسری طرف انسانی فطرت میں تبدیلی اور پیشاور لوگوں نے کورونا کی آڑ میں کئی خطرناک کارنامے بھی انجام دیے ہیں۔ اس وبا کے زیر اثر پوری دنیا کے ادیب متاثر ہوئے ہیں۔ خالد بشیر نے بھی ان اثرات کو قبول کیا ہے اور انھوں نے اس حوالے سے کئی افسانچے لکھے ہیں۔ ان کا افسانچہ ”عظمت“ کورونا عہد میں ڈاکٹروں کی چالاکیوں اور دھاندھلیوں کو موضوع بناتا ہے۔ افسانچہ پیش ہے:
”کورونا کے دور میں رشوت کا بازار گرم ہے۔ مسیحا رشوت لے رہے ہیں اور مجبور انسان دے رہے ہیں۔ اس کے باپ کا کینسر کی وجہ سے انتقال ہوگیا تھا لیکن اسے جو سرٹیفیکیٹ دیا گیا تھا اس میں کورونا پازیٹو لکھا تھا۔ اس نے احتجاج کیا تو ڈاکٹر بولا۔ ”کینسر کا سرٹیفیکیٹ چاہیے تو پانچ ہزار روپئے نکالو۔“
اس نے ڈاکٹر کو حقارت سے دیکھا اور زمین پر تھوکتے ہوئے بولا۔ ”سالا رشوت مانگ کر آدم کی عظمت کو پامال کر رہا ہے۔“
(افسانچہ: عظمت)
اس کے علاوہ ”قہر“، ”لاٹری“، ”بے خبر“ وغیرہ بھی کرونا کے متعلق ان کے بہترین افسانچے ہیں۔
اردو ادبا کی حالت زار کو بھی انھوں نے اپنے کئی افسانچوں کا موضوع بنایا ہے۔ اس حوالے سے ان کا افسانچہ ”سرقہ“ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ افسانچہ ان لوگوں کو موضوع بناتا ہے جو دوسروں کی تخلیقات کو اپنے نام سے شائع کروا دیتے ہیں۔”چغلی“ میں ایک خوب صورت لڑکی زندگی کے پہلے مشاعرے میں حصہ لیتی ہے اور اس کی خوب صورتی دیکھ کر ایک شخص اس کو ایوارڈ دلوانے کے بات کرتا ہے۔ گویا ایوارڈ متاثر کرنے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ اسی موضوع پر ان کا ایک اور افسانچہ ”ڈیلیٹ فار آل“ لکھا گیا ہے۔
افسانچہ ”راہ عروج“ ایک بڑے اہم مسئلے کو موضوع بناتا ہے۔ افسانچہ ملاحظہ ہو:
”تمھیں شرم نہیں آتی، اپنے استاد کے سامنے اناپ شناپ بول رہے ہو!“
”ارے انکل!۔۔۔ یہ فائیوجی کا زمانہ ہے۔۔۔ اور آپ پرانے خیالات کے ہیں۔۔۔ ویسے آپ کو سمجھانا۔۔۔“
یہ سن کر اس نے خاموش ہوجانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی اور سرد آہ بھرتے ہوئے سوچنے لگا۔ ”کتنا حسین وہ زمانہ تھا جب شاگرد اپنے استاد کو دیکھ کر راستہ بدل دیتے تھے۔ اس دور نے ہمیں اتنا ماڈرن بنا دیا ہے کہ اب شاگرد کو دیکھ کر استاد اپنا راستہ بدل دیتے ہیں۔“
(افسانچہ: راہ عروج)
افسانچہ ”امداد“ سوشل میڈیا کے سبب ہونے والی شہرت کوموضوع بناتا ہے۔ اس افسانچے میں جب ماجد کو پتا چلتا ہے کہ وہ راشن تقسیم کرتے ہوئے فیس بک اور وہاٹس اپ پر وائرل ہوگیا ہے تو وہ بے حد خوش ہو جاتا ہے۔ پھر شہرت کی خاطر اس کے اندر مزید غریبوں کی امداد کرنے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ افسانچہ ”ان شاء اللہ“ مذہب کی مٹتی ہوئی قدروں کو موضوع بناتا ہے۔ ”تلاش“ اس جدوجہد بھرے دور میں سکون کی تلاش پر لکھا گیا ہے۔ ”چیخ“ اور ”اسپیس“ ہندستان اور پاکستان کے آپسی رشتوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو موضوع بناتے ہیں۔ افسانچہ ”بھروسہ“ کا موضوع موجودہ دور کی سیاست ہے۔ اسی طرح ان کے باقی افسانچے مختلف موضوعات کی عکاسی کرتے ہیں۔ من جملہ خالد بشیر تلگامی موجودہ دور کے ایک اہم افسانچہ نگار ہیں۔ ان کی افسانچہ نگاری کا ابھی دور شروع ہوا ہے اور امید ہے کہ اس میدان میں ان کا مستقبل مزید روشنی حاصل کرے گا۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : دکھتی رگ پر انگلی رکھنے والا افسانہ نگار: خالد بشیر تلگامی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے