با کمال صحافی کمال خان

با کمال صحافی کمال خان

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

عظیم اور با کمال صحافی، این ڈی ٹی وی کے سینئر رپورٹر اور اپنے انداز پیش کش سے دنیا بھر میں مقبول و معروف کمال حیدر خان عرف کمال خان کا ۱۴؍ جنوری ۲۰۲۲ء روز جمعہ صبح سویرے حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے انتقال ہو گیا، انھوں نے صبح کوئی چار بجے کے آس پاس سینے میں درد کی شکایت کی اور اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا، ان کی نماز جنازہ مشہور شیعہ عالم مولانا کلب جواد نے پڑھائی اور لکھنؤ کے عیش باغ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ روحی کمال اور ایک لڑکا امین کو چھوڑا۔
کمال خان کی ولادت لکھنؤ میں 1959میں ہوئی، انھوں نے تعلیم کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کیا تھا، انھوں نے روسی زبان میں ماسکو یونی ورسٹی سے پوسٹ گریجویٹ کی سند بھی حاصل کی تھی، ان کا قیام زمانہ دراز سے بٹلر پیلیس کالونی لکھنؤ میں تھا، وہ گذشتہ تین دہائیوں سے این ڈی ٹی وی سے منسلک تھے اور غیر جانب دارانہ رپورٹ، تجزیے اور مخصوص انداز کی اپنی پیش کش کے لیے مشہور تھے، وہ اپنی رپورٹنگ کو دل چسپ بنانے کے لیے اردو شاعری کا سہارا لیتے اور ناظرین کا دل موہ لیتے، وہ رپورٹنگ سے پہلے اس سے متعلق کتابوں، تبصرے اور تجزیوں کا بھر پور مطالعہ کرلیتے اور ہر موضوع پر اپنی معلومات کے خزانے لٹاتے، اس کے لیے انھیں بہت محنت کرنی پڑتی تھی، اسی وجہ سے وہ اپنا وقت سیر و تفریح میں نہیں لگاتے تھے، کام اور کام سے فراغت کے بعد گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ آرام کرنا یہ ان کے نظام الاوقات کا حصہ تھا، این ڈی ٹی وی میں ملازمت سے قبل انھوں نے کئی اخبار میں کام کیا، ایک زمانہ میں وہ ہندستان ایرونا ٹیکس لمٹیڈ میں روسی زبان کے مترجم ہوا کرتے تھے، انھوں نے امرت بازار پتریکا، نو بھارت ٹائمس اور اسٹار نیوز پر بھی کام کیا، کمال خان نے کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا، ان کے یہاں صحافت میں تعصب اور جانب داری دوسرے گناہوں کی طرح ایک بڑا گناہ تھا، اس لیے این ڈی ٹی وی میں آنے سے پہلے وہ مختلف اداروں کے لیے کام کیا، لیکن وہاں کے ماحول سے وہ مطمئن نہیں ہو سکے، بالآخر این ڈی ٹی وی آکر انھوں نے چین کی سانس لی اور آخری سانس بھی این ڈی ٹی سے منسلک رہتے ہوئے لی، اپنے مقصد سے وفاداری اسے کہتے ہیں، آخری دم تک وفادار۔
صحافت نے انھیں کیا کچھ دیا، اس کی تفصیلات تو ہمارے پاس موجود نہیں، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ عزت، شہرت، مقبولیت، ان کی ڈیوڑھی پر آکر براجمان ہو گئی، اور ان کی خدمات کے عوض انھیں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا، اس فہرست میں رام ناتھ گوینکا ایوارڈ اور صدر جمہوریہ کے ذریعہ گنیش شنکر ودیارتھی سمان بھی شامل ہے۔
کمال خان چہرے مہرے کے اعتبار سے بھی انتہائی وجیہ اور خوب صورت تھے، ان کے چہرے پر رعب، گفتگو میں نرمی، کام کے تئیں لگن اور عزت نفس کی حفاظت ان کی زندگی کے لوازمات میں تھے، وہ صحافیوں کی بے عزتی اور ترش روی پر بڑے بڑے سیاسی قائدین سے بھڑجاتے تھے، اس لیے صحافی برادری میں ان کو ایک خاص مرتبہ حاصل تھا، ان کی زندگی سادہ تھی، اپنی اہلیہ روچی کمار کی وجہ سے وہ سبزی خور ہو گیے تھے، وہ صبح کی چہل قدمی کے بھی عادی تھے، لیکن اس کے باوجود وہ اچانک ہارٹ اٹیک میں مبتلا ہوئے، چل بسے، صحت کو ٹھیک رکھنے کے جتنے طریقے اسباب کے درجے میں ہو سکتے ہیں وہ اسے برتا کرتے تھے، لیکن جب اللہ کا مقررہ وقت آجاتا ہے تو پھر کسی کی نہیں چلتی، کمال خاں کی ساری احتیاطی تدابیر دھری رہ گئیں اور موت کا فرشتہ انھیں لے کر چلتا بنا۔
کمال خان کی ساری قدر ومنزلت ان کی صحافت کی وجہ سے ہے، ان کی زندگی کا یہ پہلو اس لائق ہے کہ اس کا ذکر کیا جانے، ان کے انتقال کے بعد جو تعزیتی بیانات آئے اس کی روشنی میں کمال خاں کی صحافی کی حیثیت سے ان کی خدمت و عظمت کو سمجھا جا سکتا ہے، ہردیش جوشی کہتے ہیں کہ ’’سیاست، ثقافت اور معاشرت ہر موضوع پر کمال باتیں کرتے تو اپنا الگ نقش چھوڑ جاتے، ان کی قصہ گوئی کا انداز مسحور کن تھا اور ان میں خبروں کے سونگھنے کی فطری صلاحیت تھی۔
کئی موضوعات پر ان کی رپورٹنگ آج بھی ناظرین کے دل ودماغ میں محفوظ ہے، انھوں نے بابری مسجد، تین طلاق پر جو رپورٹنگ کی وہ غیر جانب دارانہ صحافت کی ایک مثال ہے، لیکن ان کی وہ رپورٹنگ جو انھوں نے انتہائی خستہ حال پرائمری ایجوکیشن پر کیا تھا، آج بھی دماغ کو پریشان کرتی ہے، اس میں انھوں نے پرائمری اسکول کے اساتذہ کے انٹر ویو لیے، سوالات پوچھے اساتذہ نے ان کے صحیح جواب نہیں دیے، ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ ثانیہ مرزا کون ہے؟ کئی استاذ کا جواب تھا مرزا غالب کی رشتہ دار، خوب ہنسی پڑی، لیکن دل رودیا، جب انھوں نے کہا کہ ہنس لیا، بہت مزہ آیا، جب جی بھر کر ہنس لیں تو ان لاکھوں بچوں کے لیے دو آنسو بھی بہا لیجیے گا، جنھیں ایسے اساتذہ پڑھا رہے ہیں اور واقعی پرائمری ایجوکیشن کی اس حالت زار پر آنکھیں خون کے آنسو بہانے لگیں۔
ایسے تھے کمال خان، کمال ہی نہیں با کمال بھی، ان کو سچی خراج عقیدت یہ ہے کہ صحافت میں ان کے طریقے اور روش کو اپنایا جائے، ان کو سمجھنے سننے اور دیکھنے کے لیے سوشل میڈیا کے اس دور میں زیادہ پِتَّہ ماری کی بھی ضرورت نہیں ہے، یو ٹیوب پر سب موجود ہے۔
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے