فریاد آزرؔ : تخلیقی  اڑان  کے نئے زاویے

فریاد آزرؔ : تخلیقی اڑان کے نئے زاویے

حقانی القاسمی

تخلیق کیVirgin Territory کی سیاحت ، عصر حاضر کے بہت ہی کم فن کاروں کا مقدر بنی ہے، غیر ممسوس منطقے کی سیر کے لیے جس آشفتگی، دیوانگی، جرأت، بے خطری اور عصری آگہی کی ضرورت پڑتی ہے، اس سے بہت سے تخلیق کار محروم ہیں۔ فریاد آزر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ تخلیق کو نیا سیاق وسباق، نیا مفہوم اور نیا تناظر عطا کرنے کی جدو جہد میں اس فکری اور اظہاری منطقہ تک رسائی میں کام یاب ہوئے ہیں جو بہت حد تک کنوارا اور قدرے غیر مستعمل ہے۔ ان کی تخلیق میں وہ مرکزی نقطہ اور محوری نکتہ بھی موجود ہے جو عصرِ حا ضر کی بیش تر تخلیق سے غائب ہوگیا ہے۔

آزر کا تعلق تخلیق کے اس تلازماتی نظام اور تناظر سے ہے جس سے تخلیق میں تازگی، تحیر اور تابندگی آتی ہے۔ انھوں نے’ تخلیقی اجتہاد‘ سے کام لیا ہے اور تقلیدِ جامد سے گریز کیا ہے اور ایک نئی تخلیقی سمت کی تلاش نے ان کی شاعری کو اس بھیڑ سے بھی بچا لیا ہے جس میں اکثر فن پارے اپنے نام و پتہ کی تلاش میں مدتوں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ ولی دکنی نے بہت پہلے کہا تھا ” تاقیا مت کھلا ہے باب سخن"……….فریاد آزر کی شاعری میں بابِ سخن کے نئے نئے در کھلے جا تے ہیں اور ہمیں تحیرات سے ہم کنار کرتے ہیں۔ خوشی ہوتی ہے کہ صنعتی و مشینی عہد میں آزر کے اندر کا احساس اور اضطراب زندہ ہے اور اس کی لہریں ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہیں۔ فریاد آزر کی شاعری میں جو احساس و اظہار ہے، وہ ’آج‘ سے عبارت ہے جس میں ‘گذشتہ‘ مکمل طور پر نہ شریک ہے اور نہ ہی مکمل طور پر متروک کہ ان کا حال ماضی سے مستعار نہیں مگر مستنیر ضرور ہے۔ آزر کا تخلیقی احساس منفرد اور مختلف ہے۔ زندگی کے تعلق سے ان کا Dynamic Approach ہے۔ آج کی زندگی کی صورت حال اور انسانی متعلقات کے حوالے سے ان کا زاویہ نظر جدا گانہ ہے۔ ان کے یہاں اس انسان کی جستجو ملتی ہے جو ‘گلوبل گاؤں‘ میں اپنی شناخت کھو چکا ہے اور بے چہرگی جس کی پہچان ہے۔ بنیادی انسانی اقدار سے منحرف اور ٹکڑوں میں بٹے ہوئے انسانی وجود کے ذہنی و فکری بحران اور انتشار و اختلال کو انھوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی شاعری کے ذریعہ انسان کی دا خلی، خارجی صورت حال سے آگہی ہوتی ہے۔ Globlised Society اور ملٹی کلچر ایج میں سماجی، سیاسی اقدار میں تبدیلیاں آئی ہیں اور انسانوں کے ذہنی زاویے بھی بدلے ہیں۔ ایسی بدلتی ہوئی صورت حال میں ان کی تخلیق نہ صرف آج کے مسائل پر نگاہ ڈالتی ہے بل کہ آج کے معاشی، اقتصادی، سماجی، تہذیبی نظام سے بھی بے خوف مکالمہ کرتی ہے۔
جدید غزل کے منظر نامے پر فریاد آزر کا نام اس اعتبار سے بھی اہمیت کاحامل ہے کہ روایتی حصار سے باہر نکل کر عصری حالات، تغیرات اور تموجات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے. اور آج کے عہد کی تفہیم بالکل نئے زاویے سے کی ہے اور اس انسانی ضمیر اور روح کی بازیافت بھی کی ہے جو تینوں زمانوں پر محیط ہے۔
فریاد آزر کی تخلیقی اڑان کے زاویے الگ ہیں. انھوں نے احساس و اظہار کے جو صنم کدے تعمیر کئے ہیں، اس میں ان کے خونِ جگر کی نمود ہے۔ وہ اپنی ذات میں گم نہیں ہیں بل کہ گردو پیش پہ ان کی گہری نظر ہے:

اس کے کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زندگی آخرت عکس ہے
اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم لوگ دوزخ میں یا کہ جنت میں ہیں

خون مشرق کا بہاتے ہی رہیں گے ناحق
اور کرسکتے ہیں کیامغربی آقاؤں کے لوگ

ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے
سطحِ ’ اوزون‘ کو فضلات سے آزادی دے

دفن کردیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید

رواج گاؤں میں پردے کا اس قدر نہ تھا
مگر مزاج میں بے پردگی بہت کم تھی

یہ اور بات کہ سب جنگلوں میں رہتے تھے
مگر فضاؤں میں آلودگی بہت کم تھی

یہ ان کے تخلیقی ذہن کی ارتعاشی لہریں ہیں۔ سیاست، سماج اور دیگر مختلف سطحوں پر ان کے ذہنی تحرک کے ثبوت کے لیے یہ اشعار کافی ہیں۔ ان کی نگاہ کسی خاص نقطہ پر محدود نہیں ہے بل کہ ان کی شاعری ایک طرح سے ’جامِ جہاں نما‘ ہے جس میں پوری انسانی کائنات کا عکس نظر آتا ہے. وہ اکثر شعروں میں حیرتوں کی نئی قندیل جلاتے ہیں. ان کی شاعری کی مجموعی قرأت سے پتا چلتا ہے کہ ان کے یہاں تخلیق کی علمی، عرفانی، وجدانی سطح بہت بلند ہے اور سماجی، سیاسی، سائنسی شعور بالیدہ ۔
فکریات کی سطح پر جہاں انھوں نے بہت سے نئے تجربے کیے ہیں یا پرانے تجربوں کی ’تقلیب ‘ کی ہے، وہیں لفظیات کی سطح پر بھی وہ ایک نئے آب و رنگ میں نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں لسانی جبر کا وجود نہیں ہے۔ ہر وہ لفظ جو ان کے احساس کی ترسیل کردے خواہ اس کا تعلق کسی زبان، مذہب، ملک سے ہو اس کے استعمال سے حذر نہیں کرتے، یہی لسانی اور فکری جمہوریت فریاد آزر کا فکری شناس نامہ ہے۔ ان کی شاعری میں وہ جمہوری آوازیں ہیں جو جلجا میش، سقراط، سرمد، اور منصور کے’حلق بریدہ‘ سے بلند ہوتی رہی ہیں۔ انھوں نے سیاسی، سماجی، سفاکیت، آمریت، مطلق العنانیت کے خلاف اپنی شاعری کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے اور عالمی استعماری نظام کے خلاف آواز بھی بلند کی ہے. فرقہ واریت، فسطائیت کے خلاف بھی انھوں نے اپنی تخلیقی توانائی کا استعمال کیا ہے:
بھر رہا تھا زہر وہ معصوم ذہنوں میں مگر
ہم پہ نفرت گھولنے کا جرم عائد ہوگیا

ہندو کوئی تو کوئی مسلمان بن گیا
انسانیت بھی مذہبی خانہ میں بٹ گئی

بچوں پہ ایسا جادو چلا ہے نصاب کا
اکبر کا نام لینے لگے غزنوی کے ساتھ

کہیں بھی قتل ہو کیسی عجیب سازش ہے
لہو میں ڈوبی ہوئی مری آستین لگے

ان کی تخلیق کا توانائی نظام انتہائی متحرک اور فعال ہے۔ ان کے یہاں بصیرت اور آگہی کی وہ بلند سطح ہے جو ماضی اور مستقبل پر نگاہ رکھتی ہے۔ ان کا آئینہ ادراک روشن ہے جس میں وہ ماضی کے کے ساتھ مستقبل کی آہٹوں کو بھی محسوس کرتے ہیں۔
فریاد آزر کی شاعری میں عصر حاضر کے مسائل کا اظہار و ادراک ہے اور یہی عصری حسیت اور آگہی ان کی شاعری کو نقطہ انفراد یت عطا کرتی ہے۔ اس میں ایک آفاقی شعوربھی ہے، ژرف نگاہی اور باطنی روشنی (Inner Light) بھی جو آج کی تخلیق میں کم نظر آتی ہے۔ معاشرہ کی تمام متضاد اور متخالف لہروں کو انھوں نے اپنی شاعری میں سمو لیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں ایسے نقوش مرتسم کردیے ہیں جو سماج اور سیاست کی راہوں میں بھٹکنے والوں کو بھی صحیح سمت کا اشارہ دیں گے اور انھیں منزل مراد تک پہنچادیں گے۔
فریاد آزر کا تہذیبی، سماجی، سیاسی شعور پختہ ہے اور شعور کی مختلف سطحیں ان کے تخلیقی نظام سے مربوط اور منسلک ہیں۔ اسکا ئی اسکر یپر کلچر کے اس عہد میں چھوٹی چھوٹی زمینی حقیقتوں اور ارضی صداقتوں کو فن کارانہ انداز میں پیش کرنا اور قاری کے احساس و ضمیر کو مرتعش کرنا بہت بڑی بات ہے:

دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید

مجھے اب اور سیاروں پہ لے چل
میں گلو بل گانوں سے اکتا گیاہوں

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہوگئے

اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا

اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے

سب حقائق مجھ سے بھی پہلے کہیں موجود تھے
میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ مری ایجاد ہے

تخلیق کی سطح پر ایقاظ اور بیداری کا جو فریضہ فریاد آزر انجام دے رہے ہیں، آج کی بے حسی کے دور میں بہت سے فن کار اپنی ذ مہ داری کے احساس تک سے محروم ہیں۔ انھیں’احساسِ زیاں‘ ہی نہیں تو پھر معاشرتی، سماجی اقدار کے تحفظ کا خیال کہاں سے آئے گا۔ فریاد آزر تخلیق کے منصب سے باخبر ہیں اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ۔ اس لیے وہ اپنی تخلیق کے ذریعہ ہر سطح پر ابنِ آدم کو کائنات کے مسائل اور اس کی پیچیدگیوں سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ان کی پوری شاعری مقصدیت سے معمور ہے. وہ گل و بلبل کی داستاں یا فسانۂ شب ہائے دراز پر یقین نہیں رکھتے بل کہ آج کی سفاک جاں گسل حقیقتوں کو اپنی شاعری کا موضوع اور تخلیق کا مرکزی نقطہ قرار دیتے ہیں اور اسی محور پر ان کی شاعری حیات و کائنات کے مختلف مسائل اور موضوعات کا طواف کرتی رہتی ہے. ’طوافِ کوچۂ جاناں‘ کے بجائے’ غم دوراں‘ سے ہی آج کی شاعری معتبر اور منفرد قرار پاتی ہے۔ فریاد آزر کی شاعری میں یہی ’’ غم دوراں" عذاب جاں، آشوب عصر اپنی تمام تر تخلیقی منطق، معروضیت اور فنی، فکری ہنر مندی کے ساتھ موجود ہے ۔
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے