مطالعۂ وسیلۃ النجاۃ

مطالعۂ وسیلۃ النجاۃ

محمد شہروز کٹیہاری
موہنا ، چوکی ، کدوا ، کٹیہار ،بہار

قمر الحق حضرت شیخ غلام رشید عثمانی جون پوری قد س سرہ خانقاہ عالیہ رشیدیہ جون پور کے تیسرے سجادہ نشین تھے- انھوں نے 1135ھ میں فارسی زبان میں ایک ضخیم کتاب تدوین فرمائی جو تقریبا ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل کئی جلدوں میں ہے- کتاب کے اصل مصنف بدرالحق شیخ محمد ارشد عثمانی قد س سرہ ہیں اورمرتب شیخ غلام رشید عثمانی جون پوری اور جامع شیخ شکر اللّہ جون پوری. دونوں کے مرشد شیخ محمد ارشد عثمانی تھے- غالباً اپنے مرشد کی نسبت سے کتاب کا نام’’گنج ارشدی ‘‘ قرار پایا- علما و مشائخ کے احوال، ان کی دینی خدمات، ملفوظات، مکتوبات، سفر نامے اور مذہبی معلومات عامہ پر یہ کتاب قیمتی سرمایہ ثابت ہوئی- اس کتاب کے باب دوم میں سلسلۂ چشتیہ نظامیہ علائیہ احمدیہ رشیدیہ کا تفصیلی ذکر ہے. مدوِّنِ کتاب نے اپنے مرشد گرامی حضرت شیخ محمد ارشد عثمانی جون پوری قد س سرہ سے جناب رسالت مآب سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم تک سلسلے کے جملہ مشائخ کا تشفی بخش ذکر بڑے احسن طریقے سے فرمایا ہے، پھر خود ہی خواہش ظاہر کی کہ کوئی ان مشائخ کے احوال کو ’’وسیلۃ النجاۃ‘‘ کے نام سے علا حدہ لکھ دے تو ممکن ہے نجات کا وسیلہ بن جائے- 1167ھ میں حضرت شیخ غلام رشید عثمانی جون پور ی کا وصال ہو گیا- ان کے وصال کے تقریباً 9 سال بعد ان کے سعادت مند مرید حضرت شیخ احسن اللّٰہ علوی رشیدی جون پوری قدس سرہ نے اپنے مرشد کی خواہش کے احترام میں ’’وسیلۃ النّجاۃ‘‘ مرتب فرمالیا۔ حضرت شیخ غلام رشید جون پوری کا ذکر اس میں نہیں تھا – مرتب نے ’’ گنج فیاضی‘‘ سے ان کے حالات زندگی کو شامل فرمایا-کتاب’’وسیلۃالنجاۃ ‘‘ فارسی زبان میں وجود تو پاگئی، مگر اپنے ماخذ "گنج ارشدی" اور”گنج فیاضی" کی طرح مخطوطہ بن کر لائبریری کی زینت بنی رہی- دو سے تین صدی کے درمیان اس کی اشاعت کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہوئی- شاید اس لیے کہ جن کے مقدر میں اس کی اشاعت لکھی تھی وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے. خدا بھلا کرے مجمع البحرین حضرت مفتی محمد عبید الرحمٰن رشیدی مدظلہ العالی کا، کہ انھوں نے خانقاہ کے مخطوطات کو مطبوعات کی شکل دینے کی ٹھان لی ہے- انھوں نے اپنے سعادت مند، با صلاحیت، جواں سال عالم دین حضرت مولانا ابرار رضا مصباحی زاد اللّٰہ تعالیٰ علمہ و فضلہ کو وسیلۃ النجاۃ کے اردو ترجمہ کی ذمہ داری سونپی- فاضل ترجمہ نگار مبارک بادی کے مستحق ہیں کہ انھوں نے حسن و خوبی کے ساتھ ذمہ داری کو نبھا یا۔ ان کی عرق ریزی، مغز ماری اور محنت شاقہ کی بدولت آج کتاب بڑی خوب صورت شکل میں مطالعہ کی میز پر ہے۔
وسیلۃ النجاۃ مترجَم:
اس ترجمہ کا نام بھی وسیلۃ النجاۃ ہے، ترجمہ تدوین وتحشیہ مولا نا ابرار رضا مصباحی کا ہے- چھ سو کی تعداد میں فروری 2021ء مطابق 1442ھ میں پہلی بار اشاعت پائی- 472 ؍صفحات ہیں – خانقاہ حسامیہ گڑھی مانک پور، ضلع پرتاب گڑھ، یو پی کے صرفہ سے شاہ عبد العلیم آسی فاونڈیشن دہلی نے اشاعت کا کام انجام کو پہنچایا- فاؤنڈیشن کی دیگر مطبوعات کی طرح بلکی کاغذ، عمدہ کتابت، مضبوط بندش اور خوب صورت کور ہے- قیمت پانچ سو روپیے درج ہے۔
اضافی مشمو لات :
کتاب کے شروع میں اصل کتاب کے اول، آخِر اور بیچ کے صفحات کے عکس ہیں، پھر صفحہ 29؍ تک مشمولاتِ کتاب کی فہرست ہے- آستانہ عالیہ حسامیہ مانک پور کے سجادہ نشیں ڈاکٹر شاہ احمد حسامی کے "پیش لفظ" سے کتاب کی شروعات ہوتی ہے۔ پروفیسر سید شاہ طلحہ رضوی برق کی تقریظِ مسعود کتاب سعید کی زینت ہے، پھر صفحہ 83؍ تک فاضل ترجمہ نگار کا ایک طویل مقدمہ ہے- مقدمہ میں سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ علائیہ حسامیہ احمدیہ رشیدیہ پر عمومی گفتگو کی گئی ہے- یقینا یہ مقدمہ معلوماتی اور قیمتی ہے- خاص طور پر کتاب وسیلۃ النجاۃ اور اس کے ماخذ گنج ارشدی، گنج فیاضی و دیگر کتبِ خانقاہ پر خامہ فرسائی کی ہے- کتاب کے کور کے دونوں حاشیوں میں ڈاکٹر سجاد عالم رضوی مصباحی ( اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ، پریسی ڈینسی یونی ورسٹی، کولکاتا) کے خوب صورت کلمات سے کتاب کی خوب صورتی دوبالا ہو گئی ہے۔ یہاں سلسلۂ چشتیہ سے مراد وہ سلسلہ ہے جو سید البشر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے فضیل بن عیاض، ابو اسحاق شامی، خواجہ عثمان ہارونی، خواجہ غریب نواز قدست اسرارہم کے واسطے حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر تک پہنچتاہے، پھر حضرت نظام الدین اولیا قدس سرہ کے ذریعے پھیلنے والی چشتیہ سلسلے کی شاخ کو نظامیہ، شیخ علاء الدین پنڈوی کی نسبت سے علائیہ، شیخ حسام الدین مانک پوری کی نسبت سے حسامیہ، راجی سید شاہ احمد حلیم اللہ مانک پوری کی نسبت سے احمدیہ اور شیخ محمد رشید عثمانی جون پوری کی نسبت سے رشیدیہ کہلا تا ہے۔ قمر الحق شیخ غلام رشید عثمانی سے فخر موجودات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک کل 32؍ نفوس قدسیہ کے ذکر جمیل کا حسین گل دستہ وسیلۃ النجاۃ ہے- کتاب میں صرف احوال مشائخ ہی نہیں بلکہ ان کی تعلیمات، علمی نکات، فرمودات، علمی کمالات سب کچھ ہیں۔
چند علمی مشمولات :
روزہ :
’’جو شخص رمضان کے روزے رکھے پھر شوال کے چھ روزے رکھے تو گو یا اس نے پورے سال کا روزہ رکھا‘‘ (حدیث )
اس حدیث کی وضاحت شیخ غلام رشید عثمانی یوں کرتے ہیں کہ ’’سال میں کل 360؍ دن ہوتے ہیں -" ایک اچھے عمل کے بدلے دس نیکیاں" کےاصول پر رمضان کے تیس روزے کا ثواب تین سو ہوے، پھر جب شوال کے چھ روزے کوئی رکھ لے تو اس کو ساٹھ نیکیاں ملیں گی- اس طرح تین سو ساٹھ کی گنتی پوری ہوگئی تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھ لیے. (ص 89)
متعلقات نماز :
’’صحابۂ کرام کفار سے جنگ کرتے تو اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے، یوں ہی نمازی نماز میں نماز کے دشمن نفس و شیطان سے جہاد کرتا ہے اس لیے تکبیرات انتقال میں اللہ اکبر کہتا ہے- (ص 131)
’’نمازمیں رکوع بندے کی طرف سے بندگی کا دعوی ہے اور دو سجدے اس پر برہان ہیں، اس لیے دعوی یعنی رکوع ایک اور گواہ یعنی سجدے دو مقرر کے گئے‘‘ ۔(ایضا)
’’نماز کی امامت میں ایک طرح سے مقتدیوں کا بوجھ اپنی گردن پر لینا ہوتا ہے، مگر بسا اوقات یہی امامت امام کی بخشش کا ذریعہ بن جاتی ہے، ایک فاجر نے امامت کی، مقتدیوں میں ایک ولی بھی موجود تھا، اس ولی کی نماز کی قبولیت کی برکت سے فاجر کی مغفرت ہو گئی اور وہ مقبولین میں شامل ہو گیا (ص 111)
’’کسی نے مصلیٰ کو پیر سے درست کیا تو شیخ محمد رشید جون پوری قدس سرہ نے فرمایا کہ مصلیٰ کا احترام کرو! اہل علم کہتے ہیں کہ ابلیس اسی وجہ سے مردود ہوا کہ وہ مصلیٰ پاؤں سے درست کرتا تھا ‘‘۔ (ص128 )
نماز کے بعد مصافحہ:
جب کوئی مسافر سفر سے واپس آتا ہے تو مصافحہ کرتا ہے اور جب کوئی درویش نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ باطنی سفر کرتا ہے اور بے خود ہو جاتا ہے، سلام پھیر کر خودی کی طرف واپس آتا ہے اس لیے دوستوں سے مصافحہ کرتا ہے۔ (شیخ نور قطب عالم قدس سرہ صفحہ: 185)
فرض نما زکے بعد دعا:
حضرت شیخ محمد ارشد عثمانی قدس سرہ نے فرمایا کہ فرض نمازوں کے بعد دعا مسنون ہے، مگر مغرب کا وقت لیل و نہار کے درمیان برزخ ہے. یہ دن کے فرشتوں کے جانے اور رات کے فرشتوں کے آنے کا وقت ہے، اس لیے مغرب میں فرض نماز کے بعد دعا کے بغیر سنت پڑھ لینی چاہیے تاکہ فریضہ کو پورا کرنے والی سنت سے جلد فارغ ہوجائے (ص1:13؍ ملخصا)
قرأت خلف الا مام:
شیخ محمد ارشد عثمانی قدس سرہ سِرّی نمازوں میں قرأت خلف الامام کرتے اور جہری میں سکوت و سماع فرماتے، مگر کسی کے پوچھنے پر کہ کیا مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا "حنفی منع کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جو مقتدی امام کے پیچھے پڑھے، اس کے منہ کو خاک سے بھر دو! اور شافعی حدیث "لاصلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب" کے مقتضیٰ کے مطابق پڑھتے ہیں، تم حنفی ہو نہ پڑھو. (ص 113)
افضلیت پر بحث:
حضرت شیخ غلام رشید عثمانی کے مریدین میں یہ بحث چھڑ گئی کہ شیخ سعدی اور حضرت امیر خسرو میں افضل کون ہیں؟ اس پر شیخ نے فرمایا کہ یہ گفتگو ہی لا حاصل ہے، بزرگان دین کے درمیان افضلیت کا قول یقین کے ساتھ کرنا مشکل امر ہے. افضلیت کا مطلب تقرُّب عند اللہ ہے اور کس کو کتنا تقرب حاصل ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کون جانتا ہے؟ یہاں تک کہ خلفائے راشدین کے درمیان افضلیت پر فرقہ ناجیہ اہل سنت و جماعت کے نزدیک دلیل ظنّی ہے- شیخ سعد الدین تفتازانی نے "شرح عقائد" میں فرمایا ہے۔ ’’مجھے خلیفۂ رابع پر خلیفہ اول کی افضلیت پر کوئی دلیل معلوم نہیں ہوئی مگر یہ کہ سلف کے پاس دلیل ہوگی. (ص: 100)
احترام شیخ :
مخدوم شیخ حسام الدّین مانک پوری سلسلہ کی نویں کڑی ہیں- شیخ نور قطب عالم پنڈوی کے مرید و خلیفہ تھے- شیخ نور قطب عالم کے کسی فرزند کو جب آپ نے مرید کیا تو قطب زادے کو تخت پر بیٹھایا اور خود نیچے بیٹھ گئے، پھر قطب زادے پر نثار ہو گئے، قطب زادے کی تربیت کے لیے اپنے دوخلفا کو مقرر فرمایا (ص: 166)
یہاں شیخ زادے کا احترام اپنی جگہ، اس سے شیخ حسام کا مقام بھی واضح ہوتا ہے کہ ان سے ان کے شیخ زادے مرید ہونے آئے- ناچیز محمد شہروز کو یہ بات انوکھی لگی۔
عشق کی حقیقت:
عشق ایک بیابان ہے جہاں عشق اور شراب عشق کی علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہوتی، ہر شخص اس صحرا میں چلنے کی طاقت نہیں رکھتا- عشق عشقہ سے ماخوذ ہے، عشقہ ایک گھاس کا نام ہے، یہ جس درخت پر چڑھتا ہے اس کو خشک کر دیتا ہے اور خود تر و تازہ رہتا ہے۔ نو لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے عاشق ہر وقت ہوتے ہیں، اگر ان میں سے کوئی گر جاتا ہے تو دوسرے کو اس کی جگہ پر کھڑا کر دیا جاتا ہے- ہر سال عشق فریاد کرتا ہے کہ کون ہے وہ شخص جس کے ساتھ وہ نام زد کیا گیا ہے۔ جرأت کرنے والوں کا نام عشق کے ہاتھ میں پہنچ جاتا ہے۔ وہ فرماتا ہے ان کے دلوں کو ہمارے اشتیاق میں جلادے- (ص: 163 ملحض از مکتوبات بہ جانب سید حامد شہ مانک پوری)
ایمانِ ابو طالب:
جناب ابو طالب نے اپنی پوری زندگی حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حمایت و مدد میں گزار دی، اس کے باوجود جمہورِ امت کے نزدیک ان کی موت کفر پر ہوئی- بعض علما، خصوصا صوفیا ایمانِ ابو طالب کا نظریہ رکھتے ہیں- شیخ غلام رشید عثمانی جون پوری (تیسرے سجادہ نشین خانقاہ رشیدیہ) بھی ایمانِ ابو طالب کے قائل تھے- اس پر انھوں نے یہاں دو دلیلیں دی ہیں:
اول:
حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد جناب ابو طالب سے دین اسلام میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو انھوں نے کہا: وہ تمھارے حق میں بہتر چاہیں گے، ان کی خدمت کو لازم پکڑو اور ان کے حکم کو بجا لاؤ" ( ص: 93 بہ حوالہ معارج النبوۃ )
استِدلال:
اگر وہ کافر ہوتے، ان کے اندر تصدیق قلبی نہیں ہوتی تو بیٹے کا مسلمان ہونا، کیسے گوارا کرتے ؟
دوم: ابولہب نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سخت دشمنی رکھتا تھا- ابولہب کو اس امت کا فرعون تک کہا گیا ہے، مگر ولادتِ رسول کی خوشی میں اس نے اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا، بس اتنی سی محبت کے عوض اس کے عذاب میں تخفیف ہوگئی۔ جناب ابوطالب نے تو زندگی بھر نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے دل و جان سے محبت کی، بھلا ان کی نجات کیسے نہیں ہوگی؟ غرض کہ گروید گی کے ساتھ تصدیق قلبی جناب ابو طالب میں موجود تھی، نجات اخروی کا مدار اسی پر ہے- (ص 93 تا 95 ملخصا)
سماع و مزامیر:
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا قدس سرہ سلسلہ چشتیہ کی ایک اہم کڑی ہیں، ہندستان میں ان سے سلسلۂ چشتیہ کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ آپ بدایوں کے رہنے والے تھے، دہلی کے باشندہ بنے- خواجہ فرید الدین گنج شکر قدس سرہ سے ارادت و خلافت حاصل تھی- آپ نے بلا نکاح تجرُّد کی زندگی گزاری – 725ھ میں آپ کا وصال ہو گیا- آپ سماع کے قائل تھے، نہ صرف قائل تھے بلکہ سماع و وجد آپ کا معمول تھا ۔ خود فرماتے ہیں: ’’سماع اور وجد یہ دونوں چیزیں میرے لیے قوت و غذا ہیں اگر میں روز سماع نہیں کروں گا تو مرجاؤں گا اور شریعت میں اپنےآپ کو ہلاک کرنا جائز نہیں اس عذر اور میرے معاملات کے راز کو جانتے ہوئے بھی اگر آپ ( قاضی ضیاءالدین سنامی جو علم و عمل اور زہد و ورع کا سر چشمہ تھے مگر مسئلہ سماع میں سلطان المشائخ کے مخالف تھے، ان کو سماع سے روکتے بھی تھے ) مجھے نہیں چھوڑیں گے تو میں آپ کو لوح محفوظ میں دکھا دوں گا کہ حق تعالیٰ نے وجد کو مجھ پر مباح فرمایا ہے ۔ ( ص 229 )
کسی کے پوچھنے پر کہ سماع کیا ہے؟ آپ نے فرمایا "سماع کے مسئلہ میں سامع کا بھی لحاظ ہے، سماع ایک صوت ہے اس کو حرام قرار دنیا کیوں کر مناسب ہو گا؟ البتہ مزامیر کے ساتھ یہ حرام ہو گا ‘‘۔ ( ص 219 )
ایک محفلِ سماع میں مزامیر بھی تھے، اس پر آپ نے فرمایا  ’’میں نے منع کیا ہے کہ مزامیر و محرمات ہمارے درمیان نہیں ہوں گے" (ص 219)
ارادت :
ارادت میں اصل یہ ہے کہ مرید غیر حق سے منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہو جائے. (ص:224 ۔حضرت نظام الدین اولیا)
اگر شیخ سے مرید کہے کہ میں آپ کا مرید ہوں اور شیخ کہے کہ تو میرا مرید نہیں ہے تو وہ اس کا مرید ہو گا اور اگر شیخ کہے کہ تو میرا مرید ہے اور مرید کہے کہ میں آپ کا مرید نہیں ہوں تو یہ اس کا مرید نہیں ہوگا، اس لیے کہ ارادت حاصل کرنا مرید کا کام ہے شیخ کا نہیں (ص: 221 ۔حضرت نظام الدین اولیا )
لغزش کے درجات:
حضرت نظام الدین اولیا قدس سرہ نے لغزش کے درجات کو عاشق و معشوق کی تمثیل میں بیان فرمایا ہے، وہ یہ ہیں:
اعراض: محب سے جب کوئی غیر پسند یدہ حرکت سرزد ہو جائے تو اس سے معشوق اعراض کرتاہے، پر عاشق طلبِ معافی سے دوست کو منا سکتا ہے۔
حجاب : لیکن اگر عاشق معذرت طلب نہ کرے تو ناراضگی بڑھ جاتی ہے اور دونوں کے درمیان ایک طرح کا پردہ پڑ جا تا ہے- اب عاشق پر معشوق کو منانے کی ذمے داری اور بڑ ھ جاتی ہے۔
تفاصل: اگر حجاب ہٹانےکی عاشق کی جانب سے کوئی کوشش نہیں ہوئی اور حجاب طول پکڑتا گیا تو معشوق عاشق سے جدا ہو جائے گا۔
سلب مزید:
جدائیگی پڑی رہی، تو عاشق اب محرومی کا شکار ہوگا کہ معشوق اپنے انعامات کو روک لیتا ہے۔
سلب قدیم :
اب پرانے انعامات سے بھی عاشق کو محروم کر دیتا ہے۔
تسلی :
پرانے انعامات تو سلب پہلے ہی ہو چکے ہیں، اب کبھی کبھی معشوق کو اپنے دوست کا خیال آتا ہے- اس وقت بھی عاشق کے لیے گنجائش رہتی ہے کہ وہ معشوق کو جس طرح بن پڑے منالے۔
عداوت: لیکن اب بھی عاشق نہیں سدھرا، معشوق کو منانے کی کوئی کوشش نہ کی تو معشوق کے دل میں عداوت پیدا ہو جاتی ہے پھر عاشق معشوق کے عتاب کا شکار ہوتا ہے۔ ( ص 246 ملخص و مُسہّل )
اس تمثیل میں معشوق کی جگہ خدا کو رکھئے اور اپنے  پے درپے کیے گئے گناہوں کو ان درجات سے موازنہ کیجئے! یقیناً جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے (محمد شہروز )
حضرت شیخ ابراہیم ادہم قد س سرہ :
حضرت ابراہیم ادہم قدس سرہ سلسلہ کی ستائیسویں کڑی ہیں- آپ کے والد کا نام ادہم تھا، یا پھر میر سید سلیمان آپ کے والد تھے اور علاقہ ادہم کی سلطنت ملنے کی وجہ سے ادہم کے لقب سے ملقب ہوے – بہ ہر صورت آپ کے والد کی شادی کا قصہ عجیب و غریب ہے – حضرت ابراہیم ادہم کے والد ایک بادشاہ کی بیٹی پر فریفتہ ہو گئے، مگر بھلا فقیرانہ زندگی گزارنے والے سے بادشاہ اپنی بیٹی کی شادی کیسے کر سکتا تھا؟ بالاٰخر رشتہ نہ ہوا اور شہزادی وصال بھی کر گئی- حضرت ابرہیم ادہم کے والد اشارۂ غیبی پاکر ان کی قبر پر تشریف لے گئے اور آوازیں لگائیں، شہزادی زینت عروسی کے ساتھ قبر سے باہر آئیں، دونوں کا نکاح ہوا اور دونوں پاس ہی چھونپڑی بنا کر رہنے لگے، یہیں حضرت ابراہیم ادہم تو لد ہوئے۔ ایک مدت بعد بادشاہ کی نوکرانی (شہزادی کی دایہ) زیارت قبر کے لیے آئی اور معاملہ کی خبر بادشاہ تک پہنچوائی، بادشاہ پورے احترام کے ساتھ شہزادی اور نواسے کو گھر لے گیا مگر حضرت ابراہیم ادہم کے والد نے جانے سے انکار کر دیا- شہزادی بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے نواسہ حضرت ابراہیم ادہم قدس سرہ ولی عہد مقر ر ہوئے اور بادشاہ کے بعد تختِ سلطنت کے مالک ہوئے. ( ص: 336 ملخصا )
حضرت ابراہیم ادہم ایک رات تخت شاہی پر آرام فرما تھے، محل کی کی چھت پر کوئی اونٹ تلاش کرنے لگا، چھت کے اوپر اونٹ کی تلاشی پر حضرت ابراہیم ادہم نے استِعجاب ظاہرفرمایا تو متلاشی نے کہا جب چھت پر اونٹ نہیں مل سکتا تو تخت سلطنت پر خدا کیسے مل سکتا ہے؟ یہ حضرت خضر تھے جو حضرت ابرہیم ادہم کو سلطنت کی بے ثباتی کی یاد دہانی کرانے آئے تھے ۔ ایک بار ایک ہرن کے پیچھے شکار کے لیے دوڑے، ہرن نے مڑ کر کہا، اللہ نے آپ کو اسی کام کے لیے پیدا کیا ہے؟ ایک بار آپ کے گریبان سے بھی اس طرح کی آواز آئی- اب آپ کو یقین ہو چلا کہ یہ تخت سلطنت میرے لیے نہیں ہے۔ سلطنت کو ٹھوکر ماری، فقیرانہ لباس پہنے، شیر خواربچے اور بیوی کو چھوڑ کر بیابان کا گشت کرنے لگے، چودہ سال تک بادیہ پیمائی کے بعد مکہ معظمہ پہنچے اور مجاور ہو گئے- آپ رجال حدیث سے تھے، امام اعظم ابو حنیفہ قد س سرہ سے ملاقات ثابت ہے۔ 160ھ کے آس پاس وصال ہوا – جب حضرت ابراہیم ادہم اپنی آخر ی عمر کو پہنچے تو غائب ہو گئے، آپ کی قبر کہاں ہے ؟ اس کا تعیُّن مشکل ہے. ( ص 334 تا 372 ملتقطا)
سامان لذت:
حضرت ابرا ہیم ادہم قد س سرہ کے لیے خوشی کے تین مواقع اوران کے سامان لذت کو آپ بھی پڑھیے اور ممکن ہو تو چند لمحہ رُک کر اپنی انا کو ٹٹو لیے-
اول :
ایک کشتی پر وہ سوارتھے، سر کے بال بڑے تھے، کوئی ان کے سر کا بال نوچتا، کوئی گھونسا مار تا، کوئی مذاق اڑاتا- یہاں تک کہ ایک شخص نے آپ کی کان پکڑ کر آپ کو دریا میں پھینک دیا- حضرت ابراہیم ادہم فرماتے ہیں کہ اس وقت میں خو د کو اپنی مراد میں پایا۔
دوم :
ایک روز تھکا ماندہ ایک مسجد میں پہنچے، مسجد سے لوگوں نے آپ کو باہر کرنا چاہا. پر جسم میں طاقت نہیں تھی کہ خود سے باہر ہوتے، لوگوں نے آپ کو اٹھا کر باہر سیڑھیوں میں پھینک دیا، سیڑھی سے ٹکراتا، لڑھکتا نیچے پہنچے، سر لہو لہان تھا مگر ہر زینے پر سِرِّ اقلیمی روشن ہو تا گیا، دل نے کہا، کاش! چند زینے اور ہوتے۔
سوم :
تیسری بار خوشی اس وقت ہوئی جب ایک مسخرے نے آپ پر پیشاب کردیا. ( ص359 تا 360)
حضرت خواجہ فضیل بن عیاض قد س سرہ :
حضرت خواجہ فضیل بن عیاض قدس سرہ جوانی میں ڈاکوؤں کے سردار تھے- ایک عورت پر فریفتہ بھی تھے – رہ زنی کا سارا مال اسی عورت کو بھیجوا دیتے، مگر گردن پر ہمیشہ تسبیح لٹکتی رہتی ۔ پنچ وقت نماز با جماعت کے پابند تھے، بلکہ جو جما عت کی پابندی نہیں کرتا، اسے چوروں کی جماعت سے باہر کر دیتے – نفلی نماز اور نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتے- شاید ان ہی کی برکت سے توبہ کی توفیق ملی۔ توبہ کے بعد اٹھتے بیٹھتے ہمیشہ روتے رہتے، جس جس کا مال لوٹے تھے ان کو راضی کرتے پھرتے، اپنے اوپر حد جاری کروانے کے غرض سے سلطان کے پاس بھی پہنچے، مکہ معظمہ میں جا کر مجا ور ہوئے، امام اعظم ابو حنیفہ کی صحبت میں رہے، ان سے علم سیکھے، ریاضتیں کیں، یہاں تک کہ ولایت کے تاج دار بن گئے۔ ( ص 373 تا 380 ملتقطا)
حضرت خواجہ حسن بصری قدس سرہ :
حضرت خواجہ حسن بصری قدس سرہ کی والدہ ماجدہ حضرت أم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خادمہ تھیں، حضرت ام سلمہ کا دودھ پینے کا شرف حضرت خواجہ حسن بصری کو حاصل تھا۔ سرور کائنات کی گود میں آنے کا شرف بھی حاصل ہوا. (بر صدق روایت آپ کا صحابی ہونا ثابت ہوتا ہے، مگر مشہور یہ ہے کہ آپ تابعی تھے، دورِ عمرِ فاروق میں آپ کی ولادت ہوئی۔ شہروز) حسن نام حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا منتخب کردہ تھا- ایک سو تیس صحابہ کرام کی صحبتیں پائیں۔ حضرت امام حسن ابن مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ارادت و خلافت حاصل تھی اور ایک روایت کے مطابق مولیٰ علی سے بلا واسطہ خلافت حاصل تھی۔ مشائخ طریقت کے آپ مرجع ہیں، شجرۂ طریقت کی تمام شاخیں آپ سے جڑی ہوئی ہیں- 120ھ میں آپ کا وصال ہوا۔ ( ص 392 تا 422 ملتقط)
آپ کا فرمان ہے ’’ تم سے پہلے جو لوگ تھے وہ قرآن کو خط سمجھتے تھے کہ یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کے پاس پہنچا ہے وہ لوگ شب میں اس پر غور و فکر کرتے اور دن میں اس پر عمل کرتے اور تم لوگ قرآن کو پڑھتے ہو لیکن تم نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، اس پر اعراب و حروف کو درست کرتے ہو اور اس کو دنیا کمانے کا ذریعہ بناتے ہو ( ص 414 )
حضرت مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم :
آپ کی ولادت عام فیل سے سات سال قبل ہوئی- خانہ کعبہ کے اندر شرف ولادت میں اولاد بنی آدم میں ممتاز ہیں۔ حضرت امام حسن کی طرف نسبت کرتے ہوتے "ابو الحسن" اور سرکار دو جہاں کی عطا کردہ ’’ابو تراب‘‘ کنیت تھی. ظاہری جہاد کا جہاد اصغر اور باطنی جہاد کا جہاد اکبر ہونا حدیث پاک سے مستفاد ہے۔ غالباً اسی پر قیاس کرتے ہوئے صوفیہ نے خلافت ظاہرہ کو خلافت صغریٰ اور باطنی خلافت کو خلافت کبریٰ سے تعبیر کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی باطنی خلافت (خلافت ولا یت) بلا فصل امیر المومنین مولیٰ علی کو حاصل تھی اور خلافت ظاہرہ تین واسطوں سے حاصل ہوئی۔ 4 سال 9 مہینے خلافت ظاہری پر متمکن رہ کر تقریباً ~63 سال کی عمر میں شہادت سے سرفراز ہوئے جنازہ تیار رکھا ہوا تھا، وصیت کے مطابق امام کے انتظار میں لوگ کھڑے تھے، ایک نقاب پوش نے آکر نماز جنازہ پڑھائی، حضرت حسن نے امام کا دامن تھاما اور اپنا چہرہ دکھانے پراصرار کیا، تو یہ مولیٰ علی ہی نکلے، گویا اپنی نماز جنازہ خود انھوں نے پڑھائی.( ص 423 تا 434 مع توضیح و تلقیط )
حضور احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :
ختمی مرتبت، عالم پناہ، رسالت مآب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذکر پر کتاب کا اختتام ہوتا ہے- جمہور امت کے مطابق آپ کی پیدائش و وفات ماہ ربیع الا ول شریف میں ہوئی – کل 63 سال ظاہری زندگی میں رہے، بارہ یا چودہ دن بخار اور دردِ سر کے مرض میں رہ کر دونوں مرض کو شرف بخشا – مدت مرض میں بھی صحابۂ کرام کے ساتھ نمازیں ادا فرمائیں، اخیر کے تین دن یا کچھ نمازیں آپ نے اپنے یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پڑھانے کا حکم دیا ۔ وصال کے وقت آپ کے دونوں شانے کے درمیاں کا مہر نبوت اٹھا لیا گیا تھا، جسم اطہر سے خوش بو پھوٹ رہی تھی، لوگوں نے تنہا تنہا نماز جنازہ پڑھی۔کسی نے امامت نہیں فرمائی۔ ( ص 445 تا آخر منتخبا )
اولیاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم :
نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
(1)میں اولاد آدم کا سردار ہوں – (2)قیامت کے دن سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا -(3) سب سے پہلے میں ہی جنت کا دروازہ کھولوں گا – (4) خدا نے مجھے ایسی چیز یں عطا فرمائی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں- (5)میرا رعب ایک ماہ کے راستے تک ہے- (6) حق تعالیٰ نے تمام روے زمین کو میرے لیے مسجد بنا دیا. انبیاے سابقین کی نماز متعین عبادت خانے میں ہی ہوتی تھی- (7) اللّٰہ تعالیٰ نے طہارت کے لیے زمین کو پاک کر دیا کہ تیمُّم کرکے نماز پڑھ سکیں- انبیائے سابقین میں پانی کے بغیر طہارت ممکن نہ تھی- (8)مال غنیمت کو حلال فرمایا. انبیاے سابقین میں مال غنیمت جمع ہوتا اور آگ اس کو جلا ڈالتی- (9)مجھ کو تمام مخلوقات کی طرف نبی بنا کر مبعوث کیا گیا، جب کہ انبیاے سابقین مخصوص قوم کی طرف مبعوث ہوئے- (10) قیامت کے روز سبب میرے جھنڈے کے نیچے، میری پناہ میں، میرے تابع ہوں گے- ( ص 467تا 468)
حضور کے آباو اجداد کا ایمان :
حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر حضرت عبد اللہ تک آباو اجداد کا پورا شجرہ کفر و شرک کی گندگی سے پاک تھا- اس بات کا علم حق تعالیٰ نے متاخرین کے ساتھ خاص فرمایا ہے- خداے تعالیٰ حضرت شیخ جلا الدین سیوطی قدس سرہ کو جزاے خیر عطا فرمائے، انھوں نے اس باب میں نہایت مفید اور عمدہ کتابیں تصنیف فرماکر اس مُدّعا کو ظاہر فرمایاہے۔ ( ص 445تا 446 ملخصاً بہ حوالہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی)
درود پاک میں اختصار:
ایک شخص درود پاک میں ’’صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم‘‘ کو محض ’’صلعم‘‘ لکھتا، اس کو سرطان کا مرض ہو گیا- ایک دوسرے شخص نے بھی لکھا اسے آ کلہ پڑگیا- ایک شخص نے صرف’’صلاۃ ‘‘ لکھا سلام نہیں، تو خواب میں سرور کائنات نے اس پر خفگی کا اظہار فرمایا- اس لیے درود پاک لکھتے وقت بخل سے کام لےکر رمز واشارہ پر اکتفا نہ کرے- ایک شخص کی بخشش صرف اس وجہ سے ہو گئی کہ وہ رسول وقار کے نام مبارک کے ساتھ پورا درود پاک ’’صلّی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ لکھا کر تا تھا۔ (ص 467)
کچھ ترجمہ سے متعلق :
یہ کتاب فاضل ترجمہ نگارکا پہلا مستقل مطبوعہ اردو ترجمہ ہے- کتاب مخطوطہ ہو اور وہ بھی قدیم اور بوسیدہ ہو اس کا ترجمہ کتنا مشکل ہوگا اس کا اندازہ اس میدان کے تجربہ کار ہی کو ہے- میرے حساب سے بوسیدہ مخطوطہ کی ترجمہ نگاری میں دونوں زبانوں پر مہارت کے ساتھ موضوع کتاب پر سیر حاصل معلومات رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ وقت ضرورت سیاق و سباق سے مضمون کا تعیُّن کیا جا سکے. مولانا ابرار رضا مصباحی قابل صد مبارک باد ہیں کہ انھوں نے کامیاب ترجمہ فرمایا ہے۔ سلاست و روانی کی وجہ سے ترجمہ پن کا احساس بہت ہی کم جگہوں پر ہوتا ہے. میں روانی کی ایک مثال پیش کرتا ہوں، آپ بھی اسے پڑھیں اور اصل کتاب کا سا مزہ لیں :
’’حضرت سلطان المشائخ نے اپنے دست اقدس کو بیعت عام کے لیے کشادہ کر دیاتھا- گنہ گار اور خواہش پرست لوگ آپ کے ہاتھ پر توبہ کر رہے تھے اور عبادت و طاعت میں مشغول ہو رہے تھے. عام مخلوق تقلید و اعتقاد کے ساتھ عبادت میں رغبت و شوق دکھا رہے تھے. کیا مرد اور کیا عورت، کیا بوڑھا اور کیا جوان، کیا اُمُرا و ارکان دولت اور کیا چاکر و بازاری و عامی و غلام اور چھوٹے بچے سب کے سب آپ کی امامت و پیشوائی کے سبب نمازنفل اور صوم دہر میں مشغول ہو گئے تھے۔ شہر سے لے کر غیاث پور تک صوفیہ اہل صفا کے علاوہ کوئی دوسرا طبقہ اور فرقہ نظرمیں نہیں آرہا تھا۔ مسلمان ایک دوسرے سے شرم کی وجہ سے دنیا اور عیش دنیا کا بالکل ذکر نہیں کرتے تھے۔ متعلمین اور اشراف و اکابر جو آپ کی خدمت سے وابستہ اور پیوستہ تھے، زیادہ سے زیادہ سلوک و سیر اور احکام طریقت کی کتابوں اور صحیفوں کا مطالعہ کرتے ہوئے دکھ رہے تھے۔ کتاب راحت القلوب، اخبار العلوم، عوارف(المعارف)، کشف المحجوب، شرح یعرف، رسالہ قشیری، مرصاد العباد، مکتوبات عین القضاۃ، قاضی حمیدالدین ناگوری کی لوائح اور لوامع، اورسلطان المشائخ کے ملفوظ "فوائد الفواد" کے بہت سے خریدار پیدا ہو گئے تھے، اور سلوک و حقائق کی کتابوں کے علاوہ کچھ نہیں پوچھتے تھے۔اس وقت حقائق و معارف اس قدر شائع ہو گئے تھے کہ تعجب ہوتا ہے۔ جس طرح جنید و بایزید کے زمانے میں رواج پائے تھے‘‘۔(ص 248)
مذکورہ اقتباس پڑھیے، سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا قدس سرہ کے فیوض و کمالات سے لطف اندوز ہوئیے اور ترجمہ نگار کو دعائیں دیجیے. مگر کہیں کہیں یہ کتاب ترجمہ ہونے کا بھر پور احساس دلاتی ہے۔ ایک اقتباس اس پر بھی دیتا ہوں:
’’ جب عورتوں نے پوری تحقیق و دریافت کی تو معلوم ہوا کہ راجی سید احمد کی اہلیہ کو ایک ماہ کا حمل ہے اور اسی سے راجی سید شاہ مبارک و جود میں آئے اور پھر کچھ مدت کے بعد آپ مخدوم شاہ حسام الحق مانک پوری کی اولاد میں منسوب ہوئے اور آپ کی شادی ہوئی۔ ایک مدت گزر گئی لیکن کوئی فرزند نہیں ہوا۔ آپ کی اہلیہ نے بہ رضا و رغبت کہا کہ آپ دوسری شادی کرلیں، تاکہ نسل کی بقا کا باعث ہو۔ آپ نے فرمایا کہ تم حضرت مخدوم کی اولاد سے ہو، تمھارے ہوتے دوسری شادی کرنا مناسب نہیں ہے۔ جب آپ کی اہلیہ اس امر پر بہت مصر ہوئیں تو آپ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ استخارہ فرمایا۔ اس میں ظاہر ہوا کہ جون پور میں شیخ الٰہ داد کی دختر سے چھ لڑکے پیدا ہوں گے۔ چنانچہ بشارت کے مطابق پیدا بھی ہوئے۔ اور آخری چھ لڑ کےمیاں شیخ الٰہ داد کی دختر نیک سے پیدا ہوئے. اس وقت سے حضرت حجۃالعاشقین کے فرزندان شاہ حسام الحق کے فرزندوں سے نسبت نہیں کر تے ہیں"۔ ( ص 141)
مذکورہ اقتباس میں موجودہ طرز نگارش کی صفائی کم معلوم ہوتی ہے، مگر ایسی ژولیدگی بھی نہیں کہ تفہیم نا ممکن ہو- بہر حال فاضل مترجم نے قیمتی سرما یہ کو ضائع ہونے سے بچا لیا ہے، تہذیب و تزئین تو ہوتی رہے گی-
چند معروضات :
(1)مولانا ابرار رضا مصباحی اپنے مقدمے میں وسیلۃ النجاۃ اور مولف کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’احقر مترجم کے ناقص فہم کے مطابق اگر وہ اس کی وضاحت کردیتے تو زیادہ مناسب ہوتا‘‘۔(ص76)
’’وصال وغیرہ کا ذکر بعد میں ہونا چاہیے تھا ‘‘۔(ایضاً)
’’یا تو ملفوظات سے پہلے ہونا چاہیے تھا یا پھر بعد میں‘‘ ۔ (ص77)
یہ عبارتیں مجھے عجیب و غریب لگیں ۔ امام بخاری قدس سرہ نے صحیح بخاری میں کہیں عنوانِ باب قائم فرمایا مگر اس کے تحت کوئی حدیث نہیں ذکر فرمائی، کہیں عنوان باب سے بہ ظاہر حدیث میل نہیں کھاتی، کہیں حدیث کا تکرار. یہ وہ چیز یں ہیں جو تقریبا تمام محدثین بیان کر تے ہیں، مگر امام بخاری کو یہ کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کرنا چاہیے تھا، اس طرح کی تحریر پڑھی گئی نہ اکابر سے سنی گئی۔
(2) مولانا ابرار رضا مصباحی صاحب مقدمہ میں لکھتے ہیں : 
’’خاص طور پر وہ اربابِ خانقاہ اور صاحبانِ طریقت جو خلافت نامے فاتحہ کی شیرینی کی طرح تقسیم کرتے ہیں اور خلفا کی تعداد میں اضافہ کر کے مریدین کی بھاری کھیپ کی تیاری میں کوشاں وسرگرداں نظر آتے ہیں، اس میں ان جیسے حضرات کے لیے بھی درس عبرت ہیں ‘‘ ۔( ص 75 تا 76 )
مجھے نہیں معلوم کہ مصباحی صاحب نے یہ عمومی بات کس خصوص کے تناظر میں کہی ہے۔ ہر کام میں مثبت ومنفی دو پہلو ہوتے ہیں۔ محبین مثبت پہلو پر نظر رکھتے ہیں اور مخالفین منفی پہلو کو اچھالتے ہیں، مثلاً تقریبا جملہ خانقاہوں کا نظام رہا ہے کہ پیر ان عظام سال، دو سال، بسا اوقات مہینہ، دو مہینہ میں اپنے متوسلین کے علاقوں کا دورہ کر تے ہیں۔ اس پر منفی ریمارک کسا جا سکتا ہے بلکہ کسا بھی گیا ہے کہ پیران عظام آتے ہیں اور مریدین سے نذرانے لوٹ کر چلے جاتے ہیں- لیکن مثبت پہلو پر بہت کم لوگوں کی نظر جاتی ہے کہ جن علاقوں میں پیران عظام کا دورہ رہا، اللہ کے فضل سے وہ علاقہ آج بھی سنت و جماعت پر قائم ہے اور جہاں دورہ نہیں رہا اس پر بد مذہبوں کا قبضہ ہے۔
نیز سلسلۂ چشتیہ کے بزرگوں کا طریقہ یہ تھا کہ تزکیۂ نفس کے بغیر جلدی کسی کو مرید تک نہیں کرتے تھے –
چنانچہ ص 224 میں ہے ’’سلف جب تک کسی کا انقطاع کلی نہیں کر دیتے تب تک اسے دست بیعت نہیں دیتے" مگر حضرت نظام الدین اولیا کا معمول اس کے بر خلاف تھا۔ آپ کا دستِ بیعت ہر آنے والے کے لیے کھلا تھا۔ اس کی وجہ خود آپ نے بیان فرمائی کہ جب آنے والا کہتا ہے کہ میں نے تمام گناہوں سے توبہ کی، تو اس نیت سے کہ شاید اس کی بات سچ ہو اسے اپنا دست بیعت دے دیتا ہوں. ( دیکھئے صفحہ 225)
سلف کے معمول کے خلاف نیتِ حسن کے ساتھ جب بیعت "فاتحۃ کی شیرینی" کی طرح بانٹی جا سکتی ہے تو اہل خلافت میں خلافت کیوں نہیں؟
سلسلہ کی نویں کڑی مخدوم شیخ حسام الحق والدین مانک پوری قدس سرہ ہیں۔ صفحہ 180 میں ہے کہ ان کے ایک سو تیس خلفا تھے، تو کیا ان کا مقصد بھی مریدین کی بھاری کھیپ تیار کرنا تھا؟ کیا ان کے لیے بھی عبرت کی درس گاہ لگائی جا سکتی ہے؟
(3) کتاب میں شیخ غلام رشید قدس سرہ کی شمولیت کے ساتھ کل 32؍ نفوس قدسیہ کا ذکر ہے مگر مقدمہ میں ص 62 کے شروع میں 32 کی جگہ 34 ہو گیا ہے۔
(4)حضرت راجی سید شاہ مبارک مانک پوری سلسلہ کی چھٹی کڑی ہیں. صفحہ 132 میں دیے گئے سلسلۂ نسب سے واضح ہوتاہے کہ ان کے والد راجی سید شاہ احمد ہیں اور دادا راجی سید شاہ نورالحق مانک پوری تھے-مگر صفحہ 140 کے اخیر میں ہے: ’’راجی سید شاہ احمد اپنے والد بزرگ وار راجی سید شاہ مبارک کے ساتھ ایک معرکہ ….) یہاں شاہ احمد کے والد سید شاہ نور مانک پوری کی جگہ شاہ احمد کے بیٹے شاہ مبارک مانک پوری کا ذکر ہو گیا ہے ۔
(5)سلسلہ کی چودہویں کڑی حضرت خواجہ فرید الحق والدین گنج شکر قدس سرہ ہیں- صفحہ 253 میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے انھیں 595ھ میں عرصۂ روز گار میں پیدا فرمایا۔ صفحہ 264 کے مطابق 664ھ وصال ہوا- اس حساب سے ان کی عمر 69 سال ہوتی ہے – مگر اسی صفحہ 264 میں ہے کہ ان کی عمر 95 سال تھی-  اگر وفات کی دوسری روایت 674 ھ کو لیتے ہیں جب بھی عمر 79 سال ہوتی ہے۔ غرض کہ 95 سال کسی طرح نہیں ہوتی۔
(6)حضرت خواجہ شیخ ابو یوسف چشتی قدس سرہ سلسلہ کی بیسویں کڑی ہیں، آپ خواجہ مودود چشتی کے مرشد تھے اور حضرت خواجہ ابو محمد چشتی کے مرید و خلیفہ ۔ 375 ھ میں پیدا ہوئے، 459 ھ میں وصال ہوا۔ اس حساب سے آپ کی عمر 84؍ سال ہوتی ہے۔ صفحہ307؍ میں یہی عمر مذکور بھی ہے، مگر صفحہ 306؍ میں تاریخ وفات تو  مذکور ہے پر عمر 74؍ سال درج ہو گئی ہے۔
(7) سلسلہ کی چھٹی کڑی حضرت راجی سید شاہ مبارک مانک پوری ہیں۔ ان کے وصال کی تاریخ صفحہ 143؍ میں 965ھ مرقوم ہے۔ مادۂ تاریخ ’’بحق شد راجی سید مبارک‘‘ کے مجموعی نمبر بھی 965 ہی بر آمد ہو تے ہیں پر مصرع کے نیچے 1065ھ درج ہو گیا ہے ۔
(8)کتاب میں سب سے زیادہ خلجان بزرگان دین کے سنہ پیدائش و وفات کی مختلف روایات سے پیدا ہوتا ہے- مولف کتاب نے کسی روایت کی ترجیح بھی نہیں فرمائی ہے- شاید ان کا مقصد روایات کو اکٹھا کرنا ہو-اس کتاب کی تہذیب جدید ہو تو مختلف روایات میں ترجیح کی جائے، گنجلگ عبارتوں کو سلیس کر دی جائیں، تو سونے پہ سہا گا ہوجائے. مجموعی طور پر اس کتاب میں سلوک و تصوف کے گنج ہائے گراں مایہ موجود ہیں – ارشادات و تعلیمات کے تحت جواقوال موجود ہیں، انھیں خانۂ دل میں بسانے کی ضرورت ہے۔ مترجم گرامی کی جانب سے چھوٹے چھوٹے ذیلی عنوانات جیسے شیخ نور کا نور، حسام تا قیام، کمال تو کل وغیرہ بھی دل آویز ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جملہ سلا سل کا فیضان عطا فرمائے۔ نصیحت اخذ کرنے کی نیت سے احباب اس کتاب کا مطالعہ فرمائیں، ان شا اللّٰہ اسی ایک کتاب سے زندگی کی دھارا بد ل سکتی ہے۔
محمد شہروز کٹیہاری کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں : ملک العلما سیمانچل میں (پہلی قسط)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے