حضرت جوش ملیح آبادی اور سید فخرالدین بلے = داستانِ رفاقت

حضرت جوش ملیح آبادی اور سید فخرالدین بلے = داستانِ رفاقت

(آج بائیس فروری ہے اور حضرت جوش ملیح آبادی کی چالیسویں برسی)
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری

آج بائیس فروری ہے اور دادا جانی حضرت جوش ملیح آبادی کی چالیسویں برسی ہے. اردو ادب کی ہیں آن بان اورشان ۔ جناب شبیر حسن خان۔بلاشبہ جو اپنی ذات میں تھے ایک مکمل دبستان۔ آپ انھیں کہہ سکتے ہیں پورے اعتماد کے ساتھ حکمت و دانش کا ایک جہان۔ خدائےسخن شبیرحسن خاں ہماری علمی اور ادبی دنیا میں جوش ملیح آبادی کےنام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں. جوش ان کامحض تخلص نہیں،ا ن کاطرۂ امتیاز بھی رہا۔ جذبوں میں جوش، لفظوں میں جوش، احساسات میں جوش، جذبات میں جوش، تخیلات میں جوش، افکار و تصورات میں جوش۔ آپ ان کی کوئی سی نظم دیکھ لیں، آپ کو اس میں ہر اعتبارسے جوش ہی جوش نظر آئے گا۔ اسی لیے انہیں اسم بامسمیٰ کہنا اور سمجھنا زیادہ بہتر ہوگا۔
شبیرحسن خاں المعروف جوش ملیح آبادی نےاپنی زندگی ہی میں خود کو مرحوم لکھناشروع کردیا تھا۔اب تو زمانہ انھیں جوش مرحوم لکھ رہاہے۔ میں انھیں مرحوم نہیں سمجھتا، اس لیے کہ وہ تو ہمارے اور اپنے چاہنےوالوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
میں نے ان کی شخصیت اور فن پر قلم اٹھانے کا سوچا ہی ہے تو ان کی یادوں کی برات میرے ساتھ ساتھ چل پڑی ہے۔ ان کی شاعری کے بہت سے مجموعے میری نظر سے گزرے، جو میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بَلے کی الماریوں کی زینت تھے۔ کچھ کا میں نے بہ طور خاص کئی کئی بار مطالعہ کیا۔ ان کے بیش تر شعری مجموعوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کے عنوانات دوالفاظ پر مبنی ہیں۔ آپ تین کہہ لیجیے، اس لیے کہ دوالفاظ کو جوڑنے کے لیے ”واؤ" کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ عرش و فرش، فکرونشاط ،آیات و نغمات، الہام و افکار، حرف و حکایات، جنون و حکمت ( رباعیات)نقش و نگار، سموم و صبا، نوادرِ جوش، رامش و رنگ، شعلہ و شبنم، موجد و مفکر، محراب و مضراب۔ بہت سے مجموعے ایسے بھی ہیں جن کےعنوانات اس ڈگر سے ہٹ کریں، مثلاً انتخابِ کلیاتِ جوش، جوش ملیح آبادی کےمرثیے، آزادی کی نظمیں، اشارات وغیرہ۔ یہ پورا کلام جذبوں کے جوش اور الفاظ کی گھن گرج کے ساتھ ساتھ مفاہیم و مطالب کے جہانوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
میں نے اپنے بچپن میں جوش مرحوم کو قریب سے دیکھاہے، ان کی محفلوں میں اپنے بزرگوں کے ساتھ شرکت کابھی مجھے اعزاز حاصل ہوا، ان کی گرج دار آواز کی گونج اب بھی مجھے فضاؤں میں سنائی دیتی ہے۔ وہ اردو ادب کی آبرو ہیں۔ بہت بڑے شاعرہیں اور جتنےمعروف ہیں، اس سےکہیں زیادہ ممتاز۔ جوش صاحب کا شمار متنازع شخصیات میں بھی کیاجاتاہے۔اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جوش صاحب کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے جتنی متوازن تنقید ہوئی، کم و بیش اتنی ہی غیر متوازن بھی۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جوش صاحب کی شخصیت اورفن کی بنیاد پرجتنا کچھ حمایت یا توصیف میں لکھا گیا ہے، تقریباً اتنا ہی خلاف بھی لکھا گیا. ایک دور ایسا بھی آیا کہ جب جید علما اور جوش صاحب کے اختلافات حد سے تجاوز کر گئے اور موضوعِ بحث جوش بنے رہے۔
بزعمِ خود صدربننے والے جنرل ضیاءالحق نے کسی بات پر ناراض ہوکرجوش ملیح آبادی کا وہ اعزازیہ بند کردیا تھا، جو حکومت پاکستان کی طرف سے ان کی امداد نہیں، بلکہ ادبی خدمات کےاعتراف میں انہیں ماہانہ بنیاد پر ادا کیا جاتا تھا۔ جس پر مولاناکوثرنیازی نےایک قومی اخبار غالباً روزنامہ جنگ میں اپنا کالم لکھا، ۔۔کافرشاعر کی مومنانہ شاعری۔۔۔اس میں انھوں نے سورہ رحمان کے منظوم ترجمےکاحوالہ دیاتھا، یہ حوالہ کام کرگیااور ان کا ماہانہ مشاہرہ بحال کردیاگیاتھا۔
جوش صاحب فرمایا کرتےتھے کہ سورج غروب ہوتا ہے تو جوش طلوع ہوتا ہے اورجب سورج طلوع ہوتا ہے تووہ جوش کو بیدارکرپاتا ہے. مگر22فروری 1982کاسورج جب طلوع ہوا توجوش صاحب بیدارتو تھے مگر ہوش میں نہ تھے اور غنودگی شدیدتھی۔ مجھےاچھی طرح یاد ہےکہ فروری کےتو پہلے اوردوسرےعشرے میں جوش صاحب کی علالت شدت اختیار کر چکی تھی. غالباً یکم فروری ہی تھی کہ صبح سات بجے کے قر یب سجاد انکل (سجادحیدرخروش صاحب فرزند جوش ملیح آبادی مرحوم) کا فون آیا “السلا م علیکم!کیا بلےبھائی صاحب سے بات ہوسکے گی؟ میں ٹھیک سےسن نہیں پایا تھا کیونکہ فون کی گھنٹی پرہی میری آنکھ کھلی تھی. میں نے عرض کیاجی فرمائیے کون صاحب بات کر رہے ہیں۔ ”میں سجاد ہوں، سجادحیدر، فخرالدین بلےصاحب سے بات ہوسکے گی؟ جواباً میں نے پہچان کربہت مودبانہ انداز میں سلام کیا اوربتایا کہ ابّو تودوسرے کمرے میں ہوں گے، میں انھیں بلواتا ہوں۔ بعد میں ان کی ابوسے فون پرتفصیلی بات ہوئی. اور بات مکمل ہونے پرمیں نے ابو کےچہرے پر پریشانی کےآ ثاردیکھے۔ پوچھا ابّو سب خیریت توہے. ابونے کہا بیٹےجوش صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں اور ہمیں فوراًوہاں پہنچناہوگا۔ ہم لوگ گھنٹہ بھر میں جوش صاحب کی رہائش گاہ پرپہنچ گئے۔ سجاد حیدر خروش صاحب سےجوش صاحب کی کیفیت معلوم کی۔ پھر دیگر اہل خانہ سے ملا قا ت ہوئی۔ پھُپی جان (دختر جوش ) فواد (فرزند سجا دحیدر) اور دختران سجاد حیدر خروش سب ہی اپنےبلےانکل کے گرد جمع ہوگئے۔ باباکی علالت نےتمام اہل خانہ کوفکرمند کر رکھاتھا۔ مگر ابو سے بات کرکےاورانھیں اپنے درمیان پاکر سب ہی گھروالوں کی پریشانی کم ہوتی نظرآرہی تھی۔اور پھر بیماری کی نوعیت کومدنظررکھتےہوئےعلاج کے سلسلے میں پیش رفت کے لیے باہمی مشورےہوئے۔پرانے اور نئے معالجین سے رابطے تیز ہوگئے۔
بائیس فروری 1982۔۔ وہ المناک دن ہےکہ جب شبیر حسن خان المعروف جوش کی زندگی کاسورج غروب ہوا توجیسے دنیاے ادب میں اندھیراہوگیا۔ مجھے یہ عبارت لکھتے ہوئے آنس معین کاشعر یاد آگیا ہے ہے.
آج کی رات نہ جانے کتنی لمبی ہوگی
آج تو سورج شام سے پہلے ڈوب گیا ہے
شاعر آخرالزماں ہوں اےجوش ۔۔۔۔کہنےوالےجوش ملیح آبادی اب نہیں رہےتھے۔ ان کی زندگی کے آخری ایاّم میں ابّو مسلسل ان کی عیادت و مزاج پرسی کی غرض سےان کے ساتھ ساتھ رہے۔ سجاد انکل کہتےتھے۔” بلےبھائی صاحب آپ کی موجودگی سے بچوں کو، بہن کواور مجھے بہت تقویت رہتی ہے وگرنہ ہمارے ہا تھ پاؤں پھولنے لگتے ہیں اورجب بابا بھی آپ کو دیکھتے ہیں تو مطمئن ہو جاتےہیں اورآپ جب انھیں نظر نہیں آتےتو فرماتے ہیں بلےصاحب کو بلوابھیجیے۔
جب جنازگاہ میں جوش صاحب کی نماز پڑھی جا چکی تھی اور تھوڑے ہی وقفے کےبعددوسرے فرقےکےاحباب نے ایک مرتبہ پھرنمازپڑھوائی توفیض احمد فیض بھی اس میں شرکت کرپائے تھےاور نمازجنازہ ادا کرنے کے بعد فیض صاحب نےاپنا سرجوش صاحب کےقدموں پر دھر دیا اوردہاڑیں مارمارکرروتےرہے اورکہتےرہے کہ” آ ج اردو یتیم ہوگئی"۔ یہ بہت ہی رقت آمیز منظرتھا۔ فیض صاحب بھی تو والدگرامی سیدفخرالدین بلے کی طرح عارضۂ قلب میں مبتلاتھےاوران دونوں کی حالت بگڑتی چلی جارہی تھی۔ سجادانکل یتیمی کا گھاؤ برداشت کرنے کی کو شش میں مصروف تھے۔ تدفین کےمراحل سے گزرکر تینوں بزرگوں کو ایمرجنسی میں لے جایا گیا. یہاں یہ امرقابل ذکر ہےکہ فیض صاحب نےجوش صاحب کی تدفین سےقبل ہی ابّو اور سجاد انکل کے قریب آکر فرمایا میں تھوڑی دیر کے لیے اجازت چاہوں گا۔ ابّو کے اس استفسار پرکہ تدفین ہونےکو ہے، فیض صاحب نے فرمایا "بلےصاحب میں اردو کو دفن ہوتے ہوئےنہیں دیکھ سکتا “۔ اور واقعی فیض صاحب اس مرحلے پر وہاں موجودنہ تھے۔ جوش صاحب کےحو الےسےیوں توبہت سی باتیں ہیں کہ جوان گنت نشستوں میں سننےکوملیں گی مگر ایک بات ذراہٹ کرہے اور مختلف بھی۔ غالباً یہ مارچ 1982ء کا واقعہ ہے کہ جوش صاحب کےبلاوے پر ہم ان سے ملنےان کی رہائش گاہ پہنچے۔ چند ایک دیگر احباب بھی تھے۔ انھوں نے سجاد انکل کو مخاطب کیا "آج کی نشست میں پہلےآپ پڑھیں گے، پھرآنس معین اور پھرمحمدعلی(اداکار) اپنےکسی پسندیدہ شاعرکاکلام پڑھیں گےاورپھرہم بلےصاحب سےملتمس ہوں گے۔مختصر یہ کہ اسی ترتیب سے شعرا نےاپنااپنا کلام سنایا۔ پھر جوش صاحب نےابّو سےفرمائش کرکےچند غزلیں سنیں اور آخر میں برفباری کےحوالےسےان کی نظم سن کر دوبارہ فرمائش کرکےسنی اورآخر میں ابو کی فرمائش نہیں، بلکہ ان کےاصرار پرجوش صاحب نےاپنا کلام سنایا. محفلِ شعروسخن کےاختتام پر گفتگو کا آغاز ہوا اور ہوتے ہوتےگفتگوکاموضوع پروردگارِعالم ہوگیا۔اس کی رحمت اور بخشش پربات ہونےلگی اور پھرجوش صاحب نےابّو کومخاطب کیا۔ بلےصاحب اللہ ایک کام نہیں کرسکتے اوروہ ہےظلم اورپھراپنا شعرپڑھا۔
شبیرحسن خا ں نہیں لیتے بد لہ
شبیرحسن خاں سےبھی چھوٹاہےخدا
ابّو نے کہا بےشک پروردگارِعالم ارحم الراحمین ہے۔ اور اس کے بعد ابّو کچھ کہنے کوتھے کہ جوش صاحب نے فرمایا بلے صاحب وہ جوابھی غزل سنائی تھی. کیاتھاوہ شعر، دوبارہ عطا فر مائیے۔ کیا؟ اسی کےرحم وکرم پر۔۔ہاں
اسی کے رحم وکرم پر ہے عاقبت میری
نہ جس نے پہلی خطا کو مِری معاف کیا
فیض احمد فیض نےجوش صاحب کےحوالے سےایک جگہ اپنی رائےکا اظہاران الفاظ میں کیا تھا کہ "جوش کے کلام کی قدروقیمت میں کوئی شبہ نہیں، کسی نظام کے خلاف آوازاٹھانا، ہمیشہ جرات اوردلیری چاہتاہے۔جوش نےنوجوان لکھنےوالوں کاحوصلہ بڑھایا اورانھیں فکر و نظرکےنئےراستےدکھائے. جب کہ معتبر نقاد ڈاکٹر محمدعلی صدیقی کاخیال ہے کہ جوش نےمحض علماے سو کی منافقت اورنام نہاد علما کےجہل کےخلاف اس قدر جذباتی اندازمیں قلم اٹھایا کہ ان کی اکثرنظمیں ان کے خیالات کی منظوم شکلیں نظرآتی ہیں۔" بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کوبھی اعتراف کرناپڑاکہ جوش کے کلام کو پڑھ کر لطف و سرور محسوس ہوتاہے۔ جوش صاحب بےشک ایک قادرالکلام شاعرتھےاوراس حوالے سے جائزہ لیاجائےتومنکرینِ جوش کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے. جب کہ معترفین اورمعتقدینِ جوش کو شمار میں لانا بہت دشوار ہے۔ اور ماننے والے تو انھیں شاعر انقلاب مانتےہیں۔ جوش صاحب تمام مظاہرومناظرِفطرت و کائنات میں سےطلوع آفتاب کے منظرکو حسین ترین سمجھتے تھے۔ اس حوالےسے جوش صاحب کایہ شعر ملاحظہ ہو۔
ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے
اگر رسول ؐ نہ آتے تو صبح کا فی تھی
قطع نظر اس کےاہلِ بیتِ اطہارسے انھیں خاص نسبت و عقیدت تھی۔ قرآن مجید و فرقان حمید پر بھی ان کی گہری نظرتھی۔ وہ قرآن پاک کا منظوم ترجمہ کرنے کے خواہش مند تھے اور سورۃ رحمٰن کامنظوم ترجمہ اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
اے فنا انجام انساں کب تجھے ہوش آئے گا
تیرگی میں ٹھوکریں آخر کہاں تک کھائے گا
اس تمرُّد کی روش سے بھی کبھی شرمائے گا
کیا کرے گا سامنے سے جب حجاب اٹھ جائے گا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا

سبز گہرے رنگ کی بیلیں چڑھی ہیں جابجا
نرم شاخیں جھومتی ہیں، رقص کرتی ہے صبا
پھل وہ شاخوں میں لگے ہیں دل فریب و خوش نما
جن کا ہر ریشہ ہے قند و شہد میں ڈوبا ہوا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا

یہ سحر کا حسن، یہ سیارگاں اور یہ فضا
یہ معطر باغ، یہ سبزہ، یہ کلیاں دل ربا
یہ بیاباں، یہ کھلے میدان یہ ٹھنڈی ہوا
سوچ تو کیا کیا، کیا ہے تجھ کو قدرت نے عطا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا

پھول میں خوشبو بھری، جنگل کی بوٹی میں دوا
بحر سے موتی نکالے صاف، روشن، خوش نما
آگ سے شعلہ نکالا، ابر سے آبِ صفا
کس سے ہو سکتا ہے اس کی بخششوں کا حق ادا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا

خلد میں حوریں تری مشتاق ہیں، آنکھیں اٹھا
نیچی نظریں جن کا زیور، جن کی آرائش حیا
جن و انساں میں کسی نے بھی نہیں جن کو چھوا
جن کی باتیں عطر میں ڈوبی ہوئی جیسے صبا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا

ہر نفس طوفان ہے، ہر سانس ہے اک زلزلا
موت کی جانب رواں ہے زندگی کا قافلا
مضطرب ہر چیز ہے جنبش میں ہے ارض و سما
ان میں قائم ہے تو تیرے رب کے چہرے کی ضیا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا

اپنے مرکز سے نہ چل منہ پھیر کر بہرِ خدا
بھولتا ہے کوئی اپنی انتہا اور ابتدا
یاد ہے وہ دور بھی تجھ کو کہ جب تو خاک تھا
کس نے اپنی سانس سے تجھ کو منور کر دیا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا

صبح کے شفاف تاروں سے برستی ہے ضیا
شام کو رنگِ شفق کرتا ہے اک محشر بپا
چودھویں کے چاند سے بہتا ہے دریا نور کا
جھوم کر برسات میں اٹھتی ہے متوالی گھٹا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
(جوش ملیح آبادی)

سجاد انکل جب ایک مرتبہ ملتان تشریف لا ئےہوئے تھے تو امّی جان نےاُن سے پوچھا "بھائی صاحب آپ کایاآپا کا کوئی پرہیزہوتوبتادیں اورکوئی ایسی چیزجوآپ کو نا پسند ہوتووہ بھی“۔ سجادانکل نےکہا ”بھابی جان بچپن میں ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہماری اماں چندروز کے لیے کہیں گئیں۔
تو ہم نےکیادیکھاکہ پانچ سات بڑےبڑےمرتبان اچار سے بھرے رکھے تھے اور ہمیں توگلےآنےکی بیماری لاحق تھی ہی۔ بس ہم نے اماں کی غیرموجودگی کاپوراپورافائدہ اٹھایا اورچندہی روز میں اچارسےبھرےمرتبان صاف کر ڈالے۔ بس یہ نہ پوچھیےگاکہ اماں نےہماراکیاحال کیا؟مگر وہ دن اورآج کا دن ہمیں کبھی گلےآنے کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
سجاد انکل نےجتنےروزبھی ہمارےہاں قیام کیا، وہ مسلسل ماضی قریب کےاس دور کو یاد اوربیان کرتے رہے، جو ابّو کی راولپنڈی /اسلا م آباد میں تعیناتی کا تھا اور اس دوران کی ہونے والی بیش تر نشستوں کا احوال بھی انہی کی زبانی معلوم ہوا۔ راولپنڈی آرٹس کونسل میں منعقد ہونےوالی تقریبات میں اپنی اوراہل خانہ کی شرکت کےحوالےسےبھی بہت سےواقعات کاکم ازکم مجھے توانہی کےتوسط سےعلم ہوا۔ انھوں نے تبسم بہنا کا خاص طور پرذکرکیا کہ اپنےبلےانکل سےمجھ سےزیادہ تبسم کارابطہ رہتا اورمیں کیابابا (حضرت جوش)بھی جب یہ سمجھ لیتےکہ یہ بچے آج پھر (آئے دن)کسی تقریب میں شرکت کےمتمنی ہیں اوربلے بھائی صاحب سے گٹھ جوڑکیےبیٹھےہیں توگنجائش باقی نہ رہتی اور بس خاموش ہی نہ ہورہتےبلکہ خوش دلی سےاجازت بھی دے دیتے۔ محض یہ جان کرکہ ان کاپلڑابھاری ہے اور ان کےساتھ تو بلےبھائی صاحب ہیں کہ جو بابا کو پل بھر میں قائل کرلینےکافن جانتےہیں توبھلامجھ جیسے کو قائل ہونےمیں کتنی دیرلگےگی۔ سجادانکل کا کہنا تھا بلےبھائی صاحب نےتووہاں ادبی اورثقافتی سرگرمیوں کے حوالےسےتہلکہ مچارکھاتھا۔ ایک ایک دن میں کئی کئی تقریبات معمول تھا۔ خودمیں متعدد بارکئی کئی پہر مسلسل تقریبات میں شرکت کرنے میں گزارتاتھا۔ ان کے قیام کے دوران ہی ایک شام اچانک بیٹھے بیٹھے سجاد انکل نےہمارے پیارےباباسائیں(ابّو)سےفرمائش کی بھائی صاحب آج تودل مچل رہا ہے، بابا بہت یاد آرہے ہیں۔ آج میں آپ سےایک ایک کرکے وہ تما م کلام سنانے کی گزارش کروں گا کہ جن کی فرمائش بابا آپ سےکیا کرتے تھے۔ بس پہلےتوآپ "رقص میں ہے" والی نظم، پھراپنا قول ترانہ ” من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ “پھر”ہے قیدِ عصر سےوالعصر ماورا بھی علی“ والی منقبت اور پھر حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے۔ اس کے بعد غزلیں اورنظمیں مگر نظم "با رانِ کرم" ضرور سنائیےگا۔ہم سب کےسب ڈرائنگ روم میں ابّواور سجادانکل کے گرد جمع ہوگئےاوراچانک سجادانکل نےکہابلےبھائی صاحب ذرا ٹھہرئیےگا۔ پہلےمیں اپناکلام پیش کروں گا کیونکہ آپ نے بعد میں فرمائش کردی تو آپ کےبعد، یہ ممکن نہ ہوگا. ابھی سجادانکل نےکلام سناناہی شروع کیا تھا کہ عرش صدیقی صاحب، حسن رضاگردیزی صاحب، جناب حیدرگردیزی،جناب مقصود زاہدی سمیت کئی اہل قلم تشریف لےآئے۔ یہ محفل بہت یادگاررہی. سب نے اپنا اپنا کلام سنایا اورآنس معین سےتوسجاد انکل نےیہ کہہ کر کلام سنانےکی فرمائش کی کہ آپ توہمارےبابا کے کمسن سقراط ہیں۔ کیسےممکن ہےکہ آپ کےکلام کے بنا محفل مکمل ہوسکے۔
جوش صاحب کےبعد خروش صاحب بھی اللہ کوپیارے ہوچکے ہیں۔ عرش صدیقی بھی نہیں رہے۔ فخرالدین بلے بھی اتنی دور چلے گئے ہیں کہ جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا، لیکن اتنی حسین یادیں چھوڑگئے ہیں کہ کبھی کبھی توایسالگتا ہے کہ یہ سب ہم میں موجود ہیں۔
اس میں شک بھی نہیں کہ جوش ملیح آبادی اور سید فخرالدین بلے آج بھی اہلِ ادب کے دلوں میں زندہ ہیں اور فضاؤں میں مجھے سید فخرالدین بلےکےاس شعرکی گونج سنائی دے رہی ہے۔
الفاظ و صوت و رنگ و تصور کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنےکےباوجود
ظفر معین بلے جعفری کے حوالے سے :چوہدری ظفر علی لاہور میں انتقال فرماگئے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے