جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار

جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار

محمد قمر انجم قادری فیضی
چیف ایڈیٹر سہ ماہی جام میر بلگرام شریف

ہندستان کی غلامی کا دور انگریزوں کی ہٹلر شاہی کا وہ بدنما داغ ہے جس سے تاریخ انسانیت کو کبھی نجات نہیں مل سکتی. دھوکے باز ظالم انگریزوں کی غلامی سے نجات پانے کے لیے مسلمانوں نے سب سے پہلے قد م آگے بڑھائے ۔ اور انگریزوں کے چھکے چھڑائے. مسلم خواتین نے بھی ہندستان کی آزادی میں اہم کردار نبھایا اور خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ چلتے ہو ئے اپنے آپ کو وطن پر ہنستے ہو ئے قربان کیا ہے۔ یہ ایک صدی کی تاریخ مسلمانوں کی بے نظیر اور بے لوث قربانیوں سے بھری پڑی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا. خصوصاً اس بلند ہمت، بالغ نظر اور دور اندیش بہادر بادشاہ کو جنھیں حضرت ٹیپو سلطان کہا جاتا ہے. جب آپ نے دیکھا کے انگریز ہمیں آپس میں لڑا کر آندھی طو فان کی طرح سر زمین ہند کو روندتے ہو ئے قبضہ کرتے جا رہے ہیں تو آپ نے سو چا کہ اگر کو ئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پر نہ آسکی اور اگر اس بڑھتے ہو ئے سیلاب کو نہ روکا گیا تو وہ دن قریب ہے جب پو را ملک ان کی جھو لی میں ہو گا۔
چنانچہ ! حضرت ٹیپو سلطان نے منظم طور پر انگریزوں سے معرکہ آرائی شروع کر دی. انگریزوں کو بھی احساس ہو گیا کے حضرت ٹیپو سلطان ہی ایک ایسی چٹان ہیں جسے راستہ سے ہٹایا جانا ضروری ہے. اگر سلطان زندہ رہے گا تو ہم اپنے ناپاک ارادوں میں کبھی کام یاب نہیں ہو سکتے. چنانچہ سلطان نے کسی بھی حال میں انگریزوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے، اپنی شجاعت و طاقت، دلیری و بہادری کے بل بو تے پر لڑ تے رہے۔ آپ کا یہ قول مشہور ہے گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ آخر کار اپنوں کی غداری اور جنوبی ہند کے امرا کی انگریزی چا پلوسی کی وجہ سے یہ مجاہد باد شاہ ۱۷۹۹ء کو سری رنگا پٹنم کے معرکہ میں شہید ہو گئے. کاروان حریت کو نقوش راہ دے گئے، آپ کی نعش پر کھڑے ہو کر جنرل ہارس نے کہا تھا کہ آج سے ہندستان ہمارا ہے۔ بہ قول شاعر!
ٹل نہ سکتے تھے اگرجنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے

مجھ سے سرکش ہوا کو ئی بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

اس کے بعد اب کو ئی طاقت نہ رہ گئی تھی جو انگریزوں کے مقابلہ کر سکتی. ۱۸۵۷ عظیم بغاوت سے پہلے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بڑے بیٹے حضرت شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی علیہ الرحمہ نے انگریزوں کے خلا ف جہاد کا مشہور فتویٰ دے دیا اور ظلم و ستم کے کسی بھی تازیانہ کے سامنے سر نہ جھکا کر برابر جہاد کا اعلان کر تے رہے. مجاہدین ہند نے تحریک کا آغاز دہلی کی مسجد اکبر آبادی سے کیا. اس مقدس جماعت نے انگریزوں سے زبر دست لڑائی کا منصو بہ بنایا تھا مگر۱۹۱۳ء میں یہ تحریک بالا کوٹ کے میدانوں میں دفن ہو گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک ہی آئندہ مجاہدین آزادی کی تحریکات و تنظیموں [کا پیش خیمہ بنی؟]۔ ۱۸۵۷ء کی بغاوت کا انگریز نے مسلمانوں سے سخت انتقام لیا. ان کے محلے محلے اجاڑ دیے، مساجدوں کو ویران کر دیا، ناحق گو لیاں چلائیں۔ دہلی اور دہلی کے باہر درختوں پر پھانسی کے پھندے لٹکا دیے گئے اور مسلمانوں کو پکڑ کر انگریزی ہاتھی پر بیٹھا کے گلے میں پھندے ڈالتے یا بوریوں میں بھر کر توپ کے منہ میں باندھ دیا جاتا اور توپ داغ دی جاتی، پھر جسم کا غذ کی پرزوں کی طرح اڑ جاتے، بہادر شاہ ظفر پر بغاوت کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا اور مجرم قرار دے کر ان کو جلا وطن کر دیا گیا۔ تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا کہ ان کے چہیتے صاحب زادوں مرزا مغل، مرزا خضر سلطان، مرزا ابو بکر اور مرزا عبداللہ کو قتل کر کے طشتری میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کیا گیا تو بادشاہ نے حیرت انگیز صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہو ئے کہا الحمد للہ تیمور کی اولاد سرخرو ہو کر کے سامنے آیا کرتی تھی. اس عظیم مجاہد کو اپنے وطن میں دفن کے لیے جگہ بھی نہ مل سکی۔
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

مولانا محمد علی جو ہر، مولانا شوکت علی نے آزادی کی خاطر درد ناک سزاؤں کو بر داشت کیا. انھوں نے انگریز کے پایہ تخت لندن میں جا کر سزاؤں کو برداشت کیا. کئی بار انھیں سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا۔ مولانا آزاد نے ہمیشہ انگریزوں کے خلاف آواز بلند کی اور یہ کہا تھا ہمارے سامنے دو ہی راہیں ہیں ۔ برطانوی حکومت نا انصافی اور حق تلفی سے باز آجائے، اگر باز نہیں آسکتی تو مٹا دی جائے۔ اشفاق اللہ خان نے للکار تے ہو ئے انگریزوں سے یہ کہا تھا!
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا با زؤئے قاتل میں ہے

وقت آنے دے بتا دیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

یہ مسلم قوم ہی ہے جس نے سب سے پہلے آزادی کا بگل بجایا، جس نے مسلم تحریکوں کو جنم دیا، جس کے مجاہدین نے ہند و بیرون ہند میں آزادی کے لیے نعرے[؟] زیادہ بد لہ لیتے رہے کیوں کہ ملک مسلمانوں سے چھینا گیا تھا ۔ ہمارے بزرگوں کی مخالفت کا نتیجہ تھا کہ ملک آزاد ہوا۔ مولانا یحیٰ علی، مولانا جعفر علی اور مو لانا شفیع لاہوری کو انگریز عدالت نے پھانسی کا حکم سنایا اور جج نے کہا کل تم کو پھانسی کی سزا دی جا ئے گی اور کل تمھاری جائداد بھی ضبط کی جائے گی اور تمھاری لاش تمہارے وارثین کو نہیں دی جائے گی بلکہ نہایت ذلت کے ساتھ گورستان جیل میں گاڑ دی جائے گی، تم کو پھانسی پر لٹکتا دیکھ کر بہت خوش ہوؤں گا۔ یہ تینوں مسلمان  سزا سن کر مسکرا دیے اور خوشی سے وطن کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ وہ ہستیاں جنھوں نے  جنگ آزادی میں اہم کردار نبھائے اور انگریزوں کے چھکے چھڑائے جن میں نواب سراج الدولہ، شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، حضر مولانا ولایت علی صا دق پوری، حضرت سعید احمد، ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر، علامہ فضل حق خیر آبادی، شہزادہ فیروز شاہ، مولوی محمد باقر، بیگم حضرت محل، مولانا احمد اللہ شاہ، نواب خان بہادر خان، عزیزن بائی، شاہ عبدالقدیر لدھیانوی، حاجی امدادللہ مہاجر مکی، حضرت مولانا انور شاہ، مولانا برکت اللہ بھو پالی، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ، مولانا سعید دہلوی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت مو ہانی، مولانا عارف ہسوی، امام الہند مولانا ابولکلام آزاد، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، ڈاکٹر سیف الدین امرتسری، حکیم اجمل خان، مولانا مظہر الحق، مولانا ظفر علی خان مشرقی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، جنرل شہنواز خان، مولانا سعید محمد میاں، مولانا محمد حفظ الرحمن، مولانا عبد الباری فرنگی محلی، خان عبد الغفار خان، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، ڈاکٹر سعید محمود، خان عبد الصمد خان، رفیع احمد قدوائی، یوصف مہر علی، اشفاق اللہ خان، آصف علی، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا خلیل الرحمن لدھیانوی، عبد القیوم انصاری، سر سید احمد خان، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولوی عبد الحق، مولانا ثناء اللہ امرتسری، ان تمام ہستیوں کے علا وہ اور بھی لاکھوں مسلمانوں نے جنگ آزادی میں اپنا خون بہا یا ہے. آج اسی ہندستان میں مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی جا رہی ہیں۔ وہ ہندستان جس کی حریت کے باغ کو مسلمانوں نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا، وہ ہندستان جس کی آزادی کی خا طر بحر نا آشنائی کے ساحل میں کود پڑے تھے اور موجوں سے کھیلتے ہو ئے منجھدار تک جا پہنچے تھے۔ بے پناہ قربانیوں کے ذریعہ اس کو پروان چڑھایا تھا۔ آج اسی ہندستان میں کچھ تعصب پرست کہتے ہیں مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا. یہ ہندستان مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔
بہ قول شاعر!
جب گلستاں کو خون کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گر دن ہماری کٹی

اب کہتے ہیں ہم سے اہل چمن
یہ چمن ہے ہمارا تمھارا نہیں

آزادی کی لڑائی دو چار یا دس بیس لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آج ملک کو اس مقام تک لانے کے لیے بے شمار لوگوں نے اپنی جان سے ہاتھ دھوئے ہیں، جن کا ہم نام تک نہیں جا نتے ان کے گلی کوچوں اور مکانوں سے ہم واقف نہیں۔ تمام ہندستانیوں کو اس خطرہ سے آگاہ کر دینا چاہتا ہوں. ایک بار پھر آپ کو اپنے کرم سے اپنی زبان سے اپنی ذہانت و ذکاوت سے اپنی ہوشیاری وتدبر سے، اپنی جان اور مال سے نفرتوں عداوت، فسادات اور ظلم و زیادتی کے خلاف اپنی آواز بلند کر تے رہنا پڑے گا اور اس وقت تک یہ لرائی جاڑی رکھنی پڑے گی جب تک اس بیماری سے ہندستان کی زمین پاک  ہو جائے گی، ورنہ یاد رکھو وہ دن دور نہیں جب آپسی اختلاف، تعصب اور نفرت و عداوت ہمارے ملک کو توڑ دے گی اور پھر ہم پہلے کی طرح غلام بن جائیں گے۔ یہاں آج جو بھی رہتا ہے وہ برابر کا حصہ دار ہے. ہر فرقہ نے آزادی کی لڑائی لڑی اور ملک کو آزاد کرایا ہے اور خصوصاً مسلمانوں نے انگریزی سامراج کے خلاف جو جنگ لڑی وہ ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے. مسلمانوں نے ہی جنگ آزادی کا بگل بجایا. یہاں تک کہ ملک آزاد ہو گیا، جنھوں نے صعوبتیں برداشت کیں، جو زخمی ہوئے، اپنے آبا و اجداد کو سولیوں پر لٹکتے دیکھا، جنھوں نے اپنے اسلاف کو بھنتے دیکھا، جنھیں کالا پانی بھیجا گیا، جن کی زمینیں ضبط کر لی گئیں، جنھوں نے انگریزی حکومت کے ایوانوں کو تہ و بالا کر دیا۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ جن مسلمانوں نے ملک کو آزادی دلانے کے لیے نہ صرف اپنا خون بہایا بلکہ اپنا سب کچھ قربان کر دیا آزادی کے بعد انھیں آزادی کے فوائد سے محروم کر دیا گیا۔ اور دھیرے دھیرے ان کی قربانیوں کے داستان کو بھی تاریخ کے صفحات سے مٹا دیا گیا۔ آج مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں غریب الوطن کی حیثیت سے زندگی گزارنی پڑ رہی ہے اور ان کی حیثیت دوسرے درجہ کی شہری کی ہو گئی ہے. مسلمان کو قید کیے جا رہے ہیں، کبھی دہشت گردی کے نام پر، کبھی گائے کے نام پر مسلمانوں کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ ہندستانی مسلمان تمام سہولیات سے محروم ہیں، مسلمانوں کی قربانیوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس وقت ہمیں یاد رکھنا چا ہیے کس طرح ہمارے عظیم رہ نماؤں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر ملک کو آزاد کرایا تھا۔ کچھ لوگ اس مبارک وطن کو برباد کرنا چاہتے ہیں، کچھ لوگ مذہب کی آڑ لے کر ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن سے دوسروں کی دل آزاری ہو تی ہے. یہ سماج کے خراب عناصر ہیں. ان کو کام یاب ہو نے نہیں دینا ہے. ہمیں مل جل کر رہنا ہے، وطن کے عزیزو! یہ آزادی ہمیں بھیک میں نہیں ملی ہے، ہمارے بزرگوں نے اپنی جانیں قربان کر کے اس کی قیمت ادا کی ہے۔ اس لیے ہمیں آزادی کی قدر و قیمت اور اس کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور آپس میں پیار و محبت، بھائی چارگی اور امن و سکون کو بڑھاوا دینا چاہیے اور ایسی فضا پیدا کرنی چاہیے جس سے ہمارے ملک کا نام روشن ہو اور اس وقت ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کس طرح ہمارے عظیم رہنماؤں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر ملک کو آزاد کرایا تھا۔
ہمیں یاد رکھیں جب لکھیں تاریخ گلشن کی
کہ ہم نے بھی جلایا ہے چمن میں آشیاں اپنا
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:رضا اکیڈمی کی دینی، ملی، فلاحی خدمات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے