جمہوریت کا جشن یا جمہوریت کا ماتم!

جمہوریت کا جشن یا جمہوریت کا ماتم!

فرقانہ علیم، دربھنگہ

26 جنوری کی تاریخ آزاد ہندستان میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ 26 جنوری 1950 کو برطانوی ایکٹ منسوخ کرکے نئے آئین کے نفاذ کے ساتھ ہندستان کو جمہوری ملک قرار دے دیا گیا، اس وقت سے آج تک ہم اس دن کو یوم جمہوریہ کے طور پر مناتے ہیں۔ آزادی کے پندرہ دن بعد 29 اگست 1947 کو طے کیا گیا کہ ہندستان کا آئین بنایا جائے، جس میں اس ملک کے تمام باشندوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہو اور ان کی خوش حال و پُرامن زندگی کی ضمانت بھی، اس مقصد کے لیے دستور ساز اسمبلی نے سات افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کی تشکیل دی، جس کے صدر ڈاکٹربھیم راؤ امبیڈکر تھے، اس کمیٹی نے ڈھائی سال کی مسلسل محنت و جد و جہد کے بعد ملک کا آئین تیار کیا، جسے ملک کے پارلیمنٹ نے منظور کرکے نافذ کر دیا اور یوں ہمارا ملک "جمہوریہ ہند" کہلایا. جمہوریت جمہور سے بنا ہے اور جمہوریت سے اکثریتی رائے مراد ہے۔
سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کے بہ قول: "جمہوریت عوام کی حکومت ہے جو عوام کے لیے بنتی ہے اور عوام کے ذریعہ وجود میں آتی ہے"
"Democracy is a government of the people , by the people and for the people ”
ہندستان جیسے کثیرالمذاہب ملک کو چلانے کے لیے جمہوریت سے بہتر کوئی طرز حکومت نہیں ہے۔ اور ایک جمہوری ملک کو چلانے، نظم و نسق کو برقرار رکھنے اور پُرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم آئین کی ضرورت ہوتی ہے۔ آئینِ ہندکی بنیاد انصاف اور مساوات پر قائم ہے۔جمہوریت فکری آزادی اور رائے کے احترام کا تقاضہ کرتی ہے۔ آئینِ ہند کے ابتدائیہ میں لکھا گیا ہے کہ: "ہندستان خود کو آزاد سماجوادی اور جمہوری ملک قرار دیتا ہے، جس کے ذریعہ تمام شہریوں کے لیے معاشی سماجی اور سیاسی انصاف بروئے کار لایا جائے گا، اظہار خیال کی آزادی، عقیدہ مذہب اور عبادت کی آزادی دی جائے گی۔ مواقع اور معیار کی آزادی دی جائے گی۔ انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے گا اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم و دائم رکھا جائے گا۔"
مگر افسوس صد افسوس! اس وقت زعفرانی طاقتیں ملک کی جمہوریت، یکجہتی و سالمیت کو برباد کرنے کے در پے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں ملک نے جو سیاہ دن دیکھے ہیں وہ ہندستانی عوام کبھی نہیں بھول پاۓ گی۔ بی جے پی کے دور اقتدار میں کئی فسادات ہو چکے ہیں ان میں بعض فسادات کو فساد کہنے کے بجاۓ منظم نسل کشی کہا جاۓ تو زیادہ بہتر ہوگا۔ مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، میڈیا کے ذریعہ وقفے وقفے سے اسلام اور مقدس ہستیوں پر اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے، لگاتار نفرت کی آبیاری کی جارہی ہے، مذہب کے نام پر سیاست کی بساط بچھا دی گئی ہے، فی الوقت ہندستان میں مہنگائی آسمان چھورہی ہے، نوجوان بےروزگاری کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ غریب خودکشی کرنے پر مجبور ہیں اس کے باوجود اس بات کا یقین دلایا جا رہا ہے کہ ملک ترقی کی طرف رواں دواں ہے ۔
دہائی دے کے وہ جمہوریت کی
نظام خواب رسوا کر رہا ہے
گزشتہ 72 سال سے ہم یوم آزادی و یوم جمہوریہ بڑے جوش و خروش سے منا رہے ہیں، حب الوطنی کے ترانے گنگنا کر محبِ وطن ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ رنگا رنگ ثقافتی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں، آزادی اور جمہوریت کے فوائد پر دھواں دھار اور لچھےدار تقریریں کی جاتی ہیں۔ لیڈران و قائدین یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہمارا ملک دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، جہاں ہر مذہب کے لوگ شیر و شکر ہوکر رہتے ہیں، یہ سکہ کا ایک رخ ہے، جوخوب صورت بھی ہےاور فرحت بخش بھی، مگرسکہ کا دوسرا رخ وہ ہے جو کریہہ منظربھی ہے اور درد انگیز بھی، وہ یہ کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، ہمارے ملک کی مضبوط و مستحکم مثالی جمہوریت بری طرح پامال ہوئی ہے۔ گاؤ کشی کے نام پر مسلمانوں کا بہیمانہ قتل، رام مندرکےنام پر بابری مسجد معاملہ پر غیرمنصفانہ فیصلہ، دہشت گردی اور حملہ کے نام پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی گرفتاری، ہندستانی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں، مشہور اداروں اور یونی ورسٹیوں کے خلاف شازشیں، دلی، آسام وغیرہ کے فسادات اور ملک کے مختلف خطوں میں موب لنچنگ کے دل خراش واقعات، اس ملک کی جمہوریت کی تباہی کے واضح ثبوت ہیں ۔
رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستان مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے ترا فسانہ سب فسانوں میں
کیا صرف اسی لیے جشن جمہوریت ہے کہ ہندستان کے اس قدر قوت نافذہ اور مضبوط دستور ہونے کے باوجود بہت سے قوانین صرف کاغذات کی رونق بن کر رہ گئے ہیں؟
کیا اسی لیے ہمارے اکابرین نے زبردست قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا، جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں اور تختۂ دار پر چڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرأت و حوصلہ اور کمال بہادری کے ساتھ بہ خوشی گلے لگایا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور انگریزوں سے مقابلہ کرکے ہندستان کو انگریزوں کے پنجۂ استبداد سے آزاد کروا کر جمہوریت جیسے نظام سے سرفراز کیا؟ ہمارے قائد اور لیڈر، ہمارے حکمراں اور صاحب اقتدار آج کے دن خوشی ضرور منائیں، جھنڈے لہرائیں، سلامی دیں، سلامی لیں، رقص و سرود کی محفلیں سجائیں، ضرور سجائیں لیکن ذرا احتساب بھی کریں کہ ملک کے ایک بڑے طبقے کو نظرانداز کرکے اور اسے پس ماندہ رکھ کر اس کے ساتھ ظلم و زیادتی اور ناانصافی کرکے ملک ترقی کر سکتا ہے؟ ہو سکتی ہے اپنی بھی زمیں جنت جیسی
یہ سیاست کے فرعون نہیں ہونے دیں گے
لاکھ تلوار اٹھے فرقہ پرستی کی لیکن
اے وطن! ہم تیرے ٹکڑے نہیں ہونے دیں گے
جمہوریت کی تنفیذ کے 73 سال ہو گئے. اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو آزادی اور جمہوریت محض سراب معلوم ہوتی ہے۔ جو دور سے دیکھنے میں انتہائی خوب صورت و دل کش ہے، لیکن قریب سے دیکھا جائے تو سیاہ چمکیلی ریت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، مگر ہمیں ناامید ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارا انصاف پسند طبقہ آگے آئے اور تلوک چند محروم کی نظم ”26/جنوری“ کو عملی جامہ پہنائے کہ یہیں سے ہندستان کی ہمہ جہت ترقی کے نئے دورکاآغاز ہو سکتا ہے۔ محروم کہتے ہیں:
بھارت کا عزم ہے یہ ، توفیق اے خدا دے
دنیا سے ایں و آں کی تفریق کو مٹادے
امن واماں سے رہنا ہر ملک کو سکھادے
ہر قوم شکریے میں ہر سال یہ صدا دے
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے