چونکا دینے والے لہجے کے شاعر آنِس معین کے ادبی سفر کی داستان

چونکا دینے والے لہجے کے شاعر آنِس معین کے ادبی سفر کی داستان

تحریر : عارف توصیف

آج آنِس معین اور ان کی شاعری کا ذکر کرتے ہیں۔ آنس معین کی کہانی بڑی درد ناک ہے۔ یہ وہ شاعر ہیں جو انتیس نومبر انیس سو ساٹھ کو لاہور میں پیدا ہوئے اور جنھوں نے ملتان میں پانچ فروری انیس سو چھیاسی کو ایک ٹرین کے آگے چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ انیس سو ستتر میں آنِس معین کے والد سید فخرالدین بلے سول لائینز سرگودھا میں مقیم تھے اور وہاں انھوں نے ایک ادبی محفل کا انعقاد کیا۔ اس محفل میں (ڈاکٹر) خورشید رضوی نے اپنی ایک غزل پڑھی تو آنس معین جو اس وقت ایف اے کے طالب علم تھے انھوں نے بے ساختہ داد دی۔ یہ دیکھ کر سجاد نقوی نے یوں ہی پوچھ لیا کہ آنِس میاں کیا آپ بھی کچھ کہتے ہیں؟ تو آنِس جھوٹ نہ بول سکے اور جب سب نے اصرار کیا تو تو اپنی غزل سنانے کےلیے تیار ہوگٸے۔ فخرالدین بلے پر بھی شاید یہ پہلی مرتبہ کھلا کہ آنِس معین بھی غزل کہنا شروع کرچکے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر ڈرائنگ روم سے باہر چلے گئے اور جب تک آنِس اپنی غزل سناتے رہے وہ باہر رہے۔ لیکن جب آنس معین نے غزل ختم کی تو محفل کو چپ سی لگ گئی. اس غزل کا مطلع تھا

وہ میرے حال پر رویا بھی مسکرایا بھی
عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے پرایا بھی

یہ غزل آنس معین کی عمر کے تجربے سے بہت آگے کی تھی۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے کہا کہ آنس یہ غزل ایک کاغذ پر لکھ کر مجھے دے دو۔ آنس معین گھبرا گئے. کہنے لگے کہ انکل کیا وزن میں کچھ گڑبڑ ہوگئی ہے یا کوئی مضمون صحیح طرح سے ادا نہیں ہوا ؟؟ ۔ انھوں نے کہا نہیں اب یہ غزل اوراق میں چھپے گی۔ یہ سن کر آنس خوش ہوگئے اور اس طرح آنس معین کی شاعری کا آغاز ہوا ۔
کسی نے آنس معین کو عہد جدید کا ارسطو کہا تو کسی نے شیکسپیٸر کہا، کسی نے کیٹس کہا تو کسی نے سقراط کہا، کسی نے انھیں مصطفی زیدی اور شکیب جلالی کا معاصر قرار دیا۔ جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، انور سدید اور وزیرآغا ۔ ان سب نے آنس معین کی فکر اور فن کو سراہا ہے۔ ان کے لب و لہجے سے بہت سے بڑے بڑے شعرا  چونکے ہیں۔ ان کے لب و لہجے میں جو ندرت ہے وہ اتنے کم عمر شاعروں کی شاعری میں بہت کم نظر آتی ہے۔
آنس معین کی وفات کے بعد سولہ مئی انیس سو چھیاسی کو آنس معین کے والد فخرالدین بلے نے ڈاکٹر وزیر آغا کے نام ایک خط لکھا۔ جس میں انھوں نے بتایا کہ جس روز یہ سانحہ ہوا وہ ملتان سے اسلام آباد گئے ہوئے تھے۔ آنس کی والدہ بھی کراچی میں تھیں. گھر میں ان کے دو بھائی عارف اور ظفر تھے اور ایک بہن تھی ۔ عارف اور ظفر کا کہنا ہے کہ اس سانحے سے ایک روز قبل آنس معین ان کے ساتھ رات گئے تک باتیں کرتے رہے اور ہنستے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ آنس کا اگلے روز کیا ارادہ ہے؟ اور وہ کیا کرنے جارہے ہیں ۔ مرنے کے بعد ان کی جیب سے ایک  [پرچہ] برآمد ہوا جس سے یہ پتہ چلا کہ انھوں نے کتابِ زیست کا آخری ورق پڑھنے کی عجلت میں جان دے دی۔ فخرالدین بلے نے اپنے خط میں یہ بھی تحریر کیا کہ المیہ یہ ہے کہ ہم ان کی شاعری کو ان کی تخلیقات کو اور ان کی باتوں کو صرف شاعری ہی سمجھتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے آنس معین کی سوچ کو غیرمعمولی اور ان کے اشعار کو چونکا دینے والا کہا تھا بلکہ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے ان کے بعض اشعار سے خوف آتا ہے۔ آئیے آنس معین کی ایک غزل سنیے۔ کہتے ہیں:

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور
بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی ذرا اور

کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور

پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکو گے
یہ الجھی ہوئی ڈور جو سلجھائی ذرا اور

تردید تو کر سکتا تھا پھیلے گی مگر بات
اس طور بھی ہوگی تری رسوائی ذرا اور

کیوں ترک تعلق بھی کیا لوٹ بھی آیا؟
اچھا تھا کہ ہوتا جو وہ ہرجائی ذرا اور

ہے دیپ تری یاد کا روشن ابھی دل میں
یہ خوف ہے لیکن جو ہوا آئی ذرا اور

لڑنا وہیں دشمن سے جہاں گھیر سکو تم
جیتو گے تبھی ہوگی جو پسپائی ذرا اور

بڑھ جائیں گے کچھ اور لہو بیچنے والے
ہو جائے اگر شہر میں مہنگائی ذرا اور

اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :آنس معین: آنے والی صدی کا توانا شاعر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے