جہیز، مسلم معاشرہ اور قرآنی ہدایات

جہیز، مسلم معاشرہ اور قرآنی ہدایات

✍️ عبدالرحمٰن
(نئی دہلی)
[سابق چیف منیجر، الہ آباد بینک]

کیا آج مسلمان، خاص طور پر، بر صغیر کے مسلمان اس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ وہ ایک پس ماندہ قوم ہیں؟
علم و عمل اور اخلاقیات کے میدان میں ہماری پس ماندگی کے تناظر میں یقین نہیں ہوتا کہ ہم السابقون الاولون ( قرآن: سورة التوبة، آیت 100) کے وارث ہیں۔
اپنی موجودہ زبوں حالی کو پہنچنے کے بعد بھی کیا ہم کبھی یہ سوچتے ہیں کہ آخر ہمارا ماضی، تاریخ جس کی گواہی دیتی ہے، اتنا تابناک کیونکر تھا؟
اس میں شک نہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے بھی بہت سی قومیں صاحب اقتدار اور مالک جاہ و جلال رہ چکی ہیں، مگر ماضی کی تاریخ میں مسلمانوں کے بلند اخلاق اور میدان علم و عمل میں جو اعلا مقام ان کو حاصل رہا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں!
یہ اعتراف کیے بغیر کہ کبھی عروج و فراز کی بلندیوں پر ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ تک اپنا دبدبہ قائم رکھنے والی امت مسلمہ، پچھلے دوسو سال سے اپنی بد ترین حالت زوال سے دوچار ہے؛ ‘لا ادری نصف العلم` (اپنے نہ جاننے کو جاننا آدھا علم ہوتا ہے) کی حکمت سے کوئی فیض حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اپنی کم زوری اور لا علمی کے ادراک کے بغیر ترقی کا رکا ہوا سفر دوبارہ سہی مقام سے شروع کرنا ممکن نہیں۔
اللہ تعالی نے کائنات میں انسانوں کے لیے قانون ابتلا، یعنی امتحان کا قانون نافذ کیا ہے ( قرآن: سورة البقرة، آیت 155)۔
گوناگوں مصالحت اور آزمائش کے ساتھ ساتھ، قوموں کی اہلیت اور انسانیت کے زمرے میں ان کی افادیت کے تناظر میں مختلف قوموں کو صاحب اقتدار بنائے رکھنے یا منصب اقتدار سے محروم کردیے جانے کے ربانی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ نعمتوں کا شکر بجا لانے والے افراد یا قوموں کے عروج و فراز کی حفاظت بھی کی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ کسی بھی قوم کو بلندی کے مقام پر دیر تک قائم رہنے کے لیے اس کے اندر "علم اور اخلاق” کی پاکیزگی کا ہونا اشد ضروری ہے۔ اس میدان میں ایک معمولی سی پستی بھی کسی قوم کو "زوال یافتہ" ہونے سے نہیں بچا سکتی۔ مسلمانوں میں کیفیات استکبار اور نا شکری کا پیدا ہونا اور انسانوں کے تئیں ان کی گھٹتی افادیت نے قوم کو زوال کی تاریکی میں گرادیا۔
اپنے عروج کے سنہری دور میں مسلمانوں نے” خدا کا خوف اور بندوں کی خیر خواہی" جیسے مخلص احساسات کے زیراثر فلاح انسانیت کے لیے بےشمار کام کیے۔ علم کے معاملے میں، جو کسی بھی قوم کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہے، مسلمانوں نے بڑے بڑے بے مثال کارنامے انجام دیے۔ قرآنیات کے ساتھ ساتھ، دنیا بھر میں پھیلے متفرق علوم کو بغداد جیسے شہروں میں علمی تحقیق اور تصنیف و تالیف کے لیے قائم کیے گئے مراکز میں یکجا کر کے عربی زبان میں تراجم اور مزید تحقیقی کام بڑے پیمانے پر کیے گئے۔ اس طرح عربی زبان کی بین الاقوامی حیثیت کے توسط سے عربوں کے ذریعہ مرتب کیا گیا وسیع عملی و تحقیقی لٹریچر یوروپ اور دنیا کے بقیہ حصوں کو، جو اس وقت تک علم کی روشنی سے محروم تھے، روشن کرنے لگا اور نتیجتاً تہذیب و تمدن کی راہیں ہموار ہونے لگیں۔
یہاں پیش کیے گئے استدلال سے یہ اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کا عروج و فراز کوئی طلسماتی معاملہ نہ تھا، بلکہ ان کے شاندار ماضی کی بنیاد ان کا نوع انسانی کے لیے فائدہ مند ہونا تھا۔
گہرائی کے ساتھ بلا تعصب تجزیہ کرنے والے بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ موجودہ دور کے مسلمانوں میں کفران نعمت اور کیفیت نا شکری بہت بڑھ گئی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ علم حاصل کرنے کی قرآنی تاکید ( سورة العلق، آیت1 ) کو جیسے یکسر بھلا دیا گیا ہے۔ اخلاقی پستی پر کوئی بھی تبصرہ کم ہی ہوگا۔ دوسرے انسانوں کے لیے نفع بخش ہونا تو بہت دور کی بات، ہم خود اپنے نفع-نقصان کے ادراک سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔ انہی عوامل نے قوم کی اقتصادیات کو بھی برباد کردیا ہے۔ انسان کی خاطر خواہ ترقی کے لیے علم اور اخلاق کے ساتھ ساتھ اقتصادی خوش حالی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ مذکورہ قسم کی کم زوریوں کے چلتے قوم کس قدر تنگ و تاریک زندگی بسر کررہی ہے۔ دریں اثنا، نیک شگون یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے قوم کے بچے اور ان کے والدین تعلیم کے متعلق سنجیدہ نظر آنے لگے ہیں، حالانکہ ابھی منزل بہت دور ہے۔ اللہ تعالی مدد فرمائے!
موجودہ صورت حال کے باوجود، جائے عبرت مگر یہ ہے کہ تمام قسم کی مشکلات درپیش ہوتے ہوئے بھی، مسلمانوں کے گھروں میں ایسی ایسی رسومات داخل ہوگئی ہیں کہ اللہ کی پناہ!
غیر اسلامی، غیر علمی اور غیر اخلاقی ہونے کے باوجود رسموں کے نام پر جاری و ساری تمام قسم کی خرافات مسلم معاشرے کا نہ جدا ہونے والا حصہ بن گئی ہیں۔ بے شک، اسلام کی نظر میں نا پسندیدہ کاموں کو شیطان مردود مسلمانوں کو صراط مستقیم سے بے راہ کرنے کے لیے، خوش نما بناکر پیش کرتا رہتا ہے (قرآن: سورة الانعام، آیت 43)۔
جہیز ایک ایسی ہی لعنت ہے جس نے مسلم معاشرے کو مختلف زاویوں سے ذلیل و رسوا کررکھا ہے۔ یہ حقیقت کہ علم (نہ کہ جہیز) کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں، بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ جہیز اور اس سے وابستہ دوسری تمام غیر ضروری تقریبات کے طفیل ہمارے اقتصادی اور معاشی حالات عموماً بگڑے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے تنگ دستی ہی ہمارا مقدر بن گئی ہے، حالانکہ مقدر کا لفظ استعمال کرنا مناسب نہیں کیونکہ یہ تو ہمارے ہی ہاتھوں کا کیا دھرا ہے۔
جہیز کی نسبت سے معاشرہ میں ایک اور بہت بڑی برائی موجود ہے جس کی رو سے "جہیز : ایک لعنت” مقولہ کی تصدیق ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی اس میں پنہاں آخرت کی تباہی بھی نظر آنے لگتی ہے۔ اللہ تعالی اپنے حفظ و امان میں رکھے!
دراصل نکاح، مہر اور ولیمہ کے علاوہ، بیش تر رسومات الٹا نتیجہ پیدا کرنے والی (counterproductive) ہوتی ہیں۔
منگنی، منہدی، شادی، بارات، جہیز، چوتھی اور نہ جانے کیا کیا تقریبات نہ صرف وقت کا ضیاع اور غیر ضروری اخراجات ہوتی ہیں، بلکہ غیر اسلامی بھی۔ مذکورہ اخراجات کی کوئی علمی افادیت نہیں، اسی لیے فضول خرچی کے زمرہ میں آتے ہیں، جب کہ قرآن کی نظر میں فضول خرچ شیطان کے بھائی ہوتے ہیں ( سورة الإسراء، آیت 27)۔
مذکورہ برائیوں سے معاشرہ کو پاک کرنے کی غرض سے متعدد تنظیمیں وجود پذیر ہوتی رہتی ہیں۔ نتیجہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس طرح کے بیش تر ادارے اکثر بے اثر ہی بنے رہتے ہیں۔
مذکورہ تنظیموں کے بے اثر رہنے کی وجہ بڑی سادہ اور آسان ہے۔ زوال یافتہ معاشروں سے عام طور پر خدا کی محبت یا اس کا خوف اور انسانوں کے لیے دل میں خیر خواہی جیسے نیک جذبات زائل ہونے لگتے ہیں۔ اس تناظر میں، عموماً ہر صاحب نصیحت صرف مخاطبین کو ہی اپنی نصیحت کا ہدف سمجھتا ہے، اور اس لیے اپنی ذات کو ہدایت ھذا سے مستثنٰی تصور کرتا ہے۔ چونکہ معاشرے کے بیش تر افراد ذاتی طور پر اسی طرح کی نفسیات میں جیتے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ اس پس منظر میں معاشرہ ایک نقطہ پر کبھی متحد نہیں ہوسکتا۔
گو کہ گھر میں بیٹی کی پیدائش کے موقع پر بھی خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے، مگر یہ اظہار مسرت دیر پا ثابت نہیں ہوتا۔ بہت جلد پریوار بیٹی کی شادی سے بیس سال قبل ہی اس کی شادی کے اخراجات اور معاشرہ میں جہیز کے متعلق لڑکے والوں کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کے حصار میں قید ہونے لگتا ہے۔ "گھر میں رحمت" کے مترادف بیٹی کے والدین اداس رہنے لگتے ہیں۔ والدین کی یہ اداسی، بیش تر معاملات میں، بیٹی کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کی تعلیم پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دوسری جانب لڑکے والوں کی نفسیات بالکل مختلف سمت میں کام کر رہی ہوتی ہے۔ معاشرہ میں کارفرما تمام رسمی زاویوں کو ضم کرنے پر حاصل ہونے والے گول دائرہ سے جو حقیقت واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ملت کا ایک ایک فرد ـــ "اپنی ڈفلی، اپنا راگ" کی مدار میں چکر لگاتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور اس طرح، معاشرہ کے سارے مسائل قائم و دائم رہتے ہیں!
"نقطہ اتحاد" موجود ہونے کے باوجود مسلمانوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس پر وہ متحد نہیں ہوسکتے، کیونکہ ان پر معاشرہ کا رنگ اتنا غالب آچکا ہے کہ کوئی بھی دوسرا رنگ ان کو متاثر نہیں کر تا ـــــ چاہے وہ قرآن کا ہی رنگ کیوں نہ ہو!
اللہ تعالی کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل اللہ کی آخری کتاب ـــ قرآن مجید ـــ حق و باطل کے درمیان قطعی فیصلہ کے واسطے نہ صرف مختلف افکار و نظریات بلکہ مختلف انبی اور رسولوں پر نازل کتب و صحائف کو بھی پرکھنے کے لیے میزان اور فرقان ہے ( سورة الشعراء، آیت 17)۔
اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر بےپایاں رحمت کا ہی یہ ثبوت ہے کہ ” توبہ" اور "رجوع" کا دروازہ ہر زندہ اور با شعور انسان کے لیے ہر وقت کھلا ہے ( قرآن: سورة الزمر، آیات 53-54 )۔
مزید وقت ضائع کیے بغیر، ہمیں اپنے اطوار و نظریات کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔ سہی پائے جانے پر عمل کیا جائے، ورنہ بلا تردد ترک کردیا جائے، کیونکہ ہمارے خود ساختہ رسم و رواج آخرت میں ہمارے لیے بڑی مصیبت کھڑی کرسکتےہیں!
ایک اہم بات اور۔
معاشرہ میں عام طور پر لڑکے والوں کو ہی جہیز کی لعنت کے لیے خطا وار سمجھا جاتا ہے، مگر غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی والے لڑکے والوں سے بھی زیادہ قصوروار ہیں۔
قرآن پاک میں شادی، بارات اور جہیز جیسے اخراجات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کے برعکس، اللہ تعالی نے والدین کی جائداد کو بیٹوں اور بیٹیوں، دونوں میں تقسیم کرنے کا حکم اور طریق کار جاری کردیا ہے( سورة النساء، آیت 11، 12 اور دوسری آیات )۔
قرآن کے الفاظ میں، انسان ظالم اور ناشکرہ واقع ہوا ہے( سورہ ابراھیم، آیت 34)۔ لڑکیوں کو جہیز کے نام پر اپنی جائیداد سے محروم کرکے اس نے اپنے آپ کو واقعی ظالم اور ناشکرہ ثابت بھی کردیا ہے۔
جلد ازجلد غلطیوں کا اعتراف کیا جائے، ان کی اصلاح کرتے ہوئے، خدا سے سچی توبہ کی جائے؛ بے شک اللہ تعالی غفور الرحیم ہے۔
مندرجہ بالا سطور میں کی گئی استدلالی بحث کے ضمن میں ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ جہاں شادی تقریبات سے وابستہ رسومات کی اصلاح کے متعلق مسلمانوں کا تنظیمی سلسلہ ناکام ہو رہاہے، وہیں کچھ لوگ انفرادی سطح پر کامیاب کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔
حال ہی میں قصبہ کھتولی (ضلع مظفر نگر) کے مولانا صلاح الدین سیفی کے دو بیٹوں کی شادی کا کارڈ وہاٹس اپ پر شائع ہوا ہے۔ اس کارڈ کا مضمون نہایت دل چسپ ہے:
"میرے متعلقین و رشتہ دار اور دوست احباب عصر کی نماز مسجد ‘اکبر خان، کھتولی` میں پڑھنے کی کوشش کریں۔۔۔ بعد نماز خطبہ نکاح کو سنیں جو کہ واجب ہے ۔۔۔ اور دونوں خاندانوں کے لیے دعا فرمائیں ۔۔۔ دعا کے بعد شیرینی لے کر مسجد سے ہی اپنے اپنے مقام کو رخصت ہو جائیں۔ اکل و شرب (کھانے- پینے) کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
نیز قصبہ ” کھتولی" سے باہر رہنے والے رشتہ دار، دوست احباب صرف اس نکاح میں شرکت کے لیے سفر کرنے کی زحمت گوارا نہ فرمائیں۔ اپنے مقام سے ہی بچوں کے لیے دعا فرمائیں۔۔۔ کیونکہ کئی بار سفر کے اندر فرائض دائو پر لگ جاتے ہیں جو بالکل مناسب نہیں ہے۔۔۔ اللہ تعالی آپ سب کو خوش و خرم رکھے ۔۔۔ اور ہمیں شریعت کی اہمیت کا احساس ۔۔۔ اور اس کی سہولت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)"
صلاح الدین صاحب نے اپنے کارڈ میں مسند احمد کی حدیث ـــ ان أعظم النكاح بركة ايسره مؤونة (زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس کا خرچ کم سے کم اور ہلکا ہو۔) ـــ بھی درج کی ہے۔
مذکورہ کارڈ کو پڑھ کر میں نے بھی 25؍اکتوبر 2021ء کو "میری رائے" عنوان کے تحت اپنی پسندیدگی کا ذکر کرتے ہوئے یہ اظہار خیال کیا کہ اس کارڈ میں اگر مذید دو باتیں بھی بطور نوٹ درج کردی جاتیں تو یہ نہ صرف شادی کارڈ بلکہ ایک جامع دستاویز بن جاتا۔
(1) اس میں لکھا جانا چاہیے تھا کہ لڑکی والوں سے نہ تو کسی جہیز کی ڈیمانڈ کی گئی ہے اور نہ ہی لیا جارہاہے۔
(2) مختصر ولیمہ ہی سہی، اس کا ذکر ہونا چاہیے تھا اس نوٹ کے ساتھ کہ کوئی لفافہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
جہاں کئی معزز حضرات نے میری رائے سے اتفاق کیا، وہیں برہم پوری (نئی دہلی) کے جناب محمد الیاس سیفی نے آگے بڑھ کر عہد کیا کہ وہ ان شاء اللہ، نہ صرف کارڈ کے اقتباس کو قبول کریں گے بلکہ اپنے بیٹے کی شادی میں میری تجاویز پر بھی عمل کریں گے۔ اللہ تعالی ان کے نیک ارادہ کو قبولیت عطا فرمائے۔
اے رب کریم، تو ہم سب مسلمانوں کو اپنی اور اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی توفیق عنایت فرما۔ آمین!
**



شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے