کیا ہر دو زبانوں کا عالم مترجم بھی ہے؟

کیا ہر دو زبانوں کا عالم مترجم بھی ہے؟

از قلم: ونسٹن سائمن
ترجمہ: وسیم احمد علیمی

دنیا بھر میں بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہر فرد کم از کم ایک زبان کا علم رکھتاہے جس کے سیکھنے کا سلسلہ بچپن سے جاری رہتاہے یہاں تک کہ اس پر عبور حاصل کر لیا جاتاہے۔ دوزبانوں کے عالم کو انگریزی میں Bilingual کہا جاتاہے۔ یہ لفظ bi بہ معنی دو اور lingua بہ معنی زبان سے مل کر بنا ہے۔ دو زبانوں پر مکمل عبور کو bilingualism سے تعبیر کیا جاتاہے۔

اب اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ ’’کیا ہر دو زبانوں کا عالم مترجم بھی ہے؟‘‘ جواب نفی میں ہے۔ ’ذولسانیت‘ (Bilingualism) ضروری ہے لیکن ترجمہ نگاری پر عبور اور مہارت کے لیے کافی نہیں۔ مترجم ہونا ذواللسانین (دو زبانوں کا عالم) ہونے سے کہیں زیادہ ہے۔

ایک متاثرکن مترجم خیال، فکر، تناظر اور سیاق و سباق کے مطابق ترجمہ کرتا ہے جو محض لفظوں کی ادلا بدلی سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ اکثر لوگ غلط فہمی سے سمجھتے ہیں کہ ترجمہ ایک آسان کام ہے اور یہ خیال بھی بہت عام ہے کہ ہر ذواللسانین فرد ترجمہ کی اہلیت رکھتا ہے اور کسی بھی طرح کے مواد کو قابل قبول اور اطمینان بخش انداز میں ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کر سکتاہے حالاں کہ ذواللسانین اور مترجم کے درمیان بہت فرق ہے اور دونوں کی مہارتیں بھی الگ الگ ہیں۔

پیشہ ور مترجمین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بنیادی زبان میں غیر معمولی صفات کے حامل قاری ہوں اور ہدفی زبان میں لکھنے کی بے پناہ صلاحت رکھتے ہوں۔ بات یہی ہے کہ مترجمین کی مہارت لسانیاتی تربیت اور ترجمہ کے مطالعات کا نتیجہ ہے۔ یہ لوگ بین العلومی اکیڈمک ہوتے ہیں جن کا سروکار منظم نظریاتی مطالعے، ترجمے کی وضاحت، نفاذ، تشریح اور علاقائیت سے وابستہ ہے۔ بین العلومی ہونے کی وجہ سے ترجمہ نگاری کا تعلق تقابلی ادب، کمپیوٹر سائنس، تاریخ، لسانیات، فلسفہ، علم اشارات اور علم اشتقاق سے ہے۔
وسیم احمد علیمی کا یہ ترجمہ بھی ملاحظہ ہو :گزرا ہوا کل (نظم)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے