جناب انتظار نعیم کی خودنوشت  اجالوں میں سفر (تحریک اسلامی کے ساتھ نصف صدی) کی تقریب رونمائی

جناب انتظار نعیم کی خودنوشت اجالوں میں سفر (تحریک اسلامی کے ساتھ نصف صدی) کی تقریب رونمائی


اردو میں خود نوشت سوانح کی روایت کافی قدیم ہے اور مقبول بھی۔ دور جدید میں خود نوشت سوانح کی طرف بہت کم حضرات نے توجہ کی۔ اس کی ایک وجہ اس کے فنی تقاضوں سے عہدہ پرآ ہونے کی مشکلات ہو سکتی ہیں اور دوسری وجہ انکساری بھی۔ لیکن جن کی زندگی کسی خاص انداز کی سرگرمیوں میں نصف صدی کا احاطہ کرے اور آئندہ اسی راہ پر سفر کرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہو تو ان کی رہنمائی اور تحریک و ترغیب کے لیے مثالی اور اہل شخصیات کو اس جانب لازماً توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کام "اجالوں میں سفر" کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح پیش کر کے انتظار نعیم صاحب نے بہ خوبی انجام دیا ہے۔ اس سفر کا خلاصہ سرورق پر ہی یوں درج کیا ہے: "جماعت اسلامی کے ساتھ نصف صدی"۔ آپ 65-1964 سے جماعت اسلامی سے جڑے۔ اس طرح آپ گزشتہ 56 برسوں سے اس تحریک سے وابستہ ہیں۔ یہ عرصہ کسی تحریک سے وابستگی میں انتہائی بزرگی کی دلیل ہے۔ ہر تحریک میں بزرگوں کے بعد نسبتاً نوعمر افراد ان کی جانشینی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان جانشینوں کو اور عام کارکنوں کو بھی ترغیب و تحریک کے لیے اپنی فکری تنظیم کی سر گزشت سے آگہی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن جماعت اسلامی کے پاس اب تک مرتب شدہ مبسوط تاریخ نہیں ہے۔ بنگلہ زبان میں اس کی کوشش جاری ہے مگر اردو، ہندی اور انگریزی میں ابھی تک باضابطہ کوشش کا آغاز نہیں ہوا ہے۔ گو کہ بعض تذکرے دستیاب ہیں، جن میں بعض پہلوؤں کا ذکر مل جاتا ہے۔ "اجالوں کا سفر" اس کمی کو ایک حد تک پورا کرنے کی سمت میں ایک قدم ہے۔
اٹھارہ کتابوں کے مصنف انتظار نعیم صاحب کا آبائی تعلق مشرقی اترپردیش کے بستی ضلع سے ہے، لیکن کاروباری مصروفیت ممبئی میں رہی۔ آپ کی گوناگوں صلاحیتوں کے مد نظر آپ کو دہلی کے مرکزی دفاتر میں طلب کیا گیا اور مختلف ذمہ داریاں سپرد کی گئیں، جنھیں آپ نے بہ حسن و خوبی انجام دیا۔ دو سال قبل مرکزی دفاتر کے ذمہ دارانہ عہدے سے سبک دوش ہوئے ہیں، لیکن تحریک سے وابستگی تو تا حیات باقی رہے گی۔ مسلسل پچاس سے زائد برسوں تک کسی تحریک کے مرکزی دفاتر میں ہونا ایک ریکارڈ ہے جو جماعت اسلامی کے کسی رکن کے حصے میں نہیں آیا۔ اس طرح آپ کی حیثیت اس تحریک کے ایک مشاہد اور ناظر کی بھی ہو گئی ہے۔
زیر نظر کتاب 424 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں پیش لفظ، تبریک اور ایک مقدماتی مضمون کے علاوہ 172 عنوانات کے تحت 700 سے زائد برگزیدہ افراد کا تذکرہ ہے۔ ان افراد میں ہر طرح کے افراد شامل ہیں، جن سے مصنف کو اپنے تحریکی سفر کے دوران سابقہ پڑا۔ مختصر اور برجستہ فقروں کے ساتھ اہم واقعات، جو کسی نہ کسی اعتبار سے سبق آموز یا حوصلے کو مہمیز کرنے والے ہوں، دل چسپ و دل آویز انداز میں بیان کیے گیےہیں۔ کوئی شخص اسے پڑھنا شروع کرے تو ختم کیے بغیر رک ہی نہیں سکے گا۔
مثال کے طور پر ایک واقعہ کا ذکر کچھ اس انداز سے کرتے ہیں: ‘جب مرکز سرائے میر، اعظم گڑھ (اترپردیش) میں تھا تو تنظیم یا تحریک کے کھاتے میں صرف 74 روپے چودہ آنے رہ گئے تھے۔ ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ ہم میں سے کوئی دو آنے عطیہ کر دیں تو پورے 75 روپے ہو جائیں گے۔ لیکن امیر تحریک نے کہا کہ نہیں یہی رہنے دیں۔ یہ ہمارے سفر کی تاریخ کا حصہ ہوگا۔’ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ ایک بار مرکز میں روز مرہ کے اخراجات کے لیے کچھ بھی رقم نہیں رہ گئی تھی۔ مقبول احمد خان نے 50 روپے قرض کے طور پر دیے۔ اس 50 روپے کے قرض کی اہمیت یوں بیان کی گئی ہے جیسے کہ کوئی بہت بڑا خزانہ مل گیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ بر وقت ایک پیسے کی مدد بھی بعض اوقات لاکھوں روپے سے زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ یہ حالات پر منحصر کرتا ہے۔
بعض واقعات چونکانے والے بھی ہیں۔ مرارجی ڈیسائی مرکز میں، شیخ عبداللہ مرکز میں، ایڈیٹر پانچ جنیہ سے رابطہ، آر ایس ایس کے سدرشن جی سے ملاقات، بالا صاحب دیورس جی سے ملاقات، اندرا گاندھی سے مولانا یوسف صاحب کی ملاقات وغیرہ۔ غرض گزشتہ 50 برسوں کی یادداشت کا ایک کولاژ ہے، جسے کہیں سے بھی شروع کر سکتے ہیں اور یکساں طور پر مستفید ہو سکتے ہیں. یہ ضروری نہیں ہے کہ پہلے صفحہ سے آخری صفحہ تک ترتیب سے مطالعہ کیا جائے۔ ہرجگہ ہر صفحہ پر الگ الگ خوب صورت پھول اس گلدستہ میں جڑے ہوئے ہیں۔
جامع مسجد، دہلی کے شاہی امام عبداللہ بخاری کو آپ نے تحریک سے قریب کیا۔ آپ کی ایک کتاب ایمرجنسی کے حالات سے متعلق ہے، "دلت سمسیا، جڑ میں کون؟" بہ زبان ہندی تو بہت معروف ہوئی ہے۔ آپ باضابطہ صحاف تو نہیں ہیں لیکن حالات حاضرہ پر کبھی کبھار مضامین لکھ کر اپنی رائے ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ آپ اردو کے بلند پایہ شاعر ہیں۔ طویل عرصے تک "پیش رفت" رسالہ کے مدیر و سرپرست رہے ہیں۔
کتاب کے رسم اجرا کے موقع پر مرکز جماعت اسلامی کے کانفرنس ہال میں 29 نومبر، 2021 کی شام کو خود انتظار نعیم صاحب نے فرمایا کہ ایسے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ملے۔ ایک اسپتال میں آتش زدگی کے مریضوں کی عیادت کو گئے تو ایک غیر متعلق مریض کو بھی دیکھا جو کم عمر تھا۔ اس کے حق میں دعا کی کہ الله شفا دے تو بچے نے کہا کہ اللہ سب کو شفا دے اور سب کے ساتھ مجھے بھی شفا دے۔ یعنی صرف اپنی بہتری نہیں بلکہ دوسروں کی بہتری کی خواہش رکھنا مومن کی صفت ہونی چاہئے۔
ایمرجنسی کے دوران تہاڑ جیل گئے۔ جیل میں آر ایس ایس کے بالا صاحب دیورس جی سے ملاقات ہوئی۔ بعد میں جب بالا صاحب دہلی آئے تو جماعت کے دفتر کو اطلاع دی گئی اور جماعت کے لوگ ان کے استقبال کو ہوائی اڈے تک گئے۔ کتاب میں دہلی یونی ورسٹی کے پروفیسر ایمرٹس ڈاکٹر عبدالحق اور صحافی آصف عمر کی تحاریر بھی شامل ہیں۔
اس موقع پر جماعت اسلامی، ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے فرمایا کہ یہ کتاب آنے والی نسلوں کو متاثر کرے گی۔ اس کا اسلوب نرالا ہے۔ یہ تحریک کی راہ میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دے گی۔ آپ جماعت کے پہلے فرد ہیں، جن کی خود نوشت سوانح عمری شائع ہوئی ہے۔ ایسی کتابیں تاریخ کا سرچشمہ ثابت ہوتی ہیں۔ تحریک کن کن مراحل سے گزری، اس کا سلیس و دل کش بیان کتاب میں موجود ہے۔ بیان انتہائی معیاری اور تحریکی شعور و جذبہ کو مہمیز دینے کا کام کرے گا۔ گرچہ خود نوشت سوانح مصنف کے ذاتی تاثرات پر مشتمل ہوتے ہیں، تاہم اس سے روشنی حاصل ہوتی ہے۔
شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ "اے ارض فلسطین" کے نام سے انتظار نعیم کے شعری مجموعے کی ملک بھر میں پذیرائی ہوئی ہے۔ مختلف اداروں سے وابستہ انتظار نعیم تیس برس قبل جتنے چست تھے، اتنے اب بھی ہیں۔ یہ کتاب در اصل ان کی ڈائری ہے، خود نوشت یاد داشت ہے، چھوٹی چھوٹی باتیں جو سبق آموز ہیں، جن کے وہ عینی شاہد ہیں۔ یہ باتیں ملک و ملت کی تاریخ کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ ملک کے مسلمانوں کی تاریخ نگاری میں یہ انتہائی معاون ہوگی۔ جب بھی جماعت اسلامی کی تاریخ لکھی جائے گی یہ کتاب حوالہ بنے گی۔ یہ کتاب اپنے اسلوب کی بنیاد پر اردو نثر میں قابل قدر مانی جائے گی۔
اس موقع پر سابق قیم جماعت محمد جعفر صاحب نے فرمایا کہ اس کتاب میں واقعات کا بیان بے حد پر اثر ہے۔ آپ کے ذہن میں نت نئی باتیں آتی رہتی ہیں۔ آپ کی تقریر بھی پر اثر ہوتی ہے اور تحریر بھی۔ ایک بار مولانا ابواللیث اصلاحی صاحب نے تقریر کے بعد آپ کو گلے لگایا تھا۔ آپ کے اندر تنقیدی صلاحیت بھی ہے۔ آپ ایک مدت تک ادارہ ادب اسلامی کے ذمہ دار و روح رواں رہے ہیں۔ صحافت کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ریڈئنس ہفت روزہ کے ڈائرکٹر بھی رہے۔ آپ کا ذہن کافی زرخیز ہے، نئے نئے خیالات پیش کرتے رہتے ہیں۔ آپ کا حوصلہ بلند ہے، جوش و ولولہ اور بے باکی سے بات کرتے ہیں اور کافی جرات کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ کتاب میں یہ تمام خوبیاں نظر آئیں گی۔ آپ رابطہ کے آدمی ہیں اور کتاب میں بھی اس کی جھلک ملتی ہے۔
۱۹۷۴ میں آپ نے بمبئی سے دہلی کا سفر انتہائی بے دلی کے ساتھ کیا تھا، لیکن دہلی میں بسنے کے بعد خوش دل ہو گئے۔
تحریک میں آ کر ان کے دل کی دنیا روشن ہو گئی اور اسی کی روداد ہے ان کی یہ کتاب۔ اسی مناسبت سے آپ نے کتاب کا نام "اجالوں میں سفر" رکھا ہے۔ آپ کا ظاہر و باطن یکساں ہے اور اس کی جھلک آپ کی شخصیت پر نمایاں ہے۔ یہ کتاب آپ کی شخصیت کا آئینہ ہے۔
اس موقع پرڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے کتاب سے متعلق منظوم تاثرات پیش کیے.
تحریک اسلامی کی مثبت اقدار کے مبلغ اور ممتاز ادیب صحافی اور سخنور جناب انتظار نعیم کی ۴۲۴ صفحات پر مشتمل کتاب ” اجالوں میں سفر کی تقریب رونمائی پر منظوم تاثرات

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

یہ اُجالوں میں سفر تحریک اسلامی کے ساتھ
ہے نہایت روح پرور داستانِ انتظار
رونمائی کی ہے یہ تقریب اس کی خوش گوار
دن بہ دن بڑھتا رہے اس کا یوں ہی عز و وقار
ایک مردِ باعمل کی ہے یہ ایسی خود نوشت
رزم گاہِ زندگی میں جو چلا مردانہ وار
ہے جو اک شاعر، مصنف اور مقرر لاجواب
سارے انسانوں کے غم میں رہتا ہے جو بے قرار
جاری و ساری ہے اُس کا آج بھی علمی سفر
دیتے ہیں جس کی شہادت اس کے علمی شاہ کار
اک نمونہ اس کا ہے پیش نظر یہ خود نوشت
جی میں آتا ہے اسے پڑھتے رہیں ہم بار بار
دعوت فکروعمل دیتی ہے اس کی پیش رفت
جس کے ہیں مداح اربابِ نظر میں بے شمار
ایک گنجِ شایگاں ہیں اس کے رشحاتِ قلم
علم و دانش کے کئی ہیں اس میں دُرِ شاہوار
پیکر صدق و صفا ہے جس کی اپنی شخصیت
عینی شاہد جس کا خود برسوں سے ہے یہ خاکسار
میرے کہنے پر نہ جائیں آپ خود ہی دیکھ لیں
یہ ’’ اُجالوں میں سفر" جس کا اک آئینہ دار
صدق دل سے اُن کا برقی اعظمی ہے قدرداں
جن کی حق گوئی و بیباکی ہے خود اپنا شعار

جماعت کی خاتون سکریٹری محترمہ عطیہ صدیقہ نے بھی اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ کتاب ہماری نوجوان نسل کے لیے ایک قیمتی تحفہ اور رہنما ہے، اس سے ہمیں کافی روشنی ملے گی.
محفل کی نظامت آصف عمر صاحب نے کی۔ آپ نے کتاب کا بھر پور تعارف پیش کرتے ہوئے کتاب سے چیدہ چیدہ حوالے پیش کیے۔ آپ نے انکشاف کیا کہ انتظار نعیم صاحب کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ آپ نے 1400 آر ٹی آئی داخل کرکے، کافی معلومات سرکاری دفاتر سے حاصل کی ہیں، جو الگ سے ایک کتاب بن سکتی ہے۔
(رپورٹ : عبدالمنان، ایڈیٹر، یوجنا (اردو)
29/11/2021)
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے