محسن بابائے قوم، بطخ میاں انصاری

محسن بابائے قوم، بطخ میاں انصاری

امان ذخیروی

اپنے ہر سود و زیاں سے آہ! بیگانا تھا وہ
مادر ہندوستاں کا ایسا دیوانہ تھا وہ
سوزش عشق وطن سے اس کا دل سرشار تھا
اک چراغ ضوفشاں کا شوخ پروانہ تھا وہ

اس”بطخ" ابن علی کو با ادب با احترام
روز و شب شام و سحر ہو قوم و ملت کا سلام

خانساما تھا مگر ایمان میں کامل تھا وہ
اور اپنے فرض سے ہرگز نہیں غافل تھا وہ
اس نے انگریزوں کے منصوبے کو رسوا کر دیا
سر فروشوں کے لیے تقلید کے قابل تھا وہ

ہر عمل اس کا زمانے کے لیے پیغام تھا
بے غرض محسن تھا وہ بے پروۂ انجام تھا

درد کا آرام و راحت سے نہیں سودا کیا
اس کی غربت نے امارت کا نہیں سودا کیا
زندگی بھر وہ بریدہ پر رہا، ہرگز مگر
اپنی خوداری سے رفعت کا نہیں سودا کیا

حق پرستی اس کی باطل کے لیے شمشیر تھی
اس کے دل میں جاگزیں ایمان کی تنویر تھی

وہ جو "سسواں اجگری" کا گوہر نایاب تھا
جس کے دم سے گلشن عزم و وفا شاداب تھا
یہ تو اچھا ہی ہوا پتوار اس نے تھام لی
وہ نہ ہوتا تو سفینہ ملک کا غرقاب تھا

دولت دنیا کو اس مفلس نے ٹھوکر مار دی
زندگی اپنی کسی کی زندگی پر وار دی

گر نہیں ہوتے "بطخ"، ہوتے کہاں بابائے قوم
لکھ نہیں پاتے وطن کی داستاں بابائے قوم
زہر مائل دودھ پی کر ہو گئے ہوتے فنا
چھوڑ جاتے وقت سے پہلے جہاں بابائے قوم

کس طرح آزاد ہوتا ملک گاندھی کے بغیر
خواب کی تعبیر کھوتا ملک گاندھی کے بغیر

تارک آرام و راحت کو بھلا بیٹھا وطن
حیف! اس خادم کی خدمت کو بھلا بیٹھا وطن
اس کی یادوں سے حکومت بھی گریزاں ہو گئی
آج اس مینار الفت کو بھلا بیٹھا وطن

عصبیت کا اب بھی پیراہن بدلنا چاہیے
محسن ” باپو" کو بھارت رتن ملنا چاہیے

امان ذخیروی ذخیرہ جموئی، بہار
8002260577

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے