لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا پر چمِ توحید مْحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ نے بلند کیا

لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا پر چمِ توحید مْحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ نے بلند کیا

حا فظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور
موبائل: 09386379632

اللہ رب العزت نے ہر زمانے میں انبیاے کرام کو مبعوث فر مایا اور تمام انبیاے کرام اس دعوت ’’توحید‘‘ کولے کر آئے، اور اپنی قوم سے یوں مخاطب ہوئے وَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ (القرآن، سورہ بقر2، آیت163،) ترجمہ: تم سب کا ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ بہت رحم کر نے والا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاے کرام و رسل علیہم السلام لوگوں کی رشد و ہدایت کے لیے مبعوث فر مایا ہے سب کی ایک ہی دعوت تھی کہ اللہ تعالیٰ کو ایک مانو اور ایک اللہ کی عبادت کرو جیسا کہ قرآن مجید میں رب العالمین کا فر مان ہے۔ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فیِْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (القرآن سورہ نحل 16، آیت34) اورہم نے ہر امت کی طرف ایک رسول اس پیغام کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ لوگو! اللہ ہی کی عبادت کرو اور طا غوت (شیطان، غیراللہ) کی عبادت سے بچتے رہو۔
دنیا کی سب سے بڑی گواہی توحید کی گواہی۔ خود اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور اہل علم نے دی۔۔۔شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ وَاُولُواالْعِلْمِ قَآئِمًا بِالْقِسْطِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ( القر آن، سورہ آل عمران۳، آیت۱۸) ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کو ئی معبود (برحق) نہیں، اور فرشتے و اہل علم بھی گواہی دیتے ہیں، وہ عدل پر قا ئم ہے اس کے سوا کو ئی معبود (برحق) نہیں وہ غالب اور حکمت والا ہے۔ آپ ﷺ نے سب سے پہلے مشر کین مکہ کو دعوت توحید دی اور کہا: لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کہہ دو اللہ ایک ہے‘‘ کامیاب ہو جائو گے الصحیح المسندـ:514۔ موحد (خدا کو ایک ما ننے والا سچا مسلمان) مومن کا ٹھکانا جنت ہے جب کہ مشرک کا ٹھکانا جہنم ہے آپ ﷺ نے عقیدہ توحید کو ایمان کا محور و مرکز بنایا۔
توحیدکی تعریف: شریعت میں اس کا معنیٰ یہ ہے کہ آدمی پختہ یقین کے ساتھ اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ ایک ہے۔ ہر شئے کا مالک رب ہے، وہ سب کو اکیلا ہی پیدا کر نے والا ہے ساری کائنات میں اکیلا ہی تدبیر ARRANGEMENT کرنے والا ہے، ساری عبادتوں کے لائق وہی پا کیزہ ذات ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے علاوہ تمام معبود (جس کی عبادت کی جائے، مراد اللہ تعالیٰ، خدا) باطل ہیں وہ ہر کمال و اعلا صفت سے متصف ہے اور تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، اس کے اچھے اچھے نام ہیں وغیرہ وغیرہ۔
عقیدہ توحید کے فوائد: تو حید پر ایمان رکھنے والا کبھی شکستہ دل اور مایوس نہیں ہوتا کیوں کہ وہ خدا پر یقین رکھتا ہے، جو زمین و آسمان کے تمام خزانوں کا مالک ہے۔ نبی کریم ﷺ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو ان سے فر مایا: کہ تم اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہے ہو۔ اس لیے سب سے پہلے اس کی دعوت دینا کہ وہ اللہ کو ایک مانیں (اور میری رسالت کو مانیں) جب وہ اسے سمجھ لیں تو پھر انھیں بتانا کہ اللہ نے ایک دن اور رات ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو انھیں بتانا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے، جو ان کے امیروں سے لی جا ئے گی اور ان کے غریبوں کو لوٹا دی جائے گی۔ جب وہ اس کا بھی اقرار کرلیں تو ان سے زکوٰۃ لینا اور لو گوں کے عمدہ مال لینے سے پر ہیز کرنا۔ (بخاری شریف ،باب رسول اللہ ﷺ کا اپنی امت کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی تو حید کی طرف دعوت دینا،) حدیث، 7372)۔
توحید کی دعوت و تبلیغ میں بے پناہ پریشانیاں اور نبی رحمت ﷺ کا صبر: دین اسلام کی بنیاد عقیدۂ تو حید ہے، کوئی انسان جب اسلام قبول کر تا ہے، تو وہ شہادت یعنی گواہی دیتا ہے اقرار کر تا ہے، اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہ، کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد رسو ل اللہ (ﷺ) اس کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ وہ اس بات کو دل سے کہتا ہے کہ میں اللہ کے سوا کسی کی بھی عبادت نہیں کروں گا اور اس میں کسی کو اس کا شریک نہیں ٹہرائوں گا اور عبادت کے جو طریقے محمد رسول اللہ ﷺ نے بتائے ہیں اسی طرح عبادت کروں گا۔ جن کو خود اللہ نے ہما رے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا اسی رب نے اپنے پیارے رسول کو حکم فرمایا، فَاصْدَعْ بِمَا تُؤمَرُ وَاعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ ( القرآن، سورہ الحجر۱۵، آیت ،۹۴) تر جمہ: پس آپ وہ (باتیں) اعلانیہ کہہ ڈالیں جن کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اور آپ مشرکوں سے منھ پھیر لیجئے۔ اسلام کا اعلان آپ نے سب سے پہلے اپنے دولت کدہ پر خاندان بنو ہاشم کو دعوت طعام کے ساتھ کیا۔ دعوت طعام میں چالیس ۴۰ افراد شریک تھے، ضیا فت DINNER کھانے کے بعد آپ نے کچھ کہنا چاہا مگر ابو لہب کے طنز ومذاق اور بیہو دہ باتوں نے محفل کو بد مزہ کر دیا، نبی رحمت ﷺ نے ایسے میں کوئی سنجیدہ بات پیش کرنا خلاف مصلحت سمجھا، اور خا موش رہے پھر آپ ﷺ نے دوسری شب ضیا فت، (کھانا کھلانا) کی۔ اور ارشاد فر مایا: میں خدا کی طرف سے وہ چیز لایا ہوں جو دین و دنیا کی جامع ہے۔ اس سے بہتر دنیا و آخرت میں کوئی چیز نہیں، مجھے پر وردگار عالم نے حکم دیا ہے کہ آپ سب اور سارے انسا نوں کو اس ہدایت کی جا نب بلائوں۔ فر مائیے! یہ اہم ذمہ داری نبھانے میں آپ حضرات میں کون میرا تعاون کرے گا؟‘‘ محفل میں سناٹا چھا گیا، کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اتنے میں اس محفل میں سب سے کم عمر حضرت علی بن ابی طالب نے کہا۔ ’’یا رسو ل اللہ! اگر چہ مجھے آشوب چشم ہے، اگرچہ میری ٹا نگیں پتلی ہیں اور میں سب سے کم عمر ہوں، مگر میں آپ کا ساتھ دوں گا‘‘ یہ سننا تھا کہ مخالفین مذاق اڑانے لگے اور طنز و تمسخر (ٹھٹھول، مسخرہ پن، کھلی اڑانا) کے نو کیلے تیروں سے پیغمبر امن و سلا متی پیغمبر رحمت اللعالمین کو زخمی کر تے ہوئے چلے گئے۔ لیکن آپ نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا، صبر فرمایا، پھر اللہ رب العزت نے یہ حکم نازل فرمایا، فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَ، وَاَنْذِرْعَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ، وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ، فَاِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیئٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ، وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ (القرآن، سورہ، الشعراء24 آ یت 216 سے213) تر جمہ: پس (اے بندے!) تو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پوجا کر ورنہ تو عذاب یافتہ لوگوں میں سے ہو جائے گا (214) اور (اے حبیب مکرم!) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے) ڈرائے۔ (215) اور آپ اپنے بازوئے(رحمت و شفقت) ان مو منوں کے لیے بچھا دیجئے جنھوں نے آپ کی پیروی اختیار کر لی ہے۔ (214) پھر اگر وہ آپ کی نا فرمانی کریں تو آپ فر ما دیجئے کہ میں ان اعمال(بد) سے بیزار ہوں جو تم انجام دے رہے ہو۔ (216) اور بڑے غالب (رب) پر بھروسہ رکھئے۔
جبل صفا سے دعوت اسلام کا آغاز: ان آیات کریمہ اور سو رہ حجر کی آیات مبارکہ کے نزول کے بعد آپ ﷺ جبل صفا (پہاڑ) پر تشریف لے گئے۔ اور قریش کے تمام قبائل کو نام بہ نام آوازدے کر بلایا اور لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے فر مایا۔’’اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ (کوہ صفا) کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے، کیا تم لوگ میری بات کا یقین کروگے؟۔ انھوں نے جوب دیا : نَعَمْ ما جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلّاٰ صِدْقَا۔۔۔ہاں: آپ ہمیشہ ہمارے تجربے میں سچے ثابت ہو ئے ہیں. اس پر آپ نے فر مایا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میں تم میں زیر (ڈر سنانے والا) ہوں، کہ تمھارے لیے سخت عذاب ہے۔ اگر اسی طرح تم اپنے کفر پر قائم رہے. یہ سن کر ابو لہب کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور غصہ سے چلایا تَبَّاً لَکَ سَائِرَا لْیَوْمِ اَ لِھَذَ جَمَعْتََنَا۔ تیرے سارے دن موجب ہلا کت و بربادی ہوں کیا تو نے ہمیں اسی واسطے جمع کیا تھا۔ اس کے بعد کفر و شرک کے سبھی علم بردار نبی رحمت ﷺ کو لعن طعن کرتے ہو ئے چلے گئے (طبقات ابن سعد ج اول، ص 200، اسلام امن عالم ص،211) ابولہب کی بات ابھی ختم بھی نہ ہوئی تھی کی قہر الٰہی کی بجلی چمکی، قہر خداوندی کی دھمک سے پہاڑ کا کلیجہ دہل گیا، ہیبت سے حرم کی سر زمین کانپ اٹھی۔ اتنے میں روح الامین حضرت جبرائیل کے پروں کی آواز آئی، سر کاردو جہاں ﷺ نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو وہ پر سمیٹے قہرو جلال میں ڈو بی یہ آیتیں حضور کو سنا رہے تھے، تَبَّتْ یَدآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ، مَآ اَغْنیٰ عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ، سَیَصْلیٰ نَارًا ذَاتَ لَھَبٍ، وَّامْرَاَتُہٗ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ، فِیْ جِیْدِھَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ ( القرآن،سورہ لھب111،آیت5سے1،)
تر جمہ:ٹوٹ جائیں دونوں ہاتھ ابولہب کے اور اس کا ناس لگ جائے تو عذاب الٰہی سے چھٹکارا پا نے کے لیے، نہ اس کا مال کام آئے گا نہ اس کی کمائی ہوئی دولت وہ اور اس کی بیوی جو لکڑیوں کا گٹھر اٹھائے پھرتی ہے، دونوں جہنم کی بھڑ کتی ہوئی آگ میں جھونک دیے جا ئیں گے۔‘‘ محبوب کو اذیت پہنچانے والے ایک فقرہ پر قہر الٰہی کے چڑ ھتے ہوئے دریا کا تلا طم تو دیکھئے ! ایک لمحہ میں ابولھب کی دنیا اور آخرت کا فیصلہ سنا دیا۔ ان آیتوں میں خاص طور سے جو چیز قابل غور ہے وہ یہ کی محبوب خاموش ہے، صبر کر رہا ہے اور دشمن کے لعن و طعن اور گستاخی کا جواب رب ذو الجلال دے رہا ہے. اس سے عظمت رسول ﷺ کی اہمیت معلوم ہو تی ہے۔ اسی لیے فقہاے کرام فر ماتے ہیں کہ گستاخ الوہیت کی توبہ قبول ہے اور گستاخ نبوت کی توبہ قبول نہیں، یعنی سزا کی رو سے اسے ہر صورت سزائے قتل دی جائے گی۔ اگرچہ وہ تو بہ کرتا پھرے۔ یہ اس کی آخرت کا معاملہ ہے قبول کرے نہ کرے۔ مگر حد نافذ کی جائے گی اور وہ قتل ہے۔ در مختار میں ہے۔ یعنی نبی کا گستاخ کا فر یا مرتد قرار پائے، وہ حد کے طور پر قتل کیا جائے گا اس کی توبہ مطلقاً قبول نہیں یعنی خواہ یہ غلطی اس کے اقرار سے معلوم ہوئی ہو یا گوا ہوں سے ثابت ہوئی ہو. اور اگر خدا کی شان میں گستاخی کی تو اس کی توبہ قبول ہے کہ یہ حق خدا ہے اور اول حق عبد ہے تو توبہ سے زا ئل نہ ہو گا اور جو گستاخ نبی کے کفر میں شک کرے وہ کافر ہے۔(در مختار طبع مطبع احمدی، ص344، محمد رسول اللہ قر آن میں، ص23، مصنف علامہ ارشد القادری، مکتبہ جام نور دہلی) دعوت اسلام کے دینے پر تمام قبائل و خاندان جنھیں معزز کہا جاتا تھا وہ سب مخالف ہوگئے اور جو دولت مند تھے وہ دشمنی پر کمر بستہ ہو گئے اور طرح طرح کی اذییتیں دینا شروع کر دیں (جن کی فہرست طویل ہے. تا ریخ اور سیرت کی کتا بوں میں مو جود ہے. مطا لعہ فرمائیں) آپ ﷺ کو انتہا ئی تکلیف دہ مرا حل سے گزر نا پڑا. دشمنان اسلام اتنے آگے بڑ ھ گئے کہ حضور ﷺ کی معاشرتی ناکہ بندی SOCIAL BOYCOTT کردیا. تحریک اسلام کو کمزور بنا نے اور حضور ﷺ کی ناکہ بندی کا یہ ہولناک پرو گرام ہر سنجیدہ آدمی کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کی نبی رحمت ﷺ پر کیسے کیسے ظلم کیے گئے. آپ نے زند گی میں بڑی سے بڑی تکلیف کو خندہ پیشانی سے بر داشت کیا۔ آپ ﷺ خود ارشاد فر ماتے ہیں وَاُذِیْتُ فِی اللّٰہ مَا لَمْ یُوْذَ اَحَدٌ یہ اس رسول گرا می کے ساتھ کیا گیا جو سارے جہان کے لیے رحمت اللعا لمین بن کر آیا (القرآن)۔ دشمنان رسول و اسلام آپ کی دشمنی پر اس قدر کمر بستہ ہوئے۔
ہولناک منصوبہ: تمام قبائل کے لوگوں نے باتفاق ہولناک منصوبہ مرتب کیا، بعیض بن عامر بن ہاشم نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا، محرم کی چاند رات 415 عیسوی کو خا نہ کعبہ کی اندرون دیوار پر آویزاں کردیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس منحوس تحریر کے کاتب کو رسول کریم ﷺ کے دل کی آہ لگ گئی، اس کے دونوں ہاتھ ہمیشہ کے لیے شل (بیکار) ہو گئے ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ منصور بن عکرمہ نے لکھا تھا اور یہ واقعہ اس کے ساتھ پیش آیا لولا (اپاہج) INVALID ہو گیا۔ اس معاہدہ کی چند بڑی باتیں مطالعہ فر مائیں، (1) اگر بنی ہاشم محمد (ﷺ) کو قتل کر نے کے لیے ہما رے حوا لے نہیں کرتے تو ان کا مکمل معاشرتی با ئیکاٹ کیا جائے (2) ان سب کے ساتھ رشتے ناطے کے تعلقات کاٹ لیے جائیں (3) ان کو نہ کچھ بیچا جائے نہ ہی ان سے کچھ خریدا جائے اور نہ ہی ان سے کسی چیز کا لین دین کیا جائے (4) ان کو کھانے پینے کی چیزیں نہ دی جائیں اور آنے کا ہر راستہ بند کر دیا جائے (۵) انھیں اس پہاڑی گھاٹی میں قید رکھا جائے، گلی بازار میں گھو منے پھر نے نہ دیا جائے وغیرہ وغیرہ، رحمت عالم ﷺ اور آپ کے اہل بیت و صحابہ کرام اور چاہنے والوں کے لیے یہ مقاطعہ (ناکہ بندی BOYCATT) انتہا ئی دشوار اور صبر آزما تھا، اس اسیری اور محبوسی کا زمانہ اتنا سخت کہ محصورین پر عرصہ حیات تنگ ہوگیا، کئی کئی دن سارے کے سارے لوگ بھو کے رہتے۔ کبھی کبھی کسی کے دل میں جذبۂ ہم دردی بیدار ہوتا تو ڈھکے چھپے غلہ یا کھانے کا سامان چھپا کر پہنچا دیتا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بہن کے لڑ کے حکم بن حزام بن خویلد ایک بار گیہوں کی ایک گٹھری ایک لڑکے کے سر پر اٹھوا کر گھاٹی پہنچے، ابو جہل نے دیکھ لیا، اور دوڑ کر جھپٹا کہ تم ایسا نہیں کر سکتے میں مکہ والوں کو خبر کرتا ہوں، اور تمھیں رسوا ( بد نام) کروں گا. ابو البختری نے سنا تو کہا اس کی پھو پھی کا یہ غلہ ہے میں نے بھیجا ہے، یہ میرے پاس رکھا تھا۔ اسے لے جانے دو مگر وہ نہیں مانا اور جھگڑا کرنے لگا ابو البختری نے غصہ میں آ کر اونٹ کی ہڈی سے زبر دست پٹائی کی اور پیروں سے روند روند کر ابو جہل کو ادھ مرا کردیا اور غلہ پہنچا دیا۔ تنگ دستی اور بھوک پیاس سے محصورین بے تاب ہو گئے، حضور ﷺ کے پاس کچھ بھی نہ تھا ابو طالب کے ہا تھ خا لی ہو گئے تھے ام المو منین خدیجۃ الکبریٰ اور صحابۂ کرام بھی تنگ دست ہو چکے تھے، بھوک سے بچوں کے رونے بلکنے کی آوازیں آنے لگیں، بھوک اور کمزوری سے لوگ ایک دوسرے سے بات نہیں کر پارہے تھے وغیرہ وغیرہ۔
وحی ربانی سے خوش خبری آئی: ایسے میں وحی ربانی نے ساری مصیبتوں کے دور ہونے کی بشارت خوش خبری سنائی۔ قریشی ظلم و تشدد کا جو عہد نامہ (AGREEMENT) دیوار کعبہ سے لٹکا ہوا تھا اس پر اللہ نے دیمک مقرر کر دی تھی جس نے ساری تحریروں کو چاٹ ڈالا صرف ذکر اللہ، اللہ رب العزت کا نام با قی رہا، حیّی و قیوم خدا کا نام ۔ جو لا فانی اور لا یموت ہے باقی رہا۔ حضور ﷺ نے ابو طالب کو بتا یا ابوطالب دوڑ کر قریش مکہ کے پاس گئے اور چلینج چیلینج کر دیا کہ میرے بھتیجے نے یہ دعویٰ کیا ہے وہ تحریر اگریمنٹ مٹ گئی ختم ہو گئی (اور یقینا میرے بھتیجے نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے تم لوگ جا نتے ہو) اگریہ بات سچ نکلی تو تم لوگ باز آ جائو۔ اور اگر غلط ثابت ہوئی تو میں اسے تمھارے سپرد کر دوں گا۔ اس پر کفار خوش ہو کر بولے کہ اب تم نے انصاف کی بات کی ہے‘‘ زبردست بھیڑ نے کعبہ میں داخل ہو کر دیکھا تو فرمان رسول کے مطابق صرف اللہ کا نام باقی تھا۔ اور کفار و قریش کی ساری تحریروں کو دیمک نے کھا لیا تھا۔ تمام دشمنوں نے شرم و ندامت سے اپنی گر دنیں جھکا لیں۔ قبائل قریش آپس ہی میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے۔ مطعم بن عدی، عدی بن قیس، زعمہ بن اسود، ابو البختری بن ہشام اور زہربن امیہ وغیرہ ایک ساتھ ہتھیار لگائے شعب ابی طالب میں آئے اور تمام محصورین (گھرے ہو ئے) کو اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے کہا.
(سیرت ابن ہشام،ج2،ص3،،17,19،،ابن سعد ،ج 1،ص207 سے221۔ البدایہ والنہایہ،ج2ص،97؛95؛90، اسلام اور امن عالم 243 سے246 مصنف حضرت مولانا بدرعالم بدر القادری علیہ الرحمہ امسٹرڈم ہا لینڈ)
ظلم و جبر کا یہ تین سالہ دور بھی آپ ﷺ کو دعوت توحید و اسلام کی تبلیغ کے لیے نہ روک سکا پھر اس سے بھی زیادہ درد ناک اور سخت ترین و مصائب کا دور سفر طائف کا آیا، رسول کریم ﷺ نے جب دعوت اسلام پیش فرمایا تو انتہائی اذیت ناک دور سے آپ کو گزر ناپڑا، جو تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں۔ آپ ﷺ نے مکہ کے ہی ایک شہر طائف کے باشندوں تک اسلام کا پیغام پہچانے کا کام شر وع فرمایا. آپ نے سر داران طائف عبد یا لیل، سعود اور حبیب فرزندان عمرو سے گفتگو کی اور اسلام کی دعوت پیش فر مائی آپ کی دعوت پر غور و فکر اور عمل کر نے کے بجا ئے ان لو گوں نے آپ کا مذاق اڑایا اور انتہا ئی حقارت آ میز جملوں سے آپ کو تکلیف پہنچائی اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ سر داروں نے اوباش (آوارہ، کمینے، بد ماش، غنڈوں، لوفر) لڑکوں کو جمع کر کے آپ کے پیچھے لگادیا. جنھوں نے ہلہ بول کر آپ کومارنا شروع کردیا. کنکر، پتھر اور گالی گلوج کی بارش کردی اور مارتے مارتے شہر کے کنارے تک چلے گئے. زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور آپ ﷺ کا جسم مبا رک لہو لہان ہو گیا. خون مبارک بہہ کر نعلین مبارک تک آگیا. نبی رحمت ﷺ کے جسم اطہر میں اس مو قع پر جو تکلیفیں آئیں اور قلب اطہر جس قدر مجروح ہوا، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ آپ ﷺ خود فر ماتے ہیں میری زندگی کا سب سے سخت ترین دن تھا. ایک جگہ یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ نے اسے جنگ احد سے زیادہ سخت دن قرار دیا ہے‘‘ (سیرت النبی، سیرت احمد مجتبیٰ) طائف میں آپ ﷺ کے ساتھ جو ناروا سلوک ہوا اللہ نے اس کے بد لے میں آپ کو بہت عطا فر مایا. مفسرین بیان فرماتے ہیں ’’ معراج‘‘ کا سفر انہی دکھوں کا مدا واتھا، کیوں کہ حق تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ ’’ہر آنے والا دن گز رنے والے دن سے بہتر نتائج والاہو گا‘‘ (القر آن)۔ اسلام آج دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے. یہ سب نبی رحمت ﷺ کی قر بانیوں کا نتیجہ ہے۔ کاش ہم تمام مسلمان آقا ﷺ کی دعوت توحید و اسلام کو پھیلانے کی سنت پر عمل کر تے اور پیغام اسلام کو برادران وطن و دوسرے مذاہب تک پہنچاتے تو اسوۂ رسول اللہ پر عمل کر نے کا ثواب اور فوائد سے بھی مالا مال ہوتے. آج اسلام کی تعلیم کو اپنے اپنے عقا ئد و نظر یات کی تبلیغ کا ذریعہ بنا کر روز روز نت نئے فتنوں کوجنم دے رہے ہیں. اللہ سے دعا ہے کہ رب کریم ہم سب کو اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی تو فیق اور اس پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے آمین ثم آمین. رابطہ حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجدِ ہاجرہ رضویہ اسلام نگر وایا کپالی مانگو جمشید پور جھارکھنڈ،پن کوڈ 831020 ۔E-mail : hhmhashim786@gmail.com Mob. : 09279996221
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:جلوسِ محمدی ﷺ، علماے کرام کی جوشیلی تقریریں، گرفتار ہوتے نوجوان، ذمہ دار کون؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے