‘مانو’ کے شعبۂ فاصلاتی تعلیم کی حالت انتہائی افسوسناک

‘مانو’ کے شعبۂ فاصلاتی تعلیم کی حالت انتہائی افسوسناک

مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ فاصلاتی تعلیم کی حالت انتہائی افسوسناک،طلبا کا کوئی پرسانِ حال نہیں

نئی دہلی30 اکتوبر(عبدالرحیم دربھنگوی) ’مانو‘ ایک سینٹرل یونی ورسٹی ہے، جہاں ریگولر تعلیم کے ساتھ ساتھ فاصلاتی نظامِ تعلیم بھی رائج ہے، جس کے تحت ملک بھر کے ہزاروں طلبا و طالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس کے نام پر پورے ملک میں اس یونی ورسٹی کے کئی مقامی مراکز ہیں جہاں درس و تدریس کے ساتھ امتحانات بھی منعقد ہوتے ہیں، اس عنوان سے یونی ورسٹی کو اچھی خاصی گرانٹ بھی ملتی ہے، مگر زمینی سطح پر شعبۂ فاصلاتی تعلیم کی حالت انتہائی خستہ، ناگفتہ بہ اور طلبا کے لیے حد درجہ تکلیف دہ ہے۔ اس شعبے میں داخلہ لینے والے طلبا و طالبات کو نہ تو وقت پر کتابیں بھیجی جاتی ہیں اور نہ ہی وقت پر امتحان ہوتا ہے اور رزلٹ شائع ہونے میں تو تقریباً پانچ مہینے تک کا وقفہ ہو جاتاہے، پھر کاپی جانچ کرنے کا معلوم نہیں کیا نظام ہے کہ تمام سوالات کے مطلوبہ جوابات دینے کے باوجود عموماً طلبا کے صرف ۴۵ یا زیادہ سے زیادہ ۵۰ فی صد نمبرات آتے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں تعلیم پانے والے طلبا ترقی کرنے اور تعلیمی میدانوں میں آگے بڑھنے سے محروم رہ جاتے ہیں؛کیوں کہ ملک کی بڑی یونی ورسٹیوں میں ماسٹرز یا پی ایچ ڈی میں داخلے کے لیے کم از کم ۵۰ فی صد نمبرات حاصل کرنا ضروری ہے، نیز جو طلبا یہاں سے بی اے کرنے کے بعد بی ایڈ کرتے ہیں، وہ کم نمبر کی وجہ سے صلاحیت کے باوجود سرکاری اداروں میں بحالی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ سب سے زیادہ پریشان کن مرحلہ تو رزلٹ کا ہوتا ہے، وقت پر رزلٹ نہ آنے کی وجہ سے، بڑی مشکل سے کسی بڑی یونی ورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد بھی وقت مقررہ پر مارک شیٹ اور سرٹیفکیٹ جمع نہ کرپانے کی بنا پر ان کا داخلہ رد کردیا جاتاہے۔
اس سال تو کورونا کے نام پر یونی ورسٹی کے اس شعبہ نے طلبا پر ظلم کی انتہا ہی کردی ہے،۲۰۲۰ء کے اگست میں ہونے والا امتحان ایک سال کی تاخیر سے ۲۰۲۱ء کے اگست میں کروایا گیا اور اب امتحان پر دو ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے؛ لیکن رزلٹ کا کوئی پتا نہیں ہے، حالانکہ بہت سے طلبا کو مختلف یونی ورسٹیوں کے مختلف کورسز میں داخلہ لینے کی وجہ سے کہیں ۱۵ اور کہیں ۲۰ نومبر تک فائنل ایئر کا رزلٹ جمع کرنا ضروری ہے، ورنہ ان کا داخلہ رد ہوجائے گا۔ ایڈمیشن لینے والے طلبا کا کہنا ہے کہ جب وہ ’مانو‘ کے ذمے داروں کو ای میل کرتے ہیں، تو ان کو کوئی جواب نہیں ملتاہے، اسی طرح اگر وہ فون کرتے ہیں، تو ان کا فون یا تو رسیو نہیں ہوتا یا رسیو ہوتا ہے، تو ان کی رہ نمائی کرنے کے بجائے یہ کہہ کرکہ مجھے نہیں معلوم ہے، فون رکھ دیا جاتا ہے اور ان کو مایوسی کے غار میں بے دریغ ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ اپنے ہی طلبا کے ساتھ مانو کے ذمے داروں کا یہ رویہ نہایت شرمناک اور غیر اخلاقی؛ بلکہ غیر انسانی ہے۔ ایک تو یوں بھی اس ملک میں مسلمانوں کے لیے تعلیم کی راہیں اتنی آسان نہیں، بہت سے نوجوان جو اپنے گھریلو حالات یا دوسری ناگزیر وجوہات کی بنا پر ریگولر کورسز میں داخلہ نہیں لے سکتے، وہ ’مانو‘ کے شعبۂ فاصلاتی تعلیم کے ذریعے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں، مگر یہ بھی اگر طلبا کے تئیں ایسی سرد مہری اور بے حسی کا مظاہرہ کرے گی، تو کون اور کیوں یہاں داخلہ لے کر وقت برباد کرنا چاہے گا؟ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل میں یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ مولانا آزاد یونی ورسٹی کے فاصلاتی تعلیم کے شعبے میں داخلہ لینا اپنی زندگی کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔ ایک طالب علم نے بڑی عاجزی اور منت سماجت کے ساتھ وہاں کےایک ذمے دار سے کہا کہ رزلٹ آنے سے قبل حد درجہ ضرورت کے وقت یونی ورسٹیز اپنے طلبا کو کنڈیشنل رزلٹ؍ سرٹیفکٹ دیتی ہیں، آپ بھی دے دیجیے؛ تاکہ جہاں میرا داخلہ ہوا ہے وہاں داخلہ باقی رہ جائے؛ کیوں کہ میں نے بڑی مشقت و محنت اور شب و روز ایک کرکے تیاری کرنے کے بعد وہاں داخلہ لیا ہے، اگر سرٹیفکٹ نہیں دیاگیا تو میراداخلہ ختم ہوجائے گا، تو انھوں اس طالب علم کے جذبات سے کھیلتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں یہ سسٹم نہیں ہے اور اسی پر بس نہیں کیا؛ بلکہ اس سے اس اہل کار نے پوچھا کہ تمھیں میرا نمبر کہاں سے ملا، پھر نمبر دینے والے کانام بتانے پر اسے بھی برا بھلا کہا اور اس طالب علم سے کہا کہ آیندہ مجھے فون مت کرنا۔ یہ کیسا شرمناک رویہ ہے، جب کہ تعلیمی اداروں میں دوسروں کے تعاون، ہمدردی، بلند اخلاقی اور رہ نمائی کی تعلیم دی جاتی ہے اور ہر تعلیمی ادارہ اپنے طلبا کے مستقبل کو روشن کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے؛ لیکن ’مانو‘ کے ذمے داروں کا رویہ اس کے بر عکس ہے۔ بہت سے طلبا کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ یونی ورسٹی نے فالو آن کورسز کے لیے رجسٹریشن اور پیمنٹ کی تاریخ کا اعلان کیا اور اب اس میں ۲۱؍ نومبر تک توسیع بھی کردی گئی ہے، مگر ویب سائٹ پر ۲۰۱۹ء میں داخلہ لینے والے طلبہ کے لیے رجسٹریشن کا آپشن ہی نہیں آرہا ہے اور طلبا اگر مقامی مرکز یا ’مانو‘ سے رابطہ کرتے ہیں تو انھیں تشفی بخش جواب نہیں مل رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ بھی پریشان ہیں اور مزید ایک تعلیمی سال کے ضیاع کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے۔
یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن، جو بہ ظاہر کافی ایکٹیو نظر آرہے ہیں اور یونی ورسٹی کے نظام کو بہتر کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، انھیں ترجیحی بنیاد پر شعبۂ فاصلاتی تعلیم کے نظام کو بہتر کرنے پر توجہ دینی چاہیے، خاص طورپر داخلے کے پروسیس، کتابوں کی ترسیل،ا متحان کے نظام اور نتائجِ امتحان کے اجرا کے سلسلے میں جو لاپروائی اورغیر ذمے دارانہ رویہ اس شعبے کا رہتا ہے، اسے جلد از جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے؛ تاکہ طلبا کا یونی ورسٹی پر اعتماد بحال ہو اور وہ یہاں سے اپنے تعلیمی مراحل کی تکمیل کرکے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کے قابل بن سکیں –

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے