نصاب کو بدلنے کی ضرورت ہے

نصاب کو بدلنے کی ضرورت ہے

سید مصطفیٰ احمد
حاجی باغ، زینہ کوٹ، سرینگر، جموں و کشمیر

علم کا مقصد ہے کہ ایک انسان اپنے آپ کو، اللہ کو اور اپنے سماج کو پہچانے۔ اس کے علاوہ علم کا مقصد ہے کہ ایک انسان پڑھ کر سماجی مشکلات کا مقابلہ کرسکے۔ اور اگر اتنی وسعت ہو تو مشکلات کا تدارک کر سکے۔ مزید بر آں وہ  نئ چیزوں کو بنانے یا ڈھونڈنے میں کامیاب ہوسکے تاکہ زندگی آسانی سے گزاری جاسکے۔ یہ ساری چیزیں تب ہی حاصل ہوسکتی ہیں جب طالب علم ایک ایسے نصاب کے تحت پڑھے جس میں اس کے سماج اور اس کی اپنی زندگی کو ذہن میں رکھا جائے۔ گیارہویں جماعت کی انگلش کتاب میں البرٹ آئنسٹائن کے بارے میں ایک مضمون موجود ہے، جس میں ایک تاریخ کے پروفیسر البرٹ کو اس بات پر ڈانٹتے ہیں کہ وہ پڑھائی کی اصلی تعریف کرتا ہے۔ البرٹ اپنے استاد سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ پڑھائی صرف دنوں اور ان کے تعلق سے ہوۓ واقعات یا جنگوں کو یاد کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ جس تاریخ پر دو ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی، اس جنگ کی وجہ جاننا علم کہلاتا ہے۔ البرٹ اس نظام تعلیم سے چھٹکارا چاہتا تھا، جو اس کو آخر میں حاصل ہوتا ہے۔ اسی جیسی حقیقت Isaac Asimov نویں جماعت کی انگلش کتاب میں مستقبل کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا جب پڑھائی گھروں میں ہوگی اور اساتذہ کی جگہ کمپیوٹر ہوں گے۔ اصل میں اس مضمون میں دو بچوں کے کرداروں سے وہ ہمیں سمجھانا چاہتا ہے کہ پڑھائی کا کل ایسا ہوگا۔ دو طلاب میں ایک بچی اپنی ڈائری میں جس کی تاریخ سال ۲۰۵۰ ہے لکھتی ہے کہ مجھے آج یہ کتاب ملی۔ اس کو دیکھ کر بچے حیران ہوجاتے ہیں کہ ایک ایسا زمانہ ہوتا تھا کہ بچے ایک ہی کلاس میں جمع ہوتے تھے اور ان کو ایک انسان پڑھاتا تھا، جو گوشت اور ہڈیوں کا بنا ہوا تھا۔ جس بات پر وہ زیادہ زور دیتے ہیں وہ یہ کہ وہ استاد کیسے مختلف بچوں کو ایک ہی سبق پڑھاتا تھا۔
اگر ہم مندرجہ بالا باتوں پر غور کریں، تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ہمارے یہاں تواریخ کے واقعات کو پڑھائی کا نام دیا جاتا ہے اور اس کے لیے الگ الگ بچوں کے دماغوں کو پڑھائی سے پہلے دھیان میں نہیں لایا جاتا ہے کہ کیا واقعی یہ پڑھائی اس بچے کے لیے موزوں ہے کہ نہیں۔ بس صرف اتنا چلتا ہے کہ نصاب بنانے والے بڑے پروفیسر ہیں اور وہ غلط نصاب نہیں تیار کر سکتے۔ انھوں نے آج تک بڑے بڑے سائنس داں اور سیاست داں تیار کیے ہیں۔ ان باتوں کو بنیاد بنا کر ایک سوال پوچھنے والے کے منہ پر قفل لگایا جاتا ہے۔ اس مرحلے تک پہنچنے میں بہت وقت اور بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہے، جس کی وجہ سے ہم تعلیم کو ایک ترقی یافتہ عمل بنانے سے قاصر رہے ہیں۔ خاص کر اس نصاب کی بات ہوگی جس نے اصل میں تعلیم کے نظام کو بگاڑ کر رکھ دیا۔
پہلا ہے پرانی سوچ۔ ہم آج بھی اسی دور میں جی رہے ہے جس میں پڑھائی کا مقصد محدود تھا۔ ایک گاؤں میں کچھ لوگ پڑھا کرتے تھے اور باقی دوسرے کاموں سے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ اس دور میں پڑھائی کچھ مخصوص چیزوں تک محدود تھی جیسے خط پڑھنا، خط لکھنا، اخبار پڑھنا، زمین کے کاغذات کس کے نام پر تھے وہ پڑھنا، وغیرہ علم کہلاتا تھا۔ اس کے علاوہ فارم کو بھرنا ہی علم تصور کیا جاتا تھا۔ مگر آج تحقیق اور تجسّس کا زمانہ ہے۔ ان پڑھ کو بھی آج کے زمانے میں پڑھنا ضروری ہے۔ جو کل تک ناممکن تھا، آج وہ ممکن ہوچکا ہے۔ خدا کی تلاش، انسان کے وجود کی تلاش، زمین کی گہرائیوں تک رسائی وغیرہ نئے زمانے کے معجزات ہیں۔ ان سب چیزوں نے علم کے نقشے کو ہی بدل کے رکھ دیا ہے۔ اب اگر کوئی بچہ آج کے زمانے میں علم حاصل کرنا چاہتا ہے، پہلے تو اس کے ہاتھ میں دنیا فون کی شکل میں موجود ہے. ہاتھ میں دنیا پہلے ہی سے موجود ہے جس سے وہ کچھ ہی لمحوں میں سرحدوں سے دور دنیا کے بڑے بڑے پروفیسروں سے جڑا ہوا ہے، تو ایسے میں اسکول بھی ایسا ہونا چاہیے، مگر اسکول میں اسی بچے کو وہ پڑھایا جاتا ہے، جس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک کلاس میں بچوں کو بند کرنا اور سوال پوچھنے پر ڈانٹنا، کسی بھی طریقے سے پڑھائی کے زمرے میں نہیں آتے۔
دوسرا ہے انفرادی خصوصیات کو نطر انداز کرنا۔ موجودہ نصاب میں ایک طالب علم کی انفرادی خصوصیات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایک بچہ دوسرے بچے سے ہر لحاظ سے الگ ہے۔ ایک بچہ دنیا کو دوسری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ سماج کو، معاشیات کو، اخلاق کو، سیاست وغیرہ کو الگ ہی زاویہ سے دیکھتا ہے۔ اس کی دماغی بناوٹ، جسمانی بناوٹ، جذباتی پختگی، ردعمل کا طریقہ، دوسروں سے ملنے کا انداز، وغیرہ سب کچھ مختلف ہوتا ہے۔ تو ایسے میں ایک ہی قسم کا نصاب کہاں کی دانائی ہے۔ اس ماحول میں ایک طالب علم ضائع ہوتا ہے۔ بہ ظاہر وہ ہر روز اسکول جاتا ہے اور اچھے مارکس بھی لاتا ہے، مگر اس کی اصلی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔ اس کو ہم conditioning کہتے ہیں۔ جو بچہ نہیں ہوتا ہے، وہ وہی بن جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ ساری پرتیں گرنے لگتی ہیں اور یہ سماج ill-educated کہلاتا ہے۔ اس کی لاکھوں مثالیں ہمارے اردگرد میں پائی جاتی ہیں۔
تیسرا ہے دوسروں کی نقالی۔ ہمارے یہاں عام طور پر دوسری قوموں سے یا تعلیمی اداروں سے اچھی چیزیں سوچے سمجھے بغیر اٹھائی جاتی ہیں جس سے نصاب پر برا اثر پڑتا ہے۔ طلاب ان چیزوں کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے تعلیم کا نقصان ہوجاتا ہے۔ مغربی ممالک انٹرنیٹ کی دنیا میں بہت آگے ہیں۔ اگر یہی چیز ہندستان کے نصاب میں داخل کیے جائیں، تو یہ بے معنی سی شے ہے۔ جہاں اسکول نہیں، موبائل فون نہیں، انٹرنیٹ ٹاورس کی کمی ہے، جہاں غریبی کی سطح سے نیچے کروڑوں لوگ رہتے ہیں، وغیرہ، وہاں ایسا سوچنا بھی غلط ہے۔ ہمارے یہاں یہ عادت سی بن چکی ہے کہ دوسروں کی نقالی کرکے جو بھی موجود ہے، اپنے یہاں اسے رائج کرنا چاہیے، پھر اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو، وہ آگے دیکھا جائے گا۔
چوتھا ہے امتحانات کی ریل پیل۔ ہمارا نصاب امتحانات کا مرکز بن چکا ہے۔ کلاس میں داخل ہونے سے پہلے ایک طالب علم کو کہا جاتا ہے کہ سال میں دس بارہ امتحانات دینے ہیں اور اس لیے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ نصابی کتابوں کو یا پھر کسی گائڈ سے بھی ان کو حفظ کرلو۔ اس سے بچوں کے اذہان پر دباؤ پڑھتا ہے اور علم صرف دباؤ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ صرف طلاب ہی نہیں، ماں باپ بھی بچوں سے زیادہ پریشان رہتے ہیں کہ ہمارے بچے امتحانات میں کیسا کام انجام دیتے ہیں۔
پانچواں اور آخری ہے ہمارا رویہ۔ ہم بھی سستی سے کام لیتے ہیں اور جیسا چل رہا ہے اس کو چلنے دیتے ہیں۔ ہم یہ کوشش بھی نہیں کرتے ہیں کہ ہم تبدیلی کی طرف قدم بڑھائیں اور پڑھائی کو زندگی بنائیں۔ اگر علم حاصل کرتے وقت بچے خودکشی کرتے ہیں، تو حرج ہی کیا ہے۔ ہمارا سماج بچوں کو ہی مورد الزام ٹھہراتا ہے اور اس نصاب کو بدلنے کی کوئی بھی کوشش نہیں کرتا ہے۔
اب وقت کی ضرورت ہے کہ نصاب کو خوش نصاب بنائیں، جہاں بچے خوش اور ڈر کے بغیر پڑھ سکیں اور جی بھی سکیں۔ اس کے علاوہ وہ مشکلات کا مقابلہ بھی اور ان کا حل ڈھونڈنے میں کامیاب ہوسکیں۔ اور سب سے ضروری بات کہ پڑھائی روزگار کا ذریعہ بنے۔ اس کی طرف گاندھی نے توجہ مبذول کرائی تھی۔ تو آئیے علم کو انسان بنانے کا ذریعہ بنائیں۔
صاحب مضمون کی یہ تحریر بھی پڑھیں:کام کام ہوتا ہے؛ نام میں کیا رکھا ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے