گوش بر آواز اور مشتاق دربھنگوی

گوش بر آواز اور مشتاق دربھنگوی

ڈاکٹر مظفر نازنین، کولکاتا 

اچانک 17 مارچ 2016 کو میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ کال ریسیو کیا۔ اُدھر سے آواز آئی۔ ”کیا آپ بیگ انکل کو جانتی ہیں؟ اور آپ مظفر نازنین بول رہی ہیں۔“ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر میرے ساتھ اپوائنٹمنٹ کے بعد مشتاقؔ بھائی میرے چیمبر آئے۔ دراصل یہ فون اُنھوں نے تب کیا تھا جب میں نے اپنا مضمون بہ عنوان ”آہ- بیگ انکل! مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے“ اخبار مشرق کے آفس میں بھیجا تھا۔ مشتاقؔ بھائی پر لکھنے سے پہلے مجھے آج بیگ انکل کی بہت یاد آ رہی ہے۔ 2005 کی بات ہے۔ تقریباً 16 سال گزر گئے۔ لیکن صحیح کہتے ہیں۔ ماضی کی سنہری یادیں کبھی کبھی تحت الشعور سے نکل کر شعوری سطح پر منتقل ہو جاتی ہیں۔ میرے بھائی نیر نشاط بیگ انکل کے فیملی فزیشین ہیں۔ میں نے اپناپہلا مضمون 2005 میں لکھا تھا جس کا عنوان تھا ”اردو داں طلبا و طالبات کے تعلیمی مسائل اور اُن کا حل“ جو موقر روزنامہ ”اخبار مشرق“ کولکاتا میں شائع ہوا۔ بیگ انکل چیمبر آئے اور مجھے کہنے لگے کچھ نیا لکھو۔ کسی اہم موضوع پر لکھو۔ پھر میں انھیں اپنا مضمون لکھ کر بھجوا دیتی اور وہ اسے کمپوز کراتے اور شائع کرتے۔ اگر شہر کولکاتا کی اردو صحافت کی تاریخ لکھی جائے تو بیگ انکل کا نام سرفہرست ہوگا۔ زندگی کا بڑا حصہ اُنھوں نے صحافت کے لیے وقف کردیا۔ ”اخبار مشرق“ میں اُن کا کالم ”بیگ انکل سے پوچھیے“ ہفتہ وار ضمیمہ ”گلدستہ“ میں بلا ناغہ ہر ہفتے شائع ہوتا تھا۔ حاضر جواب بیگ انکل آج ہمارے درمیان نہیں لیکن اُن کی یادیں تاحیات میرے ذہن میں محفوظ رہیں گی۔ ”اخبار مشرق“ سے پہلے بیگ انکل ”فلم ویکلی“ میں کالم لکھتے تھے۔ ”اخبار مشرق“ کے مدیر اعلا وسیم الحق صاحب سے اُن کے گہرے مراسم تھے۔ میں یہ کہوں کہ مجھے لکھنے کا Inspiration کہاں سے پیدا ہوا تو بلاشبہ بیگ انکل نے ہی مجھے بہت inspire کیا۔ کسی دن ”اخبار مشرق“ میں کوئی اہم مضمون شائع ہوتا تو کال کرکے مجھے کہتے ”اس کو ضرور پڑھنا“۔ میری مصروفیات بہت زیادہ تھیں۔ چیمبر اور دیگر مصروفیات۔ لیکن جب بیگ انکل کہتے تو میں ضرور پڑھتی۔ بیگ انکل کا انتقال 2016 میں ہوا۔ اس کے بعد میں نے مذکورہ بالا مضمون لکھا تھا جو اُس وقت ”اخبار مشرق“ کے ”گلدستہ“ ایڈیشن میں شائع ہوا۔ پھر ایک روز مشتاق بھائی (مشتاقؔ دربھنگوی) میرے چیمبر میں آئے اور اپنی دو کتابیں ”جانِ غزل“ اور ”لوریاں“ بہ طور تحفہ عنایت کیں۔ ”جانِ غزل“ دراصل اُن کی مرتب کردہ وہ کتاب ہے جس میں پوری دنیا کی شاعرات کی دو غزلیں اُن کے نام، موبائیل نمبر، مکمل پتہ تصویر کے ساتھ درج ہیں۔ ”لوریاں“ لوری وہ صنفِ سخن ہے جس پر بہت کم شعرا و شاعرات نے قلم اٹھایا ہے۔ لوری کا مطلب معصوم ننھے بچوں سے اُن کی زبان میں ہم کلام ہونا اور پھر اُنھیں نیند کی آغوش میں سلا دینا ہے۔ یہ ایک کرشمہ ہے۔ سائنسی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو لوری سننے سے معصوم بچوں کو راحت ملتی ہے اور نیند آجاتی ہے۔ اُن کی کتاب ”لوریاں“ میں شعرا و شاعرات کی لوری اُن کے نام، پتہ، تصویر موبائیل نمبر کے ساتھ درج ہے۔ یہ دونوں کتابیں اُن کی بہترین کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ ”جانِ غزل“ شائع کرکے موصوف نے دنیا بھر کی شاعرات کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہے جو یقینا بہت بڑا کام ہے۔ اس طرح سے اُنھوں نے شاعرات کو ایک شناخت بخشی ہے جنھیں عموماً نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
مشتاقؔ بھائی 17 کتابوں کے مرتب ہیں۔ اُن کی سب سے بڑی کاوش”گوش بر آواز“ ہے جو دنیا بھر کے شعرا و شاعرات پر مشتمل ایک ڈائرکٹری ہے جس میں شعرا و شاعرات کی تصویر کے ساتھ اُن کا موبائیل نمبر، ای میل آئی ڈی، مکمل پتہ اور ایک شعر درج ہے۔ اس ڈائرکٹری سے قبل عالمی سطح پر شعرا و شاعرات کی کوئی ڈائرکٹری منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ مشتاق صاحب28 سالوں تک موقر روزنامہ ”اخبار مشرق“ سے جڑے رہے۔ اُن کی اس علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں متعدد انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔ بزم رہبر (دربھنگہ) نے ”فاروق اعظم انصاری ایوارڈ“، اے ایم اکیڈمی (دربھنگہ) نے ”ڈاکٹر محمد مسلم ایوارڈ“، آل انڈیا اردو ماس سوسائٹی فار پیس (حیدرآباد) نے ”انمول رتن ایوارڈ، انجمن جمہوریت پسند مصنفین (پیلخانہ، ہوڑہ) نے ڈاکٹر راحت اندوری ایوارڈ، کاروانِ ادب (رانی گنج، مغربی بنگال) نے ”خادم اردو ایوارڈ“، ادبی رسالہ ’کاف نون‘ (مٹیا برج، کلکتہ) نے ”کیف الاثر ایوارڈ“، فنکار اکیڈمی (کلکتہ) نے ”ساحر لدھیانوی ایوارڈ“، بزم بہاراں (خضرپور، کلکتہ) کی بانی و سکریٹری محترمہ رونق افروز نے ”ڈاکٹر شعیب راہی ایوارڈ“، بزم صابری (کلکتہ) نے ”علقمہ شبلی ایوارڈ“ اور مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے ”سرسید احمد خاں“ ایوارڈ سے نوازا۔ علاوہ ازیں دربھنگہ سوشل ویلفیئر سوسائٹی (کلکتہ)، الحمد ایجوکیشنل آرگنائزیشن (کلکتہ)، تنظیم ارباب ادب (کلکتہ)، اردو محفل (کلکتہ)، انجمن جمہوریت پسند مصنفین (ٹکیہ پاڑہ، ہوڑہ)، انجن ترقی اردو (ٹکیہ پاڑہ، ہوڑہ)، نئی روشنی (مٹیا برج، کلکتہ)، اردو پروگریسیو سوسائٹی و ادبی سنگم (مٹیا برج، کلکتہ)، ہندستانی لائبریری (مٹیا برج، کلکتہ) اور امیر علی لائبریری (خضرپور، کلکتہ) نے بھی انھیں اعزاز سے نوازا۔
”گوش بر آواز“ کے تعلق سے شعرا و شاعرات نے اب تک 600 سے زائد قطعات کہے ہیں جن کی ایک الگ کتاب منظر عام پر آنے والی ہے۔ مشتاق صاحب کی یہ نایاب کاوش ”گوش بر آواز“ ایک تاریخی دستاویز ہے جس سے موجودہ اور آنے والی نسلیں فیض یاب ہوتی رہیں گی۔ حالیہ دنوں میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے اُن کی کتاب ”گوش بر آواز“ پر انھیں سرسید احمد خاں ایوارڈ سے نوازا ہے۔ یہ ہم لوگوں کے لیے فخر کی بات ہے۔ میں مشتاق بھائی کو اُن کی اس عظیم کاوش پر تہِ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہوں اور صحت کے ساتھ اُن کی طویل عمر کے لیے دعا گو ہوں۔ ”گوش بر آواز“ جیسی کتاب کے لیے مشتاقؔ صاحب کو متحدہ عرب امارات سے ریختہ ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ الفانوس لائبریری (گجرانوالہ، پاکستان) اور ”بزم غالب“ (پاکستان) نے بھی انھیں ”سند امتیاز“ سے نوازا ہے۔ مشتاق بھائی کی اس اہم کاوش ”گوش بر آواز“ کے تعلق سے ہند اور بیرون ہند کے مستند شعرائے کرام نے قطعہ کی شکل میں گلہائے تہنیت پیش کیے ہیں۔ چند قطعات قارئین کرام کی خوب صورت سماعتوں کی نذر کرتی ہوں۔
سمٹے ہوئے ہیں صحبتِ یاراں میں فاصلے
بیٹھے ہوئے ہیں آپ کے گھر، سچی بات ہے
ڈائرکٹری ہے آپ کی اک مخزنِ ادب
اوراقِ زرنگار میں ہر سچی بات ہے
پروفیسر نواب نقوی (راولپنڈی، پاکستان)

ملکوں ملکوں ’گوش بر آواز‘ کی جو گونج ہے
اس میں شامل خونِ دل ہر طور ہے مشتاقؔ کا
یہ ادب کی آبیاری میں ہے ناظمؔ منفرد
ایک دلّی ہی نہیں لاہور ہے مشتاقؔ کا
نواب ناظم (لاہور، پاکستان)

منفرد یہ ”گوش بر آواز“ ہے
اِس میں شامل ہونا اک اعزاز ہے
شائع پہلے بھی ہوئیں ڈائرکٹریز
اِس کا اپنا ہی الگ انداز ہے
بابر عطا (بنکاک، تھائی لینڈ)

ہر زباں پر نام ہے اب ”گوش بر آواز“ کا
اک سے بڑھ کر ایک شاعر ہے نئے انداز کا
رفعتیں تجھ کو عطا ہوں رب سے ہے میری دعا
سلسلہ جاری رہے دائم تری پرواز کا
فہمیدہ مسرت احمد (فرینکفرٹ، جرمنی)

”گوش بر آواز“ ہے یا شاعروں کا جامعہ
ایک دھاگے میں پرو ڈالا ہے سب کو آپ نے
اِس صدی کے بعد بھی ایسا ہو کہہ سکتے نہیں
دی ہے اک ایسی کتاب اہلِ ادب کو آپ نے
اسدؔ رضوی (مظفرپور، بہار)
***

مظفر نازنین کا گذشتہ مضمون یہاں پڑھیں : کھڑکی سے باہر کی دنیا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے