وڈیو لیک کلچر: نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے

وڈیو لیک کلچر: نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے

سیّد عارف سعید بخاری، پاکستان 
Email:arifsaeedbukhari@gmail.com
یہود ونصاریٰ نے شوشل میڈیا کی صورت دنیا کو جو سہولت فراہم کی، پیش تر ممالک کے عوام اسے اپنی مثبت ضرورتوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں ہم لوگوں ”خدا گنجے کو ناخن نہ دے“ کے مصداق اپنے ہی سر کو نوچ نوچ کر زخمی کرنے میں لگے ہیں۔ وڈیو لیک کی صورت ہمارے معاشرے میں ایک ایسا کلچر پروان چڑھ رہاہے کہ جس میں لوگوں کی”پرائیوسی“ کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔ اسلام میں تصویر کشی کو اگر ”حرام“ قرار دیا گیا ہے تو وڈیوز بنانا کس طرح حلال قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ اس سے بھی بڑا ”پاپ“ ہے۔ قومیں اپنے کردار و عمل سے پہچانی جاتی ہیں۔ ہماری قوم کا ظاہری کردار قدرے مثبت تاثر برقرار رکھے ہوئے ہے۔ لیکن ہمارا باطن اس قدر گندہ اور قابل نفرت ہو چکا ہے کہ جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ مہنگے کیمرے خریدنا ہر بندے کے بس میں نہیں، لیکن موبائل فون چاہے کتنا ہی مہنگا کیوں نہ ہو، ہم خرید ہی لیتے ہیں۔ جسے ہم آسانی کے ساتھ جیب میں بھی رکھ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام جیسی سہولیات تک ہر بندے کی رسائی ہے۔ اور بیش تر سہولیات مفت میں دستیاب ہیں۔ رہی سہی کسر دفاتر اور پبلک مقامات پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں نے نکال دی ہے۔ ہم عملی زندگی میں معاشرے کا وہ ناسور بن چکے ہیں کہ جن میں اخلاقیات نام کی کوئی شے باقی نہیں رہی۔
ہم اب ایک ”ڈرامہ باز“ قوم بن چکے ہیں۔ ہم ”بریکنگ نیوز“ کے چکر میں فوٹو شاپ اور وڈیو ایڈیٹنگ سافٹ وئیر سے ”خود ساختہ وڈیوز“ بناکر معاشرے کا ننگ اتارنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ہم کسی ظلم و زیادتی کو روکنے کی سکت نہیں رکھتے۔ لیکن ظلم پر واویلا کرنے کے لیے وڈیو لیک کلچر کو وسعت دینے کے لیے  ہم لوگوں کی نجی زندگی کے شب و روز کی وڈیوز بنا کر وائرل کردیتے ہیں۔ ہم لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم جو کچھ وائرل کرکے کسی برائی کی نشان دہی کرنے کا فریضہ ادا کرتے ہیں، وہاں ایسی وڈیوز کے مابعد اثرات کیا ہوں گے۔ ماضی میں جن فلموں سے مستفید ہونے کے لیے ہمارے نوجوانوں کو چھ چھ ماہ موقع نہیں ملتا تھا، اب ہم نے4G اور5Gجیسی ٹیکنالوجی کے ذریعے قوم کے نونہالوں کی جیبوں تک پہنچا دی ہیں۔ ہمارا یہ طرز عمل اور سوچ و فکر نسلوں کی تباہی کا سبب بن رہی ہے۔ اوّل تو ہم خود چاہے جس بھی کردار کے مالک ہوں، ہماری نظر میں ہر دوسرا انسان بُرا ہے اور انسانیت کی تذلیل کےلیے  بیہودہ سے بیہودہ وڈیو وائرل کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔ اور اگر کوئی بندۂ خدا کسی کو اس بات سے روکے یا سمجھائے کہ اسلام نے ان باتوں کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے، تو وہ بندہ نئی نئی تاویلیں پیش کرتا ہے۔ اسلام سے نابلد لوگ (مسلمان) معاشرے کا گند اچھالنے کے بعد اپنے اس عمل کا جواز پیش کرنے کے لیے قرآن و احادیث کے حوالے سے ایسا ایسا فلسفہ بیان کرنے لگتے ہیں کہ انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ اپنے ہم سائے کےلیے  وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(بخاری:13)
اس حدیث میں مومن نہیں ہوتا سے مراد یہ ہے کہ کامل مومن نہیں ہوتا۔ جس طرح کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص تو انسان ہی نہیں، کیونکہ دوسری آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چند اوصاف کے علاوہ کسی ایک وصف کی کمی سے کوئی شخص ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ اس حدیث میں مسلم بھائی اور ہم سائے کے لیے وہی چیز پسند کرنے کو ضروری قرار دیا گیا جو آدمی خود اپنے لیے پسند کرتا ہو۔
ایک اور حدیث میں حضرت انسؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ”کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔ (بخاری و مسلم شریف)“
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ہم اگر سارے پیغام کو سمجھیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ جب ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری نجی زندگی کا پردہ رہے، دنیا والے ہمارے عیبوں کو نہ جان پائیں تو اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہمیں دوسروں کی نجی زندگی کو بھی آشکارنے کا حق حاصل نہیں۔ کسی انسان میں برائی کو دیکھ کر اسے اپنے تک محدود رکھنا ایک بڑا امتحان ہے۔۔قرآن پاک میں خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”اے بندے تو دنیا میں میری مخلوق کا پردہ رکھ، میں روزِ قیامت تیرا پردہ رکھوں گا“۔ موجودہ وڈیو لیک کلچر کو اپناتے ہوئے ہر دوسرا بندہ لوگوں کی نجی زندگی کے معاملات کو شوشل میڈیا پر وائرل کر رہا ہے۔ اس کھیل کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وڈیو وائرل کرنے والا شخص خود بھی عیب و ہنر میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ جن لوگوں کے اپنے روز و شب ”عیب دار“ ہیں وہ دوسروں کا ننگ اتارنے میں لگے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نیکی کا پھیلاؤ قدرے کم ہوتا ہے لیکن جس طرح بدبو لمحوں میں چار سو پھیل جایا کرتی ہے، اسی طرح بیہودہ وڈیوز بھی جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں۔موجودہ دور میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان وڈیوز کے ذریعے معاشرے میں پھیلنے والی بے راہ روی آئندہ نسلوں کو بربادی کی اس دلدل میں دھکیل رہی ہے کہ جہاں سے واپسی کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔ ایک باپ یا ایک نوجوان جب وڈیو لیک کا شغل کررہا ہوتا ہے تو اسے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کیا کررہا ہے لیکن یہی آگ جب اس کے گھر تک پہنچتی ہے اور اس کے اپنے بچے غلط راہوں کے مسافر بننے لگتے ہیں تو اسے احساس ہوتا ہے کہ کاش! میں نے اس وقت سوچا ہوتا۔ دوسروں کو ننگا کرنے والے مکافات عمل کے تحت خود بھی کسی مقام پر ذلیل وخوار ہو سکتے ہیں۔
دنیا چاند پر پہنچ گئی لیکن ہم 74 سالوں میں اب تک صرف لوگوں کے گھروں تک ہی رسائی حاصل کر پائے ہیں۔ اسلام نے کسی کے گھر میں بھی بلا اجازت داخل ہونے سے منع فرمایا ہے۔ پھر ہمیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ ہم لوگوں کی نجی زندگی کی وڈیوز بناکر انھیں دنیامیں رسوا کریں۔ پارسائی کے دعوے داروں کی زندگی کے پس پردہ جھانک کر دیکھا جائے تو وہ کچھ دیکھنے کو ملے گا کہ انسان چلو بھر پانی میں ڈوب مرے۔ ویڈیو لیک کلچر کے حوالے سے حکومت کے ذمہ داران کو کوئی ٹھوس حکمت عملی اپنانا چاہیے۔ اس کلچر کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کی جانا چاہیے۔ کوئی اعلا عہدے پر ہو یا کوئی غریب، ہر انسان کی عزت برابر ہے۔ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ حکومت وڈیو لیک کلچر کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ یوٹیوب اور فیس بک انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ جس طرح اپنی پالیسی کے تحت پوسٹ کردہ بعض وڈیوز اور موادبلاک کر دیے جاتے ہیں، اسی طرح اس وڈیو لیک کلچر کی روک تھام کے لیے بھی کوئی واضح پالیسی اپنائے۔ ایسا نہ ہو پانی سر سے گذرجائے اور ہم دیکھتے ہی رہ جائیں۔

صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:بلی کو پھانسی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے