تریپورہ میں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملہ شرمناک

تریپورہ میں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملہ شرمناک

دیگر ریاستوں میں مسلم ووٹ کے ذریعہ حکومت سازی کا خواب دیکھنے والی آل انڈیا ترنمول کانگریس خاموش کیوں؟
محمد انجم راہی، اسلام پور، مغربی بنگال

ہندستان میں جمہوری طرز نظام حکومت قائم ہے۔ ملک میں بسنے والے اقلیتوں پرخصوصاً مسلمانوں پر فرقہ پرستی میں مغلوب ہوکر اکثریتی طبقے کے متشدد عناصر کے ذریعہ مسلسل ظلم و بربریت کا بازار عروج پر پہنچتا جارہا ہے۔ سیکولرزم کا نام لے کر حلف لینے والے ملک کے سرکاری اداروں و شعبوں، پولیس انتظامیہ و سیاسی پارٹیوں کے اہل کاروں کی طرف سے اقلیتوں پر مسلسل کئی دنوں تک جاری تشدد پر سخت کارروائی یا رد عمل کا اظہارنہ کرنا، کافی معنی خیزعمل ہے. گذشتہ دنوں درگا پوجا کے دوران بیرون ملک بنگلہ دیش میں پیش آمدہ واقعہ پر ہندستانی مسلمانوں پر اکثریتی فرقے سے تعلق رکھنے والے متشدد عناصر کی طرف ظلم و زیادتی اور بربرتا نہایت ہی مجرمانہ عمل ہے۔ بنگلہ دیش میں جو ہوا، وہ بھی کافی شرمناک اور غیر انسانی و غیرسماجی حرکت ہے۔ مگر اس کو مدعا بنا کر ہندستان میں بسنے والے مسلمانوں پر ظلم و تشدد اور ان کے املاک و عبادت گاہوں پر حملہ کافی افسوسناک عمل ہے۔ جس کی پرزور مذمت کے ساتھ ایسے عناصر پر سخت سے سخت کارروائی کے لیے ہمیں ہرسطح پر آواز اُٹھانا ضروری ہے۔ مختلف ذرائع سے موصول ہوئی خبروں کے مطابق گذشتہ کئی دنوں سے تریپورہ میں ہندو شرپسند عناصر نے مسلم سی آرپی ایف کے زیر استعمال مسجد میں کافی توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ جگہ جگہ مسلمانوں کے گھروں اور دیگر مساجد کو بھی بری طرح نشانہ بنایا۔ گزشتہ جمعہ کو تریپورہ کے پال بازار (راتاچررہ) ضلع اوناکوٹی میں واقع مسجد پر ہندو شرپسندوں نے حملہ کرکے نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کی۔ مقامی باشندہ شفیق الرحمٰن جوکہ ایس آئی او سے تعلق رکھتے ہیں، کے مطابق : ”۱۵ اکتوبر کو بجرنگ دل، ہندو یووا واہنی اور آر ایس ایس نے مختلف جگہوں میں کافی زیادہ تعداد میں بھیڑ جمع کرکے ریلی کا اہتمام کیا۔ اس کے بعد بھیڑ کے ذریعہ کئی جگہوں میں مسلمانوں کے گھروں پر اورمقامی مساجد پر حملے بھی کئے گئے“۔ تریپورہ کے رہنے والے ایڈوکیٹ عبدالباسط کابیان ہے کہ :”وشواہندو پریشد کے غنڈوں نے ہمارے گھرمیں گھس کر بے شمار قیمتی سامانوں کو نہایت ہی منظم طریقے سے اور بربرتا کے ساتھ توڑ پھوڑ دیا، انھوں نے مجھ پر اس لیے حملہ کیا، کیوں کہ میں ایک مسلمان ہوں“۔ تریپورہ میں بسنے والے مسلمانوں پر خصوصی طور پر وہاں کے بنگالی مسلمانوں پر اس طرح کے حملے اور ان کی عبادت گاہوں کو مسمارکرنے والی غیر آئینی حرکتوں پر نام نہاد سیکولرزم کی دہائی دینے والی سیاسی پارٹیوں نے ابھی تک کوئی خاطر خواہ رد عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ جو کہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے۔ ترنمول کانگریس جوکہ یہ دعویٰ کرتی آرہی ہے کہ تریپورہ میں اس کی پارٹی کافی مضبوطی کے ساتھ عروج پر پہنچ رہی ہے، جس میں تریپورہ کے بے شمار مقامی مسلمان خاص طور پر بنگالی مسلمان بھی وابستہ ہیں۔ ترنمول کانگریس پارٹی کو یہ کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ مغربی بنگال کے مسلمانوں نے ایک طرفہ ووٹ دیکر ترنمول کانگریس کو اس مقام پر لایا ہے تاکہ ترنمول کانگریس ملک بھرمیں ہورہی ظلم و فرقہ پرستی کے خلاف بھرپورر رد عمل اور قانونی لڑائی کے ذریعہ اقلیتوں و دیگر طبقات کی حفاظت کے لیے اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے آواز بنے۔ ترنمول کانگریس کے لیڈروں و سماجی کارکنوں و دینی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ تریپورہ میں ہورہے مسلمانوں پر مظالم کے لیے جمہوریتی انداز میں قانونی دائرے میں رہ کر اپنے رد عمل اور احتجاج کے ذریعہ تریپورہ حکومت تک اپنی بات پہنچائیں۔ جس سے تریپورہ کی ریاستی حکومت کے ذریعہ ان شدت پسند عناصر کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہو اور مقامی مسلمانوں پر تشدد و ظلم ستم کا خاتمہ ہوسکے.
محمد انجم راہی کی گذشتہ نگارش:بارھویں جماعت کے تمام طلبا وطالبات کو ٥٠/فی صد سے زائد نمبرات دیے جائیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے